از: مولانا محبوب فروغ احمد قاسمی
استاذ حدیث وفقہ جامعہ حسنیہ کایم کلم کیرالا
غور فکر کرنے کا ایک طریقہ
قرآن وحدیث میں جو حصے ہیں ان کو ’’فروض‘‘ کہا جاتا ہے اور ان فروض کے مستحقین کو اصحاب الفروض کہا جاتا ہے۔ وراثت میں سب سے قوی اور مؤثر ذریعہ ارث اصحاب الفروض ہونا ہے۔ اصحاب الفروض کو دینے کے بعد اگر مال باقی رہتا ہے تو دوسرے ورثہ کو تلاش کیا جاتا ہے اور دوسرے ورثہ میں عصبہ ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے؛ کیوںکہ عصبہ سے میت کا تعلق بہت ہی قریب کا ہوتا ہے اور بہت سے مواقع میں یہ قرابت وجہ ترجیح بھی بن جاتی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اگر مال اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی نہیں رہا توعصبہ حرمان کا شکار بھی ہوجاتا ہے یعنی عصبات کو ملنا یقینی نہیں ہوتا؛ جبکہ اصحاب الفروض کو مال کے استحقاق میں تقدم حاصل ہے، کسی موقع پر کوئی صاحب فرض بھی محجوب ہوتا ہے؛ مگر اس وجہ سے کہ اس سے قوی یا قریب کا کوئی وارث موجود ہوتا ہے، اب غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اصحاب الفروض کی کل تعداد بارہ ہیں ان میں سے خواتین (ماں، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، علاتی بہن، اخیافی بہن، دادی ونانی اور بیوی) کی تعداد آٹھ ہیں؛ جبکہ مردوں (باپ، دادا، اخیافی بھائی، شوہر) کی تعداد کل چار ہیں۔ یعنی یقینی ذرائع ارث میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔
پھر اصحاب الفروض کے لیے جو حصص مقرر ہیں ان کی نوعیتوں پر غور کریں تو بھی زیادہ مال والے حصص عورتوں کے لیے ہی ہیں، جو حصص قرآن وحدیث میں مذکور ہیں وہ ہیں: نصف، ربع، ثمن، ثلثان، ثلث، سدس، سب سے بڑا حصہ ثلثان پھر نصف پھر ثلث ہیں، ثلثان دو بیٹیوں، دو پوتیوں، دو حقیقی اور علاتی بہنوں کے لیے مختص ہے۔ نصف ایک بیٹی، ایک پوتی، ایک حقیقی بہن، ایک علاتی بہن اور شوہر کے لیے ہے۔ گویا نصف کے مستحقین کی تعداد پانچ ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں۔
ثلث پانے والے مستحقین ہیں: ماں، اخیافی بہن، اخیافی بھائی جبکہ کم از کم دو ہوں، ان میں بھی دو مستحق عورت ہی ہیں۔
ربع کا مستحق یا تو شوہر ہے یا بیوی، سدس کے مستحقین کی تعداد آٹھ ہیں: ماں، دادی، پوتی، علاتی بہن، اخیافی بہن، اخیافی بھائی، باپ، دادا، ان میں بھی پانچ مستحقین عورتیں ہیں۔
ثمن صرف بیوی کاحصہ ہے۔ ان حالتوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتیں سترہ حالتوں میں اصحاب الفروض ہونے کی حیثیت سے میراث پاتی ہیں؛ جبکہ مرد صرف چھ حالتوں میں بحیثیت صاحب فرض میراث پاتے ہیں۔
بہرحال اس تفصیل سے متجددین وملحدین کے شبہات دور ہوجانے چاہئیں کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلہ کم میراث کیوں ملتی ہے، یہ تو صرف بعض حالات کا ہی قضیہ ہے نیز ان حالات میں بھی بہت سی مصلحتیں وحکمتیں پنہاں ہیں جن کو اوّل وہلہ میں عامی ذہن ادراک نہیں کرپاتا ہے، تعصب واعتراض کا چشمہ اتار کر اگر دیکھا جائے گا تو عین حکمت اور عین عقل کے موافق ہوںگے۔
مسئلہ عول ورد
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات حصص زیادہ ہوجاتے ہیں تو عدد مسئلہ یعنی مال کی تقسیم کے جو عدد متعین ہوتا ہے اس میں اضافہ کرنا پڑتا ہے جس کو عول کہا جاتا ہے، مثلاً ایک خاتون کا انتقال ہوتا ہے، اس کے ورثہ میں شوہر، حقیقی بہن وعلاتی بہن ہیں، شوہر نصف کا مستحق ہے، حقیقی بہن بھی نصف کی مستحق ہے؛ جبکہ علاتی بہن اس حالت میں سدس پائے گی، اب مال کو اولاً ۶ حصوں میں تقسیم کرکے تین تین حصے شوہر و حقیقی بہن کو دے دیے جائیںگے، نیز علاتی بہن کو سدس دیا جائے گا، اور مال کو چھ جگہ تقسیم کرنے کے بجائے سات جگہ تقسیم کیا جائے گا۔ اسی کو عول کہتے ہیں۔
اسی کے بالمقابل رد ہوتا ہے۔ جب کچھ سہام بچ جاتے ہیں تو ان کو اصحاب الفروض پر رد کیا جاتا ہے، اس کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جبکہ کوئی عصبہ نہ ہو،اگر عصبہ ہو تو کوئی حصہ باقی نہیں رہتا ہے، اصحاب الفروض کی تعداد تو بارہ ہیں ان میں سے زوجین کو چھوڑ کر صرف دس ورثہ پر رد کیا جاتا ہے، زوجین میں دو حیثیتیں پائی جاتی ہیں، ایک حیثیت تو اقرباء کی ہوتی ہے، نکاح کی بنیاد پر رشتہ مصاہرت کا وجود ہوتا ہے، یہ بھی ایک مضبوط وقوی رشتہ ہوتا ہے جو زندگی بھر کا ساتھ نبھانے کے لیے ہوتا ہے اور آخری سانس تک اس رشتہ کو باقی سمجھا جاتا ہے، سانس رک جانے کے بعد بھی کچھ دنوں تک بعض مظاہر نکاح باقی رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ وہ بھی ختم ہوجاتے ہیں، اسی وجہ سے قرآن نے ’’رشتہ مصاہرت‘‘ کو نسبی قرابت کا قرین بناکر پیش کیا ہے، بنا بریں بہت سے احکام عائد ہوتے ہیں انہی احکام میں سے زوجین کے لیے میراث کا ثبوت بھی ہے؛ لیکن فرض کے بقدر لے لینے کے بعد پھر زوجیت کا یہ پہلو معدوم ہوجاتا ہے اب وہ اجانب کے ساتھ لاحق ہوجاتے ہیں، میراث چوںکہ اقارب کا حق ہے؛ اس لیے اصل میراث سے زوجین کو دیا جاتا ہے؛ مگر جب رد کا وقت ہوتا ہے تو ان کو مستثنیٰ رکھا جاتا ہے تاکہ دونوں جہتوں کے تقاضے پورے ہوسکیں، زوجین میں یہ قرابت بھی حکمی قرابت ہوتی ہے، ہاں زوجین میں اس حکمی قرابت کے علاوہ کوئی دوسری جہت قرابت موجود ہوتو اس جہت کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے؛ البتہ ایک صورت اور ہے جس میں زوجین پر رد بھی ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں، بیت المال کا نظام بھی ختم ہوچکا ہے تو اسی قرابت حکمی کو ترجیح دیتے ہوئے فقہاء نے زوجین پر رد کرنے کا فتویٰ دیا ہے؛ کیوںکہ کسی اجنبی کو دینے کے مقابلہ قرابت حکمیہ بہرحال اعلیٰ اقویٰ ہے۔ علامہ شامی لکھتے ہیں:
لان سبب الرد ہو القرابۃ الباقیۃ بعد أخذ الفرض وقرابۃ الزوجیۃ حکمیۃ لا تبقی بعد أخذ الفرض فلا رد لانتفاء سببہ۔۔۔۔ وتقدم في الولاء أنہ یرد علیہما في زماننا۔ (ردالمحتار: ۵/۵۳۹ کتاب الفرائض، ط: رشیدیہ پاکستان)
(اس لیے کہ رد کا سبب اسی قرابت ہے جو باقی رہے بقدر فرض لینے کے بعد، زوجیت حکمی قرابت ہے جو فرض لے لینے کے بعد باقی نہیں رہتی پس سبب کے نہ ہونے کی وجہ سے رد نہیں ہوگا۔ ولاء میں گذرچکا ہے کہ ہمارے زمانے میں زوجین پر رد ہوگا)
متعدد صحابہؓ سے رد کا مسئلہ منقول ہے ان میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عثمان ابن عفان، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی نمایاں اسماء ہیں۔ حضرت زید بن ثابت انکار کرتے تھے، امام ابوحنیفہ وامام احمد کا مسلک بھی رد کے جواز کا ہے۔ شافعیہ کے یہاں اصلاً رد نہیں ہے مالکیہ سے بھی یہی منقول ہے؛ مگر امام مزنی کی رائے رد کی ہے، علامہ شامی نے تصریح کی ہے کہ متاخرین شافعیہ کے یہاں رد پر فتویٰ ہے، اسی طرح متاخرین مالکیہ نے بھی رد کا قول اختیار کیا ہے۔ (احکام الترکات والتراث شیخ ابوزہرہ، ص۱۶۸)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے:
بینا أنا جالس عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰ علیہ وسلم إذ أتتہ امرأۃ فقالت: إني تصدقت علی أمي بجاریۃ وإنہا ماتت، فقال: وجب أجرک، وردہا علیک المیراث۔ (مسلم شریف: ۱/۳۶۲، کتاب الصیام، باب فضل الصوم عن المیت)
(حضرت بریدہ فرماتے ہیں: میں اللہ کے رسول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی: میں ایک باندی اپنی امی کو دیا تھا، میری امی کا انتقال ہوگیا ہے، تو اللہ کے رسول نے فرمایا: تمہارے اجر ثابت ہوچکا ہے اور میراث نے تمہاری جانب باندی کو پھیردیا ہے)
اگر رد کا ضابطہ نہ ہوتا تو اس خاتون کو ماں کی جاریہ سے نصف ہی ملتا، یہاں مکمل کا دیا جائے بطور رَد ہی ہوسکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ میراث کی اصل قرابت ہے، پھر قوت قرابت اور قرابت کا لحاظ کیا جاتا ہے، جب عصبات موجود نہیں ہیں تو اصحاب الفروض سے زیادہ قوی قرابت کس میںہوگی؛ اس لیے رد کا قول اختیار کرنا نقل وعقل کی رو سے عین منشائے شریعت کے مطابق ہے۔
عول کی بابت خلجان اور اس کا جواب
مریض اذہان عول کی بابت کش مکش کے شکار ہوجاتے ہیں؛ کیوںکہ عول میں ہر وارث کومقررہ مقدار سے کم مل پاتا ہے جو عقل کے خلاف بھی ہے اور شریعت کے حکم سے روگردانی بھی۔
لیکن اس امت کا طبقۂ اولیٰ جن کی تربیت اللہ کی نگرانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس طبقہ سے زیادہ شریعت کو سمجھنے والا اور اسرار وحکم کا ادراک کرنے والا کوئی نہیں ہوسکتا، اگر ہم ان کو اس امت کی سب سے زیادہ عقلمندوں کی جماعت سے تعبیر کریں تو بجا ہوگا، اس طبقہ نے بڑی بڑی طاقتوں کو اپنی دانش مندی سے زیر کیا، بڑے بڑے حکمرانوں اور سیاست کے میدان کے شہ سواروں کو چنے چبوائے ہیں۔ یہ جماعت عول کے مسئلہ میں متفق نظر آتی ہے، سب سے پہلے یہ مسئلہ خلافت فاروقی میں زیربحث آیا، حضرت عمر فاروقؓ نے تمام اصحاب فقہ وفتاویٰ، نیز ارباب حل وعقد کے سامنے اس مسئلہ کو رکھا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عول کا مشورہ دیا جس کو فاروق اعظم نے قبول کرتے ہوئے حکم نافذ کردیا۔ مجلس میں موجود کسی صحابی نے بلکہ آپ کی حیات تک کسی فرد نے اختلاف نہیں کیا علامہ شامی لکھتے ہیں:
أول من حکم بالعول عمر رضي اللّٰہ عنہ، فشاور الصحابۃ فأشار العباس إلی العول، فقال أعیلوا الفرائض فتابعوہ علی ذلک ولم ینکرہ أحد إلا ابنہ بعد موتہ۔ (ردالمحتار: ۵/۵۵۵ باب العول، رشیدیہ، پاکستان)
(سب سے پہلے عول کا فیصلہ کرنے والے حضرت عمرؓ ہیں؛ چنانچہ انھوں نے صحابہؓ سے مشورہ کیا تو عباس رضی اللہ عنہ نے عول کا مشورہ دیا، پس حضرت عمرؓ نے فرمایا: مسئلہ کو عائلہ بنادو، اس پر سب نے اتفاق کیا، کسی نے انکار نہیں کیا، صرف آپ کے صاحبزادے کا آپ کی وفات کے بعداختلاف ہوا ہے)
طبقۂ صحابہؓ کے بعد تابعین نیز بعد کے ادوار میں اس بابت اختلاف نہیں ملتا، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ چاروں ائمۂ مجتہدین عول پرمتفق ہیں، نیز یہ عقل کے بالکل موافق بھی ہے؛ کیوںکہ جو حضرات عول سے چڑھ رہے ہیں وہ حضرات اس وقت کیا کہیں گے جب کہ سارے ورثہ مستحق میراث ہیں؛ لیکن سہام کی تعداد ان کے استحقاق کے موافق نہیں ہے مثلاً شوہر، حقیقی بہن، ماں اور ایک اخیافی بہن ورثہ میں ہیں، شوہر کے لیے نصف، اسی طرح حقیقی بہن کے لیے نصف مقرر ہے۔ ماں و اخیافی بہن کے لیے سدس سدس ہیں۔ اولاً مسئلہ ۶ سے بنایا جائے گا اور شوہر وحقیقی بہن کو نصف نصف یعنی تین تین دے دیا جائے گا، ماں اور اخیافی بہن کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا تو مجموعہ سہام ۸ ہوجاتے ہیں، جمہور کے نزدیک تو مسئلہ کو عائلہ بناکر ۸ میں سے شوہر کو تین، حقیقی بہن کو تین، ماں واخیافی بہن کو ایک ایک حصہ کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ ٹھیک ہے اس صورت میں تمام ورثہ کے حصص شریعت کے مقرر کردہ حصے سے کم ہورہے ہیں؛ لیکن جو حضرات عول کو تسلیم کرنے کے روادار نہیں ہیں وہ مذکورہ بالا مسئلہ میں کس وارث کو حذف کریںگے، اگر شوہر وحقیقی بہن کو دیتے ہیں اور ماں واخیافی بہن کو محروم کردیتے ہیں، یا ماں وشوہر کو دے کر حقیقی بہن کو کم کردیتے ہیں اور اخیافی کو مکمل ہی طور پر محروم کردیتے ہیں تو کہاں کا انصاف ہوگا؟ ماں کو محروم کرنے کی صورت میں تو بے انصافی کچھ زیادہ واضح ہوکر سامنے آئے گی؛ کیوکہ والدین، زوجین اور اولاد ایسے ورثہ ہیں جو کبھی بھی مکمل طور پر محروم نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہاں کبھی کچھ کم کسی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ شریعت نے ماں واخیافی بہن کو زیرنظر مسئلہ میں وارث گردانا تھا، اس کے لیے حاجب کون آیا جس نے ان دونوں کو محجوب کردیا۔
اگر ماں کو حصہ دیا جائے تو کتنا دیا جائے گا جو بھی مقدار دی جائے گی کسی نہ کسی وارث کا حصہ کم کرکے ہی دینی ہوگی، یہ تو عجیب بات ہے کہ حاجب بھی نہیں ہے پھر بھی آپ اس وارث کے حصہ کو کم کررہے ہیں۔ اس کو ہم ’’قسمۃ ضیزی‘‘ یعنی ٹیڑھی تقسیم سے تعبیر کریں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ اس کے بالمقابل جس صورت کو علمائے امت اختیار کرتے ہیں کہ سب کے حصے سے تھوڑا تھوڑا کم کردیا جائے اور تمام ورثہ کو میراث کا حق دار بنادیا جائے، اس صورت میں کوئی بھی وارث محروم ہوتا ہوا نظر نہیں آئے گا، ہاں اتنا ہوگا کہ تھوڑا حصہ کم ہوجائے گا اور حصہ کا کم ہونا حصہ کے ختم ہونے سے تو اچھا ہی ہے۔ نیز حصے کا کم ہونا عول پر منحصر نہیں ہے۔ یہ تو بہت سی صورتوں میں ہوتا ہے، اگر کوئی حاجب آجائے تو بھی حصہ کم ہوجاتا ہے مثلاً دوبہن کی وجہ سے ماں کا حصہ ثلث سے سدس ہوگیا، اگر دو یا زائد حقیقی بہنیں ہوتیں تو ان بہنوں کا حصہ دوثلث ہوتا جو ان کے مابین تقسیم کرنے کی صورت میں یقینا نصف سے کم ہوتا ہے۔ اسی طرح بہن کی جگہ بیٹی رہتی تو شوہر کا حصہ نصف سے گھٹ کر ربع ہوجاتا، معلوم ہوا حصوں کا کم ہونا برا نہیں ہے؛ مگر کسی وارث کو استحقاق کے باوجود میراث نہ دی جائے تو یہ سراسر ظلم ہے اور تقاضائے عقل ونقل کے خلاف ہے۔
————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:103، صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء
* * *