خطبہٴ افتتاحیہ اجلاس پنجم مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ : ۱۸/ جمادی الثانیہ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۵/ جولائی ۲۰۰۵ءبروز دوشنبہ

بمقام: دفتر تنظیم و ترقی دارالعلوم دیوبند

از: حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند

وصدررابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العالمین والصّلاة والسلام علی خاتم الأنبیاء والمرسلین سیدنا ومولانا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین و من تَبِعَہم باحسان الی یوم الدین ․ و بعد!

مہمانانِ گرامی قدر! رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کے پانچویں اجلاس میں مجلس عاملہ کے ارکان گرامی مرتبت، رابطہٴ مدارس کے ذمہ داران حضرات کو خوش آمدید کہتے ہوئے بے حد خوشی اور مسرت محسوس ہورہی ہے کہ آپ حضرات نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود، سفر کی صعوبتیں اور موسم کی سختی برداشت فرماکر تعلیم و تربیت کے مراکز، دین متین اور صراطِ مستقیم کے روشن میناروں یعنی مدارسِ اسلامیہ کی ترقی و استحکام، معیارِ تعلیم و تربیت کی بلندی، باہمی ربط و اتحاد کے فروغ اور درپیش مسائل پر غور و خوض اور تبادلہٴ خیالات کے لئے دارالعلوم دیوبند میں تشریف آوری کی زحمت گوارا فرمائی۔ اس مبارک و پرمسرت موقع پر بندہ اپنی طرف سے اور خدام دارالعلوم کی طرف سے صمیم قلب سے جذبات تشکر پیش کرتا ہے، اور ضیافت میں کوتاہی پر معذرت خواہ ہے۔ اور بارگاہِ ایزدی میں دعاگو ہے کہ حق جل شانہ ہمیں اخلاص کے ساتھ مدارس اسلامیہ کی خدمت کرنے اور ان کے متعلقہ مسائل و موضوعات پر غور و خوض کرکے مفید، نتیجہ خیز اور انقلاب انگیز تجاویز اور فیصلوں تک پہنچنے کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین۔

علمائے عالمی مقام ! مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے آج کے اجلاس میں زیرغور آنے والے موضوعات کی ایجنڈے میں صراحت ہے، ان شاء اللہ کچھ ہی دیر بعد ان پر غور و خوض اور تبادلہٴ خیالات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اس موقع پر چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے منہاج پر قائم مدارس اسلامیہ کے اساسی اغراض و مقاصد میں، علوم کتاب و سنت کی تعلیم، اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت، دین اسلام کا تحفظ و دفاع، قرآن و سنت کی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کی دینی و ملی رہنمائی، ان کے اعمال و اخلاق کی اصلاح و تربیت، اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکات اور باطل فرقوں کا تعاقب اور بیخ کنی اور اسلامی معاشرے کی دینی وملی ضروریات کی تکمیل شامل ہے۔

حضرات اکابر رحمہم اللہ نے مدارس اسلامیہ میں جو نصاب تعلیم اور نظامِ تعلیم اپنی خداداد ایمانی بصیرت سے جاری فرمایا تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ ان اسلامی قلعوں اور چھاؤنیوں سے اسلامی علوم و فنون سے مسلح ایسے رجال کار، علمائے کرام، اور دین کے مخلص اور دردمند داعی اور اسلام کے جاں باز و سرفروش سپاہی تیار ہوں جو اسلامی اعمال واخلاق کے امین اور دینی افکار و کردار کے نقیب ہوں۔ اور اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں اور باطل قوتوں کی فتنہ سامانیوں سے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کرسکیں۔ الحمد للہ ہمارا قدیم اورمتوارَث نصاب اور نظام تعلیم، مدارس اسلامیہ کے مقاصد تاسیس سے ہم آہنگ رجال کار کی تیاری اور مردم گری میں بے حد کامیاب رہا؛ اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو انھیں قدیم خطوط پر استوار رکھا جائے، جو حضرت حجة الاسلام امام نانوتوی رحمہ اللہ اور بعد کے اکابر و اسلاف رحمہم اللہ نے متعین فرمائے تھے۔ مدارس کے نظام میں نام نہاد دانشوروں کی دخل اندازی کو یکسر مستر کردیا جائے، اور نصاب تعلیم میں ایسی کسی بنیادی تبدیلی کو ہرگز قبول نہ کیا جائے، جس سے مدارسِ دینیہ کے اغراض و مقاصد مجروح اور پامال ہوتے ہوں۔ مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی کے لئے ان مدارس پر دباؤ زیادہ رہتا ہے، جو سرکاری امداد لیتے ہیں؛ اس لئے سرکاری امداد سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

پاسبانانِ ملت ! پچھلے چند سال مدارس اسلامیہ کے لئے بڑے پر آشوب، مایوس کن اور صبر آزما رہے ہیں۔ دشمنانِ اسلام نے امن و آشتی، اتحاد و یک جہتی اور خیر وفلاح کے ان گہواروں پر کیسے کیسے بے بنیاد الزامات لگائے، ان کے کردار کو مجروح و پامال کرنے کی ناروا کوششیں کی گئیں، ان کو دہشت گردی اور بنیادپرستی کااڈہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کی آماج گاہ تک کہاگیا، مدارس مخالف لابی کا مقصد، دینی مدارس کے نصابِ تعلیم کو مسخ کرنا، علمائے کرام کو بدنام کرنا، ان کی کردارکشی کرنا اور مدارسِ دینیہ کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ مدارس دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں، ان مدارس کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ ملک و ملت اورانسانیت کے لئے خیر و فلاح کے سرچشمے ہیں، رشد و ہدایت کے مینار ہیں، ایسے اہل حق علماء اور صالحین تیار کررہے ہیں جو دین کی حقیقی روح کی حفاظت کرتے ہیں، فرزندانِ اسلام کو آبِ حیات فراہم کرتے ہیں، ملک کو امن پسند، ایمان دار اور فرض شناس شہری اور خدمت گار عطا کرتے ہیں، انسان دوستی اور صلح و آشتی کا درس دیتے ہیں، لیکن اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور مدارس مخالف عناصر کی سازشوں سے ہمیں مایوس اور شکستہ خاطر نہ ہونا چاہیے، بلکہ پورے حوصلے اور پامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے، اور مکمل احتیاط، دوراندیشی اور شفافیت کے ساتھ تعلیم و تربیت اور انتظام و انصرام کے امور میں مصروف رہنا چاہیے۔

دانشورانِ عالی مرتب! مدارسِ اسلامیہ کی تمام تر تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں اور روشن خدمات کے باوجود یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ملک کے بہت سے علاقے اب بھی بنیادی دینی تعلیم کی روشنی سے محروم ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن تنظیمیں ان علاقوں میں سرگرم ہیں اور مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، فرزندانِ توحید کو دشمنوں کے دامِ فریب سے بچانے کی کامیاب تدبیر یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں دینی تعلیم کے لئے مکاتب زیادہ سے زیادہ قائم کیئے جائیں، ذمہ داران مدارس اپنے مدارس کی شاخ کے طور پر اپنے علاقے میں مکاتب قائم کریں، اور اس کے لئے ہر سال بجٹ مختص کیا جائے۔

زعمائے ملت ! مسلک حق کی اشاعت اور فرق باطلہ کی بیخ کنی میں مدارس اسلامیہ کا کردار بے حد تاب ناک رہا ہے، آج کل اس سمت زیادہ توجہ کی جانی چاہیے۔ اس وقت ایک طرف تو قادیانیت مختلف علاقوں میں اپنے قدم جمارہی ہے،اور مسلمانوں کو اپنے دامِ ہم رنگ زمین میں الجھانے کے لئے نت نئے حربے استعمال کررہی ہے۔ دوسری طرف عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں بھی تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہیں اور مسلمانوں کی جہالت و ناداری کا فائدہ اٹھاکر ان کے دین وایمان پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، اسی طرح غیرمقلدین نے جارحیت کی روش اختیار کرلی ہے، اور سادہ لوح عوام کو تشکیک میں مبتلا کرنے کے لئے نئے نئے دام تزویر تیار کررہے ہیں؛ اس لئے ہمیں ان فتنوں کی سرکوبی کے لئے منظم جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور اجلاس دوم مجلس عمومی منعقدہ ۱۰/جمادی الاولیٰ ۱۴۲۵ھ کی تجویز نمبر ۲ میں مذکورہ اقدامات بروئے کار لانے پر بھرپور توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

حضرات ذمہ داران رابطہٴ مدارس ! رابطہ مدارس کے اہم مقاصد میں مربوط مدارس اسلامیہ کے نظامِ تعلیم و تربیت کو بہتر بنانا، ربط باہمی کو فروغ دینا، مدارس کے خلاف کوششوں اور سازشوں کا تعاقب اور مسلم معاشرہ کی اصلاح وغیرہ امور شامل ہیں، اور ان امور کے حوالے سے بہت سی تجاویز رابطے کے مختلف اجلاسوں میں منظور ہوئی ہیں۔ ان تجاویز کی روشنی میں رابطے کے مذکورہ مقاصد کی تکمیل کے لئے منظم اور مسلسل جدوجہد تیز رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ اب آپ حضرات ایجنڈے میں مذکورہ امور پر غور و فکر اور اجتماعی تبادلہٴ خیالات کے بعد موٴثر تجاویز منظور کریں اور ایسے ٹھوس فیصلے فرمائیں جن سے مدارس اسلامیہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات کاازالہ کیا جاسکے۔

اخیر میں پھر بندہ دل کی گہرائی سے آپ حضرات کا شکرگذار ہے، اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گام زن رکھے۔ مدارس اسلامیہ کی حفاظت فرمائے، اور ان سے وابستہ رہ کر ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی دینی وملی خدمت کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 89 ‏،    رجب‏، شعبان  1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء

Related Posts