حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

رسائل ومجلات کے دفاتر میں تبصرہ کے لیے کتابیں موصول ہونا اور ان پر تبصرہ یا تعارفی تحریر شائع ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ جس سے قاری کو اچھی کتابوں تک رسائی میں مدد ملتی ہے؛ لیکن کثرت تحریر اور سہولتِ تالیف کے اس دور میں ، اہل علم کے یہاں وقعت حاصل کرنے والی کتابوں کا گھٹتا تناسب اہل علم سے مخفی نہیں ہے، چند ماہ قبل حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’نقد ونظر‘‘ دفتر میں موصول ہوئی تو محسوس ہوا کہ نہایت مفید اور رہنما کتاب ہے اور مناسب معلوم ہوا کہ اس کا تعارف عام عنوان سے ہٹ کر حرف آغاز میں پیش کیاجائے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس کا موضوع ہی کتابوں پر تبصرہ ہے اور ہمارے رسائل میں تبصرہ کا عنوان بھی رہنمائی کا محتاج ہے۔

            کتابوں پر تبصرہ عام طور پر رسائل وجرائد کا مستقل عنوان ہوتا ہے جس کے تحت نئی شائع شدہ کتابوں کا تعارف اور اُن کی خوبیوں اور خامیوں کا مناسب تذکرہ مقصود ہوتا ہے جس سے قاری کو مجموعی اعتبار سے کتاب کی افادیت اور اس کے قابل اعتماد ہونے نہ ہونے کے بارے میں واقفیت حاصل ہوجائے؛ لیکن اب کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام ہمارے یہاں اُس سنجیدگی اور ذمہ داری سے نہیں کیا جارہا ہے جو پہلے عام طور پر ملحوظ رہتی تھی، اب تو عام طور پر زیرتبصرہ کتاب کے بارے میں ایک ہی رُخ سے بات کی جاتی ہے جو عموماً تعریف و توصیف کا ہوتا ہے، جب کہ عام طور پر کتابیں اُس معیار پر نہیں ہیں جو مطلوب ہے۔ ایسے حالات میں کوئی ایسی کتاب سامنے آجائے جو بحیثیت کتاب بھی معیاری ہو اور تنقید وتبصرہ ہی کے موضوع پر ہونے کی وجہ اس باب میں رہنمائی کرتی ہو تو وہ بلاشبہ ایک نعمت غیرمترقبہ سمجھی جائے گی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نقد ونظر‘‘ کچھ ایسی ہی نعمت ہے۔

            یہ کتاب شہید اسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی قدس سرہ کے اُن تبصروں کا مجموعہ ہے جو حضرت مرحوم کے قلم سے ماہ نامہ بینات میں شائع ہوئے۔ ان تبصروں کی تعداد ۱۳۱۸ ہے جن کی تفصیل مرتب محترم کے بیان کے مطابق اس طرح ہے:

            ’’قرآن کریم اور علوم قرآنیہ سے متعلق ۴۸ کتب، حدیث اور متعلقات حدیث سے متعلق ۷۳ کتب، عقائد وایمانیات سے متعلق ۷۰ کتب، فقہ وفتاویٰ سے متعلق ۲۰۲ کتب، تصوف سے متعلق ۵۰ کتب، سیرت انبیاء علیہم السلام سے متعلق ۳۶ کتب، صحابۂ کرامؓ واہل بیتؓ سے متعلق ۴۲ کتب، تذکرہ وسوانح سے متعلق ۱۲۰ کتب، تاریخ سے متعلق ۶۶ کتب، مقالات ومضامین، مکتوبات وادبیات سے متعلق ۳۷ کتب، مواعظ وملفوظات، خطبات وارشادات سے متعلق ۴۷ کتب، اصلاحی کتب ۱۵۶، وظائف ودعائوں سے متعلق ۱۱ کتب، رسائل وجرائد سے متعلق ۱۵ کتب، رسائل وجرائد کی خصوصی اشاعتوں سے متعلق ۲۰ کتب، درس نظامی سے متعلق ۷۰ کتب، ردّ فرق باطلہ ومذاہب باطلہ سے متعلق ۱۵۹ کتب اور ردّقادنیانیت سے متعلق ۶۰ کتب۔ اس طرح ۱۳۱۸ کتب کا تعارف اور تبصرہ دو جلدوں کی صورت میں اس مجموعے میں آگیا ہے۔ (ص۳-۴)

            یہ مجموعہ مرتب کے بقول حضرت مولانا رحمہ اللہ کی تحریرات کا آخری مجموعہ ہے، ہمیں حضرت مولانا کی زیارت کا موقع نہیں ملا؛ لیکن ان کی مختلف کتابیں پڑھ کر ان کی شخصیت کا جو خاکہ ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موصوف کو اللہ رب العزت نے رسوخ علمی، کمال عملی، فکری پختگی اور اسلاف واکابر کی روش پر کامل استقامت کے ساتھ باریک بینی، جرأتِ حق گوئی اور حسن تعبیر جیسے کمالات سے حظ وافر عطاء فرمایا تھا جس نے بلاشبہ اُن کو اپنے معاصرین میں بے نظیر بنادیا تھا اور ان کو بے تکلف حضرت مولانا بنوری قدس سرہ کی شخصیت کا نقش ثانی کہا جاسکتا ہے، ہمارا تاثر یہ ہے کہ زیرتبصرہ کتاب حضرت مولانا لدھیانوی کے ان تمام کمالات پر شاہد عدل کی حیثیت رکھتی ہے۔

            کتابوں پر تبصرہ کے لیے جس دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے، پھر صحیح بات کے اظہار کے لیے جس جرأت کے بغیر کام نہیں چلتا، وہ دونوں صفات حق تعالیٰ نے مولانا کو بھرپور طریقہ پر عطاء کی ہیں ۔ ہمارے زمانے میں ہر موضوع اور ہر ضخامت کی کتاب پر تبصرہ کا ایک فریم سا متعین کرلیا گیا ہے؛چنانچہ کوئی علمی یا تحقیقی کتاب ہو یا کسی ہلکے پھلکے موضوع کی کتاب ہو یا پھر کتاب کئی جلدوں پر مشتمل ہو یا سو پچاس صفحے کا رسالہ ہو، سب پر ایک ہی انداز اور ایک ہی مقدار میں تبصرہ لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت مولانا لدھیانویؒ کے تبصرے پڑھ کر اس سلسلے میں عجیب سلیقہ یا نمونہ سامنے آتا ہے۔ ان کے بعض تبصرے دوتین سطروں پر بھی مشتمل ہیں اور بعض تبصرے چالیس یا ساٹھ صفحات تک پھیل گئے ہیں ۔

            خاص طور پر جن کتابوں کا تعلق فکر وعقیدہ، دین کی مجموعی تشریح وترجمانی یا کسی فقہی موضوع کی وضاحت سے ہے، اُن پر حضرت مولانا رحمہ اللہ کے قلم کی جولانی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور اس میں صلابتِ فکر، صحتِ تعبیر اور مطالعہ کی گیرائی وگہرائی کے ایسے ایسے نمونے سامنے آتے ہیں کہ قاری عش عش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ملاحظہ فرمائیں : مولانا محمد حنیف ندوی کی کتاب ’’اساسیاتِ اسلام‘‘ پر ۱۹ صفحات کا تبصرہ (جلداوّل ص:۲۷۴ تا ص:۲۹۳)، امام ابو عبیدالقاسم بن سلام کی کتاب الاموال کے اردو ترجمہ از عبدالرحمن طاہر سورتی پر ساٹھ صفحات کا تبصرہ (جلد اوّل ص:۴۳۸ تا ۴۹۸)، مولانا محمد اسحاق بھٹی کی فقہائے ہند جلد سوم پر سات صفحات کا تبصرہ (جلد اوّل ص:۶۳۷ تا ۶۴۳)، شیخ محمد علوی مالکی کی کتاب ’’مفاہیم یجب أن تصحح‘‘ کے اردو ترجمہ ’’اصلاح مفاہیم‘‘ پر تیرہ صفحات کا تبصرہ (جلد دوم ص:۴۳۷ تا ۴۵۱)، مولانا قاضی مظہرحسین رحمہ اللہ کی کتاب ’’مولانا محمد اسحاق سندیلوی کا مسلک اور خارجی فتنہ‘‘ پر تیئس صفحات کا تبصرہ (جلد دوم ص:۵۰۰ تا ۵۲۲)، شیعی عالم فرمان علی کے ترجمۂ قرآن پر ارسٹھ صفحات کا تبصرہ (جلد دوم ص:۵۶۵ تا ۶۳۳) اور خمینی صاحب کے وصیت نامہ پر چالیس صفحات کا تبصرہ (جلد دوم ص۶۳۳ تا ۶۷۴)۔

            یہ تمام تبصرے حضرت مولانا قدس سرہ کے کمال علم و قلم اور اصابت فکر کے شاہ کار ہیں اور ان کے طویل ہونے کا راز صرف یہ ہے کہ مولانا نے اکابر دیوبند کے ایک سچے جانشین کی حیثیت سے فکر وقلم کے ہر زیغ پر تنبیہ کرنا اپنا فرض سمجھا ہے اور اس میں انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے نزدیک قابل احترام شخصیات سے بھی بے تکلف اختلاف کیا ہے۔ دوسری طرف اسی دراز نویس قلم سے دو تین یا چار پانچ سطروں کے تبصرے بھی وجود میں آئے ہیں ۔

            یہاں اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ کتابوں پر اس معیار کے تبصروں کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مطالعہ کی وسعت اور گہرائی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ تبصرہ ہی کیا؟ ہر علمی کام کے لیے یہ غذا لازمی ہے؛ لیکن اس کام میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ کیا ہمیں اپنے طبقہ اور خاص طور پر نوجوان فضلاء سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اسلاف کی روش پر چل کر اپنے آپ کو لیلائے علم کے دیوانوں میں شمار کرائیں گے۔ اگر ہم سنجیدگی سے یہ کام کرلیں تو ہمیں یقین ہے کہ امت کی رہنمائی میں لغزشوں سے حفاظت ہوگی اور وارثین انبیاء اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکیں گے۔

            بہرحال ’’نقد ونظر‘‘ نامی یہ کتاب خاص طور پر تبصرہ نگاروں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے، جس کی ترتیب پر مرتب محترم اور اشاعت پر مکتبہ ختم نبوت کے ذمہ داران شکریہ و تبریک کے مستحق ہیں ۔

            نام کتاب :           نقد ونظر

            تالیف    :           شہید اسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی قدس سرہٗ

            ترتیب    :           مولانا محمداعجازمصطفی صاحب، معاون مدیر ماہ نامہ بینات

            صفحات   :           جلداوّل   ۷۲۰      جلد دوم  ۷۴۴

=====================================

شعبۂ فارسی کے قدیم استاذ جناب مولانا سرور احمد دیوبندی کا انتقال

            ۶؍ربیع الاوّل ۱۴۴۱ھ مطابق ۴؍نومبر ۲۰۱۹ء بروز پیر، دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ فارسی کے قدیم استاذ جناب مولانا سُرور احمد صاحب دیوبندی وفات پاگئے،  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

            مولانا کا تعلق دیوبند کے اس نیک نام خاندان سے تھا جو اپنی دینی وعلمی شخصیات کی برکت سے ساری دنیا میں متعارف ہے، اُن کے پردادا حضرت مولانا محمد یاسین صاحب رحمہ اللہ کے بھائی تھے، جو حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے والد تھے، اس طرح وہ حضرت مفتی صاحب کے چچازاد بھائی کے پوتے تھے۔ دارالعلوم میں ان کی خدمت کی مدت نصف صدی کے قریب ہے۔ وہ اپنی شرافت وخوش خلقی اور نرم خوئی جیسے اوصاف کی بناء پر ایک مانوس ومحبوب شخصیت کے مالک تھے۔ (حالات پر قدرے تفصیلی مضمون، جناب مولانا اشتیاق  صاحب کے قلم سے اسی اشاعت میں شامل کیا جارہا ہے)۔

            مرحوم گذشتہ چند سالوں سے شوگر اور اس سے پیدا ہونے والے عوارض کا شکار تھے، عمر تقریباً ارسٹھ سال تھی؛ لیکن زندگی کے آخری دن تک بھی درسگاہ میں تشریف لاتے رہے اور دوپہر کو مدرسہ سے واپسی کے تھوڑی دیر بعد رخصت ہوگئے۔ اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور اپنے قرب کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمائے، آمین!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts