از:مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

مدیرماہنامہ الاصلاح کریم نگر

                   اسلامی تاریخ کے عظیم انسان ،عبقری شخصیت،بے مثال حکمراںاور قائد،پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ کے جاں نثار صحابی ؓ،امیر المؤمنین ،خلیفہ ثانی،عدل وانصاف ،حق گوئی وبیباکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروقؓ کی حیات اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی،اور آپ کے اسلام کے لیے خود نبی کریم ﷺ نے دعامانگی ،آپ کے قبول اسلام کے ذریعہ کمزور مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملااور خود رسول ﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدردنصیب ہوا، بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت کچھ فیض پہونچا،اور آپؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد پوری اسلام کے لیے وقف تھی،آپ نے بہت کچھ اصلاحات دین کے مختلف شعبوںمیں فرمائی ،اور ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوںکے نظام کو بھی درست کیا۔اور بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابو بکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔ ورع و تقوی ،خلو ص و للہیت ،سادگی و بے نفسی، انکساری اور عاجزی بے شمار خوبیوں سے اللہ تعالی نے نوازاتھا ،دنیا کے نظام کو چلانے اور انسانوں کی بہتر اندا ز میں خدمت کرنے کا خاص ملکہ عطافرمایا تھا ،جن کے ذریعہ اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں میں پھیلایا ،اور اطراف عالم تک پہنچا ،جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں ،ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت ،رعایا کی خبر گیری ،مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا ،ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ کا امتیازتھا، آپ کی مبارک زندگی کے ان گنت پہلو اور گوشے ہیں اور ہر پہلو انسانیت کے لیے سبق اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔ذیل میں ہم صرف ان کی بے مثال حکمرانی سے متعلق چیزوں کو پیش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ا ن کی سادگی اور انکساری کے پہلو کو بھی بیان کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ جس کو اللہ تعالی نے ایک بڑی سلطنت کا فرماں روا،اور منصب ِخلافت کا مسند نشیں بنایا تھا لیکن وہ ان تمام کے باوجود مخلو قِ خدا کی خدمت میں کس طرح اپنے آپ کو مٹادیا تھا اور لوگوں کی بھلائی اور فائدہ کے لیے کن کن چیزوں کو بروئے کار لایا تھا ،بقول مولانا شاہ معین الدین ندویؒ کہ :فاروق اعظمؓ کی زندگی کا حقیقی نصب العین رفاہ عام اور بہبودی بنی نوع انسان تھا۔

عادل حکمران

                سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں عد ل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی ،اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلادیا،مساوات و برابری ،اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔  ابن عباسؒسے مروی ہے کہ : تم عمرؓ کا ذکر کیا کرو،کیوں کہ جب تم عمر کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل وانصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔( اسدالغابہ :۴/ ۱۵۳ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر ؓ کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہد ہ کرے ،جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا ،اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟صحابہ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشا ہ نہیں ہے ،البتہ ہمارے امیرہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں ،قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المؤمنین سیدنا عمر ؓدھوپ کی گرمی میں سخت ریت پر اپنے درہ کو تکیہ بنائے آرام فرمارہے تھے، پسینہ آپ کی پیشا نی سے ٹپک رہا تھا ،جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمر ؓکا جاہ وجلال او ررعب سے وہ گھبراگیا اس نے کہاکہ ؛اے عمر ! واقعی تو عادل حکمران ہے ،اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا خوف اور ڈر کے بغیر آرام کررہا ہے،اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں اس لیے خوف و ہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے ،میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہوجا تا ،لیکن میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔( اخبار عمرؓ  لعلی الطنطاوی:ـ۳۲۷)

زہد و سادگی

            اللہ تعالی نے آپ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطافرمایا تھا اور آپ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقوی میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا ،آپ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریم ﷺ نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گذرجائے ،عمدہ کھانوں ،بہترین غذاؤں اور اسبابِ تنعم سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس آیا ،ان لوگوں کے لیے روزانہ تین روٹیوں کا انتظام ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بطور سالن کے روغن زیتون پایا ،کبھی گھی ،کبھی دودھ ،،کبھی خشک کیا ہوا گوشت جو باریک کرکے ابال لیا جاتا تھا ،کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا۔انھوں نے ایک روز ہم سے کہا کہ اے قوم ! میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری وناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں ،اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا،تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہوجاؤں میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں؛لیکن میں نے اللہ تعالی کا یہ فرمان سن رکھاہے کہ : اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعم بھا۔( طبقات ابن سعد:۲/۵۸)لباس و پوشاک میں بھی اسی طرح کی سادگی آپ نے اختیارکی جو ہر ایک کے لیے نہایت حیرت انگیز اور ایمان افروزہے۔حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے ( مناقب امیر المؤمنین عمربن الخطاب ؓلابن الجوزی:۱۳۱) اس طرح بے شمار واقعات آپ کی سیرت میں موجود ہیں۔

راتوں کو گشت

            حضرت عمر ؓ نے حکمرانی کرنے اور نظام سلطنت کو چلانے کا بے مثال انداز دیا ہے ،ایک حاکم کی کیا فکریں ہونی چاہیے اور رعایا کی خبر گیری کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرناچاہیے اس کو بہتر طور پر آپ نے پیش کیا اور بتایا کہ جس کے دل میں خوف ِخدا،اور آخرت کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ تخت اور حکومت کے ملنے کے بعد اپنی عوام کی فکروں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔چناں چہ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ آپ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے ،جب لوگ آرام وراحت کے لیے گھروں میں چلے جاتے آپ حالات سے آگہی حاصل کرنے اور پریشان حالوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے باضابطہ چکر لگاتے ،اور جوکوئی مصیبت زدہ ملتا ،پریشان حال نظر آتا، مسافر یا اجنبی غم کا شکار دکھائی دیتا تو خلیفہ وقت خاموشی سے کام انجام دے جاتے اور احساس تک ہونے نہیں دیتے کہ یہ وہی عمر جس کی عظمت کے ڈنکے عالم میں بج رہے ہیں۔ایک رات آپ گشت کررہے تھے کہ مدینہ کے تین میل فاصلہ پر مقام حراء پہنچے،دیکھا کہ ایک عورت پکارہی ہے اور دوتین بچے رورہے ہیں ،پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی ،اس نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ان کو بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھادی ہے ،حضرت عمر اسی وقت مدینہ آئے ،آٹا ،گھی ،گوشت اور کھجوریں لے کر نکلے ،ساتھ آپ کا غلام اسلم بھی تھا اس نے کہا کہ میں لیے چلتا ہوں ،مجھے دیدیجئے۔آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھا ؤ گے۔پھر آپ خود ہی سامان لے کر اس عورت کے پاس آئے،اس نے کھانا پکانے کا انتظام کیا،حضرت عمر خود چولہا پھونکتے تھے ،کھانا تیار ہواتو بچے خوشی خوشی اچھلنے لگے ،حضرت عمر دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔( خلفائے راشدین :۱۲۷)رات میں گشت کے دوران آپ نے بے شمار پریشانوں کی امداد کی اور آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ تنہائیوں میں ناجانے کتنے لوگ پریشانی سے دوچا ر ہوں گے تو ا ن کے کام آیا جائے ،اس سلسلہ میں بہت واقعات ہیں جس سے آپ کی ہمدردی اور فکرمندی اور رعایا کی خبر گیری کا جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔

ضرورت مندوں کی خدمت

            حضرت عمر ؓ کے خدمت خلق کا انداز بھی بڑا نرالا تھا ،گلیوں میں گشت لگاتے ہی تھے ،نظام خلافت ایسا بنایا تھا کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہنے پائے ،حکام اور عمال بھی ایسے متعین فرمائے تھے جو ہروقت راحت رسانی کی فکر میں کوشاں رہتے ،ساتھ میں خود امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ بھی ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے میں لگے رہتے ،بلکہ آپ کی زندگی پوری انسانیت کی خدمت میں گذری ،اسی میںآپ کو مزہ آتا اور دل کو سکون و راحت نصیب ہوتی۔حضرت طلحہؓ  فرماتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں میں نے حضرت عمر ؓکو دیکھا کہ ایک گھر میں داخل ہوگئے ،اس کے بعد دوسرے گھر میں داخل ہوئے ،صبح میں نے اس مکان میں داخل ہو کر دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھی بیٹھی ہے،میں نے اس بوڑھی سے پوچھا کہ وہ کون تھے تجھے معلوم ہے ؟اس نے کہا کہ وہ اسی طرح میرے پاس آکر میری ضروریا ت کو پوری کرکے چلے جاتے ہیںاورصفا ئی ستھرائی کر کے واپس ہوجاتے ہیں۔میں نے کہا کہ وہ تو عمرؓ ہیں۔( مناقب عمر بن الخطاب:۶۸)ایک رات آپ مدینہ کے ایک راستے سے گذررہے تھے تو دیکھا کہ ایک خیمہ لگاہوا نظر آیا جو کل نہیںتھا ،اس کے باہر ایک بدوی بیٹھا ہوا ہے اور اندر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔حضرت عمر ؓفوری اس کے قریب گئے ،حال دریافت کیا، رونے کا سبب معلوم کیا ،اس نے کہا کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی خاتون نہیں جو اس مشکل وقت میں میر ی مدد کرسکے۔حضرت عمرؓ گھر تشریف لائے اہلیہ محترمہ حضرت ام کلثوم ؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آج تمہیں نیکی کمانے کا ایک موقع دیا ہے، کیا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گی؟بیوی نے کہا کہ ضرور آپ بتلائیے! کیا کام ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ایک اجنبی عورت دردزہ میں مبتلا ہے اس کے پاس کوئی عورت نہیں لہذا تم جلدی سے ضرورت کاسامان لے کر میرے ساتھ چلو،حضرت ام کلثوم آپ کے ساتھ نکل گئی ،حضرت عمر نے ہانڈی خود اٹھالی ،خیمہ آتے وہ اندر چلے گئی ،باہر آپ نے آگ جلا کر ہانڈی چڑھادی ،کچھ دیر بعد اندر سے آواز آئی کہ امیر المؤمنین !اپنے دوست کو بیٹے کی خوشخبری سنادیجئے۔جیسے اس دیہاتی نے امیر المؤمنین کا لفظ سنا تو گھبرا گیا،آپ  نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، اطمینان رکھو،پھر جو کھانا تیار ہوا تھا اندر دے دیا کہ اس خاتون کو کھلایا جائے ،اس کے بعد آپ نے اس بدوی سے کہا کہ تم بھی کھالو بہت دیر سے بھوکے ہو اور یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ صبح آجاؤ،بچے کا روزینہ مقرر ہوجائے گا۔(اخبار عمرؓ:۳۴۶بیروت)سیدنا عمرؓ کی مبارک زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں کہ آپ نے خاموشی کے ساتھ لوگوں کی مدد کی ،پریشان حالوں کی خدمت کی اور محتاجوں کی ضروریات کی تکمیل فرمائی۔

غلاموں کے ساتھ حسن سلوک

            سیدنا عمرؓ جس طرح اپنی رعایا اور دوسرے افراد کی راحت رسانی کی فکر میں رہتے اور ان کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے اسی طرح آپ خادموں اور غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے کہ غلام و آقا ،مالک و مملوک کا فرق نہیں ہوتا اور ان کو آرام پہنچانے میں آگے رہتے ،حضرت عمرؓ جن کی عظمت سے باطل کے دل لزرتے اور بدن کانپتے تھے وہ اتنے رحم دل اور خیر خواہ تھے کہ ان کی رحم دلی اور خیر خواہی سے غلام بھی سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔حضرت عمر ؓ جب حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو صفوان بن امیہؓ نے دعوت دی ،اور کھانا ایسے بڑے برتن میں لایاگیا جس کو چا ر آدمی اٹھا سکتے تھے ،خادموں نے کھانا لاکر رکھ دیا اور واپس ہونے لگے ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں کھاؤ گے تو ان خادموں نے کہا کہ نہیں ہم بعد میں کھا لیں گے۔یہ بات سن آپ سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالی لوگوں پر رحم کرے یہ ابھی تک طبقات میں بٹے ہوئے ہیں ؟پھر خدام کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ چناںچہ سب نے کھانا کھا یا۔( سیدنا عمر فاروق کی زندگی کے سنہرے واقعات:۸۷)آپ نے عیسائی اور غیر مسلم خادموں اور غلاموں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور خیر خواہی کا معاملہ فرمایا اور ان کی راحت کا پورا اہتمام فرمایا۔

جانوروں پر رحم

            حضرت عمر فاروق ؓ دین کے معاملہ میں جتنے سخت اور مضبوط تھے ،رہن سہن کے لحاظ اور حقوق کی ادائیگی کے اعتبار سے اتنے ہی نرم اور رحم دل تھے ،ذمہ داری کو پورا کرنے ،اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لیے تڑپنے والے تھے ،آپ کی رحم دلی اور خیر خواہی انسانوں کے علاو ہ جانوروں پر بھی تھی، جانوروں پر زیادہ بوجھ ڈالنا ،ان کو غیر ضروری استعمال کرنا،ان کے چارہ کا صحیح انتظام نہ کرنا آپ کو بہت ہی ناگوار  گذرتا،اور کسی ایک جانور کا بھی مالک کی بے جا زیادتیوں کا شکار رہنا بھی آپ کو رنج و غم میں مبتلا کردیتا تھا ،خو ف و خشیت اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ:اگر بکری کا کوئی بچہ فرات کے کنارے مرگیاتو اللہ تعالی قیامت کے دن عمر سے سوال کرے گا۔  (مناقب عمرؓ: ۱۵۳)احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عمرؓ کو ایک بڑی فتح کی خو ش خبری دینے حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا کہ تمہارا قیام کہا ہے؟ہم جگہ بتائی آپ ہمارے ساتھ اس مقام پر آئے اور ہماری سواریوں کے قریب آکر ان کو دیکھنے لگے،پھر فرمایا کہ کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے نہیںڈرتے؟تم جانتے ہو کہ ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے؟ان کو کھلا کیوں نہیں چھوڑدیا تاکہ یہ زمین پر چل پھر سکیں۔( سیدنا عمرکی زندگی کے سنہرے واقعات:۲۱۷)ایک مرتبہ آپ نے مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر فرمائی ،آپ کے غلام یرفأ نے لمبا سفر کرکے مچھلی حاضر کی اور آکر اپنی سواری کا پسینہ پوچھنے لگا ،حضرت عمر نے دیکھ کر فرمایا کہ عمر کی خواہش پوری کرنے میں ایک جانور کو اس قدر تکلیف اٹھانی پڑے۔اللہ کی قسم !عمر اسے نہیں چکھے گا۔( حوالۂ سابق:۲۱۱)یہ حالت ہے اس عظیم المرتبت انسان کی اور اس بے مثال شخصیت کی کہ جو دین کے معاملہ میں شمشیر بے نیام ہوجا تی،اور حق کے سلسلہ میں آہنی تلوار لیکن مخلو ق کا مسئلہ ہو تا یا انسانوں کی بھلائی اور جانوروں کی خیر خواہی کا سوال تو پھر اپنے آپ کو اس درجہ مٹادیتے کہ دنیا والے ان کی اداؤں پر آج بھی رشک کرتے ہیں ،اللہ تعالی نے ان حضرات کو کچھ اس انداز میں تیار فرما یا تھا کہ دنیا ہر دور میں ان سے سبق سیکھے اور راہِ عمل کو استوار کرے۔

بیت الما ل کااستحکام

            آپ نے خدمت خلق کے میدان میں جو اہم کام انجام دیئے اس میں نظام بیت المال کا استحکام بھی ہے ،حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی خلافت میں جو بیت المال قائم فرمایا تھا ،حضرت عمر نے اس کے نظام کو مضبوط و مستحکم فرمایا اور اصول وضابطوں کے ساتھ اس کو جاری کیا ،اپنی اولاد کے مال و دولت کو اس میں لگا دیا اور خود سادگی کی زندگی گذاردی۔مولاناشاہ معین الدین ندویؒ رقم طراز ہیں کہ: ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کرلیاتھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ،چناں چہ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔حضرت عمر نے تقریباً  ۱۵ھ میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منور میں بہت بڑا خرانہ قائم کیا، دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں  اور ہر جگہ اس محکمہ کے افسرجداگانہ مقرر ہوئے۔صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال جس قدر رقم جمع ہوجاتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعداختتامِ سال صدر خزانہ یعنی مدینہ منور کے بیت الما ل میں منتقل کردی جاتی تھی ،صدر بیت المال کی اہمیت کا اندازہ اس سے  ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے صرف اس کی تعداد سالانہ تین کروڑدرہم تھی۔( خلفائے راشدین:۹۰) 

سانحۂ  شہادت

            حضرت عمر فاروق ؓ نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے تیرے راستے میں موت آئے اورتیرے نبی ﷺ کا شہر نصیب ہو۔اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور اس کا عجیب انتظام فرما۔حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک مجوسی غلام فیروز نامی تھا،اس نے ایک مرتبہ اپنے مالک حضرت مغیرہ کی شکایت کی کہ وہ مجھ سے زیادہ محصول طلب کرتے ہیں ،حضرت عمر ؓ نے اس بے جا شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی ،اس نے غیض و غضب میں ایک تیز خنجر تیار کیا اور نمازِ فجر میں چھپ کر آکربیٹھ گیا،جب حضرت عمر ؓ نے تکبیرکہی، اس نے اس زورسے تین وار کیے جس سے امیر المؤمنین سیدناعمر فاروقؓ گر پڑے ،موت و حیات کی اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ،نماز مکمل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو کہا کہ قاتل کا پتہ لگاؤ کہ کس نے مارا ،ابولؤلؤ نے تقریبا تیرہ صحابہ کو زخمی کردیا اور جب وہ بالکل گرفت میں آچکا تو از خود خنجر مار کر ہلاک ہوگیا،حضرت عمرؓ کو ۲۶/ذی الحجہ۲۳ھ کو خنجرمارا گیااوریکم محرم الحرام ۲۴ھ کو شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیااورتدفین عمل میں آئی ،آپ کی خلافت دس سال پانچ مہینے اکیس دن رہی۔(طبقات ابن سعد:۲/۱۲۳)آپ کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے دورفیقوں کے پہلو میں جگہ ملے ،حضرت عائشہ نے امیر المؤمنین کی اس تمنا کو پورا کیا اور حجرہ میں تدفین کی اجازت دی۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts