حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            ۲۵؍رمضان ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰÷ منگل کا دن، پوری ملت اسلامیہ اور بالخصوص اُس کے مرکزِ ثقل دارالعلوم دیوبند کے لیے رنج والم کا پیغام لایا کہ اُس کے شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین اور علوم وفنون کی جامعیت میں نمونۂ سلف حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری چند روزہ علالت کے بعد مسافرانِ آخرت میں شامل ہوگئے۔  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضیٰ ربنا وإنا بفراقک یا شیخنا لمحزونون۔

            یہ جانکاہ خبر چند منٹوں میں دنیاکے طول وعرض میں پھیل گئی اور تمام دینی طبقوں کو سوگوار کرگئی۔ سب لوگ ایک دوسرے سے تعزیت کرنے لگے، اُن کے تلامذہ کو یتیمی کااحساس ستانے لگا، بڑے بڑے علماء خراج عقیدت پیش کرنے لگے اور تمام اہلِ نظر ایک عجیب خلا محسوس کرکے فکرمند نظر آنے لگے اور سبھی کی زبانِ حال سے گویا یہ مضمون ادا ہونے لگا۔؎

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہرِ مبیں نہیں ہے

تری جدائی پہ مرنے والے! وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے؟

            حضرۃ الاستاذؒ کی وفات پر تحریری وزبانی تاثرات اور اظہار رنج وغم کا ایک غیرمعمولی سلسلہ جاری ہے، مضامین پر مضامین چلے آرہے ہیں ، رسائل کے خصوصی نمبر نکل رہے ہیں ، خود ہمارے پاس اشاعت کے لیے اچھے اور معیاری مضامین اتنی تعداد میں آچکے ہیں کہ ان کو رسالہ کے چار شماروں کی ضخامت میں بھی سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں اس مدیر عاجز کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ نہایت اختصار کے ساتھ اپنے جذبات وتاثرات پیش کرکے دیگر اہل قلم کی تحریرات سے استفادے کی راہ ہموار کرے۔

            حضرۃ الاستاذ قدس سرہٗ کے امتیازات وخصوصیات پر لکھنے والوں نے اپنے اپنے بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے، جس کے نمونے آئندہ صفحات میں آپ کے سامنے آئیں گے، اس کوتاہ بیں نے اس عظیم شخصیت کی انفرادیت کو جس انداز میں محسوس کیا اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے۔

            (۱) مثالی مدرس: حضرت کی شخصیت مبارکہ کی شاہ کلید، احقر کی نظر میں تدریس ہے، وہ فطری اور بنیادی طور پر مدرس تھے، معلم تھے اور اگر آپ غور سے دیکھیں تو صاف محسوس ہوگا کہ اُن کا ملکۂ تدریس صرف درسگاہ تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ وہ اپنی تصنیفات اور تقریر وتحریر میں بھی ایک سنجیدہ اور مشفق وماہر استاذ ہی نظر آتے ہیں ، جو اپنے فن پر پوری طرح حاوی ہوکر اپنے قاری اور سامع کو بھی اُسی طرح مضمون سمجھاتے ہیں جس طرح وہ درسگاہ میں گہر افشانی فرماتے ہیں ۔

            تدریس کے لیے حضرت کی سنجیدگی اور محنت مثالی تھی،  وہ فریضۂ تدریس کی انجام دہی اس طرح فرماتے تھے جیسے اس کو مقصد زندگی سمجھتے ہوں ۔ اسی کی یہ برکت تھی کہ اللہ رب العزت نے اُن کے سبق کو بے نظیر مقبولیت سے نوازا جس کی شہرت ملکوں ملکوں پہنچی۔

            یہ سطور لکھتے ہوئے اچانک یاد آیا کہ ہم نے تعلیمی سال ۱۴۰۷ھ-۱۴۰۸ھ میں حضرت سے ترمذی شریف اور طحاوی شریف پڑھی اس کے اگلے سال (۱۴۰۸ھ-۱۴۰۹ھ) میں ہم لوگ تکمیل ادب سے فارغ ہوئے تو النادی الادبی کے دفتر میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی، اس میں ہمارے ایک ساتھی (مولانا ظفراحمد اعظمی) نے ایک الوداعی نظم پیش کی جس کا پہلا مصرع اس طرح تھا

ع         یہ ہنستے کھیلتے منظر تو ہوں گے، ہم نہیں ہوں گے

            اس نظم میں انھوں نے حضرات اساتذئہ کرام کے بارے میں بھی اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کیا، اس میں حضرۃ الاستاذ سے متعلق شعر اس طرح تھا۔؎

وہ کس پر درسگاہِ جامعہ مغرور ہے یارو!

سنو! وہ افتخارِ ارضِ پالن پور ہے یارو!

            اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب سے تیس پینتیس برس پہلے بھی ان کا درس طلبہ کے درمیان مقبولیت کی کس معراج پر تھا، اور اب تو بلاشبہ اُن کے درس کی مقبولیت ملکوں کی سرحدوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی تھی اور عالم یہ ہوگیا تھا کہ (میرؔ کے شعر میں ترمیم کرکے) کہا جاسکتا ہے۔؎

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے                     سب اُسی کے درس کے اسیر ہوئے

            (۲) جہد مسلسل: حضرۃ الاستاذ قدس سرہ کی دوسری صفت جس کو اس کوتاہ ہمت نے سب سے زیادہ محسوس کیا وہ اُن کی انتھک محنت اورمسلسل کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ ان کی زندگی کا جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ چوبیس گھنٹے میں کوئی وقت کسی بامقصد کام کے بغیر گزارنے کے قائل ہی نہیں تھے۔ ان کی تدریس کی طرح تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی سارے سال جاری رہتا تھا، یہاں تک کہ سفر میں مسودات کی تصحیح اور پروف ریڈنگ وغیرہ کا کام کرتے رہتے تھے۔ پھر تدریس صرف دارالعلوم کے اسباق تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ گھر پر، پہلے بیٹوں اور پھر پوتوں کو پڑھانے کا معمول ہر دور میں جاری رہا۔ اسی کے ساتھ ان کا تجارتی مکتبہ (مکتبہ حجاز) جب تک صاحبزادوں نے نہیں سنبھالا، اس کے بھی سارے کام خود ہی کرتے تھے۔ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ باری تعالیٰ نے اُن کو قوت عمل اور توفیقِ عمل عطا فرمانے میں خصوصی رحمت سے کام لیاہے۔

            (۳) جامعیت: حضرۃ الاستاذ رحمہ اللہ کا سب سے اہم امتیاز اُن کی جامعیت ہے۔ یہ جامعیت، مختلف پہلوئوں سے سمجھی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے تو جامعیتِ علوم وفنون ہے کہ وہ بیک وقت ایک ممتاز محدث، مفسر اور فقیہ تو تھے ہی۔ اس کے علاوہ منطق وفلسفہ اور نحو وصرف جیسے علوم آلیہ میں بھی گہری نظر اور مہارت کے حامل تھے۔ پھر یہ جامعیت، تدریس اور تالیف میں بھی نمایاں ہے، وہ ان تمام علوم وفنون کی کتابیں بے تکان پڑھاتے تھے اور تقریباً ان تمام ہی علوم میں ان کی تالیفات ہیں جن میں سے بہت سی کتابیں مدارس کے نصاب میں داخل  درس ہیں ۔ زبانوں کو دیکھا جائے تو وہ عربی، اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کے علوم سے گہری واقفیت اور اُن کی تدریس و تشریح نے ان کی شخصیت کی علمی گیرائی وگہرائی کو عمومی اعتراف اور قبول عام عطا کردیا تھا۔

            جامعیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ شریعت وطریقت دونوں کے شناور تھے، اسی طرح وہ اعلیٰ درجہ کے مدرس، مقبول مقرر اور عالی مقام مصنف تھے۔ اور ان تینوں میدانوں بالخصوص تدریس وتصنیف میں اُن کا مقام بلند، اُن کے نام کو زندئہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔

            (۴) خود اعتمادی اور صبر وہمت: حضرۃ الاستاذ کی ایک نمایاں صفت جو ہمیشہ احقر نے محسوس کی وہ ان کی خوداعتمادی اور ہمت وحوصلہ تھا، خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی اپنی بات پیش کرنے میں جھجکتے نہیں تھے، ہم نے اُن کو ایسی مجالس میں بھی گفتگو کرتے دیکھا جہاں اُن کے اساتذہ واکابر موجود ہوتے؛ لیکن ان کی خود اعتمادی میں کوئی فرق نہ آتا، بسا اوقات وہ عام رائے سے مختلف کسی رائے کا اظہار فرماتے تو اس میں بھی ان کی بے پناہ خود اعتمادی کارفرمارہتی۔

            جہاں تک ہمت وحوصلہ کی بات ہے تو اس باب میں ان کی نظیریں کم ملیں گی۔ مشکل سے مشکل حالات اور بڑے سے بڑا صدمہ پیش آنے پر بھی اُن کی ہمت اور صبر دیکھنے کی چیز ہوتی۔ احقر کو اس کا سب سے پہلا تجربہ اُس وقت ہوا جب شوال ۱۴۱۵ھ میں اُن کے بڑے صاحبزادے مولانا رشید احمد رحمہ اللہ کی ایک حادثہ میں شہادت ہوئی اور حضرۃ الاستاذ سفر میں ہونے کی وجہ سے جنازہ میں بھی شریک نہ ہوسکے۔ پھر جب تشریف لائے تو اگلے دن احقر تعزیت کے لیے حاضر ہوا، اُس وقت چند مقامی اور بیرونی حضرات بھی تعزیت ہی کے لیے آئے ہوئے تھے۔ خود میری طبیعت پر اس حادثہ کا اثر تھا؛ لیکن جیسے ہی حضرت سے تعزیت کا ایک آدھ جملہ کہا تو حضرت نے کئی منٹ تک تسلی آمیز گفتگو فرمائی جس پراحقر نے عرض کیا کہ: حضرت! ہم تو آپ کی تعزیت کے لیے حاضر ہوئے تھے؛ لیکن آپ سے مل کر ہماری تعزیت ہوگئی اور ہمیں سکون ملا۔ واقعہ یہ ہے کہ اُس دن رضا بالقضاء کا اعلیٰ ترین نمونہ ہم نے دیکھا۔ آخر میں (وفات سے چند ماہ پہلے)  دوسرے صاحبزادے حافظ سعید احمد صاحب رحمہ اللہ کے انتقال کا صدمہ بھی اُسی صبر وہمت کے ساتھ برداشت کیا۔

            یہی حوصلہ بیماری اور تکلیف میں سامنے آتا تھا، آخر کے آٹھ دس سال مختلف امراض اور تکالیف میں گزرے؛ لیکن اُن سے بات کرکے یا اُن کے کام دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی خاص بات ہی نہ ہو۔ اسی ہمت وحوصلہ کی وجہ سے بسااوقات بیماری اور علاج پر ضروری توجہ نہ ہونے کی صورت بھی پیش آتی تھی۔ ایسے بعض مواقع پر، جب اصاغر کا توجہ دلانا کافی نہ ہوا تو اہل تعلق نے حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ کے ذریعہ متوجہ کرایا، جن کی بات کا معاصرین میں سب سے زیادہ لحاظ کرتے تھے اور اُن کو بھی حضرۃ الاستاذ سے محبت تھی۔

            حقیقت یہ ہے کہ حضرۃ الاستاذ مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری نوراللہ مرقدہ کی شخصیت اس دور میں اُن شخصیات میں تھی جن سے علم وفن کی آبرو قائم رہتی ہے اور خلق خدا کے دلوں میں اُن کی عظمت بیٹھ جاتی ہے اور اُن کے نام اور کام زندئہ جاوید رہتے ہیں ۔

            جی تو نہیں چاہتا کہ اس تدکرے کو مختصرکیا جائے؛ لیکن سردست،اختصار کے سوا چارہ بھی نہیں ہے، آئندہ جب توفیق ہوگی ان شاء اللہ کچھ مزید معروضات پیش کی جائیں گی۔

            اس وقت آپ دیگر حضرات کے متنوع مضامین سے استفادہ فرمائیں جن میں حضرۃ الاستاذؒ کی شخصیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

            ایک گزارش اور معذرت: یہاں یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کی مقبولیت کا ایک مظہر یہ سامنے آیا کہ بغیرکسی فرمائش کے اپنے قلبی داعیہ کے تحت بے شمار اہل علم واصحاب قلم نے مضامین تحریر فرمائے۔ اُن میں سے تقریباً بیس مضامین اور چند پیغامات تعزیت اس اشاعت میں شامل کیے گئے ہیں (جو چار ماہ کی ضخامت پر مشتمل ہے) پھر بھی بڑی تعداد میں بیش قیمت مضامین اشاعت سے رہ گئے ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کم از اکم اُن حضرات کے نام ذکر کردئیے جائیں جن کے مضامین فی الحال شامل نہیں ہوسکے ہیں ؛ تاکہ ان سے معذرت بھی ہوجائے اور قارئین کو اُن کا علم بھی ہوجائے، کوشش کی جائے گی کہ آئندہ حسب گنجائش ان حضرات کے مضامین سے بھی استفادے کی راہ نکالی جائے۔ ان شاء اللہ۔

            جناب مولانا مفتی اخترامام عادل صاحب بانی ومہتمم جامعہ امام ربانی منوروا شریف بہار، جناب مولانا ڈاکٹر اسجد قاسمی ندوی صاحب مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ مرادآباد، جناب مولانا فضیل احمد ناصری صاحب استاذ حدیث جامعۃ الانور دیوبند، جناب مولانا مفتی شکیل منصور قاسمی جنوبی امریکہ، جناب مولانا حسین القاسمی صاحب امروہہ، جناب مولانا احمدسعد صاحب قاسمی مہتمم المعہدالعلمی دیوبند، جناب محترم ڈاکٹر فیضان بیگ صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،  جناب مولاناڈاکٹر محمد نجیب قاسمی صاحب سنبھلی، جناب مولانا محمد مصطفی امین پالن پوری دیوبند، جناب مولانا امدادالحق بختیار قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد، جناب مولانا خورشیدعالم دائود قاسمی زامبیا، جناب مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی حیدرآباد، مولانا زبیراحمد قاسمی، جناب مولانا حکمت اللہ حنیف قاسمی افغانی، جناب مولانا عبدالسلام ابراہیم لاجپوری مسجد قبا، لندن، جناب مولانا ساجد بن انعام جمال لونا واڑہ، مولوی محمد ذکوان متعلّم دارالعلوم دیوبند، مولوی طفیل احمد دربھنگوی متعلّم دارالعلوم دیوبند، مولانا شعیب عالم مظفرنگری مدرسہ سلیمانیہ کاندھلہ۔

=============

            نوٹ: حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نوراللہ مرقدہٗ سے متعلق مضامین پر مشتمل چارماہ کی ضخامت کا شمارہ تیار ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ اس پر جو ڈاک خرچ آئے گا وہ چار ماہ کے شماروں کے مقابلے  دوگنے سے بھی زیادہ ہوگا، کچھ اور بھی دشواریاں سامنے آئیں ، اس لیے اب اس کو دو دو ماہ کے علیحدہ شماروں کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts