حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری نوراللہ مرقدہ

شیخ الحدیث وصدرالمدرسین

حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری نوراللہ مرقدہ

دیوبند تشریف آوری، تصانیف وعلمی خدمات ویادگار مجالس

از: مولانا خورشید حسن قاسمی

دارالعلوم دیوبند

            حضرت اقدس حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری نوراللہ مرقدہٗ کا تعلق راقم الحروف کے خانوادہ سے حضرتؒ کے زمانہ طالب علمی سے تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جس وقت راقم الحروف مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ فارسی وریاضی کی کتب کا ابتدائی طالب علم تھا اس وقت والد ماجد حضرت مولانا سیّدحسن صاحبؒ سابق استاذ تفسیر وحدیث دارالعلوم دیوبند سے درس مشکوٰۃ شریف متعلق تھا اور حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوریؒ حضرت قبلہ والد ماجد کی خدمت میں جماعت مشکوٰۃ کے دیگر چند طلباء کی طرح حضرت والد صاحبؒ کے ہمراہ اکثر وبیشتر راقم الحروف کے خاندانی مکان جامع مسجد تشریف لاتے اور حضرت والد صاحبؒ سے خارج میں بھی استفادہ فرماتے اور یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ نومبر۱۹۶۰ء میں طویل عرصہ کے بعد پاکستان سے حضرت والد صاحبؒ کے حقیقی ماموں جد المکرم فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی دیوبند تشریف آوری ہوگئی حضرت والد صاحبؒ نے موقع کو غنیمت خیال فرماتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ سے تبرکاً مشکوٰۃ شریف کے ایک درس کی تدریس کے لیے گذارش فرمائی جس کو حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے منظور فرمالیا اور مشکوٰۃ شریف کی فضیلت علم سے متعلق ایک حدیث کا درس دیا مذکورہ درس میں حضرت مفتی سعیداحمد صاحبؒ بھی شریک رہے مذکورہ درس حضرت مولانا شاہد حسن صاحب قاسمیؒ سابق استاذ دارالعلوم دیوبند نے قلم بند کیا اور حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کی نظرثانی اور باہمی اصلاح کے بعد کتابی شکل میں ’’طلباء دین سے حضرت مفتی محمد شفیعؒ کاایک یادگار خطاب‘‘ کے نام سے شائع بھی فرمایا۔ بہرحال مذکورہ مناسبت کے بعد حضرت مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کا راقم الحروف کے خانوادہ اور احقر سے تعلق اور مناسبت میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔

            حضرت مفتی پالن پوری صاحبؒ کو حضرت والد صاحبؒ کے علاوہ جن اکابر اساتذہٴ کرام سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں :

دورہٴ حدیث کے اساتذہٴ کرام

            استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاویؒ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ فخرالدین صاحبؒ، حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ، حضرت مولانا سیّدفخرالحسن صاحب، حضرت مولانا بشیراحمدخاں صاحبؒ، حضرت مولانا محمد عبدالاحد صاحب دیوبندیؒ وغیروغیرہ۔ ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں دورہٴ حدیث شریف سے فراغت کے بعد حضرت مفتی صاحبؒ نے مادرعلمی کے شعبہ افتاء میں داخلہ لیا اور افتاء میں بھی امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل فرمائی۔ فراغت افتاء کے بعد بھی مشق و تمرین کا سلسلہ جاری فرماتے رہے اور حضرت مفتی صاحبؒ کو حضرت مولانا مفتی سیّدمہدی حسن صاحب شاہجہاں پوریؒ صدرمفتی دارالعلوم دیوبند نے افتاء کی سند خصوصی بھی عنایت فرمائی اور کچھ عرصہ تک مفتی صاحبؒ نے معین مفتی کے طور پر بھی شعبۂ افتاء دارالعلوم میں خدمات انجام دیں ۔

            بہرحال خدمت افتاء کے علاوہ مفتی صاحبؒ نے بشمول دارالعلوم دیوبند ملک کے دیگر مدارس میں نصف صدی سے کچھ زائد عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں ، حضرتؒ کے تلامذہ ہندوپاکستان، بنگلہ دیش کے علاوہ امریکہ، لندن وغیرہ اور عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں خدمت افتاء وخدمت تدریس میں مشغول ہیں ، حضرتؒ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور دارالعلوم دیوبند میں بھی درجہ ابتدائی، درجہ وسطیٰ اور بعض درجہ علیا کے استاذ حضرتؒ کے خاص تلمیذ ہیں ۔ حضرت اقدسؒ اُن نامور چند حضرات اساتذہٴ کرام میں سے ہیں کہ جن کو ابتداء سے لے کر انتہاء تک اکثر علوم وفنون کی تدریس کا موقع ملا اور آپؒ کا درس طلباء میں ہمیشہ مقبول رہا، درسی تقریر پرمغز اور تفہیم عام فہم رہتی، فقہی اختلافی مسائل میں ائمہ اربعہ کے دلائل کے علاوہ حضرات احناف کے ترجیحی دلائل کا خاص خیال فرماتے؛ لیکن وجہ اختلاف کو ضرور ذکر کرتے، حضرتؒ کثیر التصانیف اساتذہٴ کرام میں سے ہیں اور حضرتؒ کی تصانیف کی تعداد پچاس سے بھی زائد ہے۔ حضرتؒ کی تصانیف، تفسیروحدیث، فقہ وافتائ، نحو وصرف، منطق، فلسفہ غرض تقریباً جملہ علوم وفنون متداولہ پر مشتمل ہیں بعض تصانیف، سوانح وتاریخ سے متعلق بھی نیز درسی کتب کی شروحات اور فقہی مقالات وتحقیقی فتاویٰ اس کے علاوہ ہیں جو کہ بلاشبہ ملت کے لیے عظیم سرمایہ اور گنج گراں مایہ ہیں اہم تصانیف کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں :

            تفسیر ہدایت القرآن کامل آٹھ جلد یہ تاریخی آسان تفسیر ہے جس کا آغاز حضرتؒ نے دیوبند تشریف لانے کے بعد تقریباً فوراً ہی بعد فرمایا۔ ابتداء میں مذکورہ تفسیر کے آغاز قرآن کریم کے آٹھ پارے کی تفسیرحضرت مولانا کاشف الہاشمی راجوپوریؒ نے فرمائی اور پارہٴ عم کی تفسیر بھی حضرت راجوپوریؒ ہی نے فرمائی تھی؛ لیکن بعد میں حضرت مفتی صاحبؒ نے آغاز قرآن تا ختم قرآن کریم مذکورہ تفسیر کی تکمیل فرمائی، تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری کامل بارہ جلدیں ، شرح ترمذی شریف اردو کامل، رحمت اللہ الواسعہ، شرح حجۃ البالغہ، تعلیقات وتشریحات حجۃ اللہ البالغہ حواشی وحوالہ جات شرح الفوزالکبیر، امداد الفتاویٰ جس کی صرف ایک ہی جلد ادارہ تالیفات اولیاء دیوبند سے شائع ہوسکی، تسہیل بیان القرآن کامل، فیض المنعم شرح مسلم شریف، ایضاح المسلم جلد اوّل، زبدۃ الطحاوی شریف کتاب الصلوٰۃ، کتاب الطہارت، مفتاح التہذیب شرح، شرح تہذیب اردو، حیات امام طحاوی شریفؒ، حیات امام ابودائودؒ، کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟ شرح رسم المفتی، آپ فتویٰ کیسے دیں ، مسائل حرمت مصاہرت، آسان نحو، آسان صرف وغیرہ وغیرہ۔

            حضرتؒ کی مجلس: علوم ومعارف کا خزانہ تھی اور علمی جواہر پاروں کا عظیم مجموعہ تھی جوکہ تفسیری نکات حدیثی تشریحات، فقہی اشکالات کے جوابات اور واقعات اکابر کے علاوہ سائنس جدید سے پیداہونے والے نت نئے سوالات کے جوابات اور بیش بہا معلومات پر مشتمل ہوتی تھی جس میں ارباب افتاء حضرات اساتذہ کرام اور طلباء دلچسپی سے شرکت فرماتے مدکورہ مجلس ہمارے اکابر کے طرز کی یادگار مجلس تھی۔ مذکورہ مجلس کے ملفوظات وافادات اگر کتابی شکل میں شائع ہوجائیں تو یقینا ملت کے لیے رہنما تصنیف ثابت ہوں ۔

            حضرتؒ کی حیات طیبہ کا خاص طور سے قابل ذکر پہلو یہ ہے تدریسی ودیگر علمی وتصنیفی وانتظامی غیرمعمولی مشغولیات کے باوجود اہل محلہ اور مسجد محلہ کے احوال سے خوب واقفیت رکھتے اور مسجد محلہ کی ضروریات کی تکمیل اور اہل محلہ کا بھی تعاون سرپرستی فرماتے یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ کی خصوصی توجہ سے محلہ اندرون کوٹلہ کی مسجد جو کہ طویل عرصہ سے بوسیدہ اور شکستہ حالت میں تھی مذکورہ مسجد کی تزئین وتعمیرجدید عمل میں آئی اور حال میں بھی حضرت موصوف کی توجہ کی برکت سے مذکورہ مسجد کی توسیع کے لیے مسجد کے متصل جانب مشرق ایک وسیع مکان کی خریداری عمل میں آئی اور حضرت کے جذبۂ صلۂ رحمی کا عالم یہ تھا کہ محلہ کے ایک غریب رکشہ چلانے والے کی شکستہ حالت کا علم ہوا تو حضرتؒ نے دارالعلوم مستقل آمد ورفت کے لیے اسی کا رکشہ مقرر فرمایا اوراس طرح حسن تدبیر سے مذکورہ شخص کا مزید تعاون فرماتے رہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ انتظام فرمائیں گے تواس کو بیٹری والا رکشہ خریدوں گا؛ اس لیے کہ اب ہاتھ رکشے پر لوگ سوار نہیں ہوتے ہیں ۔

            حضرت کی ذاتِ گرامی اہل محلہ اور اہل علاقہ کے لیے نعمت غیرمترقبہ تھی اور ایک انجمن اور ایک ادارہ تھی آج علمی حلقوں کے ساتھ عوامی حلقے بھی حضرتؒ کی وفات حسرت آیات کی وجہ سے آہ بلب اور اشک بار ہیں ۔

            خداوندقدوس حضرتؒ کے درجات بلند فرمائے اور جملہ پسماندگان اور متعلقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین ثم آمین۔

—————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts