ازقلم: مفتی اسعد قاسم سنبھلی

            رمضان کے آخری عشرے میں بر صغیر کے جلیل القدر عالم ، اہل السنۃ والجماعۃ کے امام اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری ؒ داغ مفارقت دے گئے، سنت الٰہی کے مطابق ہر صدی میں کچھ عبقری شخصیات پیدا ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر سلف کی یاد آتی ہے اور معاصر ین ان کے علم وفضل سے متاثر ہوکر خود بھی لکھنے پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،حضرت مفتی صاحب اس عہد کی ایسی ہی عظیم شخصیت تھے جو متقدمین کی طرح بیک وقت تفسیر وحدیث ،فقہ وتاریخ اور بلاغت وکلام جیسے تمام موضوعات پر یکساں عبور رکھتے تھے ہمارے نزدیک شیخ محمد بن طاہر پٹنی ؒ کے بعد گجرات میں اتنا بڑا محدث پیدا نہیں ہوا اور پورے عالم اسلام میں شاید دوچار علماء ہی ایسے موجود ہوں جنھوں نے بخاری ومسلم اور جامع ترمذی کی وقیع ومفصل شروح کے ساتھ قرآن کریم کی بھی مبسوط ومکمل تفسیر لکھی ہو ،پھر ان کا ایک اور عظیم کارنامہ حضرت شاہ ولی اللہ کے علوم ومعارف کی نقاب کشائی ہے، حضرت مفتی صاحب ؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘ لکھ کر نہ صرف ایک جہاں کو حیرت میں ڈال دیا؛ بلکہ اس علمی قرض کو بھی ادا کیا جسے چکانے کی حسرت لیے امام العصر حضرت کشمیری ؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ،حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب ؒ، شمس العلماء حضرت مولانا محمد منظور نعمانی اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی دنیا سے چلے گئے۔ 

            شخصیات عموما کسی عظیم المرتبت کی پروردہ ہوتی ہیں اور تاریخ میں ایسے قدآور علماء کم پائے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی شخصیت کی تعمیر میں دوسروں سے زیادہ خود حصہ لیا ہو اور اپنی سعادت ونجابت ،استقامت و الوالعزمی اور توفیق الٰہی کی بدولت وہ بام عروج پر پہنچے ہوں حضرت مفتی صاحب عہد حاضر میں اس سلسلے کی ایک زندہ مثال تھے انھوں نے اسلاف وکابر کی زندگیاں پڑھ کر اپنے لیے ایسا لائحہ عمل بنایا جس پر کاربند ہوکر وہ ترقی کے مراحل طے کرتے گئے اور اس دور زوال میں بالآخر وہ عظیم مفسر، جلیل القدر محدث ،فقیہِ دوراں ،معلم بے بدل ،مرشد کامل ، مربی ٔ لاثانی  اور دلوں میں گھر کرنے والا واعظ ومقرر پیدا ہوا جس نے اپنے عظیم کارناموں سے امت کودوراقبال کی یاددلادی، مفتی صاحب کی شخصیت بڑی بھاری بھرکم تھی اگر وہ کہیں کا دورہ کرتے تو پورے خطے میں ہلچل مچ جاتی، اگر کسی ادارے میں بخاری ختم کراتے تو وہاں عید کا سماں ہوتا پھر کیا علما ،کیا طلبہ سب ان کی مجلس پرپروانوں کی طرح ٹوٹ پڑتے اور کسی مسئلے میں اگر وہ کوئی رائے قائم کرتے تو انشراح کے بعد حضرت کی استقامت چٹان کی طرح ہوتی ،پھر کسی سے مرعوب ہوتے نہ لومت لائم کی پرواہ کرتے اور ہم جیسے عقیدت مند ہی نہیں ان کے معاصرین بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے ۔

            ہم دور آخر کی پیداوار ہیں اور ہم نے پچھلی صدیوں کے علماء نہیں دیکھے؛ لیکن اہل علم اگر مجھے اجازت دیں تو میں یہ کہنے کی جرأت کروں کہ میں نے علامہ عینیؒ، امام سفار ینیؒ، ملاعلی قاریؒ ،ابن الہمامؒ ، شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ ، محدث گنگوہیؒ اورمجدد تھانویؒ کو دیکھا ہے ،ہاں ہاں بس زمانے کا فرق ہے حضرت مفتی صاحبؒ کی ذات ستودہ صفات میں واقعتا ان تمام شخصیات کا مشترک عکس جمیل نظر آتا ہے ،کل جب مورخ ان کے اوصاف وکمالات سے تاریخ کی کہکشاں سجائے گا اور اہل قلم ان کی عظمت وعبقریت پر مقالے لکھیں گے تو ہمیں بھی اس پر فخر ہوگا کہ ہم نے حضرت مفتی صاحبؒ کو دیکھا ہے ، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے ہیں اور بارہا ملاقات کرکے حضرت کی خوب خوب دعا ئیں لی ہیں ، یہ وہ سعادت ہے جس کی لوگ آئندہ تمنا کریں گے اور اس وقت ہم اپنی قسمت پر پھولے نہ سمائیں گے ۔

            حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات کی خبر سن کر آنکھ باربار روئی؛ لیکن آج کچھ لکھنے کے لیے بیٹھا تو قلم بھی زاروقطار رونے لگا، بھلاخود جس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہو وہ دوسروں کو صبر کی تلقین کیسے کرے ہم بہر حال دکھے دل اور نمناک آنکھوں سے مرحوم  کے اہل خانہ،عزیز واقارب اور تمام مخلصین وعقیدت مندوں کو تعزیت پیش کرتے ہوئے یہ صراحت ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کی وفات کوئی خاندانی سانحہ نہیں ؛ بلکہ ایک دلدوز ملی حادثہ ہے جس نے تمام علماء کو تڑپا دیا اور مشرق ومغرب میں پھیلے حضرت کے عقیدت مند تلامذہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے نوحہ گری کی شریعت میں بالکل اجازت نہیں ؛اس لیے ہم تو بس دست بستہ یہی عرض کرتے ہیں کہ اے تفسیر وتاویل کے امام!  اے حدیث وفقہ کے شہسوار! اے ختم نبوت کے بے باک مجاہد! اے اسلامی تاریخ کے زریں باب! اے دین وشریعت کے ترجمان!  اے مشائخ وعلماء کے امام و پیشوا !! ہم تیری فرقت پر آبدیدہ ہیں ، تیری جدائی ہم پر بجلی بن کر گری ہے ،تیری وفات کی خبر سن کر آنکھیں چھلک پڑیں ،دل رنج وغم سے بھر گیا اور ہرسو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا، اگر زمانے کی گردش معمول پر ہوتی تو ایک خلقت تیرے دیدار کے لیے امنڈ پڑتی اور دنیا پھر وہی منظر دیکھتی جو وارثین نبوت ،پاسبان شریعت اور شارحین دین متین کے جنازوں کا ہوتا ہے کہ اس میں ،مخلصین ومقبولین کے ساتھ شرکت کے لیے آسمان سے فرشتے بھی اترتے ہیں ہمیں اس سعادت سے محرومی کا پوری زندگی قلق رہے گا ، اور مدتوں ہم اس غم کو نہ بھلا سکیں گے اب تو آخر میں بس یہی دعا بے ساختہ ہماری زبان پر آتی ہے کہ باری تعالی تجھے بلند سے بلند مقام سے نوازے اور ہم بھی رحمت ومغفرت سے سرشار ہونے کے بعد جنت میں تیرے جوار میں بسیں ؛ تاکہ دنیا میں استفادہ کی جو کسر رہ گئی وہ آخرت میں پوری ہو ۔ مولی تو بڑا رحیم وکریم ہے ہمارے ان ارمانوں کو حقیقت میں بدل دے اور ہمیں اپنے فضل وکرم سے محروم نہ فرما۔   اللّٰہم آمین۔  إن العین تدمع، وإن القلب یحزن، ولکن لانقول إلاما یرضي ربنا اللّٰہ، أنتم لنا سلف، ونحن بکم لاحقون، وإنا بفراقک یا شیخنا لمحزونون۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭        ٭        ٭

Related Posts