از:مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
اس دنیا میں کامیاب ترین آدمی وہ ہے جو یقین کی دولت سے مالا مال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی قدرت اور اس کے فیصلوں پر یقین،امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اور راہنما ہونے پر یقین اور دین اسلام کے کامل و مکمل ضابطہ حیات ہونے پر یقین۔
یقین ایک چار حرفی لفظ ہے؛مگر جب دل میں سما جاتا ہے تو شکوک و شبہات کی زنجیریں کٹ جاتی ہیں ،توہم پرستی کے فلک بوس محل زمیں بوس ہوجاتے ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک روشن شاہ راہ نظر آنے لگتی ہے۔ اسی لیے تو قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اہل ایمان کے عقائد وخیالات کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے اور اہل باطل محض ظن و گمان اور تخمین و خیال کی پیروی کرتے ہیں ۔یقین اہل ایمان کو بے پناہ اعتماد سے نوازتا ہے اور شکوک و شبہات اہل باطل کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں ۔کسی نے بالکل درست کہا:
جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے
یقین میں بڑی طاقت وقوت ہے،تاثیر و شفا ہے،ہمت و حوصلہ ہے؛اسی لیے تو اقبال نے کہا تھایقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ مِلّت ہے۔آج ہم موازنہ کریں اور دیکھیں کہ نماز ہم بھی پڑھتے ہیں اور صحابہ کرامؓ بھی پڑھتے تھے۔ بارگاہِ الٰہی میں ہم بھی دست بہ دُعا ہوتے ہیں اور صحابہ کرامؓ بھی خالقِ کائنات کے سامنے اپنا دامن پھیلاتے تھے۔ تلاوتِ قرآن مجید ہم بھی کرتے ہیں اور صحابہ کرامؓ بھی اس نعمت سے سرفراز تھے؛ مگر کیا بات ہے کہ ہماری نمازیں ، ہماری دعائیں اور ہماری تلاوت ہمیں بھی نہیں بدل سکتی ،جب کہ صحابہ کرامؓ کی نمازوں ،دعاؤں اور تلاوت نے پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا۔ فرق صرف یقین کے درجات اور مراتب کا ہے چہ نسبت خاک راباعالَم پاک۔
یقین کی اسی اہمیت کے پیش نظر احادیث صحیحہ میں نظر اتارنے کا جو عمل آیا ہے اس کی شرح میں علامہ ابن قیم ؒ تحریر فرماتے ہیں : جو شخص اس کی تاثیر کا انکار کرے،اس کا مذاق اڑائے،اس کی تاثیر میں شک کرے یا بغیر اعتقاد کے صرف آزمانے کے لیے یہ عمل کرے تو اُسے اس عمل کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔(تکملۃ فتح الملھم)
یقین کی ضد شک اور وہم ہے جو انسان کو کم زور اور بے ہمت کردیتا ہے۔ جو لوگ شکوک و اوہام کے تقاضوں پر چلنے لگتے ہیں وہ نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ،ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے،وہ اپنے ذہن میں آنے والے ہرخیال پر فوراً عمل پیرا ہونے لگتے ہیں اور انھیں اپنے اس غیرمعمولی رویے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح کے نفسیاتی مریض مختلف اندیشہ ہائے دور دراز کے درمیان جینے کے عادی ہوجاتے ہیں ،ان کی خصلتیں یکسر تبدیل ہوجاتی ہیں ، مثلاً ایک شخص بار بار ہاتھ دھوکر بھی مطمئن نہیں ہوتا،اسے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس وگمان رہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جراثیم رہ گئے ہیں اوراس کا ہاتھ مکمل طور پر صاف نہیں ہوا ہے۔
اس وقت پوری دنیا خوف و وہم کے زیر سایہ زندگی گزار رہی ہے اور اس وبا کو متعدی سمجھ کر حتیٰ المقدور اس سے بچاؤ کی کوشش کر رہی ہے اور کرنی بھی چاہیے؛ لیکن ہمارے ہاں مریضوں اور ان سے ملاقات رکھنے والوں کے سلسلہ میں جو خشک مزاجی اور غیراخلاقی رویہ سامنے آرہا ہے وہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ کرونا کے مریضوں اور اس سے متاثر ہوکر وفات پانے والوں کے سلسلے میں افسوس ناک خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلسل منظر عام پر آرہی ہیں۔ ممبئی میں رہنے والے ایک مسلم گھرانے کا واقعہ نظر سے گزرا کہ واسی ناکہ (ممبئی) کے رہنے والے ایک ادھیڑ عمر شخص کی طبیعت رات کے وقت بہت زیادہ خراب ہوگئی، ان کی اہلیہ نے اپنے کئی رشتہ داروں کو بذریعہ فون اطلاع دی اور مرحوم کو فی الفور کسی اسپتال میں لے جانے کے لیے منت سماجت کرنے لگی؛ لیکن اس بیچاری کے لیے اس وقت قیامت کا المناک منظر سامنے آگیا جب کوئی رشتہ دار تو کیا اپنا سگا بھائی بھی مختلف بہانے بناکر آنے سے انکار کردیا۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں جو ہماری انسانی ہم دردی اور اخلاق و رواداری پر سوالیہ نشان ہیں ۔
اطباء کاایک تجربہ
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس ادہانوم گیبرے سُس نے واضح کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے خدشات اور خوف نے کروڑوں انسانوں کی دماغی صحت کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ جب مسلسل منفی خبروں پر نظر ہوگی اور تلاش کرکرکے اس طرح کی چیزیں سنی اور دیکھی جائیں گی تو دل و دماغ اس سے ضرور متاثر ہوں گے۔ کسی ماہر نفسیات نے اسے مثال کے ذریعہ اس طرح واضح کیا ہے کہ کبھی کبھی ہم کسی پرانی دیوار پر جس کا پلاسٹر یا پینٹ ادھڑ گیا ہو اسے ہم جب غور سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو اس میں ہم جو تصویر اپنے ذہن میں ابھاریں گے وہی تصویر نظر آنے لگتی ہے۔اگر ہم اسے ایک بوڑھے کی شکل میں یا کسی جانور کی شکل میں تصور کریں تو وہی نقش ابھر آئے گا جو یقین کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہماری فکر پر ہمارا تصور غالب آجاتا ہے۔
شاید اسی بناء پر بہت سے اطباء نے اپنے مریضوں سے کہا کہ وہ ان حالات میں سوشل میڈیا سے دور رہیں اور کرونا کے سلسلے میں اپنی معلومات کو وسیع کرنے کی کوشش نہ کریں ؛اس لیے کہ منفی خبروں کے پھیلنے سے مایوسی بڑھ جاتی ہے جس سے ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے، خوف دوچند ہوجاتا ہے اور مریض کو مختلف مسائل پیش آتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ ایک بار کسی ملک کے کچھ طبیبوں نے یہ جاننا چاہا کہ کسی بھی بیماری کا تعلق صرف کھانے پینے،باہر کی گندی آب و ہوا اور جراثیم وغیرہ سے ہے یا انسان نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو کر بھی وفات پاسکتا ہے۔انہوں نے اس کے لیے بادشاہ وقت سے رجوع کیا اور اپنے تجربے کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔بادشاہ نے بہ غور ان کی گفتگو سنی اور کارندوں کو حکم دیا کہ انہیں دو ایسے مجرموں سے ملوایا جائے جن کے لیے سزائے موت طے ہوچکی ہے؛تاکہ تجربہ کے بعد کسی قسم کا کوئی افسوس نہ ہو۔چناں چہ وہ دونوں مجرم لائے گئے اور طبیبوں نے مجرموں کے سامنے ہی جلاد سے بات کرنی شروع کردی کہ اِس شخص کو تو آپ پھانسی کے ذریعے موت کی سزا دے دیں ؛لیکن یہ جو دوسرا مجرم ہے اسے ہم اپنے طریقے سے موت کی سزا دیں گے۔اس کے لیے انہوں نے ٹوکری سے ایک سانپ نکالا اور مجرم کو دکھایا کہ تمہیں سانپ سے ڈسوایا جائے گا اور اس طرح تم موت سے ہم آغوش ہوگے۔پھر انہوں نے مجرم کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور پلان کے مطابق سانپ سے ڈسوانے کے بجائے لوہے کی دوسوئی منگوائی جو ایک ساتھ اس کے پیر پر اس طرح چبھائی گئی کہ مجرم بیہوش ہو گیا اورتھوڑی ہی دیر بعد دنیا سے سدھار گیا۔اطباء نے کہا کہ مجرم کی وفات زہر سے نہیں ؛بل کہ زہرکے خوف سے ہوئی ہے۔
کرونا وائرس اور ہمارا رویہ
اس حوالے سے ذیل میں عربی کے معروف صحافی وسام الکبیسی کے مضمون‘‘کورونا بین الخوف والاستہانۃ والحذر’’سے ایک اقتباس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔موصوف لکھتے ہیں کہ کرونا کے حوالے سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں :
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو خود ڈرتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوف و دہشت میں مبتلا کرتے ہیں اور انہیں بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ موت ان کے سرپرمنڈلارہی ہے،حالات روز بہ روز دگرگوں ہوتے جارہے ہیں اور مریضوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہورہاہے وغیرہ۔ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ ہرگز خوف و ہراس کا ماحول نہ بنائیں ،لوگوں کو دہشت زدہ نہ کریں ،ان کے سکون و اطمینان کو اضطراب و بے چینی میں ہرگز نہ بدلیں ؛اس لیے کہ بیماری کا مبالغہ آمیز خوف بھی ایک قسم کی بیماری؛بل کہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے،اور ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا بیمار ہونا بھی اللہ کے حکم سے ہے اور ہمارا وفات پانا بھی اللہ کی مشیت سے ہے۔حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرسکتا جب تک کہ اسے پورا رزق نہ مل جائے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو بیماری کے اس معاملے کو زیادہ ہی ہلکا سمجھتے ہیں اور خطروں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے، اور کہتے ہیں : کیا ہم خدا کی تقدیر پر یقین نہیں رکھتے؟ پھر خوف وہراس کے کیا معنی؟اور موت سے فرار کی کیا وجہ؟ اس قسم کے لوگوں سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے!مثلاً آپ نے کسی سے یہ سن رکھا ہے کہ بھیڑیوں کا ایک ریوڑ جنگل سے آیا ہوا ہے،شہر کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے اور جو بھی نظر آرہاہے اس پر حملہ کررہاہے،ایسے میں کیا آپ لوگوں کو باہر جانے کی صلاح دیں گے اور تقدیرالٰہی کا حوالہ پیش کریں گے؟ یا آپ انہیں احتیاط برتنے اور نقل و حرکت کم کرنے کی تاکید کریں گے۔
اس طرح کے لوگوں سے اسی نوعیت کا ایک اور سوال یہ بھی! اگر آپ کو معلوم ہو کہ ایک پاگل اور دیوانہ آدمی پڑوس میں مشین گن اٹھایا ہوا ہے اور بے سوچے سمجھے چوطرف گولیاں داغ رہاہے تو کیا آپ اپنے بچوں سے کہیں گے کہ محلے کی سڑکوں پر نکل پڑو،وہی ہوگا جو خدا چاہے گا؟ یا آپ ان سے کہوگے، اپنے گھر میں سکونت پذیر رہو، اور اس کے بعد تقدیرالٰہی پر بھروسہ رکھو؟
مذکورہ بالا دونوں مثالوں میں بھیڑیا اور پاگل آدمی سے زیادہ خطرناک یہ وبائی مرض ہے؛ کیونکہ اس کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیاجاسکتا، لہٰذا ہمیں ان اسباب کو اپنانا ہوگا جو انفیکشن کے خطرے کو روکتے ہیں یا اسے کم کرتے ہیں ، ہاں ، ہمیں لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
تیسری قسم ان افراد کی ہے جو ان دونوں کے درمیان درمیان ہرقسم کے افراط و تفریط سے خالی ہیں ۔یہ لوگ معاملات کو گھبراہٹ کی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتے اور نہ ہی طنز کی حد تک اس کو ہلکا اور معمولی سمجھتے ہیں ۔وہ لوگوں کو باخبر کرتے ہیں کہ وائرس اور وبا میں مبتلا ہونا اگرچہ ممکن ہے؛مگر احتیاط و پرہیز کے ذریعہ اس سے بچاجاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نوع کے افراد میں اموات کی شرح بھی کافی کم ہے،جو خود جیتے ہیں اور دوسروں کو جینے دیتے ہیں ۔
الغرض ان حالات میں ہماری مذہبی،انسانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم انفیکشن سے بچنے کے لیے ہر ممکن احتیاط برتیں ،صبح و شام کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کریں اور اللہ کی طرف رجوع ہوکر گناہوں کی معافی مانگیں ۔بہت جلد حالات بدلیں گے اور ہم ایک بار پھر عافیت و سکون کی سانس لے سکیں گے! ان شاء اللہ
—————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭