از: مولانا محمد اللہ قاسمی

شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال

            دسمبر ۲۰۱۹ء میں چین کے صوبہ ُووہان میں نمونیہ جیسی وبا پھوٹ پڑی۔ کچھ ہی دنوں کے بعد عالمی اخبارات اور میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ وہاں جانوروں کی منڈی سے انسانوں میں ایک ایسا وائرس منتقل ہوگیا ہے جو بہت زیادہ متعدی ہے اور اس کی وجہ سے وہاں دیکھتے دیکھتے ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔ چین میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر پابندی کے باوجود اس وائرس کی خطرناکی اور اس سے پیدا شدہ صورت حال کی تفصیلات بڑی حد تک دنیا تک پہنچ رہی تھیں ۔ اس وقت تک شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک غیر مرئی اور معمولی کورونا وائرس ایک آندھی بن کر پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور پوری دنیا کی نقل و حرکت اور اقتصادی نظام کو ٹھپ کرکے رکھ دے گا۔ آج امریکہ و یورپ کی عالمی طاقتیں اپنی تمام تر سائنسی ترقیات اور تسخیری طاقتوں کے باوجوداس حقیر وائرس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں ؛ چنانچہ جنوری ۲۰۲۰ء سے یہ وائرس دنیا کے دیگر ملکوں میں منتقل ہونا شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے دنیا بھر کے تمام قابل ذکر ملکوں میں پھیل گیا۔ اس وقت (۲۰؍مئی) پانچ ملین (یعنی پچاس لاکھ) سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور سوا تین لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں ۔ امریکہ میں پندرہ لاکھ سے زیادہ متاثر ین ہیں اور چورانوے ہزار اموات ہوچکی ہیں ۔ یورپ اس بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہے؛ اٹلی، اسپین ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ وغیرہ میں ڈیرھ ملین سے زائد لوگ بیماری کا شکار ہوچکے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد لوگ مر چکے ہیں ۔

            طبی ماہرین نے اس وائرس کا میڈیکل نام کووڈ ۱۹ رکھا ہے، جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انتہائی متعدی ہے جو چھونے، کھانسنے، چھینکنے اور حتی کہ سانس لینے کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے ۔ اس وائرس سے متاثر شخص قوت مدافعت کی کمزوری کی بنیاد پر بخار، سوکھی کھانسی اور سانس کی دشواری میں مبتلا ہوجاتا ہے؛ چناں چہ ڈبلیو ایچ او (عالمی تنظیم صحت) اور حکومتوں کے ذریعہ فی الحال اس کو روکنے کے واحد حل کے طور پر یہ تجویز کیا گیا کہ سماجی دوری (سوشل ڈسٹینسنگ) بنا کر رکھی جائے یعنی لوگوں کا باہمی ملنا جلنا کم سے کم ہو؛ چناں چہ اسی بنیاد پر تمام ملکوں نے لاک ڈاؤن (یعنی ملک بندی اور نقل و حرکت پر پابندی) کا اعلان کردیا۔

            چین اور اٹلی وغیرہ سے سفر کرکے آنے والوں کے ذریعہ یہ وبا جنوری اور فروری میں ہمارے ملک میں بھی آئی۔ مارچ میں متاثرین کی تعداد بڑھنے لگی؛ چناں چہ حکومت نے اولاً سماجی دوری کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے قومی سطح پر ۲۲؍مارچ کو ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کیا۔ پھر وزیر اعظم نے ۲۵؍ مارچ سے ۱۵؍ اپریل تک کل ۲۱؍دنوں کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ ۱۴؍ اپریل کو لاک ڈاؤن کے دوسرے دور کا اعلان کیا گیا اور اسے بڑھا کر ۳؍مئی تک کردیا گیا؛ چناں چہ پورے ملک میں تعلیمی ادارے، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، ہوائی اڑانیں اور ٹرینیں سب بند کردی گئیں ۔ لوگوں سے کہا گیا کہ عوامی مقامات، عبادت خانوں وغیرہ میں جمع نہ ہوں اور اپنے گھر تک محدود رہیں اور صرف انتہائی ضروری اشیاء کی خریداری وغیرہ کے لیے گھر سے نکلیں ۔ اس صورت حال کی وجہ سے مدارس و مساجد کے لییبھی متعدد مسائل پیدا ہوئے۔

            دریں اثناء دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کا اجلاس جو ۱۲ تا ۱۴؍ اپریل (۱۸ تا ۲۰ ؍شعبان) کے دوران ہونے والا تھا، اسے ملتوی کردیا گیا۔ اسی طرح رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی صوبائی شاخوں کے تحت مربوط مدارس کے سالانہ اجتماعی امتحانات کا پروگرام تھا جسے منسوخ کر دیا گیا۔

دارالعلوم میں امتحانات اور دیگر سرگرمیوں کا التوا

            مارچ۲۰۲۰ء  کے جن ایام میں کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی دوری کی ہدایت کی گئی ، اس وقت تک دارالعلوم میں اسباق وغیرہ کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا اور طلبہ انفرادی طور پر امتحان سالانہ کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ وبا کی بڑھتی سنگینی کے پیش نظر امتحانات کو ایک ہفتہ قبل ہی شروع کردیا گیا اور ابتدائی جماعتوں کا تقریری امتحان بھی ہوچکا تھا، اور ارادہ کیا گیا تھا کہ بڑی جماعتوں کے تحریری امتحانات کے دو دو پرچے ایک ہی دن میں دو نشستوں میں لے لیے جائیں ۔ یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا تھا ؛لیکن بالآخر انتظامیہ کی طرف سے اصرار کے پیش نظر تحریری امتحانات کو موقوف کردیا گیا اور چھٹی کا اعلان کردیا گیا۔ سالانہ امتحانات کے سلسلے میں اولاً یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابل اطمینان حالات ہونے کی صورت میں طے شدہ نقشے کے مطابق ۶؍ شوال ۱۴۴۱ھ سے شروع ہوں گے اور ۹دنوں میں مکمل کرلیے جائیں گے۔ اسی لیے درجہ چہارم تا دورۂ حدیث و تکمیلات و دیگر شعبہ جات کے تمام قدیم طلبہ کو مطلع کیا گیا کہ وہ ۵؍ شوال ۱۴۴۱ھ تک ضرور دارالعلوم حاضر ہوجائیں ، لیکن ۳؍ مئی کے بعد جب تیسرے مرحلے کے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو حضرت مہتمم صاحب نے حضرات اساتذۂ کرام کے مشورے اور موقر مجلس شوری کے اراکین کی منظوری کے بعد سالانہ امتحانات کے سلسلے میں اعلان کیا کہ:

  • اگلے تعلیمی سال کے آغاز کا فیصلہ آئندہ حالات کی روشنی میں کیا جائے گا اور اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
  • درجہ چہارم عربی تا درجہ ہفتم تمام درجات کے امتحان ششماہی کو امتحان سالانہ کے قائم مقام قرار دیا جاتا ہے اور امتحان ششماہی کے نتائج کو ہی معیار ترقی قرار دیا جائے گا۔
  • دورۂ حدیث کی چار بنیادی کتابوں کے امتحان ششماہی کو امتحان سالانہ کے قائم مقام قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ جب کوئی طالب علم سند کا طالب ہوگا اس موقعہ پر بقیہ کتب دورہ حدیث کاضمنی تقریری امتحان لیا جائے گا اور ان کے نمبرات کو شامل سند کردیا جائے گا۔
  • درجہ چہارم تا دورۂ حدیث کے علاوہ تکمیلات و تعلیمی شعبہ جات کے امتحان ششماہی کو بھی امتحان سالانہ کے قائم مقام قرار دیا جاتا ہے۔
  • لہٰذا قدیم طلبہ اعلان کا انتظار کریں ۔ اعلان سے پہلے دیوبند کا سفر ہرگز نہ کریں ۔

نئے داخلوں کے سلسلے میں

            دارالعلوم میں داخلہ کے امیدوار طلبہ کو ،جو عموماً ایام تعطیل (رمضان میں ) دارالعلوم آکر تیاری کرتے تھے، اطلاع دی گئی کہ اس سال دارالعلوم میں قیام کا کوئی نظم نہیں رہے گا؛ لہٰذا وہ تمام طلبہ کو امتحان داخلہ کی تیاری کے لیے دارالعلوم دیوبند آنے کا ارادہ کررہے تھے وہ بالکل نہ آئیں ، بلکہ اپنی پنی جگہوں پر امتحان کی تیاری کریں ۔ داخلہ کے خواہش مند طلبہ کو خاص طور پر کہا گیا کہ امتحان داخلہ کے سلسلے میں اگلے اعلان کا انتظار کریں اور اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ (www.darululoom-deoband.com)  دیکھتے رہیں ۔

            مجلس تعلیمی کے فیصلے کے مطابق حسب معمول دفتر تعلیمات کے ذریعہ ’قواعد داخلہ‘ شائع کیا جا چکا تھا جس میں امتحان داخلہ کا نظام الاوقات اور دیگر تفصیلات موجود تھیں ، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند نے پہلے تو یہ فیصلہ کیا کہ شوال میں جد ید داخلہ صرف دورۂ حدیث ، عربی اول اور ان جماعتوں میں ہوگا جن میں جماعت قائم کرنے کے لیے داخلہ ضروری ہوگا۔ لیکن ۳؍مئی کے بعد لاک ڈاؤن کے تیسرے مرحلے کے اعلان کے ساتھ آئندہ تعلیمی سال کے سلسلے میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی، اس لیے حضرت مہتمم صاحب نے حضرات اساتذہ کے مشورہ اور مجلس شوری کے اراکین سے منظوری کے بعد نئے داخلوں کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ:

  • اگلے تعلیمی سال میں عربی درجات بشمول دورۂ حدیث اور شعبۂ تجوید میں کوئی نیا داخلہ نہیں ہوگا۔
  • تمام تکمیلات و دیگر تعلیمی شعبہ جات میں داخلہ کا فیصلہ اگلے سال کی تعلیمی کارروائی شروع ہونے کے بعد ہوگا اور اس وقت اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
  • طلبۂ عزیز کو تاکید کی جاتی ہے کہ اس اعلان سے پہلے تکمیلات و دیگر تعلیمی شعبہ جات میں داخلہ کے لیے وہ دیوبند کا سفر نہ کریں ۔

طلبۂ دارالعلوم کی طبی جانچ

            لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی نے ضلع انتظامیہ اور محکمۂ صحت کے تعاون سے دارالعلوم میں مقیم طلبہ کی طبی جانچ کا فیصلہ کیا اور ۱۰؍اپریل کو دارالعلوم دیوبند میں مقیم تقریباً دوہزار طلبہ کا ابتدائی طبی معائنہ کرایا گیا جس میں بحمد اللہ تمام طلبہ صحت مند پائے گئے ۔ جنوری کے پہلے سے ہی طلبہ امتحانات کی تیاریوں میں مشغول تھے اور اس درمیان وہ باہر بھی نہیں گئے تھے، اس لیے ان کے سلسلے میں کوئی اندیشہ بھی نہیں تھا، تاہم حفظ ما تقدم کے طور پر طلبہ کی طبی جانچ کا فیصلہ کیا گیا۔ افسران کی نگرانی میں سہارن پور سے آئی ڈاکٹروں کی ٹیم نے طلبہ کا ابتدائی طبی معائنہ کیا، شکر کا مقام ہے کہ تمام طلبہ صحت مند پائے گئے اور ایک بھی مشتبہ مریض سامنے نہیں آیا۔

            بعد میں کچھ طلبہ کے کیس پوزیٹیو آئے، لیکن بحمد اللہ کسی طالب علم میں مرض کی علامات نہیں پائی گئیں ؛ چناں چہ انھیں اور ان کے قریبی کمرے والے طلبہ کو کوارنٹین (قرنطینہ) میں رکھا گیا اور چودہ چودہ دن کی مدت پوری کرنے کے بعد ان طلبہ کو واپس دارالعلوم بلا لیا گیا۔ دارالعلوم میں جی ٹی روڈ کے قریب واقع دارالقرآن بلڈنگ کو قرنطینہ سینٹر سے واپس آنے اپنے اور دیگر اداروں کے طلبہ کو مزید چودہ دن قیام کرانے کے لیے مختص کیا گیا۔

طلبہ کی وطن واپسی کا نظم و انتظام

            اس دوران طلبہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی اپنی قیام گاہوں تک محدود رہیں اور احاطۂ دارالعلوم سے باہر نہ جائیں ؛ البتہ جو قریبی اضلاع کے جو طلبہ اپنے گھروں کو جانا چاہتے تھے، انھیں مقامی انتظامیہ اور جمعیۃ علمائے ضلع سہارن پور کے تعاون سے پرائیویٹ بسوں اور گاڑیوں سے تحریری پرمیشن کے ساتھ ان کے گھروں تک بھیجنے کا نظم کیا گیا؛ چناں چہ چند دنوں میں بہت سے طلبہ اپنے گھر پہنچ گئے؛ البتہ دیگر صوبہ جات کے تقریباً دو ہزار طلبہ دارالعلوم میں رہ گئے۔ حضرت مہتمم صاحب کی ہدایت پراساتذہ و ملازمین نے دارالعلوم میں ان طلبہ کے قیام و طعام اور جملہ ضروریات کا نظم کیا ۔ اس بات کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ طلبہ کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

            ملک میں ۱۷؍ مئی سے لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں مختلف شہروں میں پھنسے مزدوروں ، طلبہ اور عام لوگوں نے اپنے اپنے صوبوں کا رخ کرنا شروع کیا۔ لہٰذا، دارالعلوم دیوبند نے بھی آئندہ تعلیمی سال کے سلسلے میں غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر طلبہ کو گھر جانے کا انتظام کیا اور پرائیویٹ بسوں کے ذریعہ بہار ، بنگال، آسام، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر ، تلنگانہ وغیرہ صوبہ جات کے طلبہ کو گھر بھیجنے کا نظم کیا ۔

لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں اجتماع اور نماز سے متعلق اپیلیں

            ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مہتمم دارالعلوم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ العالی نے تمام باشندگان ملک خصوصاً مسلمانوں سے اپیل کی کہ اس سلسلے میں محکمۂ صحت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی پابندی کریں اور وطن عزیز کو اس وبا سے محفوظ رکھنے میں تعاون کریں ۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ہرمسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ کوئی مرض یا وَبا، اللہ رب العزت کے حکم کے بغیر کسی کو نہیں لگ سکتی اور وبائی چیزیں انسانوں کے گناہوں کا اثر ونتیجہ ہوتی ہیں ؛ اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی دینی حالت درست کریں ، نمازوں کی پابندی کریں ، گناہوں سے پرہیز کریں اور توبہ واستغفار کی کثرت کریں ۔

            حضرت مہتمم صاحب نے اپیل کی کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ قانون کی پاسداری بھی کی جائے اور مساجد کو غیرآباد (باجماعت نماز سے محروم) ہونے سے بچایا جائے۔ مساجد میں باضابطہ حسب معمول اذان دی جائے اور جماعت میں امام و مؤذن کے ساتھ صرف اتنے ہی افراد نماز ادا کریں جتنی قانوناً گنجائش ہے ، جب کہ بقیہ حضرات اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کریں اور بہتر ہوگا کہ باجماعت نماز پڑھیں ۔

            حضرت مہتمم صاحب نے کووِڈ ۱۹ سے پھیلے وبائی مرض کے سد باب کے لیے شب براء ت کے موقع پر بھی احتیاط برتنے اور لاک ڈاؤن کی پابندی کرنے کے سلسلے میں اپیل جاری کی۔ انھوں نے کہا اس رات میں قبرستان جانے اور قبرستان یا مساجد میں اجتماعی اعمال سے اجتناب کرتے ہوئے گھروں میں عبادت کریں ۔

            حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا کہ حکومتی قوانین کی پابندی بھی ہماری اخلاقی وشرعی ذمہ داری ہے، خاص طور پر اس صورت میں کہ حکومتی پابندیوں کا مقصد بھی شہریوں کا تحفظ ہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وبائی بیماریوں کے متعلق شریعت کی ہدایات بھی یہی ہیں کہ جہاں وبا ہو وہاں کے لوگ باہر نہ جائیں اور باہر کے لوگ وہاں نہ جائیں ؛ اس لیے موجودہ حالات میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور گھروں تک محدود رہنا شرعی اور قانونی دونوں اعتبار سے ضروری ہے؛ لہٰذا تمام مسلمان ان پابندیوں کی خلاف ورزی سے بچیں اور حفاظت وعلاج وغیرہ سے بھی غفلت نہ برتیں ، یہ تدابیر اختیار کرنا بھی شریعت کے حکم کی تعمیل ہے، اور یہ ہمارے اس ایمانی عقیدہ کے منافی نہیں ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے؛ ہمیں یہ عقیدہ بھی شریعت نے دیا ہے اور تدبیریں اختیار کرنے کا حکم بھی شریعت ہی سے ملا ہے۔

            لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلے کے اعلان کے ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند نے رمضان المبارک اور تراویح کے سلسلے میں بھی اپیل جاری کی کیوں کہ ۲۵؍ اپریل سے رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے۔ حضرت مہتمم صاحب نے اپیل میں کہا کہ رمضان المبارک میں بھی محکمۂ صحت کی ہدایات کا خیال رکھا جائے اور دیگر نمازوں کی طرح نماز تراویح بھی حسب موقع و سہولت قانونی تحدیدات اور مقامی انتظامیہ کی ہدایات کے مطابق مساجد یا اپنے گھروں میں باجماعت ادا کی جائے اور خلاف قانون اجتماعات سے ہر حال میں اجتناب کیا جائے۔

            اس طرح جمعہ و عیدالفطر کے سلسلے میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی لاک ڈاؤن کی صورت میں جمعہ و عید کی نمازیں مساجد میں قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے محدود افراد ادا کریں ۔ جو لوگ مسجد میں نہ جاسکیں وہ اپنے گھر کی بیٹھک یا باہری کمروں میں تعداد کی پابندی کے ساتھ جمعہ و عید کی نماز ادا کریں ۔جو لوگ جمعہ باجماعت نہ پڑھ سکیں وہ فرداً فرداً نماز ظہر ادا کریں اور جو لوگ کسی وجہ سے عید کی نماز نہ پڑھ سکیں وہ اپنے گھر میں نماز چاشت کی دو یا چار رکعت پڑھ لیں ۔

میڈیا کے رویے کی مذمت

            لاک ڈاؤن کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے مرکز بنگلہ والی مسجد حضرت نظام الدین میں بہت سے ملکی و غیر ملکی افراد پھنس گئے تھے اور مطالبہ کے باوجود پولیس کے ذریعہ انھیں وہاں سے نکالا نہیں گیا۔ ایسی سخت اور آزمائش کی گھڑی میں جب کہ پوری دنیا کورونا وائرس سے پیدا شدہ وبائی مرض کا مقابلہ کر رہی ہے، ہمارے ملک کے چند پراگندہ ذہن عناصر بطور خاص الیکٹرانک میڈیا اس میں بھی مذہبی منافرت کا زہر گھولنے لگا اور ایک خاص مذہبی طبقے کو نشانہ بنانے لگا۔ حضرت مہتمم صاحب نے ایسے عناصر کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اور سنجیدہ جد وجہد کے ساتھ ایسے عناصر (بالخصوص میڈیا) پر قدغن لگائے جو ماحول کو خراب کرنے پر لگے ہوئے ہیں ، مزید یہ کہ وہ ملک اور بیرون کے افراد جو کورونا وائرس کی زد میں آگئے ہیں ، ان پر قانونی شکنجہ کسنے کے بجائے انسانی رشتوں کا فرض نبھاتے ہوئے ان کے علاج اور راحت رسانی کے سلسلے میں مؤثر اقدام کیا جائے۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts