از:مفتی محمد عاصم کمالؔ قاسمی
استاد عربی ادب مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ
قرآن کریم باری تعالیٰ کاکلام ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ، کتاب ہدایت اور دستورِ حیات ہے،حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں : ’’القُرْآنُ کتابُ کلِّ عَصْرٍ‘‘ (قرآن ہرزمانہ کی کتاب ہے) ،اس کے الفاظ کے ساتھ معانی کے تحفظ کا ذمہ قدرت خداوندی نے لیاہے:’’اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّْکْرَ واِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ‘‘(ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں )یہی وجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی کسی لفظ اور کسی حرکت میں ذراکمی بیشی واقع نہیں ہوئی اورہمارا عقیدہ ہے کہ تاصبح قیامت قرآن یوں ہی محفوظ رہے گا؛ کیوں کہ قرآن نہ صرف مذہبی کتاب؛ بلکہ پوری انسانیت کے لیے قانونِ زندگی ہے، وہ مقدس اور عظمت وہیبت والا کلام ہے،حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جب تلاوت شروع کرتے تو بے ہوش ہوکر گرجاتے اور بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوتا: ہذا کلام ربی،ہذا کلام ربی(یہ میرے رب کاکلام ہے،یہ میرے رب کاکلام ہے)درحقیقت یہ رب العالمین کے فرمودات ہیں ،قرآن کاشغل سب سے مقدس اوراس کی تلاوت باعث ثواب ہے، طہارت باطنی اورتزکیۂ قلب کابہترین سامان ہے۔
تعلیم قرآن
قرآن کے نزول کے وقت مکہ مکرمہ میں پڑھے لکھے بہت کم تھے،قرآن جس قدر نازل ہوتا مسلمان اس کویاد کرنے کا اہتمام کرتے؛چنانچہ عہدِنبوت سے اب تک امت نے ہردور میں تعلیم قرآن پر توجہ دی ہے اور جس طرح اس کے الفاظ کافہم حاصل کیا، اسی طرح اس کے معانی کی بھی مکمل تصحیح کی فکر رکھی ہے؛قرآن کریم کے تعلیم وتعلّم کے سلسلے میں جناب رسول اللہ… کا ارشادہے:
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ۔(البخاری،ابوداؤد)یعنی: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
اس حدیث کے ذیل میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے :
’’کلام پاک چوں کہ اصل دین ہے،اس کی بقاء واشاعت ہی پر دین کامدار ہے،اس لیے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا ظاہرہے۔۔۔۔ اس کا کمال(درجہ)یہ ہے کہ مطالب ومقاصد سمیت سیکھے اور ادنیٰ درجہ اس کایہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے‘‘۔
تلاوت قرآن کریم
انسانی ضابطہ ہے کہ جو شئی جتنی اہم اور قابلِ عظمت ہوتی ہے اس کے آداب وحقوق بھی اسی قدر زیادہ ہوتے ہیں ،اس کی شان کے مطابق اس کاپاس ولحاظ بھی لازم ہوتاہے،اس میں کسی قسم کی ادنیٰ غفلت اور اس کے حقوق سے ادنیٰ لاپروائی بڑی محرومی کاسبب بن سکتاہے،اورقرآن مجید جب کلامِ الٰہی ہے تو اس کے مقام ومرتبہ کا اندازہ انسانی وسعت سے خارج ہے، لہٰذا اس کتاب مبین کے حقوق ومراتب کی مکمل ادائیگی عامۃ الناس کی سکت سے باہر ہے؛ البتہ اس کے بہت سے ظاہری وباطنی آداب وحقوق ہیں ، جن کی رعایت اس مقدس کتاب سے استفادہ کوآسان بنادے گی اور جب کہ یہ محبوب کاکلام ہے اور ہر عاشق مضطر کو اس سے زیادہ کس بات میں خوشی ہوگی کہ محبوب کے کلام سے شغل حاصل ہوجائے،اس سے سرگوشی کی سعادت نصیب ہوجائے اورمحبوب بھی ایسا قدردان کہ سب سے زیاد ہ توجہ سے کلام کو سنتا ہے: عَنْ فَضَالَۃَ بنِ عُبَیْدٍرضی اللّٰہ عنہ قالَ: قالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اَللّٰہُ أَشَدُّ أُذُنًا اِلٰی قَارِیِٔ القُرْآنِ مِنْ صَاحِبِ القَیْنَۃِ اِلٰی قَیْنَتِہ۔(ابن ماجہ، حاکم)نبی اکرم … کا ارشاد ہے : حق تعالی شانہ قرآن پڑھنے والے کی آواز کی طرف اس شخص سے زیادہ کان لگاتے ہیں جوگانے والی باندی سے اپنا گانا سن رہاہو۔
تلاوت قرآن کے سلسلے میں پہلا حق یہ ہے کہ خوش الحانی سے پڑھے،عربی لہجہ میں پڑھنے کی کوشش کرے،گانے کی شکل پیدا نہ ہو ، خوب بناسنوارکرمکمل دلچسپی سے پڑھے؛کیوں کہ نظم قرآن کی عمدگی اور آیات قرآنی کالاثانی اندازِ بیان لامحالہ طبیعت پراثرانداز ہوتاہے۔حدیث رسول اللہ میں ارشاد ہے:
’’اِقْرَئُوُا الْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ العَرَبِ وَأَصْوَاتِھَا‘‘۔(قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز میں پڑھو)(شعب الایمان)۔
ایک اور روایت میں ارشاد ہے: ’’حَسِّنُوا القُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُم؛ فانَّ الصَّوتَ الحَسَنَ یَزِیْدُ القُرآنَ حُسْنًا۔( اچھی آواز سے قرآن کوپڑھاکرو؛اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کوبڑھادیتی ہے(شعب الایمان)۔
اور چوں کہ قرآن حکیم جس زبان(عربی)میں نازل ہواہے وہ دنیا کی سب سے قدیم اور وسیع زبان ہے۔اس کے الفاظ اور حروف میں بڑی نزاکت ہے،بلکہ کسی قدر تکلف بھی ہے اور سنجیدہ و سلیم طبیعت اورپاکیزہ ذوق کی حامل ہے،اس لیے اس کی نزاکت کاتحمل بہت آسان نہیں ،اس کے الفاظ وکلمات کوصحیح طورپراداکرناغیراہل زبان کے لیے مستقل ریاضت اورمشق کامتقاضی ہے؛ لہٰذا تلاوت قرآن میں حروف کی مکمل ادائیگی،ہرہرلفظ کا درست تلفظ،کلمات کی رخوت وشدت کاخیال، تجوید کے ضروری قواعد اورمخارج وصفات کی رعایت ازحد ضروری ہے؛چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے کسی نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کلام شریف کس طرح پڑھتے تھے:انھوں نے کہا کہ سب حرکتوں (زبر،زیر، پیش وغیرہ) کوپورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتاتھا‘‘۔
تصحیح قرآن کی ضرورت
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برائے استفادہ،یا اس سے متعلق یاان سے ماخوذجن علوم کی ترتیب عمل میں آئی ان میں ایک اہم فن’’علم تجوید وقراء ت‘‘ ہے اور یہ فن اس اعتبار سے بھی مہتم بالشان اور قابل عظمت ہوگیا کہ اس کاتعلق بلاواسطہ الفاظ وکلمات قرآن سے ہے،علوم اسلامیہ میں اس علم کو کافی اہمیت حاصل رہی،قرونِ اولی سے اب تک اس علم کی خدمت کرنے والے اور اس کو پروان چڑھانے والے ہر دور میں رہے،اورساری امت کی جانب سے اس فرض کی کفایت فرماتے رہے،اور عامۃ المسلمین کو اس بات کی تلقین اور تبلیغ کرتے رہے کہ بحیثیت مسلم ممکن حدتک اس فریضہ کو انجام دیتے رہیں ۔
’’تجوید‘‘کا لغوی معنی تحسین وعمدگی ہے،اور ’’ترتیل ‘‘ کے معنی ہیں ٹھہرٹھہرکرپڑھنا،اہل اصول کے یہاں فن تجوید کاحاصل یہ ہے :
’’قرآن کریم جس طرح حضور اکرم … پر نازل ہوا،جس طرح آپ نے صحابۂ کرامؓ کو پڑھ کر سنایا،جس ادائیگی اور نہج سے اس کی تلاوت فرمائی اور جس طریقے پر صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اس کو پڑھا اور یوں قرآن آپ سے منقول ہوکرصحابہ کے واسطے سے ساری دنیا میں نسل درنسل تواتر وتسلسل کے ساتھ پڑھاجارہاہے،اسی اندازِ قرأت کانام فن تجوید ہے‘‘۔(علم التعریفات)
اور زبانِ مبارک (صلی اللہ علی صاحبہ وسلم )سے صادراسی کیفیتِ مخصوصہ کو اختیار کرنا اور بقدر استطاعت اس نہج پر تلاوت کرنا فرض عین ہے؛ ارشاد باری تعالی ہے:
’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً‘‘ (سورہ مزمل)اور قرآن کو ٹھہر ٹھر کر،صاف صاف اور عمدہ طریقے پر پڑھو)
حضرت علی ؓ نے ’’ترتیل‘‘ کی تفسیر تجوید حروف اور معرفۃ وقوف سے کی ہے(الاتقان فی علوم القرآن)
نیز ارشاد ہے: ’’اَلَّذِیْنَ آتَیْنَاھُمُ الکِتَابَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلاوَتِہ‘‘۔(جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیساکہ اس کی تلاوت کا حق ہے(البقرۃ:۱۲۱)یعنی آداب ومخارج کی رعایت کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔
علامہ ابوالخیرشمس الدین محمد بن محمد جزریؒ نے متعدد طرق سے اس کے وجوب کو ثابت کیاہے، ان کامشہور قول ہے:
والَاخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لازِمُ ٭ مَنْ لَمْ یُجَوِّدِ القُرآنَ آثِمُ
لِأَنّہ بِہ الاِلٰہُ أَنْزَل ٭ وَھَکَذَا مِنْہ اِلَیْنَا وَصَلَ
(الجزریۃ)
یعنی تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا بہت ضروری ہے،جوقرآن تجوید سے نہ پڑھے گنہگار ہے؛کیوں کہ اسی شکل میں اللہتعالی کی جانب سے نازل ہوا وراسی شکل میں ہم تک پہنچاہے۔
علامہ ابن جزری ؒنے مزید فرمایا:تجوید تلاوت کازیوراور قراء ت قرآن کی زینت ہے،یعنی ہر لفظ کو اس کاحق اور مرتبہ دینا،جوکلمہ جس حصہ سے نکلتا ہے اس کو وہیں سے اداکرنا اور اسی مخرج سے نکالنا اور بلاکسی سختی اور مشکل کے اس کو صحیح صحیح پڑھنا اور مکمل لطافت کے ساتھ اس کی ادائیگی کرنا‘‘(النشر فی القراء ات العشر)
قرآن وحدیث میں تلاوت کی درستگی کی تاکید ملتی ہے ، قرآن کریم کوخوش الحانی اور درست ادائیگی کے ساتھ پڑھنے کی کوشش ایمانی تقاضہ اوراللہ تعالی سے محبت کی دلیل ہے؛ لہٰذا قرآن عمدہ انداز میں پڑھنے کی فکر ہونی چاہیے،جتناعلم ہو مزید کی سعی جاری رہے،حروف کی مکمل ادائے گی ہو،جو حروف ایک جیسے مخرج کے ہیں بالخصوص ان کی ادائیگی میں کسی قدر تکلف سے کام لے مثلا:’’وَلَاالضَّالِیْنَ‘‘میں ’’ض‘‘ کو نہ ’’ظ‘‘ پڑھے،نہ ’’ذ‘‘، اسی طرح’’س‘‘ اور ’’ش‘‘ میں فرق رکھے،’’ز‘‘ اور ’’ج‘‘ میں امتیاز قائم کرے،’’ہمزہ‘‘ اور ’’ع‘‘ہرایک کو اس کے مخر ج سے اداکرے، دونوں کو خلط ملط نہ کرے،جو حروف حلق سے نکلتے ہیں ان میں زیادہ مشق اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، حروف صفیریہ (ز،س،ص)کو سمجھے ۔۔۔۔دیگر تجوید کے قواعد اور اصول کو سیکھے اور ان کی روشنی میں عمدہ سے عمدہ قرآن پڑھ کر سعادت دارین کاحقدار بن جائے؛ورنہ بہت سے مواقع پر حروف کی غلط ادائیگی اور اس کا صحیح تلفظ نہ کرنے سے بسااوقات کلمہ عربیت سے نکل جاتاہے اور اس سے معنی کا فساد لازم آجاتاہے اور اس سے نماز بھی باطل ہونے کا خدشہ رہتاہے۔اسی سبب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’رُبَّ تَالٍ لِلْقُرْآنِ وَالْقْرْآنُ یَلْعَنُہٗ‘‘(احیاء علوم الدین)یعنی بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس انداز سے کرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتاہے۔
ورنہ پھر کیاسبب ہے کہ تمام اصلاحی حلقے،علمی واسلامی ادارے جہاں معانی ومطالبِ قرآن کو اپنا نصب العین بناتے ہیں وہیں الفاظ قرآن اورتصحیح حروف،تجوید وترتیل کو بھی توجہ کامرکز بناتے ہوئے ضرورنظر آتے ہیں ،مدارس میں شعبۂ تجوید کاقائم ہونا،خانقاہوں اوردعوتی راہوں میں تصحیح قرآن کے حلقوں کالگنا اور از حد ان کاہتمام کرنابالیقین اس علم کی اہمیت پر غماز ہیں ،اور جب علماء وفضلاء ،طلبۂ مدارس اوردین سے وابستہ اور دینی میدانوں میں سرگرم اشخاص قرآن کی تصحیح کے اتنے محتاج ہیں تو ایک عامی مسلمان کو اس کی کتنی سخت ضرورت ہوگی ۔۔۔۔۔اس کابخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے؟
لمحہ فکریہ
مسلمان تاریخ کے جس موڑ پر ہے،یقینا وہ خدا اور کلامِ خدا سے بے زاری کی راہ دکھاتاہے،اسباب اورمادیات کاداعی ہے، دنیوی تأثرات الحاد ولادینیت کی وادیِ تیہ میں بھٹکایا جارہا ہے،کامرانی کے عنوان پرذلت وپستی کاسامان کیاجارہاہے،مذہب کوایک رسم ادائیگی کی چیزباورکرایاجارہاہے اور مسلمانوں کے ظاہری وباطنی احوال،اقوال وافعال ان کی متاعِ اخروی کو سلب کرنے کے موجب ہیں ،اس تناظر میں ’’کتابِ خداوندی‘‘ کاتعلق اور اس کاشغل ہی باعث نجات ہوسکتاہے؛بلکہ ہرزمانہ میں قرآن کاشغل سبب نجات ہے،اس کے سوا تنگی اور ہلاکت ہی ہے؛قرآن کے پیغام کو جان کر اس پر عمل پیراہونا، ہرممکن طریقہ سے اس کا حق اداکرنا،اس کاادب واحترام اوراس کی درست تلاوت وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ پھر کیاوجہ ہے کہ ایک شفیق باپ اپنے نسل کی افزائش میں اور اپنی اولاد کے تابناک مستقبل کے لیے ہرخواب سجاتاہے،اس کے لیے ترقی کاہر خیالی محل تیار کرتاہے؛مگر کبھی اس جانب توجہ ہوئی کہ اس نسل میں قرآن کتنا محفوظ ہے؟آنے والی بہو کے سارے اعمال واطوار جانچے جاتے ہیں ،خاندان سے مکان تک، عزت سے سامان تک،ناک کی نتھ سے پاؤں کے پایل تک ،اسکول سے کالج تک، قداورطوالت وحجم اور سارے امور کابغور اور بہت دلچسپی سے جائز ہ لیاجاتاہے کہ کہیں نئی نسل میں کوئی نقص نہ رہ جائے ؛لیکن کبھی اس جانب التفات ہوتا ہے کہ اس اساسِ نسل میں قرآن (جوہرکامیابی کاراز ہے)کتنا زندہ ہے، وہ قرآن پر کتنی عامل اوراس کی تلاوت کیسی ہے،وہ کیسا اور کتناقرآن پڑھ لیتی ہے،ہماری اگلی نسل کو قرآن سکھاسکے گی یانہیں ؟ خانگی امورمیں اس کی مہارت کا امتحان ضرور ہوتا ہے؛لیکن کبھی اس کی تلاوت نہیں دیکھی جاتی،اس کاقرآن نہیں سنا جاتاکہ حروف کی ادائے گی کیسی ہے(کہ درستگی کی شکل میں استفادہ ،ورنہ اصلاح وتصحیح کی فکرہو)بہو ،بیٹوں کی نافرمانی کی شکایت کرنے والے ذرا غور کریں کہ انھوں نے قرآن کے حوالہ سے کتنی اور کیسی ذمہ داری نبھائی ہے؟
تصحیح تلاوت کی شکلیں
(۱) موجودہ دور میں تصحیح قرآن کی سب سے موثر شکل یہ ہے کہ کسی اچھے عالم سے جو قرآن کو صحت مخارج اور ادائیگی حروف کے ساتھ پڑھے،یا کسی اچھے حافظ سے جو قرآن درست پڑھتا ہو حروف کی تصحیح کی جائے۔
(۲) قرآن کی صحیح تلاوت اور حروف کی صحیح ادائیگی انتہائی آسان ہے ،اگر اردو زبان پر گرفت ہو تو علماء اور قراء کرام نے سہل،اور عوامی انداز میں تجوید اور مخارج کی کتابیں لکھی ہیں جن سے بہت آسانی سے استفادہ کرکے حروف کی تصحیح ممکن ہے۔
(۳) مختلف علاقوں میں تصحیح قرآن کے حلقے اور مجلسیں قائم ہیں ان سے مربوط ہوکراس اہم ذمہ داری سے سبک دوشی ہوسکتی ہے۔
(۴) وسائل کی فراوانی اور ایجادات کے اس دور میں کسی چیز کا سیکھنامشکل نہیں رہا،بہت آسانی سے لوگ اپنی ضرورت کا علم حاصل کرلیتے ہیں ،حتی کہ اپنی اغراض کے تحت مختلف زبانوں اور ان کی بولیوں کے بھی ماہربن جاتے ہیں ،توکسی عالم کی رہبری میں ان چیزوں سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایاجاسکتاہے؟
(۵) ورنہ سب سے آسان اورموثر شکل یہ ہے کہ’’ نورانی قاعدہ‘‘کی مشقوں کے ذریعے حروف کی ادائیگی درست کی جائے۔
(۶) مختلف اماموں کی قراء ت اور ان کی آواز میں مکمل قرآن موبائل فون اور نیٹ پر موجود ہے،روزآنہ تھوڑا سا وقت فارغ کرکے اس کو سناجائے اور اس جیسا پڑھنے کی کوشش کی جائے تو ان شاء اللہ ایک اچھی اور مفید پہل ثابت ہوگی۔
(۷) پھر یہ کہ حروف تہجی کل انتیس ہیں جن میں سے بعض بہت آسان ہیں جیسے: د،م،ن وغیرہ ۔۔۔۔ ان کی درست ادائیگی انتہائی سہل ہے؛لیکن عربی سے ناواقف یا دوسری زبان (مثلا:ہندی، انگلش) جاننے والوں کے لیے سب سے زیادہ دقت متشابہ الفاظ اورقریب المخارج کلمات میں پیش آتی ہے اور اس وقت ان کے لیے اس کی ادائیگی مشکل اورا ن میں امتیاز پریشان کن ثابت ہوجاتاہے جیسے:ج،ذ،ز،ض،ظ ان سب کا مخرج اور پڑھنے کا طریقہ جداجداہے۔اسی طرح: س،ش۔ص وغیرہ ؛البتہ دوچار مرتبہ کی مشق اور توجہ سے ا ن حروف کی صحیح پہچان کرلیں ،ان کی ادائیگی کادرست طریقہ معلوم کرلیں پھر اسی کے مطابق قرآن کی تلاوت کے وقت ان کی رعایت ہوتو ان شاء اللہ بہت آسانی کے ساتھ اور بہت جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے،اور امت کی ایک بڑی تعداداپنے رب کاکلام درست پڑھنے لگے،اور یہ عمل رحمت باری کے نزول کاسبب ہو؛جس کے لیے شوقِ معتبر چاہئے اور بس!
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق اپریل –مئی 2020ء
* * *