حرف آغاز

سن 2020

کچھ اور سبق ہم کو زمانے نے سکھائے

محمد سلمان بجنوری

            دنیا میں عام طور پر رائج عیسوی کیلنڈر کا سن دو ہزار بیس اختتام پذیر ہے، اگر ہم پیچھے مڑکر اس سال کے حالات پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ یہ سال، ساری دنیا کے لیے عموماً اورملت اسلامیہ کے لیے خصوصاً طرح طرح کی آزمائشوں اور عبرتوں کا سال رہا ہے۔

            اس سال کا آغاز اس حال میں ہوا تھا کہ دنیا کے متعدد ملکوں میں کووڈ۱۹ نامی بیماری دستک دے چکی تھی، جس نے پہلا قدم نومبر۲۰۱۹ء میں چین کے شہر ووہان میں رکھا تھا، پھر اس کا سلسلہ دیگر ملکوں تک دراز ہوا، نیا سال آتے آتے ہمارا ملک بھی اس سے متاثر ہوناشروع ہوا تاآں کہ مارچ کی ۲۴؍تاریخ کو یہاں بھی لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم سب نے پہلی بار زندگی کی تمام سرگرمیاں معطل ہونے کا مشاہدہ کیا؛ بلکہ یہ بھی کہاجائے تو بجاہے کہ تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا کہ دنیا کے بڑے حصے میں تعطل چھاگیا، تمام دینی سرگرمیاں اور دنیوی کاروبار بند ہوگئے اور ایک طرح سے زندگی کی رفتار تھم گئی۔ دنیا میں وبائیں پہلے بھی آتی رہی ہیں جن سے ہونے والی ہلاکتیں موجودہ وبا سے کہیں زیادہ تھیں ؛ لیکن ایسی صورت حال کہ ایک بیماری نے دنیا کے اکثر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو اور وہاں کی حکومتوں کو خوف زدہ کردیا ہو اور پھر انھوں نے اپنے باشندوں کو اس طرح پابندکیاہو، اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ہے۔

            یہ صورت حال، جس کی تاریخ میں کوئی نظیرنہیں ہے، ساری دنیا کے لیے اپنے پہلو میں بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔ جن میں سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کی طاقت کو پہچانے کہ کس طرح تمام اسباب ووسائل کے مالک ہوتے ہوئے لوگ مجبور محض بن کر رہ گئے اور کوئی طاقت کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ دنیا ان حالات میں اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرنے اوراس کی طاقت کا اعتراف کرنے کا مزاج بناتی؛ لیکن عملی طور پر صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے کہ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے وہ ان حالات سے فائدہ اٹھاکر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرکے اپنے منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لیے سرگرم ہیں ۔

            ایسے حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری امت مسلمہ اوراس کے رہنمائوں کی ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح کے لیے مستعد ہوں اوراپنے فرائض کا احساس کرکے دنیا کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کریں ۔

            ان حالات سے زندگی کے جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اُن میں سرفہرست، مسلمانوں کا دینی نظام تعلیم ہے، جو مسلمانوں کے ایمانی وجود وبقاء کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اورہندوستان جیسے ملکوں میں تواہل ایمان کے لیے وہ روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت یہ نظام تقریباً معطل ہے۔ ویسے تو عمومی طورپر ہرقسم کا تعلیمی نظام ہی تعطل کا شکار ہے؛ لیکن عصری تعلیم کی سرگرمیاں کسی نہ کسی درجہ میں آن لائن جاری ہیں ، مدارس میں آن لائن تعلیم بہت محدود سطح پر عمل میں آسکی ہے جس کے متعدد اسباب ہیں ، یوں بھی دینی تعلیم کا نہج اورمزاج کچھ ایسا ہے کہ اس کو آن لائن جاری کرنا نہایت مشکل ہے اور کسی قدر ممکن بھی ہے تو وہ افادیت میں بہت کم ہے۔ اس لیے مدارس کی تعلیم تقریباً معطل ہے، خصوصاً دارالاقامہ والے مدراس کو تو ابھی سرے سے اجازت نہیں ملی ہے، اس لیے عربی تعلیم کی سرگرمیاں نہ ہونے کے درجے میں ہیں ۔

            ان حالات میں اندیشہ ہے کہ دینی تعلیم میں مسلمانوں کا تناسب جو پہلے ہی نہایت کم تھا، مزید کم ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ اس صورتحال نے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو مایوسی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت معاشی اعتبار سے کمزور گھرانوں کی ہوتی ہے، ایسے طلبہ کے پاس پڑھنے کے لیے وقت محدود ہوتا ہے۔ اس لیے رواں تعلیمی سال خراب ہونے سے ان کی ایک خاصی تعداد کے تعلیم سے رُک جانے کا اندیشہ پیداہوگیا ہے۔ اسی طرح بہت سے طلبہ کو اپنے گھروں پر رہ کر گھر کی معاشی ضروریات کے لیے ہاتھ بٹانا پڑ رہا ہے۔ اس سے اُن کا پڑھنے کا مزاج متاثر ہورہا ہے۔ یوں بھی تعلیم میں لمبا وقفہ آنے سے طالب علم کے ذہن ومزاج پر غلط اثرپڑتا ہے اور پھر تعلیم کی طرف شوق ورغبت کے ساتھ اس کی واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔

            ایک نہایت اہم پہلو یہ  ہے کہ لاک ڈائون کے وقت سے اکثر مدارس میں تنخواہوں کا سلسلہ بندہوگیا، بہت سے ائمہ مساجد کو بھی فارغ کردیاگیا۔ اس طرح دینی خدام کا یہ طبقہ جس کی معاشی ضرورت اسی راہ سے وابستہ ہے، بے روزگار ہوگیا، اب اُن میں سے بعض لوگ تو کس مپرسی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، کچھ لوگوں نے روزگار کے لیے محنت مزدوری یا دیگر کاموں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہوگی جس کا واپس اپنی دینی خدمات کی طرف لوٹنا مشکل ہوگا۔ اسی کا ایک حصہ یہ ہے کہ دینی خدمات کے نظام میں معاش کی کفالت کی معمولی سی بھی ضمانت نہ ہونے کا یہ عملی تجربہ، آئندہ ایک خاصی تعداد کو دینی تعلیم میں آنے سے روکنے کاسبب بھی بن سکتا ہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ ان حالات سے دینی تعلیم کا نظام اس وقت جس قدر متاثر ہوا ہے، اس سے زیادہ نقصان آئندہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب اس صورت حال کومحسوس کریں اوراس شمع کی لو کو مدھم ہونے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں ۔

            مدارس اسلامیہ کے اساتذئہ کرام، خاص طورپر عربی تدریس سے وابستہ حضرات سے یہ گزارش ہے کہ مطالعہ اور دیگر علمی مشاغل کا سلسلہ جاری رکھیں اور اپنے علمی ذوق کو متاثر ہونے سے بچائیں ۔ اگر کچھ طلبہ پڑھنے کے خواہش مند ہوں تو اُن کو اپنے طور پر پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ اگر اپنے روزگار کے لیے کچھ محنت کررہے ہیں تو وہ بہت مبارک؛ لیکن دینی خدمت کے لیے اپنے عزم میں کوئی کمزوری نہ آنے دیں ، نیز اپنے طلبہ کی ہمت بھی بڑھاتے رہیں اور ان کو تعلیمی محنت سے مربوط رکھنے کی کوشش کریں ۔

            خود طلبہ سے بھی یہ کہنا ہے کہ وہ اس وقت جیسے حالات بھی گزررہے ہوں ؛ لیکن علم دین کی قدر وقیمت کو ہروقت ذہنوں میں مستحضر رکھیں اور ہر حال میں اپنی تعلیم کی تکمیل کا پختہ ارادہ رکھیں اوراپنے تمام تر مشاغل کے ساتھ روزانہ کچھ وقت اپنی درسی اور دینی کتب کے مطالعہ میں لگاتے رہیں ۔

            یہ حالات بلاشبہ تمام ہی اقوام اور طبقات کے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں ؛ لیکن اہل ایمان کے لیے ان میں زیادہ آزمائش بھی ہے اور زیادہ ذمہ داری بھی انہی کی بنتی ہے۔ اس لیے امت کے رہنمائوں کو مستقبل کے لیے نہایت دوراندیشی، دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ لائحۂ عمل طے کرنا چاہیے۔ خاص طورپر نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں مسلمانوں کے ہرقسم کے تعلیمی نظام کے بارے میں طویل اور گہرے غور وفکر اور وسیع مشاورت کے بعد فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

            اللہ کرے یہ حالات جو بظاہر مشکل ترین ہیں ہماری گراں خوابی دور کرنے کا ذریعہ بن جائیں ۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:104‏،  ربیع الثانی-  جمادی الاول 1442ھ مطابق  دسمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts