از: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            انسانی زندگی کے لیے نکاح ایک ضروری رشتہ ہے، یہ رشتہ باقی رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، توڑنے کے لیے نہیں ، عام معاملات کی طرح جب چاہے باقی رکھے اورجب چاہے ختم کردے، نکاح ایسا رشتہ ہرگز نہیں ، نکاح کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے؛ مگر نکاح کے بعد کبھی جدائی کا خیال بھی نہیں لانا چاہیے۔ اس کے باوجود کبھی درمیان میں ایسے اسباب پیش آجاتے ہیں جن کی وجہ سے ایک ساتھ رہنا دشوار ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں شریعت نے طلاق، فسخ اور خلع کے طریقے بتائے ہیں ، یہ ساری شکلیں مشکل اور مجبوری میں اختیار کیے جانے والے راستے ہیں ۔ شوہر کے لیے طلاق کا راستہ ہے اور بیوی کے لیے خلع حاصل کرنے کا اور رہا قاضی تو وہ فسخ کی صورت اپناتا ہے۔

            ذیل میں کچھ پیش آمدہ اسباب لکھے جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے شادی شدہ خواتین کو دشواری پیش آتی ہے اور شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔

فالج

            ازدواجی زندگی میں جائز طریقے سے خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے؛ اس لیے ہر وہ مرض جو مانعِ جماع ہوموجبِ تفریق ہوسکتا ہے۔ اگر شوہر کو فالج ہوجائے تو اس کی تین صورتیں ہوں گی:

            ۱- فالج زدہ شوہر کے ساتھ اگر بیوی رہنا چاہے تو تفریق کی نوبت نہیں آئے گی، وفادار بیوی کو ایسا ہی کرنا چاہیے، شوہر نے اپنی صحت کے زمانے میں اس کا خیال رکھا ہے تو بیماری کے زمانے میں بیوی کو شوہر کا خیال رکھنا چاہیے، اگر بیوی ساتھ رہنا چاہے تو کوئی جدا نہیں کرسکتا۔ مثل مشہور ہے: ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی!‘‘

            ۲- اور اگر بیوی ساتھ رہنا چاہتی ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ فالج کس حد تک پہنچا ہوا ہے؟ اگر وہ مانعِ جماع نہیں ہے یعنی فالج کے باوجود شوہر جماع پر قادر ہے تو بیوی کو فسخِ نکاح کے مطالبے کا حق نہیں ہوگا اور اُسے معمولی بیماریوں پر قیاس کیا جائے گا، اگر وہ فسخِ نکاح کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا مطالبہ رد کردیا جائے گا۔

            ۳- اور اگر فالج کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ وہ حرکت بھی نہیں کرسکتا اور اس کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہتے، اب اس کو صحت کی کوئی امید نہیں ؛ تواگر بیوی تفریق کا مطالبہ کرے اور وہ اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہو تو اولاً شوہر سے طلاق لینے کی کوشش کی جائے گی اگر وہ طلاق دے دے تو بہتر ہے ورنہ قاضی اس کو بیوی کی مجبوری سمجھا کر خلع کا مطالبہ قبول کرنے پر آمادہ کرے گا، اگر وہ خلع قبول کرلے تو بیوی بائنہ ہوکر جدا ہوجائے گی۔

            اگر وہ خلع قبول نہ کرے تو قاضی فوراً نکاح فسخ کردے گا۔ فوراً نکاح کے فسخ کو ’’مجبوب‘‘ کے مسئلہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔

            ہدایہ میں ہے:

          وإن کان مجبوبًا فرَّق بینہما في الحال إن طلبتْ؛ لأنہٗ لا فائدۃَ في التأجیل۔ (ہدایہ:۲/۴۰۱)

            ترجمہ: اور اگر شوہر ایسا ہوکہ اس کاآلۂ تناسل کٹا ہوا ہو تو فوراً دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی، اگر بیوی تفریق کا مطالبہ کرے؛ اس لیے کہ مہلت دینے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

            درمختار میں ہے:

          فَرَّقَ الحاکم بطلبہا۔ (الدر علی ہامش رد المحتار باب العنین ۲/۵۹۲)

            ترجمہ: عورت کے مطالبۂ تفریق پر حاکم تفریق کردے گا۔

            اگر صحت کی امید ہو تو عنین کی طرح علاج ومعالجہ کا موقع دیا جائے گا اور میری رائے میں فالج کے ماہر ڈاکٹروں کے مشورے سے مدت متعین کی جانی چاہیے، عنین کی طرح ایک سال کی مہلت متعین نہیں کرنی چاہیے!

اگر شوہر کو ایسی بیماری ہوجائے جس کی وجہ سے حقِ زوجیت ادا نہ ہوسکے

            کبھی شوہر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس سے جماع کی قدرت ختم ہوجاتی ہے اور بیماری لاعلاج ہوتی ہے اگر ایسی صورت میں بیوی ساتھ رہنے پر راضی ہوتو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے تفریق کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس صورت میں بھی سب سے پہلے وہ طلاق لینے کی کوشش کرے، اگر شوہر طلاق دینے پر راضی نہ ہوتو کچھ مال دے کر خلع پر راضی کرے اگر اس پر بھی راضی نہ ہو تاہوتو قاضی کے پاس فسخ کا مطالبہ کرے، قاضی پہلے مرض کی تحقیق کرے گا جب عورت کا دعویٰ ثابت ہوجائے تو بلاکسی انتظار کے اس کا نکاح فسخ کردے گا،  جس طرح شوہر کے مجبوب ہونے کی صورت میں فوراً تفریق عمل میں لائی جاتی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔ فتاوی حمادیہ میں ہے:

          قال محمدؒ: إن کان بالزوج عیبٌ لا یمکنہٗ الوصولُ إلی زوجتہ، فالمرأۃُ مخیرۃٌ بعد ذلک۔ (الحیلۃ الناجزۃ، ص۳۹)

            ترجمہ: امام محمد فرماتے ہیں : اگر شوہر میں کوئی ایسا عیب ہو جس سے بیوی تک رسائی ناممکن ہوتو عورت کو اس عیب کے بعد فسخِ نکاح کا اختیار ہوگا۔

            مجموعۂ قوانینِ اسلام میں ہے:

            ’’ہر وہ مرض جو مانعِ جماع ہو موجبِ تفریق ہوسکتا ہے۔‘‘ (مجموعہ قوانینِ اسلام ۲/۶۲۲، نیز دیکھیے: فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۰/۲۳۲)

اگر شوہر کو ایسی بیماری ہوگئی جو بیوی کے لیے باعثِ نفرت ہو

            اگر شوہر کو برص (سفید داغ) اور جذام (کوڑھ: جسم کے کسی حصے کا سڑنا) یا اس جیسی کوئی اور بیماری  ہوجائے جس سے قوتِ جماع ختم نہ ہو؛ مگر بیوی ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہواور وہ تفریق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک عورت کا مطالبہ رد ہوجائے گا؛ لیکن امام محمدؒ عورت کو تفریق کے مطالبہ کا اختیار دیتے ہیں ، حضرت امام محمدؒ کا مسلک راجح ہے، فتح القدیر (۲/۱۵۳) میں اس کی وضاحت ہے۔

          اما إذا کان ذلک (أي العیب) بالرجل فلا خیارَ لہا أیضاً إلّا فیما یمنع الوطأَ مثل العنۃ والجبّ في قول أبي حنفیۃ وأبي یوسفؒ وقال محمدؒ: إذا کان بہٖ دائٌ لا یمکنہا المقام معہ مثل الجذام ونحوہ خیرت۔ (شرح مختصر الطحاوی للجصاص نکاح الشغار ۲/۶۸۵، بدائع الصنائع ۲/۵۸۱، ہندیـــۃ ۱/۵۲۶) وقول محمد أرجح۔ (فتح القدیر ۲/۱۵۳ محرمات)

ایڈز یا اس جیسی مہلک متعدی بیماریوں کی وجہ سے تفریق

            اگر شوہر کو ایڈز ہوجائے یا اس جیسی کوئی متعدی بیماری ہوجائے جس سے بیوی میں بیماری منتقل ہونے کا شدید اندیشہ ہو تو اس صورت میں اگر بیوی تفریق کا مطالبہ کرے تو تفریق کردی جائے گی۔ ’’مجموعۂ قوانین اسلام‘‘ میں ہے:

            ’’ایسے متعدی مرض کی بنا پر عورت کو حقِ تفریق دیا جانا چاہیے ، الخ‘‘ (۲/۶۲۴)

اگر شوہر کی منی میں قوتِ تولید نہ ہو

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر جماع پر قادر ہوتا ہے؛ مگر اس کے مادئہ منویہ میں کروم زوم کم ہوتے ہیں جس سے تولید نہیں ہوتی ایسی صورت میں اگر کوئی عورت تفریق کا مطالبہ کرے تواس کا مطالبہ رد کردیا جائے گا؛ اس لیے کہ دوسرے شوہر سے بھی اولاد کا ہونا یقینی نہیں ، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں بیٹی دیتے ہیں ، جس کو چاہتے ہیں بیٹا دیتے ہیں ، جس کو چاہتے ہیں دونوں دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں بے اولاد چھوڑ دیتے ہیں (شوری:۵۰) یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔

            فتاویٰ ہندیہ میں ہے:  لولم یکن لہٗ ماء ویجامع فلا ینزِلُ لا یکونُ لہا حقُ الخصومۃ۔ کذا فی النہایۃ۔ (ہندیہ ۱/۵۲۵ زکریا دیوبند)

اگر شوہر کو عمرقید ہوجائے

            اگر شوہر کو کسی جرم کی وجہ سے عمرقید کی سزا ہوجائے اور رہائی کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں اور بیوی اپنی عفت وعصمت پر خطرہ محسوس کرکے فسخِ نکاح کا مطالبہ کرے تو سب سے پہلے شوہر سے رابطہ کرکے طلاق لینے کی کوشش کی جائے، عورت اگر یہ کوشش کرسکتی ہو تو کرے اگر نہیں تو دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ شوہر سے رابطہ کرے، طلاق مل جائے تو بہتر ہے۔ (کفایۃ المفتی ۶/۱۱۰، ۱۱۲ میں تھوڑی تفصیل ہے)

            اگر شوہر طلاق نہیں دیتا ہے یا خلع قبول نہیں کرتا تو عدم انفاق، عدم وطی اور عفت وعصمت کی حفاظت وغیرہ کو علت بناکر دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ کے ذریعہ علماء کی جماعت فسخِ نکاح کردے گی۔

            اگر اتفاق سے شوہر قید سے چھوٹ کر آجائے تو بیوی اگر دوسرا نکاح نہیں کی تھی تو دوبارہ اس سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے، اگر وہ دوسرا نکاح کرچکی ہوتو وہ نکاح باقی رہے گا؛ کیوں کہ سابق شوہر سے نکاح فسخ ہوچکا ہے اور فسخ نکاح طلاق بائن کے حکم میں ہوتا ہے۔

            اگر شوہر سے رابطہ ناممکن ہوتو فسخ نکاح کا فیصلہ پیچیدگی پیدا کرسکتا ہے؛ اس لیے کہ اگر وہ واپس آجائے تو خواہ عورت کے دوسرے نکاح کے بعدآئے یا دوسرے شوہر کے دخول کے بعدآئے دونوں صورتوں میں بیوی پہلے شوہر ہی کی ہوگی۔ (دیکھیے: الحیلۃ الناجزہ، ص:۱۸۳،۹۵، امارت شرعیہ ہند نئی دہلی)

میاں بیوی کے درمیان سخت جھگڑا

            میاں بیوی کا جھگڑا کوئی نئی بات نہیں ، یہ ہر گھر کی کہانی ہے، اس کے اسباب کچھ بھی ہوسکتے ہیں ، کبھی شوہربدمزاج ہوتا ہے، تھوڑی تھوڑی سی بات پر مارتا پیٹتا ہے، کبھی بیوی بدزبان ہوتی ہے، کبھی ایک دوسرے کے ناجائز تعلقات کی وجہ سے جھگڑا ہوتا ہے، کبھی تعلیم و تہذیب، خاندان میں غیرمعمولی تفاوت کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے وغیرہ؛ اس طرح آپسی رنجش بڑھتی چلی جاتی ہے ایسی حالت میں قرآن مجید درج ذیل رہنمائی کرتا ہے:

          وَاللاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلاً۔ (نساء:۳۴)

            ترجمہ: اور جن بیویوں کی نافرمانی کا تم کوڈر ہے تو تم ان کو نصیحت سے سمجھائو اور خواب گاہوں میں ان سے علاحدگی برتو اور ان کو مارو، پھر اگر تمہارا کہنا مان لیں تو ان پر راہ مت تلاش کرو!

            اگر بیوی مان جائے تو طلاق کی راہ نہیں اپنائی جائے گی اور شوہر کی غلطی ہوتواس کو بھی شرعی لحاظ سے غلطی کا احساس دلایا جائے گا اور مصالحت کی کوشش کی جائے گی، بیوی جلدبازی میں خلع یا فسخ کا مطالبہ نہیں کرے گی۔

            میاں بیوی کے اختلاف کو حل کرنے کے لیے اگر حَکَمْ اور ثالث کی ضرورت پیش آئے تو دونوں طرف کے لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اختلاف کے اسباب پر غور کریں اورمصالحت کی پوری کوشش کریں ، اس کی وضاحت بھی قرآنِ پاک میں ہے:

          وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَمًا مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیدَا إِصْلاَحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا خَبِیرًا (النساء:۳۵)

            ترجمہ: اور اگر تم میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا خوف کرو تو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے گھروالوں کی طرف سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے گھر والوں کی طرف سے بھیجو، اگر دونوں اصلاحِ حال کا ارادہ کریں تو  اللہ تعالیٰ دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرمادیں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے اور خوب خبر رکھنے والے ہیں ۔

            اگرمصالحت کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں توشوہر کے لیے بہتر ہے کہ بیوی کاراستہ نہ روکے اس کو ایسی پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر چھوڑے جس میں جماع نہ کیاہو۔

            اگر شوہر طلاق نہ دے تو بیوی کچھ مال کی لالچ دے کر یا مہر معاف کرکے خلع پر راضی کرلے، اگر شوہر راضی ہوجائے تو خلع پر رضامندی ایک طلاقِ بائن کے قائم مقام ہوگی اور بیوی کو خلاصی حاصل ہوجائے گی۔

            اگر شوہر خلع کو بھی قبول نہ کرے اور معاملہ دارالقضاء میں آجائے تو وہاں بھی مصالحت یا پھر طلاق یا پھر خلع کی صورت اپنائی جائے، اگر ان سب میں ناکامی ہوتو میاں بیوی سے ایک ’’حَکَم نامہ‘‘ منظور کرایا جائے اور پھر فسخ کی صورت اپنائی جائے۔

            ’’کتاب الفسخ والتفریق‘‘ میں مولاناعبدالصمد رحمانیؒ نے مالکیہ کا مسلک اختیار کرنے کی گنجائش بھی لکھی ہے کہ ایسی صورت میں بیوی قاضی سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے (ص۱۴۷) مزید تحریر فرماتے ہیں :

            ’’حالات کے پیش نظر اگر مارپیٹ حد ضرر تک ہو اور عورت تنگ ہوکر تفریق کا مطالبہ کرے اور حنفی قاضی کو فریقین سے تحقیقِ حال کے بعد شواہد وثبوت سے یہ ظنِ غالب ہوجائے کہ عورت اپنے دعویٰ میں سچی ہے تو امام مالکؒ کے مسلک پر ان کی تصریحات کے مطابق فیصلہ دے سکتا ہے۔‘‘(ص۱۴۸)

اگر شوہر کفریہ کلمہ بولے

            اگر شوہرایسی بات بولے جس سے کفر لازم آرہا ہو تو وہ مرتد ہوجائے گا اوراس کا نکاح فوراً فسخ ہوجائے گا۔ اس پر فقہائے اربعہ کا اجماع ہے (الحیلۃ الناجزہ، ص۲۰۸)، علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں :

          وارتدادُ احدِہما فسخٌ عاجلٌ بلا قضاء (الدر المختار مع رد المحتار ۴/۳۶۶ زکریا)

            ترجمہ: اور زوجین میں سے کسی ایک کا مرتد ہونا نکاح کو فوراً ختم کردیتا ہے، بغیر قضائے قاضی کے (تفریق ہوجائے گی)۔

            اگر شوہر کفریہ کلمہ بولنے کا اقرار کرتاہے، تب تو بیوی اس کے نکاح سے خارج ہوجائے گی اور عدت گزرنے کے بعد بیوی کو دوسری جگہ نکاح کا اختیار ہوگا۔

            اور اگر شوہر اقرار نہیں کرتا ہو؛ بلکہ بیوی دعویٰ کرتی ہو کہ شوہر نے کفریہ کلمہ بولا ہے تواس کے قول پر دلیل قائم کرنا بیوی کی ذمہ داری ہوگی۔

            اگر بیوی اپنے دعویٰ کو ثابت کرلے تو تفریق ہوجائے گی اور دوبارہ نکاح کے لیے بیوی کو مجبور نہیں کیا جائے گا، وہ اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

            بہتر یہ ہے کہ بیوی قابلِ اعتماد علمائے کرام سے رابطہ کرکے مسئلہ کی پوری نوعیت کو سمجھے یا کسی قابلِ اعتماد دارالافتاء سے فتویٰ لے کر اقدام کرے، اگر یہ معاملہ دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ میں پیش کرے تو زیادہ بہتر ہے۔

اگر بیوی کفریہ کلمہ بولے

            اگر بیوی کفریہ کلمہ بولی تو اس میں ائمہ احناف کے تین اقوال ہیں :

            (الف) اس کا نکاح فسخ ہوجائے گا؛ لیکن تجدیدِ اسلام کے بعد تجدید نکاح پر مجبور کیا جائے گا اور کسی دوسری جگہ نکاح کا اختیار نہ ہوگا۔ یہ ظاہر الروایہ ہے۔

            (ب) اس کا نکاح فسخ نہ ہوگا، دونوں بہ دستور میاں بیوی رہیں گے۔

            (ج) عورت کنیز بن کر رہے گی۔

            موجودہ ہندوستان میں مجبور کرنا مشکل ہے اور کنیز بنانا بھی؛ اس لیے دوسرے قول پر عمل کرتے ہوئے دونوں بہ دستور میاں بیوی رہیں گے؛ البتہ تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح سے پہلے وطی اور دواعیِ وطی سے منع کیاجائے گا۔ اس مسئلہ کی تفصیل ’’الحیلۃ الناجزہ‘‘ میں ہے (دیکھیے: ص۲۰۸ تا ص۲۱۲، امارت شرعیہ نئی دہلی)

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts