از:مولاندیم احمد انصاری

            شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہؒ عالمِ با عمل، اور متبعِ شریعت ولی اللہ تھے ۔ آپؒ کی ولایت اور مقام ومرتبہ خود آپؒ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے۔ان کا پورا نام عبدالقادر بن ابو صالح عبداللہ بن جنکی دومت الجیلی (الجیلانی) ہے اور آپ کی کنیت ابو محمد، لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔ آپؒ حنبلی مسلک کے پیروکار تھے ۔[سیر اعلام النبلاء]اور آپ کے عقائد اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد تھے۔  وہ بزبانِ خود فرماتے ہیں :ہمارا عقیدہ وہی ہے جو تمام صحابۂ کرامؓ اور سلفِ صالحینؒ کا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء]

            آپؒ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید ہیں ۔ صاحب ِ’بہجۃ الاسرار‘ اور مولانا جامیؒ نے ’نفحات الانس‘ میں آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے : عبدالقادر بن ابی صالح جنکی بن موسیٰ بن عبداللہ بن یحییٰ زاہد بن محمد بن داؤد بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنی بن سیدنا حضرت حسینؓ بن علیؓ اسد اللہ الغالب حضرت علیؓ بن ابی طالب۔اس طرح آپؒ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی گیارھویں نسل تھے ۔[فیوضِ یزدانی]آپ کی ولادت ۱۷۴ھ (یا ۰۷۴ھ) میں جیلان میں ہوئی۔ اسی نسبت سے آپ کو جیلانی کہتے ہیں ۔[اعلام النبلاء]

بچپن کا ایک سبق آموز واقعہ

            جب شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے طلبِ علم کے لیے رختِ سفر باندھا تو آپؒ کی والدہ نے بغل کے نیچے گدڑی میں چالیس دینار سی دیے اورآپؒ کو دعا دیتے ہوئے کہا: اے عبد القادر!میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ سچ بولنا اور کبھی جھوٹ بات منھ سے نہ نکالنا۔اس کے بعد آپؒ ایک قافلے کے ساتھ بغداد کے لیے نکلے ۔اس سفر کے متعلق خود فرماتے ہیں – جب قافلہ ہمدان سے آگے بڑھا تو اچانک ڈاکو ہم پر ٹوٹ پڑے ۔انھوں نے قافلے کا سارا مال لوٹ لیا؛مگر مجھے کچھ نہ کہا۔تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک ڈاکو آیا اور مجھ سے پوچھا: تیرے پاس کیا ہے ؟میں نے سچ سچ بتا دیا:میرے پاس چالیس دینار ہیں ۔وہ اسے مذاق سمجھ کر چلا گیا۔اس کے بعد ایک اور ڈاکو آیا،اس نے بھی یہی سوال کیا۔میں نے اسے بھی سچ سچ بتا دیا؛مگر وہ بھی تمسخر سمجھ کر چلا گیا۔ان دونوں نے جاکر اپنے سردار سے یہ ماجرا بیان کیا۔ سردار نے انھیں میرے پاس بھیجا اور وہ مجھے سردار کے پاس لے گئے ۔وہ لوگ ایک ٹیلے پر بیٹھے مال تقسیم کر رہے تھے۔سردار نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا:سچ بتا تیرے پاس کیا ہے ؟میں نے کہا :چالیس دینار ہیں ۔اس نے پوچھا:کہاں ہیں ؟میں نے کہا:بغل کے نیچے گدڑی میں سلے ہوئے ہیں ۔اس نے گدڑی کو ادھیڑ کر دیکھا تو وہ نکل آئے ۔سردار نے حیران ہو کر پوچھا:تم جانتے ہو ہم ڈاکو ہیں اور ہمیں جو مال ملتا ہے اسے ہم لوٹ لیتے ہیں ؟پھر تم نے ہم سے اس راز کو چھپا کر کیوں نہ رکھا؟میں نے جواب دیا:میری والدہ نے روانہ کرتے ہوئے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ میں ہمیشہ سچ بولوں ۔پھر میں ان چالیس دینار کے لیے کیسے جھوٹ بولتا؟ یہ سن کر سردار اس قددر متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:افسوس!تم نے اپنی ماں کا عہد نہیں توڑا اور میں اتنی مدت سے اپنے اللہ کا عہد توڑ رہا ہوں ۔یہ کہہ کر وہ میرے قدموں پر گر پڑا اور توبہ کی۔اس کے ساتھیوں نے یہ کیفیت دیکھ کر اس سے کہا:رہزنی میں تو ہمارا سردار تھا اب توبہ میں بھی تو ہمارا پیش رو ہے اور ان سب نے میرے سامنے توبہ کر لی اور قافلے کا سارا مال انھیں واپس کر دیا۔[غنیۃ الطالبین]

تعلیم اور اساتذہ

            شیخ کی ابتدائی تعلیم کی تفصیل نہیں ملتی۔ امام ذہبیؒ کے مطابق عالمِ نوجوانی میں وہ بغداد تشریف لائے۔شیخ کے اساتذہ میں علی سعد مخزومی، ابوغالب باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابو القاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابو سعد بن خشیش اور ابوطالب یوسفی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔[اعلام النبلاء]

تلامذہ اور اولاد

            شیخ کے معروف تلامذہ میں علامہ سمعانی، عمر بن علی القرشی، حافظ عبدالغنی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسی بن عبدالقادر (یہ دونوں صاحب زادے ہیں ) شیخ علی بن ادریس، احمد بن مطیع الباجسرائی، ابوہریرہ، محمد لیث الوسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد قبیطی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔[اعلام النبلاء]علامہ ذہبیؒ نے شیخ کے بیٹے کے حوالے سے بیان کیا ہے – میرے و الد کی کل اولاد۴۹؍تھی، جن میں ۲۷؍بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں ۔[اعلام النبلاء]

وفات

            شیخ نے۹۰؍ سال کی عمر تک چہار دانگ عالم کو اپنی ذاتِ والا صفات سے فیض پہنچایا اور ۱۰؍ربیع الثانی۵۶۱ ھ کو آپ نے وفات پائی۔[اعلام النبلاء]

شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات

             شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ علماے ربّانیین میں بلند مقام کے حامل ہیں ۔ انھوں نے زندگی بھر اپنے قول و عمل سے اللہ کے بندوں کو اللہ کی دعوت دی اورکتاب و سنت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کی؛ لیکن افسوس آج ان سے محبت کا دم بھرنے والوں نے بھی ان کی تعلیمات سے انحراف کیااور محض چند رسمی سی چیزوں کا کر لینا ان کے نزدیک محبت کی علامت ٹھہرا۔ایسے میں سخت ضرورت ہے کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔یہاں حضرت ؒ کے مواعظ سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں ۔حق تعالیٰ شانہ ہم سب کو حق کہنے ،حق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین

سب کچھ اللہ کے دستِ قدرت میں ہے

            ٭ارشاد فرمایا:بادشاہ ایک ہی ہے ، نقصان پہنچانے والا ایک ہی ہے ، نفع پہنچانے والا ایک ہی ہے ۔ حرکت دینے والا ایک ہی ہے ، سکون دینے والا وہی ایک۔ مسلط کرنے والا وہی ایک۔ مسخر بنانے والا وہی ایک۔ معطی اور مانع وہی ایک اور خالق وروزی رساں وہی ایک۔یعنی اللہ عزّ وجلّ۔ [فیوضِ یزدانی]

خالق کے سامنے تمام مخلوق عاجز ہے

            ٭ارشاد فرمایا: ساری مخلوق عاجز ہے نہ کوئی تجھ کو نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان۔ بس حق تعالیٰ اس کو ان کے ہاتھوں سے کرادیتا ہے ۔ اسی کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے ، جو کچھ تیرے لیے مفید یا مضر ہے ، اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے ، جس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔[فیوضِ یزدانی]

 اصل محرومی اور اصل موت

            ٭ارشاد فرمایا:اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص، جو اس کی تو تعمیل نہ کرے جس کا وہ حکم فرماوے اور جس کا اس نے حکم نہیں دیا، اس میں مشغول رہے ۔ یہی اصل محرومیت اور اصل موت اور اصل مردودیت ہے ۔[فیوضِ یزدانی]

 رضا بر قضا

            ٭ارشاد فرمایا:اے خدا سے غافل! تو غیر کی طلب میں مشغول ہوکر اس کی ذات ورضا برقضا سے غافل مت ہو۔ بسا اوقات تو اس سے فراخیِ معاش کا طالب ہوتا ہے اور کیا عجب ہے کہ وہ تیرے لیے فتنہ ہو اور تجھے علم نہ ہو۔ تو نہیں جانتا کہ بہتری کس چیز میں ہے ۔ پس خاموش رہ اور جس حال میں بھی وہ رکھے اس میں اس کا موافق(مطیع) بنا رہ اور اس سے ہر حالت میں اس کے افعال پر رضا اور شکر کا طالب ہو۔ وہ رزق کی وسعت جس پر شکر نہ ہو فتنہ ہے اور وہ معاش کی تنگی بھی جس پر صبر نہ ہو، فتنہ ہے ۔[فیوضِ یزدانی]

 بندگی آزمائش کے وقت ظاہر ہوتی ہے

            ٭ارشاد فرمایا:اے کذاب! تو نعمت کی حالت میں خدا کو محبوب سمجھتا ہے؛ لیکن جب بلا آتی ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔گویا کہ اللہ عزّ وجلّ تیرا محبوب تھا ہی نہیں ، بندہ تو آزمائش کے وقت ہی ظاہر ہوتا ہے ۔[ فیوضِ یزدانی]

آزمائش ضروری ہے

            ٭ارشاد فرمایا:آزمائش وامتحان ہونا ضروری ہے ، خصوصاً دعویٰ کرنے والوں کا۔ اگر امتحان وآزمائش نہ ہوتی تو بہتیری مخلوق ولی ہونے کا دعویٰ کرنے لگتی۔[فیوضِ یزدانی]

اللہ کی نافرمانی کا انجام

            ٭ارشاد فرمایا: نفس جب اللہ کا مطیع ہوجاتا ہے تو اس کا رزق بہ وسعت ہر جگہ سے اس کو پہنچتا ہے ۔ پھر جب نافرمانی کرتا ہے تو رزق کے اسباب منقطع اور اس پر مصیبتیں مسلط ہوجاتی ہیں ۔ پس وہ دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ پاتا ہوا ہلاک ہوجاتا ہے ۔[فیوضِ یزدانی]

نفس کی مخالفت

            ٭ ارشاد فرمایا:اے نادان! تو چاہتا ہے کہ جس شے کو چاہے بدل دے ، کیا تو دوسرا معبود ہے ؟ چاہتا ہے کہ اللہ عزّ وجلّ تیری موافقت کرے ؟ یہ معاملہ برعکس ہوگیا۔ اس کا عکس کر کہ راہِ صواب پائے۔  اگر تقدیری احکامات نہ ہوتے تو جھوٹے دعووں کی شناخت نہ ہوتی۔ تجربوں ہی سے جواہرات کھلتے ہیں ۔ تیرا نفس جیسا حق تعالیٰ کے حکم پر راضی ہونے سے منکر ہے ، ایسا ہی تو اپنے نفس کا منکر بن (تاکہ حق تعالیٰ کے حکم پر عمل کرسکے )۔ [فیوضِ یزدانی]

معرفتِ الٰہی کی علامت

            ٭ ارشاد فرمایا:جو شخص حق تعالیٰ سے واقف ہوجاتا ہے ، اس کے قلب سے دنیا اور آخرت اور حق تعالیٰ کے سوا ہر چیز غائب ہوجاتی ہے ۔ تجھ پر لازم ہے کہ تیرا وعظ(بات کرنا) خالص اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو، ورنہ گونگا بنا رہنا ہی تیرے لیے بہتر ہے ۔ ضروری ہے کہ تیری زندگی حق تعالیٰ کی طاعت میں خرچ ہو ورنہ تیرے لیے موت بہتر ہے ۔[فیوضِ یزدانی]

اسلام رو رہا ہے

            ٭ارشاد فرمایا: صاحبو! (غور کرو) اسلام رو رہا ہے اور ان فاسقوں ، بدعتیوں ، گمراہوں ، مکر کے کپڑے پہننے والوں اور ایسی باتوں کا دعویٰ کرنے والوں کے ظلم سے جو ان میں موجود نہیں ہیں اپنے سر کو تھامے ہوئے فریاد مچا رہا ہے ۔ اپنے متقدمین اور نظر کے سامنے والوں کی طرف غور کر کہ امر ونہی بھی کرتے تھے اور کھاتے پیتے بھی تھے اور دفعتہ انتقال پاکر ایسے ہوگئے گویا ہوئے بھی نہ تھے ۔ تیرا دل کس قدر سخت ہے ؟ کتا بھی شکار کرنے اور کھیتی، مویشی کی نگہبانی ومالک کی حفاظت کرنے میں اپنے مالک کی خیر خواہی کیا کرتا ہے اور اسے دیکھ کر خوشی کے مارے کھلاڑیاں کرتا ہے؛ حالاں کہ وہ اس کو شام کے وقت صرف ایک دو نوالے یا ذرا سی مقدار کھانا دیا کرتا ہے  اور تو ہر وقت اللہ کی قسم قسم کی نعمتیں شکم سیر ہوکر کھاتا رہتا ہے؛ مگر ان نعمتوں کے دینے سے جو اس کو مقصود ہے ، نہ تو اسی کو پورا کرتا ہے اور نہ اس کا حق ادا کرتا ہے؛ بلکہ اس کے برعکس اس کا حکم رد کرتا ہے اور اس کی حدودِ شریعت کی حفاظت نہیں کرتا۔[فیوضِ یزدانی]

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts