تحفظ ختم نبوت کے بے باک و بے لوث مجاہد خطیب زمانہ

حضرت مولانا ابو الوفاء شاہجہاں پوریؒ

ازقلم: مولاناشاہ عالم گورکھپوری

استاذ و نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند

             غیر منقسم ہندوستان کے مشہور عالم دین، مقبول خاص و عام خطیب،تحفظ ختم نبوت کے بیباک مجاہدحضرت مولانا ابو الوفاء عارف ؔصاحب شاہجہاں پوری رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے معتمد علیہ تلامذہ میں سے ہوتا ہے ۔آپ کے والد کا نام نامی جناب محمد حسین صاحب ؒ ہے جو لکھنؤسے قریب میں واقع ضلع ’’سیتاپور‘‘ کے ایک قصبہ’’لہر پور‘‘ میں متوسط درجہ کے تجارت پیشہ اور دین دار اور علم دوست لوگوں میں سے تھے۔ مولانا ابوالوفاء صاحب کی پیدائش  ۱۹۱۰ء میں محلہ شیخ ٹولہ، قصبہ لہرپور، ضلع سیتا پور میں ہی ہوئی تھی اور یہی آپ کا آبائی وطن تھا لیکن دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد میں محلہ تلہر زئی شہر شاہجہاں پور میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی اور پھر شہر شاہجہاں پور میں مستقل قیام کی وجہ سے ’’شاہجہاں پوری ‘‘ سے مشہور ہوگئے۔انتقال ۶؍فروری ۱۹۸۰ء میں اپنے مکان واقع محلہ تلہر زئی شاہجہاں پور میں ہوا اور اپنے مکان کے سامنے؛ قبرستان جنگلہ میں مدفون ہیں ۔  اللّٰہم وسع قبرہٗ و اجْعل الجنّۃ مثواہ۔

 تعلیم کا آغاز

            حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہانپوریؒ نے ابتدائی تعلیم اپنی جائے پیدائش قصبہ لہر پور کے مدرسہ رکنیہ میں حاصل کی ۔ دارالعلوم دیوبند میں محفوظ تعلیمی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اس زمانہ کی مشہور علمی و دینی درسگاہ مدرسہ عالیہ ریاست رامپور میں متوسطات تک کی تعلیم پائی اور ۱۳ سال کی عمر میں نہائی تعلیم کے لیے شوال ۱۳۴۰ھ مطابق جون۱۹۲۲ء میں دار العلوم دیوبندمیں داخل ہوکر شعبان ۱۳۴۱ھ مطابق مارچ ۱۹۲۳ء میں دار العلوم سے فارغ ہوئے۔

            آپ کے تعلیمی ریکارڈ میں لکھا ہوا ہے کہ آپ کانام ’’ابو الوفاء علی احمد ولد محمد حسین‘‘ ہے اورداخلہ نمبر ۳۵۶۴۔ شمار نمبر ۸۰ ہے ۔ماہ شوال ۱۳۴۰ھ مطابق جون ۱۹۲۲ء بوقت داخلہ ۱۳ سال کے تھے اور برادری کے اعتبار سے شیخ تھے۔معاشی اعتبار سے والد صاحب تجارت پیشہ تھے۔ حلیہ کے بابت لکھا ہے کہ موصوف اس وقت متوسط قامت، رنگ گندمی، گول چہرہ،فراخ پیشانی، فراخ ابرو،ریش نکلی ہوئی، لاغر اندام تھے ۔سکونت کے خانہ میں وضاحت کے مطابق ’’قصبہ لاہر پور،محلہ شیخ ٹولہ، تحصیل و ضلع سیتا پور ‘‘ آپ کی جائے پیدائش ہے ۔مدرسہ عالیہ ریاست رامپور سے بیضاوی شریف، شمس بازغہ، مسلم الثبوت، حماسہ، ہدایہ آخرین، پڑھ کر آئے اور دار العلوم دیوبند میں دورۂ کامل میں داخلہ لیا۔ ( بحوالہ رجسٹر داخلہ طلبہ دار العلوم دیوبند ضلع سہارنپور شوال ۱۳۴۰ھ تا رمضان ۱۳۴۱ھ )

            بعض تحریرات سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی تاریخ پیدائش ۱۹۰۱ء ہے لیکن جن لوگوں نے بھی یہ تاریخ درج کی ہے ان کے ہاتھ میں کوئی تحریری ریکارڈ نہیں ہے، اسی لیے تاہنوز راقم سطور کو جو تحریری ریکارڈ دستیاب ہوئے ہیں اس پر اعتماد کرکے ۱۹۱۰ء کو ہی تاریخ پیدائش قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کے ریکارڈ میں بہت واضح طور پر بوقت داخلہ ماہ جون ۱۹۲۲ء میں ۱۳ سال کی عمر درج ہے ؛ البتہ حلیہ میں ریش نکلنے کا ذکر ملتا ہے تو اس سے ۱۹۰۱ء یا اس کے مابین قریب قریب کی تاریخ کو بھی یقینی ریکارڈ دستیاب ہونے کی صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے ۔

سند فضیلت و فراغت

            یہ عجیب اتفاق ہے کہ راقم سطور آج جب کہ ۸؍رمضان ۱۴۴۱ھ مطابق ۲ ؍مئی ۲۰۲۰ء یوم شنبہ میں حضرت ممدوحؒ کا سوانحی خاکہ مرتب کررہا ہے؛حضرت کی فراغت کے پورے ایک سو سال مکمل ہورہے ہیں ۔آپ کی فراغت سے متعلق دار العلوم دیوبند کے دفتر تعلیمات سے موصولہ ریکارڈ میں درج ہے کہ :

            ’’۱۲شعبان ۱۳۴۱ھ مطابق ۳۰؍مارچ ۱۹۲۳ء کا امتحان سالانہ سے فراغت کے بعد سند لے کر گھر واپس ہوئے ۔ ( بحوالہ رجسٹر داخلہ طلبہ دار العلوم دیوبند ضلع سہارنپور شوال ۱۳۴۰ھ تا رمضان ۱۳۴۱ھ )

            آپ کے اساتذہ میں نابغۂ روزگار ہستیوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ آپ کے تقریری و تحریری امتحان لینے والوں میں حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیریؒ صدر المدرسین دار العلوم دیوبند حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒمفتی اوّل دار العلوم دیوبند حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحب ؒ، حضرت مولانا مرتضی حسن صاحب چاند پوری ؒ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہم اﷲ وغیرہم ہیں اور انہی سے آپ نے تعلیم بھی پائی ہے ۔آپ کی تعلیمی لیاقت اور حدیث فہمی میں ذہانت و رسائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۴ سال کی عمر میں نہ صرف یہ کہ اپنی پوری جماعت میں آپ نے اوّل پوزیشن حاصل کی بلکہ بیشتر کتب میں اعلی نمبر (۵۰) سے اوپر اعزازی نمبرات بھی حاصل کیے ۔دار العلوم دیوبند کے ریکارڈ میں محفوظ کتابوں کے نمبرات حسب ذیل ہیں :

            بخاری شریف (۵۲)ترمذی (۵۲) مسلم شریف (۵۱)نسائی (۵۱) شمائل ترمذی(۵۱)مؤطا امام مالک (۵۱) مؤطا امام محمد (۵۱)ابوداؤد (۵۰)طحاوی(۵۰)ابن ماجہ (۴۷)۔ ( بحوالہ روئداد دارالعلوم دیوبند مطبوعہ ۱۳۴۲ھ مطابق ۱۹۲۴ء)

            حضرت مولانا ابو الوفاء صاحبؒ کا اپنے شہر کے علماء سے بھی گہرا ربط رہا؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمدکفایت اﷲثانی (متوفی۱۹۷۹ء) کے گھر بھی بغرض ملاقات و مشورہ تشریف لے جاتے رہتے تھے ۔ اسی مناسبت سے حضرت مفتی صاحبؒ کے صاحبزادے مولانا محمد اکرام اﷲ قاسمی مدظلہ؛ حضرت ممدوح کے چشم دید کتابی خاکہ میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ممدوح ’’گداز بدن، معتدل الاعضاء،گندمی رنگ مائل بہ سفیدی، سفید نورانی مسنون ہلکی داڑھی،چہرے پر کمانی دار عینک،نرم گفتار و رفتار،جیسی خوبیوں کے مالک تھے ۔ایک دانت سونے کے تار سے بندھارکھا تھا جو دوران گفتگو چمکتا تھا ۔انتقال تک اکابر کے وضع پر باقی رہتے ہوئے مدرسہ قیومیہ شاہجہاں پور کے صدر مدرس رہے ۔حضرت مفتی کفایت اﷲ ثانی ؒ کے بڑے صاحبزادے، جناب مولانا انعام اﷲ صاحب مدظلہ( جنھیں حضرت تھانوی ؒ کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہے اور حضرت موصوف ابھی ماشاء اﷲ بہ عمر۹۲سال مرادآبادمیں باحیات ہیں )نے بتایا کہ ایک زمانہ تک حضرت مولانا ابو الوفاء صاحبؒ نے کرایہ کے مکان میں زندگی گذاری اور کرایہ کے مکان کا انتظام کرنے والے حضرت مفتی کفایت اﷲثانیؒ ہوتے تھے، پھر اخیر میں ضلع بلیا کے رہنے والے آپؒ کے ایک بہی خواہ منشی محمد عثمان ؒ نے اپنے اثر و رسوخ سے  محلہ تلہرزئی میں کسٹوڈین سے فروخت ہونے والے ایک پرانے طرز کے مکان کا تقریباً سات ہزار روپئے میں سودا کرادیا جس میں آپ نے اپنی حیات مستعار گذاری ۔

            آپ کے رفقاء درس میں حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحبؒ دیوبندی،سابق رکن مجلس شوری دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا سید اختر حسین صاحبؒ دیوبندی، دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا عبد اﷲ ملتانیؒ،مولانا عبد الحلیم ملتانی ؒ،مولانا محمد قاسم ؒمظفر گڑھ، مولانا محمد صدیق بلوچستانیؒ،مولانا محمد شعیب ہزارویؒ،مولانا شمس القمر پشاوریؒ،مولانا امیر حمزہ کامل پوریؒ وغیرہ رحمہم اﷲ اجمعین جیسے قابل قدر علماء کے نام ملتے ہیں جو دینی اور ملی خدمات میں اپنی اپنی جگہ مینارۂ نور ومشعل راہ کی حیثیت سے متعارف ہیں ؛آپ کے رفقاء درس کی کل تعداد ۵۶ ہے ۔

تدریسی زندگی

            دار العلوم دیوبند میں معین مدرس کی حیثیت سے آج بھی آپ کی تدریسی خدمات کاشہرہ ہے۔ اس کے علاوہ آپ تا حین حیات،مدرسہ قیومیہ شاہجہانپور میں بحیثیت صدر مدرس خدمات انجام دیتے رہے ۔ معتمد اور مستند ذرائع سے راقم سطور کو معلوم ہوا کہ آپ کو جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آبادکا مہتمم نامزد کیا گیا اور باضابطہ تحریر بھی جاری کردی گئی تھی؛ لیکن حضرت نے بوجہ ضعف و اعذار معذرت فرمائی اور ایک بڑے ادارے کے اہتمام جیسے باوقار عہدہ کو قبول نہ فرماکرمدرسہ قیومہ سے ہی وابستہ رہے اور وعظ و خطابت کو خلق خدا میں اپنی فیض رسانی کا ذریعہ بنایا ۔

            راقم سطور کی تحقیق پر دار العلوم دیوبند کے بعض علیاء درجہ کے اساتذہ نے بتایا کہ آپ ایک عرصہ تک دار العلوم دیوبند میں معین مدرس کی حیثیت سے استاذ رہے؛ لیکن فن خطابت اور مناظرہ سے شغف کی وجہ سے دار العلوم کی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوگئے؛چونکہ دار العلوم میں معین مدرس کا ریکارڈ محفوظ نہیں رکھا جاتا، اس لیے کوئی تحریری دستاویز اس سلسلے میں تاہنوز دستیاب نہیں ہوسکا ۔ دور حاضر کے مشہور مؤرخ ووقائع نگار مولانا اَسیر َادْروِی مدظلہ اپنی ایک کتاب ’’کاروان رفتہ‘‘  میں حضرت مولانا ابوالوفاء صاحبؒ سے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

            ’’مولانا ابو الوفاء صاحب شاہجہانپوریؒ اپنے دور کے بے مثال خطیب اور زبردست مناظر تھے۔ انھوں نے آدھی صدی تک سیرت نبوی کے موضوع پر دلکش پاکیزہ لب و لہجہ اور اپنی شیریں زبان میں عالمانہ تقریریں کیں ۔ روایات صحیحہ سے سر مو تجاوز ممکن نہ تھا۔ مسلمانوں کا کوئی اہم اور بڑا جلسہ ان کی شرکت کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا تھا۔ آپ کا اپنا ایک مخصوص اور خوبصورت انداز بیان تھا۔ ہندوستان کے بہت سے واعظین نے اس کو نقل کرنے کی کوشش کی؛ مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مخصوص اور قابل اعتماد تلامذہ میں تھے۔فراغت کے بعد دار العلوم میں استاذ بھی رہے؛ لیکن قدرت نے ان کی فطرت میں صحرا نوردی لکھ دی تھی؛ اس لیے وہ تقریر و خطابت کے بادشاہ بن کر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفرکرتے رہے۔ قادیانیوں اور رضاخانیوں سے بہت سے مناظرے کیے۔ آپ جمعیۃ علماء ہند کے اہم رہنماؤں میں تھے۔ برطانوی حکومت کے خلاف ان کی تقریروں نے قید و بند کی بھی راہ دکھائی؛ لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ شعر و شاعری سے بھی آپ کو دلچسپی تھی۔ عارف آپ کا تخلص تھا۔ صرف نعت پاک کہتے تھے اور سیرۃ النبی کے جلسوں میں جب پڑھی جاتی تھی توا یک سماں بندھ جاتا تھا۔ (کاروان رفتہ ص ۱۶)

            یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب ؒ ؛دار العلوم دیوبند میں مدرس نہیں بلکہ معین مدرس رہے ہیں ۔ ابتدائی دور میں ذی استعداد طلبہ کو اساتذہ اور بطور خاص حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒ صاحب نائب مہتمم دار العلوم دیوبند، اپنی صواب دیدپرروک لیا کرتے تھے؛ تاکہ کسی بیماری یااورکسی عذر کی بناپر غیر حاضر اساتذہ کے اسباق وہ پڑھادیاکریں ۔پھر بعد میں مجلس شوری دار العلوم دیوبند نے اس کواپنے ضابطہ میں شامل کرلیا؛ لیکن اس وقت ایسے مدرسین کا باضابطہ کوئی تحریری ریکارڈ دار العلوم میں نہیں رکھاجاتا تھا۔ اس طرح طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی تھی اور اساتذہ کی نگرانی میں ایک ایسی استعداد اُن میں پروان چڑھتی تھی کہ بوقت ضرورت ان کو آگے چل کر دار العلوم میں بطور مستقل اساتذہ کے بلا لیا جاتا تھا۔ حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب انہی خوش بختوں میں ہیں ؛ اس لیے ان کا کوئی ریکارڈ بحیثیت استاذ  دار العلوم دیوبند میں محفوظ نہیں ہے ۔

            راقم سطور نے کتاب: ’’کاروان رفتہ‘‘ کے مصنف سے مولانا منظور الحسن قاسمی ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت اَدری ضلع مؤ کے ذریعہ باضابطہ اس کی تحقیق کی اور براہ راست بات بھی کی تو حضرت مصنف نے یہ وضاحت فرمائی کہ اپنی تحریر کا کوئی مستقل ریکارڈ اُن کے پاس نہیں ہے کسی شنیدہ واقعہ کی بناپر ایسا لکھ دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ کاروان رفتہ میں تاریخ وفات بھی صحیح نہیں درج ہے ۔

تاریخ سازمقدمہ بھاولپورمیں شرکت

            آپ کا شمار حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے خصوصی اوراُن معتمد علیہ شاگردوں میں ہوتا ہے جن کو حضرت علامہ ؒ نے مرزائیت کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے لیے تیار کیا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں بے مثال اور تاریخ ساز مقدمہ(۱۹۲۶ء تا ۷؍فروری ۱۹۳۵ء) عدالت عالیہ’’ بھاولپور‘‘ میں دائر؛جن مخلص اور بے لوث علماء نے اپنا خون جگر دے کرمقدمہ کی پیروی کی؛ اُن میں اہل اسلام اور علمائے دیوبند کے ترجمان کی حیثیت سے حضرت علامہ کشمیری ؒ کے ہمراہ حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب ؒ کو بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔

            ۷؍محرم الحرام ۱۳۵۲ھ مطابق۲؍مئی ۱۹۳۳ء میں حضرت علامہ کشمیریؒ کے انتقال کے بعد آپنے مختار مدعیہ کی حیثیت سے ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۵ء تین برس تک بنفس نفیس مقدمہ کی پیروی فرمائی اور اس میں شاندار اور تاریخ ساز کامیابی حاصل کی  ’’روئداد مقدمہ بھاولپور‘‘ کے نام سے تین جلدو ں پر مشتمل مطبوعہ ذخیرے میں آپ کا بیان اور قادیانیوں کے جواب کا جواب الجواب؛ آج بھی آپ کا علمی شاہکارہے ۔کتاب کی تقریظات سے حضرت ممدوح سے متعلق چند سطریں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں جس سے قارئین مقالہ کوتاریخی حقائق معلوم ہوں گے ۔

             کتاب ’’ روئداد مقدمہ بھاولپور ‘‘ کے ناشر ادارہ، اسلامک فاونڈیشن لاہورکے رکن مجلس عاملہ جناب میر عبد الماجد سید نے حضرت مولانا ابوالوفاء صاحبؒ کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے :

            ’’ یہاں یہ عرض کرنا خلاف حقیقت نہ ہوگا کہ آج کے پرآشوب دو ر میں ماضی کے جن علماء و فضلاء و اکابرین کے اقوال کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے ان میں استاذ الاساتذۃ شیخ المحدثین امام العصر حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام و المسلمین حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ، علامۃ الدہر فہامۃ العصر حضرت مولانا غلام محمد صاحب گھوٹویؒ اور شہرہ آفاق مناظر حضرت مولانا ابوالوفاء شاہجہانپوریؒ جیسے مشاہیر شامل ہیں جنہوں نے بہ نفس نفیس عدالت میں پیش ہوکر اپنی شہادتیں قلمبند کرائیں اور فریق ثانی کی شہادت پر براہین و دلائل سے ایسی باطل شکن جرح فرمائی جس نے مرائیت کی بنیادوں کو کھوکھلا اور مرزائی دجل و فریب کے تمام پردوں کو پارہ پارہ کرکے فرقہ ضالہ کا ارتداد پورے عالم میں آشکارہ کر دیا۔ (صفحہ۹)

            مسماۃ غلام عائشہ مدعیہ کی جانب سے علامۃ العصر، اسوۃ البصر، قدوۃ الخلف حضرت سید مولانا انور شاہ کشمیری قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم، عالم نبیل و فاضل جلیل حضرت مفتی محمدشفیع صاحب، علامۃ الدہر فہامۃ العصر حضرت مولانا غلام محمد صاحب گھوٹوی، رئیس المناظرین و رأس المتکلمین حضرت سید محمد مرتضی حسن صاحب چاندپوری،فاضل جلیل حضرت مولانا ابوالقاسم محمد حسین صاحب کولوتاڑہ، جامع علوم و فنون حضرت مولانا نجم الدین صاحب اور شہرہ آفاق مناظر حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہانپوری رحمہم اللہ اجمعین نے بہ نفس نفیس عدالت میں پیش ہوکر قرآن پاک، احادیث متواترہ اور اجماع امت کی روشنی میں براہین و دلائل سے مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے کفر و ارتداد کو روز روشن کی طرح آشکارہ کیا؛ جب کہ عبد الرزاق(مرزائی) مدعا علیہ کی جانب سے مرزائی جماعت کے صفِ اول کے مبلغین (مرزائی پنڈت)جلال الدین شمس و غلام احمد نے پیروی مقدمہ کی۔ (صفحہ ۱۴)

            اسلامک فاؤنڈیشن کے سرپرست اور متکلم اسلام حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے خلف الرشید حضرت مولانا عبدالمالک ؒصاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور اپنے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں :

            ’’مرزائی مدعا علیہ کی حمایت کے لیے قادیانیوں کا پورا سرمایہ ان کی حمایت اور انگریزی سرکار کی سرپرستی بڑی وزنی چیز تھی۔ اور عالم اسباب میں توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ مدعی مسلمان خاتون اپنے دعوی میں کامیاب قراردی جاسکے؛ لیکن حضرت شیخ الجامعہ نے مدعیہ کی طرف سے شہادت اور اس کے موقف کی حمایت تثبیت کے لیے دار العلوم دیوبند کے اکابرعلماء کو دعوت دی کہ وہ بہاول پور تشریف لاکر مقدمہ کی پیروی کریں ۔ اس صورت حال پر شیخ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا سید مرتضی حسن چاندپوریؒ،حضرت مولانا نجم الدین صاحب، مولانا ابوا لوفاء صاحبؒاور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ مفتی دار العلوم دیوبند، بہاولپور تشریف لائے۔ (ص ۲۵)

            اسی طرح مخدوم العلماء و الصلحاء حضرت خواجہ خان محمد صاحب نقشبندی ؒ امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے اپنی تحریر میں اس مقدمہ میں پیروی کے لیے عوام و خواص کی جانب سے علمائے دیوبند کو منتخب کیے جانے پرروشنی ڈالی ہے ۔ حضرت فرماتے ہیں :

            ’’ لیکن اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لیے سب کی نگاہِ انتخاب؛ دار العلوم دیوبند کے فرزند شیخ الاسلام مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ پر پڑی۔ مولانا غلام محمد صاحبؒ کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کرکے مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ بہاولپور تشریف لائے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی۔ بہاولپورمیں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی، انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آئینی گرفت اور احتسابی شکنجہ سے بچنے کے لیے ہزاروں جتن کیے مولانا غلام محمد گھوٹویؒ، مولانا محمد حسین کولوتارڑویؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ،مولانا مرتضی حسن چاندپوریؒ، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاء شاہجہانپوریؒ اور مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کے ایمان افروز اور باطل شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی، ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کا خاص پرتو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے۔جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے در و دیوار جھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ایوانوں پر زلزلہ طاری ہوجاتا۔ مولانا ابو الوفاء شاہجہانپوری ؒ نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ ( مرحومہ عائشہ ؒبنت مولانا الٰہی بخش ؒ)کے طور پر کام کیا۔( روئداد مقدمہ صفحہ ۳۱)

            ’’عدالت عظمی ریاست بہاولپور سے مقدمے کی واپسی پر جب از سر نوتحقیقات شروع ہوئی تو مسماۃ غلام عائشہ کی جانب سے مختلف اوقات میں مختلف اکابرین نے بطور مدعیہ پیروی مقدمہ کی ۔ ۱۹۳۳ء میں جب فریق ثانی کی شہادت شروع ہوئی تو ہندوستان کے شہرہ آفاق رأس المتکلمین حضرت مولانا ابو الوفاء صاحبؒ بطور خاص دیوبند سے بہاولپور تشریف لائے۔ آپ کوفن مناظرہ میں ید طولی حاصل تھا۔ آپ نے بحیثیت مختار مدعیہ تین برس عدالت میں پیروی مقدمہ فرمائی۔ (ازادارہ۔ ۱۲۵۳)

            نمونے کی ان سطروں میں مستند اور معتبر اکابر علمائے امت نے’’ شہرۂ آفاق، رئیس المتکلمین‘‘ وغیرہ جن وقیع الفاظ میں آپ کا ذکر خیر کیا ہے اس سے آپ کا علمی مقام اور آپ کی بلند پایہ خدمات کا اندازہ لگانا قارئین کے لیے اب مشکل نہیں ہوگا ۔ ۷؍فروری ۱۹۳۵ء میں جج محمد اکبرصاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس مقدمہ کا فیصلہ مسلمانو ں کے حق میں سنایا ۔

            حضرت مولانا کو اپنے وطن سے ہزاروں کیلومیٹر دور موجودہ پاکستان میں ملتان کے قریب بہاولپورمیں قائم اس مقدمے سے کس قدر گہرا لگاؤ تھا اور آپنے اس کے لیے کیا کیا قربانیاں دی ہیں ؛ اس کے بھی بڑے گہرے نقوش تاریخ نے اپنے سینوں میں محفوظ رکھے ہیں ۔ اگر قارئین مضمون اکتاہٹ نہ محسوس کریں تو ایک تاریخی دستاویز اس قربانی سے متعلق بھی پیش کرتا چلوں ؛ جس میں آپ دیکھیں گے کہ مقدمہ کے دوران حضرت مولانا ؛مدرسہ قیومیہ شاہجہاں پورکے صدر المدرسین تھے اور ادارے کا پورا نظم و نسق، سال بھر کے لیے مالیہ کی فراہمی وغیرہ امورحضرت پر ہی موقوف تھے؛ لیکن جیسے ہی اس مقدمے میں حضرت والا کی ضرورت محسوس کی گئی؛ بلاتوقف میدان عمل میں آپ نے اپنی پوری توانائی جھونک دی بلکہ مدرسہ کو بھی ماتحتوں کے حوالے کرکے کس استغنائی کیفیت سے مقدمے کی پیروی میں مشغول رہے اس کا پتہ حسب ذیل اشتہار سے لگائیے جو سہ روزہ الجمعیۃ دہلی میں شائع کیا گیا ہے ۔

            چونکہ اہل نظر اس اشتہار کے مشمولات سے بہت کچھ نتائج اخذ کرسکتے ہیں ؛ اس لیے راقم سطور اشتہار کو من و عن نقل کرکے اُس پر کسی تبصرہ سے گریز کرتا ہے ؛البتہ اِس جانب ضرور توجہ دلانا چاہتا ہے کہ یہ اشتہار، مشہور زمانہ درسگاہ جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی ؒ جیسی نابغۂ روزگار علمی ہستی کی جانب سے ہے جنھوں نے مقدمہ میں حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب ؒ کی مصروفیات کے پیش نظرکہ کہیں موصوف کے مدرسہ کو نقصان نہ پہنچ جائے ؛ مدرسہ کی اعانت کے لیے از خوداشتہار شائع فرمایا ہے؛ بلکہ اپنے جملہ متعلقین کو بھی اس کے شائع کرنے کا پابند بناتے نظر آرہے ہیں ۔ تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ انوکھا اشتہار بلاشبہ تحفظ ختم نبوت کے خدام کے لیے ایک تاریخی دستاویز ہے اور قربان جائیے کہ تحفظ ختم نبوت کی خدمت میں کیا قابل صد رشک نصیبہ پایا حضرت مولانا ابوالوفاء صاحبؒ نے اورتحفظ ختم نبوت کی خدمت لینے میں کیا قابل صدفخر قدردانی کا حق ادا کیا حضرت ِشیخ الجامعہ ؒنے کہ اپنے مابعد والوں کے لیے ایک سبق آموز تاریخی مثال قائم کر گئے ۔ باری تعالیٰ ان مخلصین پر رحمت برسائے اور اپنے کرم سے ہم خوردوں کو بھی اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

نظر من در دو جہاں باعزت و تمکین باد

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

 اب ملاحظہ فرمائیے اشتہار :

مدرسہ قیومیہ شاہجہانپور۔ مسلمانوں کی خدمت میں ایک اپیل

            ’’ مدرسہ قیومیہ اگرچہ ہم سے تقریبا ایک ہزار میل پر واقع ہے؛ مگر اس کے فیوض سے پنجاب بھی بہت کچھ مستفیض ہے، اس مدرسہ کی مذہبی،تعلیمی وتبلیغی خدمات اور باطل کے استیصال اور اہل حق کی تائید میں مساعی غالباً ہندوستان وپنجاب کے کسی حصہ میں مخفی نہیں ۔

            مشہور تاریخی ’’مقدمہ بہادلپور‘‘ میں جو مرزائیوں اور مسلمانوں کے درمیان معرکۃ الآراء چل رہا ہے، اس میں علاوہ دیگر اکابرین علماء ہند کے حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب نعمانی صدر مدرس وپرنسپل مدرسہ قیومیہ بالخصوص قابل ذکر ہیں جو ایک سال سے تقریباً اس مقدمہ میں اپنی بے لوث خدمات سے تمام مسلمانان ہند وعلماء کرام کی نیابت کا فرض باحسن وجوہ ادا کر رہے ہیں اور اکتوبرسے تو مسلسل ہرماہ کا بڑا حصہ یہیں اسی سلسلے میں گذرا۔ آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مرد خدا علم دین وقانون کی دونوں خدمتیں بیک وقت حسبۃً للہ ادا کر رہے ہیں ، آپ کے ساتھ بطور معین ناظم مدرسہ قیومیہ مولانا محمد قاسم صاحب بھی ہیں ۔

            بانی مدرسہ کے انتقال کے بعد اس مدرسہ کی آمدنی کا دار ومدار حضرات اہل خیر رنگون وبرہماں (موجودہ برما Myanmar  ) کی اعانت پر تھا جو رمضان میں ناظم مدرسہ خود جاکر لے آتے تھے یاکبھی کچھ اعانت باشندگانِ مصوری نے کرد ی ہے اس کے سواء کوئی مستقل چندہ نہیں ؛ چونکہ اس مرتبہ یہ حضرات اس اسلامی خدمت اور سید المرسلین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ناموس میں سرگرم ہیں اور غالباً اس کے واسطے کوئی بھی سعی نہیں کرسکتے۔ پس میں حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائیوں اور تمام اہل خیر باشندگان پنجاب وہندوستان خصوصاً حضرات رنگون سے پرزور حسبۃً للہ اپیل کرتا ہوں کہ اس کی اہمیت کا خیال فرماتے ہوئے اس کی طرف دست اعانت دراز فرمائیں اور اسی بابرکت ماہ میں اس کی اس قدر اعانت فرمائیں کہ اگلے سال یہ چشمۂ علم وعمل چلتا رہے اور دشمنوں کی شماتت کا موقع نہ ملے۔

            دیگر جرائد اسلامیان ہند اور برہماں خصوصاً اخبار’’شیررنگون‘‘سے عرض ہے کہ اسے شائع فرمائیں اور اپنے نوٹ بھی اس کے متعلق لکھ کر اسلامیانِ ہند اور علماء کرام پراحسان فرمائیں ۔

            نوٹ: ترسیل زر بنام حاجی صدیق احمد سائیکل مرچنٹ شاہجہانپور مہتمم مالیات مدرسہ قیومیہ ہونی چاہئے۔

غلام محمد گڈہوی شیخ الجامعہ بہادلپور

(سہ روزہ الجمعیۃ دہلی جلد:۱۹ شمارہ نمبر:۱ ص:۸۔ یوم دو شنبہ۱۴؍رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ مطابق یکم ؍جنوری ۱۹۳۴ء

  محفوظات مرکز التراث الاسلامی نمبر 17-1934)

دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مبلغ تقرر

            دار العلوم دیوبند کے محافظ خانہ سے موصولہ دستاویزات کے مطابق دار العلوم دیوبند میں جب مستقل طور پر ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تو باضابطہ پہلے آپ سے دیوبند میں اس خدمت کے لیے تشریف آوری کی رائے معلوم کی گئی،جب آپ دیوبند میں قیام پذیر رہنے پر آمادہ ہوئے تو پھرآپ ہی کو اس شعبہ کا مبلغ اور ناظم بنایاگیا ۔واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی مبلغین کا تقرر ہوا کرتا تھا؛ لیکن ان کی تبلیغی مساعی کا نظام شعبۂ تنظیم و ترقی کے ماتحت ہوتا تھا ۔ ملک میں اسلامی عقائد و تعلیمات اور مسلک دیوبندکی توسیع و اشاعت کے لیے دار العلوم دیوبند کے ارباب حل و عقد نے جب ضرورت محسوس کی تو شعبۂ تبلیغ کو مستقل طور پر قائم کرکے کثیر تعداد میں ذی استعداد اور فن مناظرہ وغیرہ میں مہارت رکھنے والے علماء کا بحیثیت مبلغ تقرر کرنے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ اس خدمت میں وسعت دینے کے لیے باضابطہ دار العلوم دیوبند نے حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہاں پوریؒ سے رابطہ کیا اورحضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند کے حکم نامہ کے مطابق ۳؍ ذیقعدہ ۱۳۶۰ھ مطابق ۲۲؍نومبر۱۹۴۱ء میں موصوف کا بحیثیت مبلغ و ناظم ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ تقرر عمل میں آیا ۔

            دار العلوم دیوبندمیں موصوف کے تقرر کے موقع پر دفتر اہتمام سے جو فرائض تفویض کیے گئے اُن کی تصویب و تائید بحیثیت صدر مہتمم حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی  اور بحیثیت، صدر المدرسین حضرت مولانا حسین احمدؒمدنی نے بھی فرمائی۔تقرر نامے پر ان دونوں اکابر کی دستی تائیدات ثبت ہیں ۔نیز اسی موقع سے ان اکابر نے شعبۂ تبلیغ دار العلوم دیوبنداور حضرات مبلغین کے لیے ۱۸؍ اصول وضع فرمائے تاکہ اس شعبہ کی افادیت و کارکردگی کو مثالی بنایاجاسکے ۔

            دار العلوم دیوبند کی مطبوعہ روئداد سالانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگرانی میں چار علماء کرام بحیثیت مبلغ دار العلوم میں خدمات انجام دیتے رہے ۔(۱) مولانا ابوالوفاء صاحب، مبلغ و ناظم شعبہ کی حیثیت سے (۲) جناب مولانا عبد الجبار صاحب ابوہری، مبلغ (۳) جناب مولانا عتیق الرحمن صاحب آرویؒ، معین مبلغ (۴) جناب مولانا شاہ علی صاحب بستویؒ سفیر و مبلغ کی حیثیت سے، خالص تبلیغی اسفار پر مامور تھے ۔

            ان اکابر کی خدمات کے سلسلہ میں مطبوعہ روئداد سالانہ میں اختصار کے ساتھ دفتر اہتمام دارالعلوم سے جو رپورٹ درج ہے، وہ حسب ذیل ہے:

            ’’ تبلیغی خدمات کو زیادہ وسیع اور منظم کرنے کے لیے اس سال ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کو ایک مستقل ناظم کے ماتحت کردیا گیا ہے ۔اور مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہاں پوری کی خدمات اس شعبہ کو کامیاب بنانے کے لیے بعہدۂ ناظم حاصل کر لی گئی ہیں ۔ مولانا عبد الجبار صاحب ابوہری کی خدمات بھی اسی سال ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کو حاصل ہوئی ہیں ۔ اس سال حضرات مبلغین نے ملک کے مختلف حصوں میں تقریباً دوسو (۲۰۰) تقریریں کیں اور اپنے مواعظ میں اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی، افعالِ قبیحہ سے مجتنب رہنے کی ہدایت کی اور مذاہبِ باطلہ کا رد کیا ۔ ( روئداد سالانہ دار العلوم دیوبند صفحہ ۷ بابت ۱۳۶۰ھ  )

            اس کے بعد اگلے سال کی کاکردگی سے متعلق مرقوم ہے کہ :

            ’’ ۱۳۶۱ھ مطابق ۱۹۴۲ء میں دار العلوم دیوبند کے چار لائق مبلغوں نے ناظم ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کی رہنمائی میں اور نگرانی میں وسیع پیمانے پر تبلیغی خدمات انجام دیں ۔ایک سال کی مختصر مدت میں ان حضرات نے (۴۶۷)مقامات کا سفر کرکے (۶۲۲) تقریریں کیں اور اپنے مواعظ میں اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی، افعالِ قبیحہ سے مجتنب رہنے کی ہدایت کی اور مذاہبِ باطلہ کا رد کیا ۔ الحمد ﷲ کہ ان کی تبلیغی سرگرمیاں بہت نتیجہ خیز رہیں اور عام مسلمانوں کی اصلاح کے علاوہ چار غیر مسلم مشرف باسلام ہوئے ۔ فالحمد ﷲ علی ذالک ‘‘  ( روئداد سالانہ دار العلوم دیوبند صفحہ ۷ بابت ۱۳۶۱ھ)

            بلاشبہ روئدادمختصر ہے؛ لیکن اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ دار العلوم دیوبند کے ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کی قابل قدرافادیت تھی اور اس کے کارہائے نمایاں سے عوام و خواص سبھی کوزبردست فائدہ پہنچ رہا تھا۔ یہ حضرات مبلغین؛ اصلاحی و تربیتی بیانات کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں باطل فرقوں کے رد و تعاقب میں بھی بھر پور سرگرم عمل رہا کرتے تھے اور ان میں حضرت مولانا ابوالوفاء صاحبؒ کا ایک نمایاں مقام تھا۔

            حضرت مولانا کی ایک دستی تحریر ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کے مراسلہ نمبر ۹۴۸، مجریہ ۲۱؍ذیقعدہ ۱۳۶۱ھ مطابق ۳۰؍ نومبر ۱۹۴۲ء سے معلوم ہوتا ہے کہ دار العلوم دیوبند میں حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب ؒکا قیام کسی وجہ سے زیادہ دنوں نہ رہ سکا ؛سال بھر کے بعد یہ عارضی تقرر آگے نہ بڑھا اور آپ اپنے وطن واپس ہوگئے ۔حضرت مولانا کی دستی تحریر اور ا س پر دفتر اہتمام کی کارروائی کے بعد کی صورتِ حال تادم تحریر راقم سطور کو دستیاب نہ ہوسکی،   ان شاء اللہ! دستیاب ہونے پر اس کا اضافہ کردیا جائے گا ۔

مناظرہ اور وعظ و خطابت کے میدان میں

            اس گوہر یکتا میں خالق کائنات اﷲ رب العزت نے علمی اور عملی وقار و اعتبار کے ساتھ ایک خاص قسم کی استغنائی صفت بھی ودیعت کر رکھی تھی، باوجود اس کے کہ آپ کو وعظ و خطابت سے ایک خاصِ شغف تھا اور اسی خدمت کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھ کر اس سے وابستہ رہتے تھے ؛اپنے فکر وفن میں حد درجہ خلوص و للہیت کا اثر اس قدر غالب تھا کہ تدریسی خدمات و ماحولیات میں مدارج علیا طے کرنے اور مناصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کے شوق سے کوسوں دور رہتے تھے؛چنانچہ عوام وخواص میں آپ کی تبلیغی مساعی اور ان کی افادیت کا نہ صرف یہ کہ زمانہ معترف ہے؛ بلکہ آج بھی اہل علم اور علمائے ربانی، دل کی گہرائیوں سے آپ کو خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں ۔شدھی سنگٹھن کی ارتدادی تحریک میں مخالفین کو دلائل و براہین سے قائل کرنا، قادیانیت جیسے زہریلے فتنے سے زندگی بھر نبردآزماں رہنا اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں بے لوث تحفظ ختم نبو ت کی خدمات سے وابستگی، بدعات و خرافات سے ملت اسلامیہ کو بچانااور سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل رہنے کی اعلانیہ دعوت و تلقین،باطل کی خرمن گاہوں پراسلامی دلائل و براہین کی گولہ باری، مسلک اہل السنۃ والجماعۃ مکتب فکر دیوبند کی ترویج و اشا عت اورنت نئے درپیش ملکی و ملّی مسائل میں اکابر علمائے دیوبند کے مشن سے والہانہ وابستگی وغیرہ خدمات کے باب میں آپ کی جو نمایاں مساعی جمیلہ ہیں وہ ایک مستقل باب کی حیثیت سے ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہیں جس کے ثبوت وشواہد تحریری اور زبانی،آج بھی دستیاب ہیں ؛ لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے راقم سطور ان سے یہاں صرف نظر کرنے پر مجبور ہے؛تاہم بطور نمونہ ایک نایاب دستاویزی ’’منقبت نامہ‘‘ سے قارئین مضمون کو روشناس کرانا چاہاہے جو بطور ’’تعزیت نامہ‘‘ آپ کے رفیق و ہم مذاق عالم دین حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کے قلم سے ہے اورچونکہ یہ تحریر بھی بہت سارے حکایات و واقعات اور حضرت ممدوح سے متعلق دینی خدمات کو بطور ثبوت اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے؛ اس لیے اس کو من و عن مع عنوان پیش کرنا ہی مناسب معلوم ہوتاہے؛ تاکہ بوقت ضرورت قارئین کو اپنے اپنے موضوع و مقصد پر استدلال کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے میں سہولت ہو۔ حضرت مولانا نعمانی ؒ وفات کی خبر سے متأثر ہوکر اپنے ماہنامہ ’’ الفرقان لکھنؤ ‘‘ میں رقم طراز ہیں :

رفیق قدیم و محترم مولانا ابوالوفا شاہجہانپوری علیہ الرحمۃ

            ۷؍فروری کے اخبار سے اچانک معلوم ہوا کہ ہمارے رفیق قدیم مولانا ابوالوفا شاہجہانپوری ۶؍فروری کو شاہجہانپور ہی میں رحلت فرما گئے۔ انا ﷲ واِنا الیہ راجعون۔

            اس خبر کو پڑھ کر پوری نصف صدی پہلے گذرا ہوا وہ دور آنکھوں کے سامنے آگیا جب دین حق اور اہلِ حق کی حمایت میں ہم دونوں ساتھ رہا کرتے تھے۔ جلسوں میں ساتھ جاتے مناظروں میں ساتھ رہتے، اس دور کی جمعیۃ العلماء کی خاص و عام میٹنگوں میں ساتھ شرکت کرتے اور اکثر معاملات میں ہم دونوں کی رائے ایک ہوتی۔ مجلس احرار بھی اس وقت مسلمانوں کی متحرک و فعال اور بااثر مذہبی و سیاسی جماعت تھی۔ مولانا ابوالوفاء کا اس سے گہرا تعلق تھا؛ بلکہ وہ اس کے صوبہ یوپی کے رہنماؤں میں تھے۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے ساتھ ہندوستان میں مجلس احرار گویا ختم ہوگئی۔ جمعیۃ العلماء سے مولانا ابوالوفا ء صاحب کا تعلق برابر اور گہرا رہا، جہاں تک معلوم ہے وہ طویل مدت سے ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کے نائب صدر تھے۔

            مولانا مرحوم راقم سطور سے کئی سال پہلے دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے تھے علمی اور درسی استعداد بہت اچھی تھی، شروع میں خاصی مدت تک اصل مشغلہ تدریس وتعلیم ہی رہا۔ شاہجہانپور کے ایک مدرسہ سے تعلق تھا، دوسرے مشاغل کا درجہ ثانوی تھا؛ لیکن بعد میں وعظ و تقریر ہی کا مشغلہ غالب آگیا۔ اب سے قریباً ۴۰ سال پہلے کچھ عرصہ دارالعلوم دیوبند کے ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ سے بھی تعلق رہا۔ مولانا کا اصل وطن لاہرپور ضلع سیتا پور تھا۔ تدریس ہی کے تعلق سے شاہجہانپور میں قیام ہوا تھا، پھر یہیں کے ہوگئے اور اسی کو وطن بنا لیا۔ قادیانیت کے رد میں مولانا کو تخصص کا درجہ حاصل تھا۔ اب سے نصف صدی پہلے ریاست بھاولپور کا وہ تاریخی مقدمہ جس نے ہندوستان میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ جس میں سرکاری عدالت سے قادیانیوں کے مسلمان یا نامسلمان ہونے کا فیصلہ ہونا تھا اور اس میں بیان دینے کے لیے امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ نے بیماری اور سخت ضعف و نقاہت کی حالت میں سفر فرمایا تھا اور جاکر عدالت میں بیان دیا تھا اس پورے کیس کی پیروی آخر میں مولانا ابوالوفا ء صاحب ہی نے کی تھی اور آخر کار ججی کی عدالت نے پہلی دفعہ قادیانیوں کے ’’نامسلمان‘‘ ہونے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ بڑے کتابی سائز کے ڈیڑھ سو صفحے پر تھا۔ ناظرین کرام سے اس عاجز (محمد منظور نعمانی) کی گذارش ہے کہ مرحوم کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا فرمائیں اور ہوسکے توکم ازکم  تین بار سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصالِ ثواب کریں یہ آپ کا احسان ہوگا۔ واللّٰہ یحب المحسنین۔( ماہنامہ الفرقان لکھنؤ، جلد ۴۸ شمارہ نمبر ۲،۳۔ ربیع الاوّل و ربیع الثانی ۱۴۰۰ھ مطابق فروری و مارچ ۱۹۸۰ء صفحہ ۷۶ تا ۷۸ ۔ محفوظات مرکزالتراث الاسلامی دیوبند نمبر-MH 21)

             فرقہائے باطلہ سے حق بات منوانے کے لیے فن مناظرہ میں خدا داد صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ حضرت مولاناؒ کو اﷲتعالیٰ نے مقبول و مفید اندازِ بیان سے بھی خوب خوب نوازا تھا اور سیرت نبوی اور معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے موضوع پر بیان کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا اور آپ کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے مقررین میں ہوتا تھا۔جوانی کے زمانے میں آپ کے وعظ میں گھن گرج کا پہلو غالب رہتا اور مجال کیا ؛ جو کسی سے مرعوب ہوں ۔آپ کے بیانات کے سامعین کا تأثر یہ ہے کہ آپ کے لب ولہجہ میں شاہجہاں پوری اور سیتاپوری لہجے کا عنصرغالب تھا؛لیکن سلاست و روانی اور برجستگی، جملوں کی ادائیگی میں صفائی اور جذب اس قدر ہوتا تھا کہ عمرکے اخیر حصے میں بھی آپ کا بیان کسی بھی خطہ اور کسی بھی علاقہ کے علمائے وقت بھی بڑی دلچسپی سے سنتے اورآپ کے علمی عرق ریزیوں سے استفادہ کرتے تھے ۔ جب آپ کرسی خطابت پر جلوہ افروز ہوتے تو بحر زخار کی طرح بغیر کسی تلاطم کے بے تکلف کئی کئی گھنٹے انتہائی شستہ انداز میں تقریر کرتے چلے جاتے، انتہائی پر وقار سماں ہوتا جس میں سامعین محو حیرت آپ کو دیکھتے رہتے۔یہ وہ دور تھا جس میں خطیب زمانہ امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒ، سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعیدؒ دہلوی جیسے حضرات موجود تھے۔مفتی اعظم ہند حضرت مولانامفتی کفایت اللہ ؒ شاہجہاں پوری ثم دہلوی اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کا بیان بھی واعظانہ انداز میں سیرت النبی ؑپر ہی ہوتا تھا؛ اسی لیے پورے ملک میں آپ کی یکساں مقبولیت تھی اور آپ کی شرکت جلسوں کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی ۔آپ کے برادر نسبتی حضرت مولانا محمد قاسم  ؒ بھی آپ کے نقشِ قدم پر سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بلند پایہ خطیب مانے جاتے تھے ۔

جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی

            اکابر علمائے دیوبند کی طرح آپ نے بھی ہندوستان کی آزادی میں نمایاں اورسرفروشانہ کردار ادا کیا۔حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور دیگر اکابر کے شانہ بشانہ ہندوستان کو آزاد کرانے میں آپ کی بڑی قربانیاں ہیں ۔جمعیۃ علماء ہند سے بھی گہری وابستگی رہی اور جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے آپ کی خدمات کا ایک طویل باب ہے ۔

            ۱۹۴۸ء کا سال غیر منقسم ہندوستان کے لیے اپنے اندر کیا کیا بلاخیز داستانیں رکھتا ہے اس سے تقریباً سبھی لوگ واقف ہوں گے ۔ان حالات میں ممبئی میں زیر صدارت  شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ جمعیۃ علمائے ہند کا پندرہواں اجلاس عام منعقد ہوا جس میں ملک و ملت کے مسائل کو لے کر جو تجاویز پاس ہوئیں ان کو روبہ عمل لانے کے لیے جن بالغ نظر اور موضوع پر دسترس رکھنے والے اہلِ علم کی باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اُن میں نمایاں نام حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب شاہجہاں پوری ؒ کا بھی ملتا ہے ۔ملاحظہ کیجئے اجلاس عام کی تجویز نمبر اور اراکین کمیٹی کے اسماء گرامی ۔

            ’’جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس مرکزی و صوبائی حکومتوں کی ان کوششوں کو بنظر استحسان دیکھتا ہے جو تعلیم کو عام کرنے کے لیے کی جارہی ہیں ؛لیکن یہ اجلاس اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے دینی تعلیم ضروری ہے؛اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم کی تعمیم کے لیے جو بھی تدبیریں اختیار کی جائیں اُن میں اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ مسلمان طلبہ کے لیے ساتھ ہی ساتھ دینی تعلیم کے حصول کے مواقع باقی رہیں اور دینی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہوجائے ۔ اجلاس ہٰذا مندرجہ ذیل حضرات کی ایک کمیٹی منتخب کرتا ہے؛ تاکہ وہ ذمہ دار اور متعلقہ ارکان حکومت سے اس مقصد کے لیے ضروری تبادلۂ خیال کرکے مناسب صورتیں اختیار کریں ۔(ارکان کمیٹی  کے نام حسب ذیل ہیں )

             (۱) مولانا عبد الحلیم صدیقی (۲)مولنا مفتی عتیق الرحمن صاحب(۳)مولانا شفیق الرحمن صاحب قدوائی (۴)مولانا ابو الوفاء صاحب شاہجہاں پوری (۵)موانا بشیر احمد کھٹوری (۶) مولانا محمد میاں صاحب ناظم جمعیۃ علمائے ہند ۔( دستاویزات مرکزی اجلاس ہائے عام ۱۹۴۸ء تا ۲۰۰۳ء ،ص ۳۹)

            جمعیۃ علماء سے حضرت موصوف کی طویل عرصہ تک وابستگی اورمتعلقہ خدمات کا شمارایک مستقل باب کا متقاضی ہے ؛اس کے لیے زیر قلم مضمون میں زیادہ جگہ لینے کی گنجائش؛ اس لیے نہیں کہ اختصار دراختصار سے اس عنوان کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔تاہم  مذکورہ اقتباس سے یہ اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں رہا کہ ملک و ملّت کے اس متحدہ و متفقہ پلیٹ فارم سے  آپ کی خدمات  نہایت مقبول و لائق صد تحسین رہی ہیں ، بلکہ اپنی عمر عزیز کا بڑا قیمتی وقت آپ نے اس تنظیم کی آبیاری میں کھپایا ہے ۔

            شاہجہاں پور کے علماء کی تاریخ ’’ سرزمین شاہجہاں پور کے علمائے فحول ‘‘ میں مصنف نے لکھا ہے نیز اس کی تائید آپ کے پوتے جناب ضمیر احمد صاحب نے بھی کی ہے کہ جب حکومت ہند نے تحریکات آزادی کے سلسلہ میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے وظیفہ کی پیش کش کی تو مولانا مرحوم ؒنے دو ٹوک اور بڑاانوکھا جواب اس وقت کی وزیر اعظم ’’اندرا گاندھی ‘‘ کو دیا کہ میں نے تیرے لیے کچھ نہیں کیا جو کچھ کیااپنی قوم اور اپنے ملک کے لیے کیا ہے تو اس کا صلہ میں تم سے نہیں چاہتا۔

فرقہائے باطلہ کے رد و تعاقب میں انجمن اظہار حق کا قیام

            دور تحریک خلافت کے ختم ہوتے ہی بر صغیرمیں کفر و ارتداد کی آگ ایک دم بھڑک اٹھی جس سے کوئی شہر، قصبہ اور قریہ محفوظ نہ رہ سکا؛ چنانچہ شہر شاہجہانپور کے اطراف میں بھی ارتدادی تحریکوں کی ریشہ دوانیاں ہونے لگیں اور یہاں طرفہ یہ تھا کہ علاوہ بیرونی حملوں کے اندرونی حملوں نے مسلمانوں کا ایمان مزید خطرہ میں ڈال دیا۔غیر مسلم قوتوں سے شہ پاکر قادیانی جماعت نے بھی اپنے ارتدادی مشن کامستقل جال بچھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔دیکھتے ہی دیکھتے  فضا کچھ ایسی بننے لگی کہ جس سے خیال ہونے لگا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں شاہجہاں پور اور اس کے اطراف میں قادیانی ہی قادیانی نظر آئیں گے۔

            شاہجہاں پور میں اس وقت تک ارتدادی تحریکات اور بالخصوص قادیانی فتنہ کے سدباب کے لیے کوئی مستقل انجمن موجود نہیں تھی، کچھ علماء اور مخلص کارکنان حسنِ اتفاق سے جمع ہوگئے جنہوں نے دفاع اسلام کی متواتر اور کامیاب کوششیں کیں جن سے شہر و اطراف شہر میں آریہ سماجی اور قادیانیت کا فتنہ کچھ کم ہونے لگا۔ان علماء کے اخلاص اور حسن کار کردگی کو دیکھ کراللہ کے بعض مخصوص بندوں نے شیرازہ کو منظم کرنے کی سعی کی اور سب کو جوڑکر ایک انجمن کی بنیاد رکھی گئی جو آج’’ اصلاح المسلمین‘‘ کے مبارک نام سے متعارف ہے؛ مگر اس وقت اس انجمن کا نام’’ انجمن اظہار حق‘‘ تھا۔

            انجمن کے عظیم کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماہ رمضان ۱۳۴۵ھ مطابق مارچ ۱۹۲۷ء میں جب جلال آباد کے اطراف موہن پور وغیرہ میں شدھی تحریک کا زور ہوا اورمسلمانو ں کی غفلت کے سبب زبردست ارتداد کا سیلاب آیا توانجمن ’’اظہار حق ‘‘ نے اپنے کارکنان میں سے چار علماء کوجو تعطیل رمضان کے باعث اپنے وطن میں تھے دور دراز سے بلا کر ارتداد زدہ علاقوں میں روانہ کیے۔ ماشاء اﷲ ان حضرات کی مساعی کامیاب رہیں ، یوں سمجھیے کہ ہزاروں مسلمانوں کا ایمان بچ گیا ۔ انجمن کے فرستادہ مخصوص علماء نے شہر کے اور اس کے اطراف نیز جلال آباد،پوایاں ، تلہر وغیرہ میں تبلیغ و وعظ کے واسطے چھوٹے چھوٹے دورے کیے جن سے بہت نفع پہونچا۔

            ’’ رنگیلا رسول‘‘ کے مقدمہ کے دوران حضرت مولانا ابو الوفاء صاحبؒ کے؛ شہر شاہجہانپور اورتحصیل پوایاں ، تلہر،جلال آباد وغیرہ کی اکثر مساجد میں تقریریں ہواکرتی تھیں ۔ آپ نے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں میں صحیح جذبات پیدا کرکے ان کی اقتصادی حالات درست کرانے میں بھی بڑا کردار ادا کیا ۔ اس دوران آپ کے دست حق پرست پر بہت سے غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے جن کے نام برابر اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور بعضوں کو اپنے مصارف سے چھوٹی چھوٹی تجارت،پان وغیرہ کی دکان کا بھی انتظام کرادیا ۔ (خلاصہ : دو سالہ روئداد انجمن اصلاح المسلمین شاہجہانپور ۱۲؍اگست  ۱۹۲۸ء)

            یہی وہ خوش نصیب انجمن ہے جس کا نام ’’انجمن‘‘ تھا لیکن کام تمام کا تمام تحفظ ختم نبوت کا تھا۔ اس انجمن نے شاہجہاں پور میں قادیانیوں سے مقابلہ،مباحثہ اور ان کے خلاف سینہ سپر رہنا اپنے مقاصد اصلیہ میں شامل کررکھا تھا۔ بڑے بڑے علماء کو اس موضوع پر خطاب کی دعوت دیتے، محلہ تارِینْ بہادر گنج میں مناظر اسلام محدث کبیر مولانا بدرعالم میرٹھیؒ جیسے اکابر کے معرکۃ الآراء خطابات اس کی نگرانی میں ہوئے ۔اسی طرح نوری مسجد محلہ تارین ٹکلی کے متعلق قادیانیوں کی جانب سے دائر کردہ مشہور مقدمہ کی پیروی اسی انجمن کے عہدہ داروں نے شروع کی اور اس میں کامیابی کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ جسے زمانہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اس فتح نے شاہجہانپور سے قادیانی فتنہ کا خاتمہ کردیا۔بحمد ﷲ اس کا ریکارڈ ’’ مرکز التراث الاسلامی دیوبند ‘‘ کے پاس محفوظ ہے ۔اس مقدمہ کی تفصیلی روئدادکے لیے ملاحظہ فرمائیے ’’ تحفظ ختم نبوت کے مثالی سپوت متکلم اسلام حضرت مفتی عبد الغنی ؒ پٹیالوی ثم شاہجہاں پوری ‘‘ مطبوعہ مرکز التراث الاسلامی دیوبند اور’’ انکشاف حقیقت ‘‘ مرتبہ جناب مولانا اکرام اﷲ قاسمی صاحب مطبوعہ شاہجہاں پور ۔

            مضمون کی طوالت کا احساس راقم سطور کو ستائے جارہا ہے؛ لیکن میدانِ قلم کے باذوق احباب جانتے ہیں کہ ثبوت و شواہد کی زبان اپنے اندر الگ ہی ایک چاشنی اور جذب رکھتی ہے ۔علاوہ ازیں چونکہ مذکورہ انجمن کی مطبوعہ روئداد تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور اس میں تحفظ ختم نبوت و رد قادیانیت سے متعلق کئی تاریخی خدمات کے ثبوت و شواہد بھی پوشیدہ ہیں ؛ اس مناسبت سے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ محض خلاصہ لکھنے پر اکتفا نہ کرکے اس کے اقتباسات سے بھی قارئینِ مضمون کو روشناس کرایا جائے ؛اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ راقم سطور پراگر کسی کوتاریخ کشید کرنے کا وہم و گمان ہوگا تو وہ بھی دور ہوجائے گا ۔ ان فوائد کے پیش نظر ملاحظہ فرمائیے ؛روئداد کے مرتب جناب حکیم محمد علی انصاری صاحب مرحوم کا تحریر کردہ متن ؛ موصوف لکھتے ہیں :

            ’’ زمانہ کے حالات اور تجربات نے ہمیں بتلادیا ہے اور طول و عرض ہند کے اندر جن تبلیغی انجمنوں نے میدان ارتداد میں کام کیا ہے ان کی روئیداد اس امر پر مشعر ہیں نیز قائدین اور مبلغین عظام کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ عارضی اور ہنگامی تبلیغ کے بجائے ٹھوس مستقل اور تدریجی تعلیم ہمیشہ مفید مؤثر اور کامیاب ہوتی ہے۔کسی محل ارتداد میں کسی واعظ اور مبلغ کا پہنچ کر تقاریر اور مناظروں کا کرنا ممکن ہے کہ وقتی طور پر مفید اور کامیاب ہوا اور اس وقت فوری اثرات ہمارے لیے کارآمد ہوں ۔ مگر جوں ہی یہ اثرات رفع ہوں گے حقیقی مقاصد بھی دور ہوتے جائیں گے۔ اس کے برعکس کسی گاؤں میں ایک معلم ہم بھیجتے ہیں جو وہاں کے بچوں کو ضروریات دین سکھا تا ہے اور اوقات فرصت میں ان کے ضعفاء اور جوانوں کے اعمال و اخلاق کی بھی اصلاح کرتا ہے تو وہ بیک وقت ہمارے واسطے معلم امام مناظر اور مولوی کا کام دیتا ہے اور بالخصوص جب کہ اس کے قول و پند؛ اس کے اعمال کے مطابق ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ انجمن نے اپنی توجہ دیہاتی مکاتب کی طرف زیادہ رکھی ہے ۔ اب میں انجمن کی دوسال کے کاموں پر مختصر تبصرہ کرتا ہوں ۔

            (۱)قادیانیوں کے مقابلہ میں عظیم الشان جلسہ اور ختم نبوت و حیات مسیح جیسے اہم مباحث پر کامیاب مناظرہ جس سے کثیر تعداد ارتداد سے محفوظ رہی اور اس کی مفصل روئداد اخبارات میں شائع ہوچکی۔

            (۲)محلہ تارین بہادر گنج میں مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی (مناظر اسلام)کی ایک معرکۃ الآراء تقریر محاسن اسلام اور محامد سرداردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مقامی ضروریات پر ہوئی۔ اس کے علاوہ مختلف جلسے مختلف مساجد وغیرہ میں کیے گئے۔

            (۳)مدتوں سے ایک مقدمہ محلہ تارین ٹکلی کی مسجد کے متعلق قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تھا اس کی پیروی انجمن کے عہدہ داروں نے شروع کی اور اس میں اس قدر سعی بلیغ کی جسے اہل شاہجہانپور کبھی فراموش نہیں کرسکتے اور جس کی عظیم الشان کامیابی کی مسرت اب تک مسلمانوں کے دلوں سے زائل نہیں ہوئی۔ اس فتح نے شاہجہانپور سے گویا قادیانی فتنہ کا خاتمہ کردیا اور ایک حد تک انجمن سبکدوش ہوکرسماجی فتنہ کی روک تھام اور مسلمانوں کی عام اصلاح کی جانب یکسوئی سے متوجہ ہوسکی اور اس وقت سے نئے انتخاب میں اس کا نام اصلاح المسلمین رکھا گیا۔

            (۴)اسی مقدمہ کے دوران میں ایک بیوہ کو انجمن سے بصیغۂ تالیف قلوب وظیفہ دے کر ارتداد سے بچایا اور اس کے عقد کا انتظام کیا ۔

            (۵)گذشتہ سے سابق رمضان ( ۱۳۴۵ھ مطابق جولائی ۱۹۲۶ء :ناقل)کے اول عشرہ میں جلال آباد کے اطراف موہن پور وغیرہ میں بڑی شان سے شدھی کا پرچار ہوا اور زبردست ارتداد کا سیلاب آیاانجمن نے اپنے کارکنان کو دور دراز سے بلاکر (جو تعطیلوں میں اپنے وطن میں تھے)موقعہ واردات پر چار اشخاص روانہ کیے۔ الحمدللہ ان کی مساعی کامیاب رہیں اور ان کی اور دیگر حضرات کی کوششوں سے امید سے بہت زیادہ نفع پہونچا ؛سمجھیے کہ ہزاروں مسلمانوں کا ایمان بچ گیا۔

            (۶)انجمن مخصوص کارکنوں نے شہر شاہجہانپور کے اطراف نیز جلال آباد و پوایاں و تلہر وغیرہ میں تبلیغ و تفتیش کے واسطے چھوٹے چھوٹے دورہ کیے جس سے بہت کچھ ٹھوس نفع پہونچا۔

            (۷)’’رنگیلا رسول‘‘ کے مقدمہ کے سلسلے میں شاہجہانپور کی اکثر مساجد میں تقریریں کراکر مسلمانوں میں صحیح جذبات پیدا کرکے ان کی اقتصادی حالت درست کرائی۔بکری کے گوشت وغیرہ کی اکثر اسلامی دوکانیں اور مسلمانوں سے خرید و فروخت کے جذبات بہت کچھ اراکین انجمن کی سعی کا نتیجہ ہیں ۔

            (۸)اس دوران میں بہت سے غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے  جن کے نام برابر اخباروں میں شائع ہوتے رہے ۔بعضوں کو اپنے مصارف سے پان سگریٹ وغیرہ کی دکانیں بھی کرادیں ۔

            (۹)شہباز نگر میں تبلیغی حیلہ سے قادیانیوں نے قدم جمائے اور پھر مسلمانوں کو فیصلہ کن مناظرہ کا چیلنج دیا جس پر ایک کثیر تعداد کے ایمان و ارتداد کا دار و مدار تھا۔ انجمن نے فوراََ مناظر روانہ کیے؛ مگر قادیانیوں نے فرار کو قرار پر ترجیح دی وہاں ضروری تقریریں کرکے واپس آئے اور یوں بہت مسلمانوں کے ایمان سلامت رہے۔

            (۱۰)جمعیۃ تبلیغ الاسلام صوبہ کی ایک درخواست پر نو مسلموں کی تعلیم کے واسطے قیمت چرم قربانی سے ایک کافی رقم روانہ کی۔

            (۱۱)اہل قرآن نے بذریعہ اخبارات و رسائل شاہجہانپور میں پروپیگنڈا شروع کیا تھا۔ اس کی مقامی اخبارات میں تردید کی اور اس سے مسلمانوں کو خبر دار کردیا۔

            (۱۲)مخالفین و متردّدِین سے تبادلہ خیال کے واسطے انجمن نے برابر ایک جماعت تیار رکھی اور اس سے بہت کچھ اصلاح ہوئی۔

            (۱۳)ہماری قابل ذکر خدمت یہ ہے کہ موضع نودیہ تحصیل پوایاں میں مسلمان بچوں کی تعلیم کے واسطے ایک مدرسہ جاری کیا جو اس وقت تک قائم ہے۔ اس مدرسہ میں تقریباََ ۲۵ بچے تعلیم پاتے ہیں ۔ اوقات تعلیم کے علاوہ مدرس صاحب وعظ و نصیحت اور مسلمانوں کی عام اصلاح میں اپنا وقت گزارتے ہیں ۔ اور گاؤں کی مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں اس مدرسہ سے ہماری بہت کچھ امیدیں وابستہ ہیں خدا ان کو جلد پورا کرے۔

            (۱۴)اراکین انجمن کی سعی سے موضع لودی پور میں تین آدمیوں نے قادیانیت سے توبہ کرتے ہوئے تجدید ایمان کی اور مجمع عام کے سامنے توبہ کرتے ہوئے گاؤں کی مسجد میں ایک دستخطی تحریر لکھ دی جو اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔

عرض داشت

            آخر میں میری گزارش جناب سے ہے کہ یہ کام جو اب تک انجمن نے کیے ہیں صرف انبار سے یکمشت ہے۔ابھی اس کے سامنے مقاصد اور اغراض کی کثرت ہے شہر میں مختلف تبلیغی و تنظیمی کاموں کے علاوہ دیہات میں مکاتب کا قیام نہایت ضروری ہے۔۔۔۔مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ہماری موجودہ حالت کب تک اور کس قدر کفالت کر سکے گی۔ میں آپ کے جذبات ملی و قومی سے پر زور مرافعہ کرتا ہوں کہ آپ جلد اس کی دستگیری فرمائیے ورنہ ہم اور آپ سب خدا کے سامنے جواب دہ نہ ہوں گے۔ امداد کی بہتر صورت یہ ہے کہ آپ فوراََ رکنیت قبول فرمائیں اور کثرت سے رکن بن جائیں ۔

ہماری کفایت شعاری

            ہماری کفایت شعاری اور مصائب میں احتیاط کا اندازہ اس طر ح سے کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کے دفتر کے واسطے کوئی مکان حاصل نہیں کیا گیا ہے اور ہمارے ذاتی مکانات اس کے دفتر کا کام دے رہے ہیں ۔انجمن کا کوئی تنخواہ دار ملازم سوائے ایک چپراسی کے نہیں ہے جس کی تنخواہ صرف آٹھ روپیہ ماہوار مقرر ہے۔یہ جگہ بھی کچھ دنوں ہی سے بڑھائی گئی ہے ورنہ بیشتر انجمن کے ارکان تمام دفتری کام خود انجام دیتے تھے۔اگر چہ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کو اس قدر تکلیف نہ دی جائی گی۔اب ملاحظہ فرمائیے کہ تمام سال ماسبق کا دفتری خرچ صرف اٹھارہ روپئے پندرہ آنہ ہوا اس میں تنخواہ چپراسی پندرہ روپیہ سوا تین آنہ کے علاوہ دوسرے سامان خطوط کے ٹکٹ اور اجرت اعلانات وغیرہ پر خرچ ہوئے۔

انجمن کے قُویٰ اور جوارِح

            سخت ناسپاسی ہوگی اگر میں جناب مولوی ابو الوفاء صاحب صدر مدرس مدرسہ قیومیہ شاہجہانپور و جناب حاجی ڈاکٹر نثار احمد خانصاحب باڑوزوئی وجناب مولوی طفیل احمد صاحب باڑوزوئی و جناب مولوی محمد کفایت اللہ صاحب مدرس مدرسہ سعیدیہ شاہجہانپور اور اس قسم کے دوسرے بزرگوں کی خدمات کا تعارف نہ کراؤں ، یہ وہ دردمند مخلصین ہستیاں ہیں جنہوں نے اس انجمن کی بنا و تشکیل کے وقت سے تا ایں دم انجمن کی بڑی بڑی خدمات کی ہیں ۔ آئندہ شاید ددوسرے کام کرنے والے بھی آئیں اور ممکن ہے کہ ان سے زیادہ کام کریں ؛ مگر تقدم اور (بحالت کسمپرسی ) انجمن کی امداد کا تفوق صرف انہیں کو حاصل ہے۔ مختصراََ یہ کہ یہی حضرات بانیان انجمن ہیں اور یہی اس کو ترقی دینے والے ہیں ‘‘۔( دوسالہ روئداد انجمن اصلاح المسلمین شاہجہاں پور ۔ بابت ۱۳۴۵ھ و ۱۳۴۶ھ، پیش کردہ بموقع جلسہ سالانہ منعقدہ ۲۵؍صفر۱۳۴۷ھ مطابق ۱۲ ؍اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۴؍۵؍۷، محفوظات مرکز التراث الاسلامی دیوبند نمبرTKN-633)

            یاد رہے کہ شاہجہانپور میں کچھ قبیلے افغانستان سے آئے ہوئے آباد ہیں اسی لیے شہر کے بعض مقات اورمضافات میں آباد قصبات کے نام افغانی قبائل کے نام سے آج بھی موسوم ہیں ۔ اردو میں لکھنے کا انداز وہی سو سال پرانا ہے؛ لیکن اس میں مقصد کی بہت سی تاریخ پنہا ہے ۔ان مخلصین کے کام کرنے کا انداز اور جفاکشی دیکھیے اور یہ بھی دیکھیے کہ حفاظت دین کے لیے کسی کے تعاون پر ہی منحصرنہیں ؛ بلکہ اپنے جیب خاص سے صرفہ کرکے عوام کا دین بچانے کا دیوبندی مزاج کس آب وتاب سے جھلک رہا ہے ۔اپنے کام میں مخلص ہونے کا سرٹیفکٹ ابنائے زمانہ دے رہے ہیں ؛ بلکہ شکریہ بھی ادا کررہے ہیں ۔نیز یہاں سے اس بات کا بھی ثبوت مل رہا ہے کہ ماضی میں ہمارے اکابر تحفظ ختم نبوت کی خدمت کو باضابطہ ممبری اور رکنیت پر موقوف رکھتے تھے اور ممبران ہی سے اخراجات پورے کیے جاتے تھے ۔ع

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

دفاع اسلام کے میدان میں اکابر علمائے دیوبند کا اعتماد

            حضرت مولانا ابو الوفاءؒ صاحب کو صرف فتنۂ قادیانیت ہی نہیں بلکہ رسوم وبدعات اور لامذہبیت کے رد و تعاقب میں بھی ید طولیٰ حاصل تھا جس کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔مضمون کی طوالت کے خوف سے اس عنوان پر تحریری مواد سے صرف نظر کرتے ہوئے چند زندہ و زبانی تأثرات سے قارئین کو روشناس کرایاجاتا ہے ۔دار العلوم دیوبند کے متعدد اساتذہ نے بتایا کہ حضرت مولاناؒ اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے باضابطہ ملازم نہیں تھے؛ لیکن ہر جگہ دار العلوم دیوبند کے ترجمان ہی کی حیثیت سے متعارف تھے ۔

            چنانچہ حضرت مولانا نعمت اﷲ صاحب اعظمی مدظلہ استاذ الاساتذہ دار العلوم دیوبند نے بتایا کہ ایک دفعہ قصبہ گنگوہ میں ذہنی و فکری آوارگی میں مبتلاہونے والے ایک فرقہ کے متأثرین سے مناظرہ کی ضرورت پڑی تو حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ نے مولانا ابو الوفاء صاحب کو گنگوہ بھیجا اور بذات خود بھی اس مناظرے میں شریک رہے ۔بعض تحریروں سے یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت تھانوی نور اﷲ مرقدہ نے بھی بعض مواقع پر مناظروں میں اپنے اعتماد کا اظہار فرمایااور دفاع عن الاسلام کے لیے میدان مناظرہ میں بھیجا ہے ۔سچ ہے ۔ ایں سعادت بزور بازو نیست ۔تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ۔

            راقم سطور کے استاذ محترم حضرت مولانا محمد اقبال فائق قاسمی صاحب مدظلہ مہتمم جامعہ عربیہ تاج العلوم لچھمی پور گنگرائی ضلع مہراج گنج نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مولانا شبیر احمدصاحب مفتاحیؒ مہتمم جامعہ صادقیہ مہراج گنج نے اہلِ بدعت کے مشہور و معروف عالم کو مناظرہ کے لیے موضع گبڑوا میں دعوت دی ۔ مناظرہ کے سامعین و ناظرین کی ایک بڑی تعداد قرب وجوارکے مسلم گاؤں ، رام پور بلڈیہا،سسواں بازار، کھیم پپرا،لچھمی پور گنگرائی وغیرہ سے وہاں جمع ہوگئی۔ چشم دید گواہوں کا بیان ہے کہ ترجمان اہل بدعت نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی جب کہ مولانا ابو الوفاء صاحبؒ کا اگلے روز بھی اعلانیہ بیان ہوا ۔ آپ کا شہرہ اس علاقہ میں آج بھی قائم ہے اور اس علاقہ کے ایک مشہور گاؤں نٹوا، متصل مہراج گنج میں آپ کے دست مبارک سے ایک وسیع وعریض مسجد کی بنیاد آپ کی یادگار ہے۔ حضرت مولانا کے قدر داں اوراس مسجد کے بڑے معاونین میں موضع ’’کھیم پپرا‘‘ کے جناب محمد عثمان صاحب ؒ اور جناب لیاقت علی صاحب منصوریؒ رہے ہیں جن کا خانوادہ جناب شفاعت علی صاحب ابن لیاقت علی منصوری، جناب ماسٹر محمد اختر، رحمت علی، شمشیر علی وغیرہ پر مشتمل آج بھی شاد و آباد ودینی خدمات سے وابستہ ہے ۔

            اسی طرح جناب مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب مہتمم مدرسۃ الصفۃللبنات سون پپری کا بیان ہے اس علاقہ میں باطل فرقوں کی ریشہ دوانیوں سے عوام کو جب بھی بچانے کی اور مناظرے کی ضرورت محسوس ہوتی حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کودعوت دی جاتی رہی ہے اور وہ مسلک علمائے دیوبند کے ترجمان کی حیثیت سے ہمیشہ تشریف لاتے رہے ہیں ۔ اسی طرح مولانا ہدایت اﷲ صاحب قاسمی مدظلہم، ناظم تنظیم رابطۂ مدارس عربیہ و علمائے ضلع مہراج گنج و صدر مدرس جامعہ عربیہ سیوا نگر حیدر آباد کا باوثوق بیان ہے کہ اُس وقت کے بافیض عالم دین حضرت مولانا صوفی مجیب اﷲ صاحبؒ کی دعوت پر  حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا مدرسہ اشرف العلوم کرتھیااور مدرسہ بیت العلوم بیروا چندن ضلع مہراج گنج ( متصل نیپال ) میں بارہا آمد ہوئی ہے ۔ یہ علاقہ بدعات و خرافات سے زیادہ متأثر تھا؛ لیکن حضرت ممدوح کی باربارآمد نے اس پورے علاقے کو صحیح الفکر اسلامی عقائد ودیوبندی مسلک کا ایساگڑھ بنادیا کہ اس کے فیوض و برکات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں جب کہ یہ علاقہ ہندوستان و نیپال کے درمیان بارڈر کا وہ حصہ ہے جہاں اُس زمانے میں بمشکل ہی کسی عالم دین اور وہ بھی اس پایہ کے کسی مبلغ دین کی آمد و رفت ہوتی تھی ۔

            دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ ۱۹۸۰ء کے موقع پر روزنامہ الجمعیۃ دہلی نے جو خصوصی شمارہ شائع کیا اس میں ایک مضمون نگار جناب مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری، بعنوان’’ دار العلوم دیوبند ؛ فتنوں کے مقابلہ میں ‘‘ لکھتے ہیں :

            ’’بریلویت کا کھل کر اور میدا ن میں آکر مقابلہ کرنے والے سب سے اول بزرگ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ہیں ۔ انہوں نے اہل بدعت سے سب سے پہلا مناظرہ بہاولپور میں ۱۲۹۷ھ میں کیا جس میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ کے علاوہ حضرت شیخ الہندؒ،مولانا صدیق احمدصاحبؒ،مولانا مراد احمد صاحب شریک تھے۔ اہل بدعت کو اس میں شکست ہوئی۔ رد بدعت میں حضرت گنگوہیؒ کے ارشاد کے بموجب سب سے پہلی کتاب حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ نے لکھی جس کانام ’’ہدایت الرشید‘‘ ہے۔ اس کے بعد’’ المُہنّدعلی المُفنّد‘‘ تحریر فرمائی۔ ان کے بعد حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ نے بہت کتابیں تحریر فرمائیں ۔حضرت شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ نے اس بارے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔میلاد اکبر وغیرہ میں حلقہ دیوبند کے خلاف بریلوی حضرات نے علماء حرمین سے فتاوی حاصل کیے تھے؛لیکن حضرت قدس سرہ نے اس بارے میں علماء حرمین کا بہت ذہن صاف کیا اور ایک وقت وہ آیا کہ جب بریلوی حضرات کو حرمین میں دوبارہ نماز جماعت سے ادا کرنے پر باہر نکالاگیا۔ حضرت مدنیؒ کی کتاب ’’الشہاب الثاقب‘‘ بہت عمدہ کتاب ہے۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا مرتضی حسن صاحب چاند پوری ؒ،حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہانپوریؒ، مولانا محمد یونس صاحب بگھروی نے گجرات اور مہاراشٹر کے علاقہ میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیۃ دہلی، دار العلوم دیوبند نمبر مورخہ ۲۶؍مارچ ۱۹۸۰ء ص۱۲۰، محفوظات مرکز التراث الاسلامی دیوبنداخبارنمبر 17، موصولہ از حکیم محمد سعید سینٹرل لائبریری ہمدرد، دہلی )

            واضح رہے کہ مفتی عزیز الرحمن بجنوریؒ کے بارے میں راقم نے دار العلوم دیوبند کے ایک متحرک فاضل جناب مولانا محمد عرفان صاحب شیرکوٹی بجنوری سے وضاحت چاہی تو موصوف نے بتایا کہ مفتی صاحب( ولادت ۱۹۲۵ء وفات ۲۰۰۴ء) قصبہ نہٹور کے رہنے والے اور حضرت مدنیؒ کے خلفاء میں سے تھے نیز بہت ساری کتابوں کے مصنف بھی رہے ہیں ۔

            مذکورہ بالا اقتباس میں جن اکابر شخصیات کا ذکر آرہا ہے اُن سے زمانہ متعارف ہے؛ البتہ اُن کے درمیان ’’مولانا محمد یونس صاحب بگھروی‘‘ رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے جو ذکرآرہاہے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے موجودہ ’’بنگلہ دیش‘‘ میں فرقہائے باطلہ کے رد و تعاقب میں زبر دست کارنامے ہیں ۔ خدا معلوم آپ کے مساعی جمیلہ کی سنہری تاریخ کو وہاں ؛ کوئی جاننے اور بتانے والا ہے یا نہیں جو آج بھی تاریخ کے اوراق پارینہ میں محفوظ و دستیاب ہے۔ حضرت موصوف کا وطن اصلی دیوبند سے قریب ضلع مظفر نگر (یوپی) میں قصبہ ’’ بَگھرا‘‘ہے اور یہیں مدفون بھی ہیں لیکن اشاعت دین کی لگن میں اپنے وطن سے کئی ہزار کیلومیٹر دور برہمن باریہ کے علاقے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی اوراس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کونبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواب میں ایک مرتبہ زیارت نصیب ہوئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’برہمن باریہ‘‘ میں قادیانی فتنہ کی نشاندہی فرماتے ہوئے وہاں کام کرنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو بچانے کی طرف توجہ دلائی تو اس غیبی بشارت پر جگہ کا نام معلوم کرتے ہوئے وہاں پہنچے اور مرزائیوں کے رد و تعاقب میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جو آج بھی جامعہ یونسیہ کے نام سے جاری ہے اور علاقے کا مرکزی ادارہ ہے۔برہمن باریہ میں مسلمانوں کی غفلت اور خاموشی کا فائدہ اٹھاکر مرزائیوں نے پورے علاقہ کو ارتداد کی لپیٹ میں لے لیا تھا؛ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مولانا محمد یونس بگھراوی کی محنتوں نے اس علاقے کو فتنۂ قادیانیت سے پاک کیا۔باری تعالیٰ؛تحفظ ختم نبوت کے اِس موَفّق بالخیر سپاہی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ؛آمین۔

نعت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے میدان میں

             حضرت مولانا ابو الوفاء صاحبؒ کو باری تعالیٰ نے جن خوبیوں سے نوازا تھا ان میں سے ایک صفت باذوق نعت گوئی   بھی ہے جو شرعی دائرے میں رہتے ہوئے افراط و تفریط سے پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شان اقدس میں ہے۔آپ اپنا تخلص ’’عارف ‘‘ رکھتے تھے۔ حضرت مولاناؒ کوجس طرح بیان سیرت اور دیگر علوم و فنون میں ید طولی حاصل تھا اسی طرح آپؒ کی شاعری میں بھی پڑھنے والوں کو تمام تر شعری کیفیات و تأثرات ملیں گے۔غزل گوئی میں اپنے رفقائے بزم کے مابین آپ شہرت رکھتے تھے۔ آپ کی تحریر کردہ نعتوں میں درست عقائد کے ساتھ رسول اکرم … کی سیرت طیبہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام صلح وامن، اخوت و مساوات،بلند حوصلگی، کسر نفسی،فراخ د لی اور عالی ظرفی وغیرہ خوبیوں کا بھی ثبوت ملے گا اورنبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے حقیقی عشق و محبت کے جلوے بھی نظر آئیں گے، انداز بیان کا والہانہ پن،مترنم بحریں ملیں گی۔حضرت مولانا ؒ کا نعتیہ مجموعہ ’’صدائے عارف‘‘ کے نام سے آپ کی حیات مبارکہ میں ہی زیور طبع سے آراستہ ہوچکا تھا جس کے مرتب آپ کے سفر و حضر کے رفیق جناب ساجد صاحب لکھنویؒ ہیں ۔  بطور مثال حضرتؒ کا ایک نعتیہ کلام پیش کیا جاتا ہے:

مرضیِ مصطفی…

جسے رفعتیں بھی نہ پاسکیں وہ نبی کی رفعت تام ہے

جو زوال سے نہیں آشنا وہ انہی کا بدر تمام ہے

جو ہے رمز راز حیات کا جو ہے نغمہ ساز حیات کا

وہ نبی حق  ؑپر دُرود ہے وہ حبیب حق  ؑپہ سلام ہے

ہے قیام حکم وہ دیں اگر ہے قعود ان کی جو ہورضا

بجز ان کی مرضیِ پاک کے نہ قعود ہے نہ قیام ہے

بخدا ہے مرضیٔ مصطفی جسے حق کہے ہے مری رضا

جسے وحی حق کہے خود خدا وہ انہی کا پاک کلام ہے

وہ حبیب خالقِ دو جہاں وہی کُنہ محفل کُن فکاں

وہ نبی حق وہ رسول ہے وہی انبیاء کا امام ہے

جو نگاہ لطفِ کرم اٹھے تو خزاں بھی موسم گل بنے

جو نظر پھرے تو یہ فصل گل بھی خزاں کا ایک پیام ہے

بخدا خدا تو نہیں ہیں وہ مگراتنے حق سے قریب ہیں

جہاں وہم بھی نہ پہونچ سکے وہ بلند اُن کا مقام ہے

کہیں حشر میں شہ انبیاء کہ کدھر ہے عارفؔ روسیاہ

اُسے لاؤ دامن عفو میں وہ ازل سے میرا غلام ہے

                                                                        (صدائے عارف، ص:۸ مطبوعہ مکتبہ دین و ادب کچا احاطہ لکھنؤ)

وفات و تدفین

            علمی قلمی اور زبانی خداداد صلاحیتوں کے ذریعہ عمر بھر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بالآخر تحفظ ختم نبوت کے بے باک و بے لوث مجاہد ۶؍فروری ۱۹۸۰ء میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ لیجیے ہم بھی پڑھیں اور آپ بھی پڑھیے ’’ انا للہ و انا الیہ راجعون ‘‘ بوقت انتقال تین لڑکے اور دو لڑکیاں پسماندگان میں چھوڑیں ۔ آج بھی الحمد ﷲ آپ کے احفاد میں دین حق سے وابستگی اورعلم دین سے تعلق باقی ہے۔زہد و اتقاء کے ساتھ آپ نے بڑی خوشگوار زندگی پائی، اخیر عمر میں چندماہ علیل رہے، اس دوران بھی علماء اور اہل علم کا ایک بڑا طبقہ ملاقاتیوں میں آپ سے رجوع کرتا رہتاتھا۔ابھی چار سال قبل جب حضرت کے دولت کدے پر راقم سطور کوحاضری کا موقع ملا تو اسی مکان میں جس میں حضرت قیام پذیر رہے،اہل خاندان سے دادا محترم کی خدمات دینی کے بہت سے واقعات سننے کو ملے۔آپ اقرباء میں سے مولانا رعایت علی صاحب شاہجہاں پوری فاضل دار العلوم دیوبند تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان منتقل ہوگئے اور غالباً دار العلوم کراچی میں وہ کامیاب استاذ رہے۔جب کہ دو حقیقی بھائی مولانا شریف احمد قاسمی، جناب نیاز احمد صاحب اورتین بہنیں ہندوستان میں ہی شادوآباد رہے۔

             انتقال کے بعدبہت سے مشہور زمانہ سیاسی اور غیر سیاسی، علمی و دینی شخصیات نے جنازہ میں شرکت کی،مکان کے سامنے ہی واقع قبرستان ’’ جنگلہ ‘‘میں ۷ فروری ۱۹۸۰ء کی عصر و مغرب کے درمیان تدفین عمل میں آئی۔ بہت سے ماہناموں اور روزناموں میں تعزیتی مضامین و پیغامات شائع ہوئے۔ ان میں سے حضرت مرحوم کے ہم عصر نابغۂ روزگار شخصیت حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کے قلم سے ایک تعزیتی مضمون ماقبل میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔مزید اکابر علمائے دیوبند کی لگائی ہوئی صحافتی پود اور معتبر روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی سے بھی ایک مطبوعہ خبرمن و عن درج ہے ملاحظہ کیجیے۔

آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا۔ مولانا ابو الوفاؒ رحلت فرماگئے

صدر محترم اور ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کا اظہار تعزیت، ایصال ثواب

            نئی دہلی! ۸ فروری ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں میں یہ خبر انتہائی حزن و الم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ ایک اور آفتاب علم و عمل غروپ ہوگیا۔یہ اندوہناک سانحہ ہے کہ طوطی ٔہند حضرت مولانا ابو الوفاء شاہجہانپوری رحلت فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔حضرت مولانا ابو الوفاء صاحب ایک طویل عرصہ سے صاحبِ فراش تھے؛ بالآخر ۶؍فروری کو صبح نو بج کر ۴۵ منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ۷؍فروری کو شاہجہانپور میں جسے آپ نے ایک عرصہ ہوا اپنا وطن بنالیاتھا تدفین عمل میں آئی۔ حضرت مولانا لہر پور ضلع سیتا پور میں پیدا ہوئے تھے۔ کئی برس مدرسہ قیومیہ میں استاد رہے۔جمعیۃ علماء ہند کے کئی سال تک نائب صدر رہے اخیر تک مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ آپ نے تحریک خلافت اور جمعیۃ علماء ہند کی دیگر تحریکات میں جن میں مدح صحاؓبہ شامل ہے حصہ لیا۔ آپ مجلس احرار سے بھی وابستہ رہے۔آپ خطیب بے بدل تھے۔سیرت مقدسہ پر اس زمانہ میں آپ سے بہتر تقریر کرنے والا کوئی اور نہیں تھا۔تقریر میں اشعار بے ساختہ استعمال کرتے تھے۔آپ کے انتقال سے علمی، دینی اور ملی صفو ں میں جو خلاء پیدا ہوگیا ہے اسے مدتوں بہت شدت سے محسوس کیا جائے گا اور اس کو پورا کرنا مشکل ہوگا۔

            جمعیۃ علماء ہند کے حلقوں میں حضرت مولانا کے انتقال پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ اور ادارہ الجمعیۃ بھی دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقامات سے نوازے۔ (روزنامہ الجمعیۃ جلد ۲۵ شمارہ نمبر ۳۸۔۲۰؍ربیع الاول ۱۴۰۰ھ م ۹؍فروری۱۹۸۰ء،محفوظات مرکزالتراث الاسلامی دیوبند اخبار نمبر1980- 17)

            اخیر میں ممنون ہوں اپنے کرم فرماں مخدوم و مکرم حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب مدظلہ کا کہ حضرت نے تحفظ ختم نبوت کے ایک فقید المثال مجاہد پر کچھ لکھنے کی تحریک فرمائی اور مضمون مکمل ہونے تک برابر حوصلہ افزائی فرماتے رہے نیز اسم با مسمّیٰ جناب حافظ ابرار احمد صاحب حیدرآبادی مدظلہ رکن مجلس تحفظ ختم نبوت دہلی (مقیم حال ابوظبی) جناب مولانا اکرام اﷲ صاحب قاسمی ابن حضرت مفتی کفایت اﷲ ثانی ؒ و مولانا محمد عثمان صاحب شاہجہاں پوری، جناب الحاج ریاض احمد صاحب منصوری و مولانا کامران احمدقاسمی ابن الحاج محمد عرفان صاحبؒ قصبہ محمدی لکھیم پور اورمرکز التراث الاسلامی دیوبند کے کارکنان جناب محمد احمد صاحب و مولانا شہباز اخترکا بھی کہ ان حضرات نے ہندوستان میں لاک ڈاؤن سخت ہونے کے باوجود ا س مضمون کا مواد فراہم کرنے میں مخلصانہ کردار ادا کیا۔ فجزاہم اﷲ خیراً۔ وصلی اﷲ علی خاتم النبیین و المرسلین محمد و علی آلہٖ و أصحابہ أجمعین ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین۔

      ۱۴ رمضان المبارک یوم جمعہ ۱۴۴۱ھ مطابق ۸ مئی ۲۰۲۰ء

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts