بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            انسانی ہمدردی کے پیش نظر سرکار مختلف اسکیمیں جاری کرتی ہے، ان کا مقصد پس ماندہ طبقات کو اوپر اٹھانا ہوتا ہے، ان کے ذریعے تعلیم، صحت، علاج، مکان، تجارت اور زراعت وغیرہ میں عام آدمی کو فائدہ ہوتا ہے، بینک اور غیرسرکاری کمپنیاں بھی اس میدان میں سرگرم نظر آتی ہیں، اُن میں بعض صورتیں جائز اور اختیار کرنے کے لائق ہوتی ہیں؛ جب کہ بعض صورتوں سے احتراز کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ذیل میں چند صورتیں اور ان کے شرعی احکام لکھے جاتے ہیں۔

بچیوں کی پیدائش پر حکومت کی تعاون اسکیم

            ہمارے ملک کے اکثر حصوں میں لڑکی کی شادی میں بڑے خرچے ہوتے ہیں، بعض علاقے میں دینے کا شوق اور بعض میں کھل کر یا دبی زبان سے مانگنے کا رواج ہے، اس طرح بچی کی شادی کو گراں باری کا سبب سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہزاروں بچیاں بلا نکاح بڑھاپے کو پہنچ جاتی ہیں اور بہت سی بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی شکم میں قتل کردیا جاتا ہے؛ جب کہ بہت سی بچیاں خودکُشی کا اقدام کربیٹھتی ہیں اور بعض مرتد ہوکر غیرمسلم سے نکاح کرلیتی ہیں۔

            (الف) غرض یہ کہ انھیں صورت حال کے پیش نظر حکومت نے تعاون کی ایک اسکیم بنائی ہے کہ بچیوں کی ولادت کے بعد متعلقہ محکمہ سے فارم کی خانہ پوری کی جاتی ہے، پھر حکومت اس بچی کے نام پر بینک میں دس ہزار روپے جمع کرتی ہے اور پندرہ سال بعد کھاتے میں ایک لاکھ روپے جمع کردیے جاتے ہیں، شروع میں یا درمیان میں بچی یا اس کے والدین کی طرف سے کچھ جمع نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی اس مدت میں کوئی اس کھاتے سے رقم نکال سکتا ہے، یہ اسکیم بہت اچھی ہے مسلمانوں کو بھی اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں؛ اس لیے کہ ابتدائی دس ہزار پر بچی کی ملکیت تام نہیں ہوتی؛ اس لیے اس پر اضافہ کو سود نہیں کہا جاسکتا سود کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی، یہ عطیہ اور ہبہ ہے،  پوری رقم سرکاری تعاون ہے، اس سے استفادہ جائز ہے۔ اس کی نظیر پراوی ڈنٹ فنڈ ہے کہ اس پر ملنے والا اضافہ تنخواہ کا حصہ بن کر تعاون اور ہبہ کے زمرے میں آتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ محمودیہ ۱۶/۳۹۴ ڈابھیل، رحمیہ ۵/۱۵۱، احسن الفتاوی۷/۳۵)

            الربا ہو فضلٌ خالٍ عن عوضٍ مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ فلیس الفضلُ في الہبۃ بربا۔ (رد المحتار ۷/۳۹۸ زکریا)

            (ب) تعاون کی ایک شکل یہ ہے کہ بچی کی ولادت کے بعداس کے نام پر بینک میں کھاتا کھول کر ہر ماہ متعین رقم جمع کی جاتی ہے، پھر جب لڑکی اٹھارہ سال کی ہوتی ہے تو جمع شدہ رقم کی تین گنی مقدار حکومت کی طرف سے اس کے کھاتے میں جمع کردی جاتی ہے، مثلاً دو لاکھ ہوتو چھ لاکھ حکومت جمع کراتی ہے۔ یہ تعاون کی شکل ہے، مگر ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے، نقد پر اضافہ مل رہا ہے۔

بے روزگار نوجوانوں کے لیے تعاون اسکیم

            آج بہت سے نوجوان پڑھ لکھ کر بے کار بیٹھے ہیں، ان کو کوئی نوکری نہیں ملتی، ایسے افراد کے لیے حکومت کی طرف سے تعاون کی ایک شکل یہ اپنائی جاتی ہے کہ حکومت طلب گار کو حسب شرائط ایک لاکھ روپے دیتی ہے، جس میں اسّی ہزار روپے تعاون کے طور پر دیے جاتے ہیں، اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں ہوتا؛ البتہ بیس ہزار روپے بہ طور قرض ہوتے ہیں، اس کی واپسی میں جتنی تاخیر ہوگی اُتنی ہی سود پڑھے گی۔

            مسلمانوں کو اولاً تو سود میں کسی طرح سے پڑنا نہیں چاہیے؛ اس لیے کہ ایسے معاملات میں برکت نہیں ہوتی، سودی ادارے ہرا باغ دکھاکر کہیں نہ کہیں ضرور اپنا فائدہ مقدم کرلیتے ہیں۔ پھر بھی اگرکوئی نوجوان اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کراہت کے ساتھ اٹھاسکتا ہے، وہ کوشش کرے کہ سود دینے کی نوبت نہ آئے، اگر نوبت آجائے تو بیس ہزار پر آنے والا سود اسّی ہزار سے آگے نہ بڑھے، جب تک اسّی کے اندر اندر رہے گا اس پر شرعی سود کی تعریف صادق نہیں آئے گی، اگرچہ حکومت اسے سود کہے؛ اس لیے کہ بیس ہزار ایک لاکھ کا حصہ ہی تھا دونوں کا معاملہ ایک ہے۔

            اگر کوئی نوجوان اس سے استفادہ کرتا ہے تو اس کو اس وقت تک جائز کہا جائے گا جب تک کہ بیس پر سود کا اضافہ اسّی ہزار کے اندر اندر رہے، حضرت الاستاذ مفتی محمد نظام الدین اعظمیؒ نے ’’منتخبات نظام الفتاویٰ‘‘(۳/۱۸۳) میں اسی انداز کی بات لکھی ہے اور مفتی احمد خان پوری مدظلہٗ العالی نے بھی محمود الفتاوی (۲/۳۳) میں اس کی تائید فرمائی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض اسکیم

            تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت بینک سے طالب علم کو قرض دلاتی ہے، دورانِ طالب علمی اس پر عائد ہونے والا سود حکومت خود ادا کرتی ہے، طالب علم کو ادا نہیں کرنا پڑتا؛ البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد اگر طالب علم قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو اس کو اصل قرض پر سود دینا پڑتا ہے۔

            اس اسکیم سے بھی مسلم طلبہ کو دور رہنا چاہیے؛ اس لیے کہ سود میں یہ بھی داخل ہے اور اگر کوئی طالب علم یہ قرض لے لے تو تعلیم کی تکمیل کے بعد بلاتاخیر اس کو ادا کردے؛ تاکہ سود دینے کی نوبت نہ آئے۔ سود کی حرمت قرآن پاک میں واضح ہے۔

تعلیم کے فروغ کے لیے بینک کی تعاون اسکیم

            اَکسِزْ بینک(Axis Bank)  نے تعلیم کے فروغ کا ہراباغ دکھاکر ایک تعاون اسکیم جاری کیا ہے کہ بچے کے والد یا سرپرستان پانچ سال تک سالانہ ایک ایک لاکھ روپے جمع کریں، پانچ لاکھ جمع کرکے بے فکر ہوجائیں، اس سے غیرمتعین نفع ملتا رہے گا۔ یعنی نفع کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی؛ لیکن نقصان نہیں ہوگا۔

            یہ اسکیم بھی بینک نے اپنے فائدے میںجاری کیا ہے، پانچ لاکھ روپے سے وہ منافع حاصل کرتا رہے گا، اس میں سے تھوڑا اس غریب کو بھی دے گا، اس کی بجائے اگر یہ آدمی اپنی رقم کسی اور تجارت میں لگائے تو بھی اس کو اچھے خاصے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، بینک کی یہ شکل قرض سے نفع حاصل کرنے کی شکل ہے، مضاربت نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں نقصان کا ذکر نہیں ہے۔ قرض سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں، کل قرض جر منفعۃً فہو ربا۔ (اعلاء السنن ۱۴/۴۹۸)

مویشی پالن اسکیم

            سرکار مویشیوں کو خریدنے کے لیے کسی شخص کو مدد کی غرض سے ایک خطیر رقم مثلاً دس لاکھ روپے دیتی ہے، اس میں سے صرف آدھی رقم یعنی پانچ لاکھ روپے سود کے ساتھ واپس لیتی ہے، اگر کوئی جانور مرجاتا ہے تو بتانے پر اس کی خرید میں صرف ہوئی رقم دوبارہ دیتی ہے۔ یہ اسکیم بہت اچھی اور جائز حد کے اندر ہے، یہ معاملہ قرض معاف کرنے کے قبیل سے ہے، مبسوطِ سرخسی میں ہے:

            إذا أقرض الرجلُ الرجلَ الدراہم ثم صالحہ منہا علی أقل من وزنہا فہو جائز۔ (مبسوط سرخسی ۱۴/۳۸)

            پانچ لاکھ کی واپسی میںاگر سود دینے کی نوبت آئے اور وہ کل قرض (دس لاکھ) سے آگے نہ بڑھے تو بھی معاملہ حرام نہیں ہوگا۔ جیساکہ بے روزگار نوجوانوں کے تعاون والی صورت میں بتایا جاچکا ۔

’’ڈرابیک‘‘ پالیسی

            ملکی مصنوعات کو غیرملک بھیجنے کو ایکسپورٹ (برآمد) کہا جاتا ہے، سرکار ہر مصنوع کے ایکسپورٹ پر الگ الگ فی صد کے حساب سے ’’ڈرابیک‘‘ (واپسی اِضافی رقم) دیتی ہے، جیسے ایک تاجر نے پیاز ایکسپورٹ کیا تو سرکار اس تاجر کو پیاز کی قیمت کا تین فی صد اپنی طرف سے حوصلہ افزائی کے لیے دیتی ہے۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، یہ حکومت کا انعام کہا جائے گا۔ ملکی معیشت کے فروغ کے لیے حکومت یہ اقدام کرتی ہے۔

’’ڈبیٹ کارڈ‘‘ استعمال کرنے پر منافع اسکیم

            بعض بینک اپنے صارفین کو ڈیبٹ کارڈ استعمال کرکے خریداری کرنے پر پانچ فی صد نقد واپس کرتی ہے، یہی کارڈ اگر پلین کے اندر یا ائرپورٹ پر استعمال کیا جائے تو بیس فی صد نقد واپس کرتی ہے، مثلاً سو روپے کا سامان خریدا تو اسی روپے ہی صرف ہوتے ہیں۔ بیس روپے واپس آجاتے ہیں۔

            اس کے لینے میں بھی حرج نہیں؛ اس لیے کہ بینک کو اس کمپنی کی طرف سے جس کا سامان خریدا گیا ہے نفع حاصل ہوتا ہے، اسی نفع میں سے صارفین کو کچھ فی صد دیتا ہے، اس کو حوصلہ افزائی کی تدبیر اور انعام کہا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ بات الگ ہے کہ اگر مجبوری نہ ہو تو اس کارڈ کو خرید کے لیے استعمال نہ کیاجائے؛ اس لیے کہ یہ سودی نظام کے فروغ واستحکام کا حصہ ہے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts