علم کلام جدید  [تعارف، مبادیات، اصولی مباحث: اصولِ نانوتوی کی روشنی میں]

پہلی قسط:

از:مولانا حکیم فخرالاسلام

 مطب اشرفی، محلہ خانقاہ، دیوبند

            ۱۹ویں صدی عیسوی کے ثلثِ آخرمیں جس وقت ہندوستان میں نئے ا فکار و رجحانات کے آنے سے ایک ہلچل پیدا ہوئی،اُسی وقت سے جدید علم کلام کی وضع و تدوین کے مطالبے کی صدا بھی گونجنا شروع ہوئی۔علم کلام جدید کے نام سے در حقیقت قدیم اصولوں پرایک خاص قسم کا اعتراض و تنقید تھی۔اور وہ یہ کہ :

             ’’نئے علوم وفنون بالخصوص فلسفۂ جدیدہ (وسائنس) کی تعلیم سے طلبہ کے عقائد میں خلل وفساد واقع ہوتا ہے، وہ اُس کلام(علمِ کلام۔ف) سے دور نہیں ہو سکتا، جسے عباسی دور کے متکلمین نے یونانی فلسفہ کے نقصانات کے لیے ایجاد کیا تھا، اور نہ ہی قدیم علم کلام کی تعلیم سے اُن اعتراضات کے دفاع کی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے، جو جدید فلسفہ او ر سائنس کی روشنی میں اسلامی عقائد وتعلیمات پر عائد کیے جاتے ہیں‘‘۔(۱)

            اِسی بات کو دیگر الفاظ میںیوں کہا گیا کہ:

              ’’ جو طریقہ دین کی حمایت کا بہ مقا بلہ یو نا نی فلسفہ کے ہما رے قدیم متکلمین نے اختیار کیا تھا، وہ اِس زمانے میں کچھ بکار آمد نہیں رہا۔ یہاں تک کہ جومصنّفین اِس زما نے میں اُس طریقے پر کار بند ہو تے ہیں ،اُن کی تصنیفات سے تعلیم یا فتہ لو گوں کی تشفی نہیں ہو تی اور جو شبہات مذہب کی نسبت اُن کے دل میں خطور کر تے ہیں، وہ بدستور کھٹکتے رہتے ہیں۔‘‘(۲)

            پھرمذکورۃ الصدراعتراض کے سائے میں مطالبے کو بہ طرزِ سوال اِس طرح پیش کیاگیا کہ:

            ۱- مذہب پر عموماً اور مذہبِ اسلام پرخصوصاً جو اعتراضات یورپ کے لوگ کر رہے ہیں، اُن کا جواب دینا کس کا فرض ہے؟          

            ۲-  علماء جب تک اُن خیالات سے واقف نہ ہوں گے، جواب کیوں کر دے سکیںگے؟

            ۳- کیا علمائے سلف نے یو نانیوں کا فلسفہ نہیں سیکھا تھا اور اُن کے اعتراضا ت کے جوابات نہیں دیے تھے، اگر اُس وقت اُس زمانے کا فلسفہ سیکھنا جائز تھا، تواب (سائنس کا سیکھنا) جائز کیوں نہیں؟

            پھر اِن سوالات سے خود ہی یہ نتیجہ بھی نکال لیا گیا کہ:

            ’’جمود پسند طبیعت، ماضی کے پرستار ذہن اور تن آسانی کی عادت نے اِن سوالات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔‘‘(۳)

            اس طرح علم کلام جدید کی ضرورت ہنوزقائم ہے،اس لیے:

            ’’ضروری ہے کہ ہمارے علما۔۔۔۔۔ سائنسی نقطئہ نظر سے اِن مادہ پرستانہ دعووں کی نا معقولیت پوری طرح ثابت کردیں۔ یہ عصر جدید کا ایک تجدیدی کارنامہ ہوگا، اوردین ومذہب کی بہت بڑی خدمت بھی ۔اِسی کا نام علم کلام ہے اور یہ موجودہ دور کی ایک اہم ترین علمی ضرورت ہے ۔‘‘ یعنی ’’موجودہ علم کلام وہ ہے، جو جدید علوم ونظریات اور خاص کر مادی افکار وفلسفوں کے مقابلہ کے لیے مطلوب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔

            اور اُس کاجدید سے جدید تر ہونا اس لیے ضروری ہے کہ:

            ’’جدید علم کلام کا دائرہ اب صرف عقائد تک محدود نہیں رہا، بل کہ وہ عبادت واخلاق اور تمام معاملاتِ زندگی تک وسیع ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔  ذہنی وفکری اعتبار سے کوئی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے، کہ اسلامی نظام حیات کو ایک نئے فلسفے یا نئے کلام کے روپ میں پیش کیا جائے۔۔۔۔ موجودہ دور عقلیت پسندی (rationalism) کا دور ہے، اور آج لوگوں کو وہی چیزیں مطمئن کر سکتی ہیں، جو عقلی واستدلالی اعتبار سے مُسْکِت اور تسلی بخش ہوں۔ ‘‘(۴)

            ’’ابتدائی صدیوں میں جب اسلام کے عقائد پر فقہائے اسلام اور متکلمین کام کر رہے تھے، تو اسلام کے عقائد پر جو اعتراضات اور حملے یو نا نیوںکی طرف سے ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اُن اعتراضات کا جواب علماء اور متکلمین نے احادیث کی روشنی میں دیا۔ آج اسلام اور اسلام کے عقائد پر وہ اعتراضات نہیں ہو رہے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفہ ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔  آج نئے انداز سے حملے ہو رہے ہیں، آج اسلامی عقائد اور تعلیمات پر مغربی نظریۂ علم کے حوالہ سے اسلام پر اور ہی انداز کے اعتراضات ہو رہے ہیں، آج مغربی نفسیات نبوت پر اعتراض کر رہی ہے۔ آج کی سائیکالوجی نبوت کو بطور ماخذ علم نہیں مانتی، وحی کو بطور مصدر،علم نہیں مانتی‘‘۔ ’’وحی‘‘ بطور ذریعۂ علم کے قابلِ قبول ہے کہ نہیں، ابھی اِس کے ماننے میں بھی آج کے انسان کو تردد ہے‘‘۔(۵)

             اعتراض کو مزید مستحکم کرتے ہوے ،جدید علم کلام مدون نہ ہونے کی شکایت اِس طرح بھی کی گئی ہے کہ:

            ’’موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں کا اولین اور اہم ترین کام یہ تھا کہ ۔۔۔۔۔ اسلام کی ابدی تعلیمات کو مو ٔثراورطاقتوراندازمیںپیش کریں، تاکہ آج کا انسان اورجدید مسلم نسل اُس کو پڑھے، اوراُس کے ذریعہ سے اپنے کھوئے ہوئے عقیدہ کو دوبارہ حا صل کرے‘‘۔تجزیہ نگار لکھتے ہیں: ’’میں اپنے چالیس سالہ مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس پورے دور (انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے محیط عرصے ) میں مسلمانوں کا دینی طبقہ کوئی ایک بھی ایسی قابل ذکر کتاب وجود میں نہ لا سکا، جو جدید سائنٹفک اسلوب اور وقت کے فکری مستوی پر اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے والی ہو۔‘‘(۶)

            یہ انیسویں صدی کے اواخراور بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں علم کلام جدید کے مطالبہ کے لیے بلند ہونے والی صدائیں تھیں ۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِ س پورے عرصہ میںعلمائے امت نے دفاعِ اسلام کا فریضہ انجام دینے    میں پہلو تہی کی۔ اِس کا مغالطہ آمیز جواب  ایک مفکر نے- یک و صد سالہ فکری جائزہ پیش کرتے ہوے -اِس طرح دیا :

            ’’امتِ مسلمہ کو غیر مسلم اقوام کے علمی، دینی اور تہذیبی حملوں کا سامنا تھا، علمائے امت اپنے طریقے سے اُن کا مقابلہ کر رہے تھے؛ مگر اُن کا دفاع نا کافی بھی تھا، ناقص بھی اور معذور بھی۔‘‘(۷)

            پھر دفاع کا کام کس نے کیا؟اِس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ علمائے اسلام کا دفاع نا کافی، ناقص اور معذور دیکھ کرسر سیداحمد خاں نے دفاعِ اسلام کے لیے علم کلام جدید کی تدوین کا بیڑا اُٹھایا۔ لہٰذا اب یہ دیکھنا ضروری ہو گیا ہے کہ اُن کے دفاع کی نوعیت کیا تھی؟ اُ نہوں نے دفاع کا اصول اور طریقۂ کار کیا مقرر کیے؟تفصیل کا تو موقع نہیں، نہایت اِجمال کے ساتھ اُن کے دفاعی نوعیت کا ذکر کیا جا تا ہے۔ سر سید احمد خاں نے اپنی ریفارمیشن اِسکیم میں قوانین فطرت کو اصل الاصول قرار دے کر اُن کے تحت چند امور کو بطور خاص اہمیت دی ہے:

            ۱- اصول وفروع میں سلف کی اتباع کے مقابلہ میں آزادیٔ رائے کی اہمیت مسلم امت کے ذہن میں بٹھانا۔

             ۲- مذہبی عقائد، خیالات ا ورافعال کی اصلاح اہل مغرب کے وضع کردہ قوانین فطرت کے اصولوں سے۔

            ۳- سائنسی اور ’’فطری ‘‘اصولوں کے برخلاف پائے جانے والے مذہبی مسائل کی ازسرِنو تحقیق و تدقیق۔

            ۴- مذہبی مسائل جن میں متقدمین ِاہل اسلام نے غلطی کی ہے، اُن غلطیوں کی نشاندہی اور اُن کی تصحیح۔

            خیال رہے کہ سر سید کے پیشِ نظر شرعیاتِ علمیہ و عملیہ کی یہ تصحیح ،تحقیق وتدقیق مغرب کے اُسی عقلی کے اصولوں کی رو سے مطلوب تھی جو -بہ قول الامام محمد قاسم النا نوتویؒ-غبارِ خواہش میں آلود تھی۔ اِس طریقۂ کار کے غلط ہونے میں کوئی شبہہ نہ تھا جس کی طرف توجہ دلانے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے سرسید احمد خاں کو مکتوب بھی لکھا تھا(جو اگرچہ بھیجا نہ جا سکا؛لیکن بعد میں حضرت تھانویؒ نے اُسے خود شائع کیا)وہ مکتوب اُن لوگوں کے لیے- آج بھی ایک کھلی فہمائش ہے -جو یہ کہتے ہیں کہ:

            ’’سر سید نے جدید علم کلام کے جو اصو ل تحریر کیے اُن پر اعتراض کی گنجائش بہت کم تھی۔‘‘ (۳)

            مکتوبِ اشرف کے بعض اِقتباسات یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:

            ’’مکرما!جہاں تک آپ کے مساعی اور تصانیف کو غور کر کے دیکھا(تو)یوں معلوم ہوا کہ آپ کو دو چیزیں مقصود ہیں۔۱:خیر خواہیٔ اسلام۔۲:خیر خواہیٔ مسلمانان۔

             خیر خواہیِ اسلام نے اِس پر مجبور کیا کہ جو اعتراضات مذہبِ اسلام پر مخالفین کے ہیں، اُن کے جواب دیے جاویں۔اورخیر خواہیِ مسلمانان اِس امر کا باعث ہوئی کہ مسلمان جو حضیضِ تنزل میں گرے ہیںاُن کو ترقی پر پہنچایا جاوے۔اِن دونوں مقصودوں کے مستحسن ہونے میں کسی منصف کو کلام نہیں ہو سکتا؛مگر صرف غور طلب یہ امر ہے کہ اِس کے ذرایع کیا چیز ہیں۔اِس کی تعیین باعثِ اِختلافِ خیالاتِ سامی اور جمہورِ اہلِ اسلام ہے۔(آگے لکھتے ہیں:)

اسلام کے اوپرسے اعتراض رفع کرنے کاطریقہ؛ از سرسید

            آپ نے اسلام کے اوپرسے اعتراض رفع کرنے کی صورت یہ ٹھہرائی کہ جو تحقیقات جدیدہ ہیں، اُن میں کلام نہ کیاجا وے؛بلکہ جس طرح بن پڑے اسلام کو اُس پر منطبق کر دیا جاوے ۔اور منشا اِس تجویز کا صرف یہ دلیل ہے کہ تحقیقاتِ جدیدہ مطابق واقع کے ہیں اور اسلام غیر مطابق واقع کے نہیں۔دوسرے مقدمہ کے تسلیم میں تو کسی مسلمان کو گنجائشِ(انکار )نہیں۔رہا پہلا مقدمہ؛( کہ تحقیقاتِ جدیدہ مطابق واقع کے ہیں )وہ محل کلام ہے۔اِس کی کیا دلیل ہے کہ سب تحقیقاتِ جدیدہ صحیح ہیں؟‘‘(۸)

             پھر تمثیلاً اہلِ سائنس کی بعض تحقیقات ذکر کر کے حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒایک سو ال یہ کرتے ہیں کہ اِن تحقیقات کے بالمقابل نصوص کی تصریحات قبول کرنے میں: ’’کون سی دلیلِ عقلی قطعی کی مخالفت لازم آتی ہے۔‘‘(۸)

             دوسرا سوال یہ کہ اہلِ سائنس کو اگر بعض چیزوں کا علم نہیں ہو سکا، یا تلاشِ بسیار کے بعد بھی ایسی چیزوں کا وجودجن کی نصوص نے خبر دی ہے، محسوس نہیں ہوا، یا دریافت نہیں ہو ا:

            تو کسی چیز کا محسو س نہ ہونا ’’ نہ ملنا، نظر نہ آنا دلیل اُ س کے عدم کی نہیں ہوتی۔‘‘ایسی حالت میں’’ نصوص کی کیوں تاویل کی جاوے؟‘‘(۸)

            اورتیسراسوال یہ کہ اہلِ سائنس اور: ’’فلاسفۂ جدید نے معجزاتِ انبیاء کا انکار کیا، اِس وجہ سے کہ یہ خلافِ فطرت ہے۔اِس پر کون سی شافی دلیل موجود ہے جس سے نصوص کو مصروف عن الظاہر (کر کے نصوص میں تاویل)کیا جاوے؟رہا یہ کہ یہ خلافِ فطرت ہے۔ اِس فطرت کی ماہیت آج تک متعین نہیں ہوئی جس سے کوئی قاعدہ منضبط ہو سکے۔‘‘(۸)

            ا ب ہم متذکرہ بالا مطالبۂ علم کلام جدید کاتجزیہ پیش کریں گے:

             اصل واقعہ یہ ہے کہ مطالبہ کرنے وا لے ’’مخلصوں‘‘ کو ’’جدید‘‘ کی نوعیت اور مصداق سے واقفیت تھی اور نہ یہ پتہ تھا کہ علم کلام کے تناظر میں ’’جدید‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ اُنہیں اِس کے نام سے کیا مغالطہ دیا جارہا ہے؟ علم کلام جدید کی تدوین کا مطالبہ در حقیقت فکری التباسات اور مغالطات کا آمیزہ تھا، جس کی وجہ سے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے ’’تدوینِ علم کلام جدید‘‘ کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے پہلے لفظ ’’جدید ‘‘ کی تحقیق اور اِس ضمن میں بعض امور کی اصلاح ضروری خیال فرمائی:

۱-پہلی اصلاح:صحیح اصولوں پر بے اعتباری کے رجحان کے متعلق

            ’’اِ س زمانے میں جو بعض مسلمانوں میں اندرونی دینی خرابیاں عقائد کی اور پھر اُس سے اعمال کی پیدا ہو گئی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں، اُن کو دیکھ کر اِ س کی ضرورت اکثر زبا نوں پر آرہی ہے، کہ علمِ کلام جدید مدوَّن ہو نا چا ہیے ‘‘۔

            لیکن علمِ کلام قدیم جو پہلے سے مدون ہے، اُ س کے اصول پر نظر کرنے کے اعتبار سے یہ مطالبہ:

            ’’ خود متکلم فیہ ہے؛ کیوں کہ وہ اصول بالکل کافی وافی ہیں؛ چناںچہ اُن کو کام میں لا نے کے وقت اہلِ علم کو اِ س کا اندازہ اور تجربہ عین الیقین کے درجہ میں ہوجاتا ہے‘‘۔ ۔۔۔’’کہ گو شبہات کیسے ہی اور کسی زمانہ میں ہوں؛ مگر اُن کے جواب کے لیے بھی وہی علمِ کلام قدیم کا فی ہو جاتا ہے ‘‘۔

۲-دوسری اصلاح:اجزائے دین میں تصرف سے متعلق

            قدیم علم کلام کے اصول کافی ہونے کے باوجود علم کلام جدید کا جو مطالبہ کیا جاتا ہے، تو:

            ’’مقصود اکثر قائلین کا اِس مطالبہ سے یہ ہوتا ہے، کہ شرعیاتِ علمیہ وعملیہ، جو جمہور کے متفق علیہ ہیں اور ظواہرِ نصوص کے مدلول اور سلف سے محفوظ ومنقول ہیں، تحقیقاتِ جدیدہ سے اُ ن میں ایسے تصرفات کیے جائیں، کہ وہ(شرعیاتِ علمیہ و عملیہ) اُن تحقیقات پر منطبق ہو جاویں، گو ان تحقیقات کی صحت پر مشاہدہ یا دلیلِ عقلی قطعی شہادت نہ دے۔ سو یہ مقصود ظاہر البطلان ہے۔ ‘‘

۳-تیسری اِصلاح:جدید تحقیقات کی قطعیت سے متعلق

            ’’جن دعووں کا نام تحقیقاتِ جدیدہ رکھا گیا ہے، نہ وہ سب تحقیق کے مرتبہ کو پہنچے ہوئے ہیں؛ بلکہ زیادہ حصہ اُن کا تخمینیات ووہمیات ہیں۔اور نہ اُن میں اکثر جدید ہیں؛ بلکہ فلاسفۂ متقدمین کے کلام میں وہ مذکور پائے جاتے ہیں، اور ہمارے متکلمین نے اُن پر کلام بھی کیا ہے۔ چناں چہ کتبِ کلامیہ کے دیکھنے سے اِس کی تصد یق ہو سکتی ہے‘‘۔(۹)

علم کلام جدید کی اصل حقیقت

            ’’البتہ اس میں شبہ نہیں کہ بعضے شبہات جو اَلسِنہ سے مندرس(اور ناپید) ہو چکے تھے، اُن کا اب تازہ تذکرہ ہوگیاہے اور بعض کا کچھ عنوان جدید ہوگیاہے اوربعض کے خود مبانی جن کو واقعی تحقیقات جدیدہ کہنا صحیح ہوسکتاہے باعتبارمعنون کے بھی جدیدپیداہوگئے ہیں۔ اس اعتبار سے اِن شبہات کے ِاس مجموعہ کو جدیدکہنا زیبا اور اُن کے دفع اورحل اور جواب کو اِس بناء پر بھی کہ جدیدشبہات بالمعنی المذکورکے مقابلے میں ہیں ۔(یعنی شبہات ،جدید اِس معنی میں ہیں کہ بعضے شبہات جو زبانوں پر نہیں رہ گئے تھے، اُن کا اب تازہ تذکرہ ہوگیاہے اور بعض کا کچھ عنوان جدید ہوگیاہے اوربعض کے خود مبنی منشا جدید پیدا ہوگئے ہیں۔ف )ونیز اِس وجہ سے بھی کہ بہ لحاظ، مذاق اہل زمانہ کے، کچھ طرزِبیان میں جِدَّت مفید ثابت ہوئی ہے ، کلام جدیدکہنا درست وبجاہے۔ اور اِس تاویل سے یہ مقولہ کہ علم کلام جدیدکی تدوین ضروری ہے ، محلِ انکار نہیں۔‘‘(۱۰)

            علم کلام جدید کی اِس حقیقت اور ضرورت کو سامنے رکھ کر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے رسالہ ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ تصنیف فرما یا، جس میں اسلام کے اجزائے اعتقادیہ کے متعلق اُن تمام امور میں استدراکات اور اصلاحات فر مائیں، جن میں مسلمان مفکروں نے خود اِلتباس کا شکار ہو کر مغرب کے اختراع کردہ اصولوں کی پیروی کی تھی۔

٭        ٭        ٭

حواشی

(۱)       پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی، سر سید اور علوم اسلامیہ، (الہند: ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، د۔ط، ۲۰۰۱ئ، ص: ۱۵۹،۵-۷۔ 

(۲)       الطاف حسین حالی، حیاتِ جا وید، ص: ۲۱۶- ۲۱۷۔

(۳)      پروفیسرسعود عالم قاسمی ’’سر سید اور جدید علم کلام‘‘ترجمان دار العلوم، اپریل-جون ۲۰۱۶ ص۱۸۔

(۴)      شہاب الدین احمد ندوی،تخلیقِ آدم اور نظریۂ اِرتقا:ص۲۲،۲۳۔

(۵)      محمود احمد غازی، محاضرات حدیث، ص: ۴۵۷- ۴۵۹۔

(۶)       فکر کی غلطی، ص: ۲۷۵؛  بحوالہ الرسالہ، جولائی ۱۹۸۹ئ؍ ص: ۱۵-۱۶۔

(۷)      پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی، سر سید اور علوم اسلامیہ، (الہند: ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، د۔ط، ۲۰۰۱ئ)، ص: ۱۵۹۔

(۸)      حکیم الامت :اصلاح الخیال :ص ۳۶ ۔

(۹)       دیکھیے: تصفیۃ العقائد کے اخیر کے پانچ صفحات۔

(۱۰)     وجہِ تالیفِ رسالہ: الانتباہات المفیدۃ، ص: ۲۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts