از:ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
www.najeebqasmi.com
سنبھل صو بہ اترپردیش کا ایک تاریخی شہرہے جو اپنی تعلیمی اور ثقافتی روایات کی بناء پر تاریخی ریاست روہیل کھنڈ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ شیخ حاتم ؒجیسی عظیم شخصیت نے وہاں علم کی قندیل روشن کی اور ملا عبد القادر بدایونی ؒ، ابو الفضل ؒاور دارالعلوم دیوبند کے مشہور استاذ علامہ محمد حسین بہاری ؒ جیسی مایہ ناز ہستیوں نے حصول علم کی غرض سے وہاںکے لیے رخت سفر باندھا۔ سنبھل کی تاریخ میںانگریز حکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒ کا نام ان میں سر فہرست ہے۔ مولانا کی صحیح تاریخ پیدائش کا علم تو نہیں ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق وہ ۱۸۹۹ء میں سنبھل کے محلہ دیپا سرائے میں پیدا ہوئے اور ترک برادری کے سرور والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ مدرسہ دار العلوم المحمدیہ سنبھل میں ابتدائی تعلیم حاصل کر ہی رہے تھے کہ والدمحترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا،اور آپ کو آپ کے بڑے بھائی کے یہاںبھاولپورپہنچا دیا گیا جہاں آپ نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒکے خلیفہ اور مولانا منصور انصاری ؒکے رشتہ دارو جامعہ عثمانیہ کے صدر وشیخ الحدیث مولانا فاروق احمدؒسے تعلیم حاصل کی۔ بھاولپور میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ اپنے مادر وطن سنبھل تشریف لائے اور مدرسہ سراج العلوم میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران جلیان والا باغ کا وہ عظیم سانحہ پیش آیا جس نے پورے ہندوستان میں ایک آگ لگا دی۔ چنانچہ سنبھل کے گل چھتر باغ میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒنے ایک انتہائی دل انگیز اور ولولہ خیز تقریر کی اور اس تقریر نے عوام کو بہت زیادہ متاثر کیا۔یہیں سے ان کی سماجی اور سیاسی زندگی شروع ہوئی اور ان کو رئیس المقررین کا خطاب دیا گیا۔
تحریک آزادی میں شرکت
برطانیہ کے ذریعہ ترکی کے شکست کھانے کے بعد مسلمان بہت زیادہ متاثر ہوئے چنانچہ ۲۲؍نومبر ۱۹۱۹ء کو خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی اور دہلی میں جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ پورے ملک میں خلافت کی تحریک چلائی گئی۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ کی وفات کے چند ماہ بعد مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا جہاں ان کے خیالات میں مزید پختگی پیدا ہوئی اور پورے جوش و خروش کے ساتھ قومی و ملی مسائل میں حصہ لینا شروع کر دیا چنانچہ زمانۂ طالب علمی میں ہی ۲۲؍فروری ۱۹۲۱ئکو انکی شعلہ بار تقریروں کی وجہ سے انھیں گرفتار کر لیاگیااور دو تین دن بعد ان کے کیس کو مرادآباد جیل میں منتقل کر انھیں دو سال کی قید با مشقت کی سخت سزا سنا ئی گئی۔ پھر تمام سیاسی لوگوں کو سخت سے سخت صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا اور ان کے ساتھیوں کو ہر طرح کے پر تشدد واقعات برداشت کرنے پڑے، غلامی کی زندگی گزارنی پڑی، جیل بھیجے گئے، ان کو خاموش کرنے کی حد درجہ کوششیں کی گئیںگویا ہر طرح سے انھیں تختہ مشق بنایا گیا۔ اس کے باوجود انھوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ بالآخر جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد انھیں رہا کر دیاگیااور گھر واپس آنے کے بعداپنی پوری توجہ تعلیم مکمل کرنے پر مرکوز کردی اور مدرسۃ الشرع کٹرہ موسیٰ خان، سنبھل میں داخلہ لیاجہاں مولانا عبد المجیدؒ، مولانا کریم بخشؒ اور مولانامحمد ابراہیمؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر شریعت کے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ اس کے بعد حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور دیگر اساتذئہ کرام سے کسب فیض کے لیے ایک بار پھر دارالعلوم دیوبند کا سفر کیا۔
ابتدائی ملازمت
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے سال ہی یعنی ۱۹۲۴ء میں مدرسہ شاہی مرادآباد میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر کر لیا گیا۔ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۶ء تک مدرسہ شاہی مرادآباد میں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ دراصل مدرسہ شاہی مرادآباد میں آپ کی ملازمت ۱۹۴۶ء تک رہی لیکن بیچ بیچ میں تحریک آزادی کے سلسلہ میں جیل جاتے رہے۔
سیاسی زندگی
۱۹۳۰ میں ملک میں ایک عظیم تبدیلی رو نما ہوئی اور کانگریس نے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا چنانچہ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۰ء کو پورے ملک میں یوم آزادی کا جشن منایا گیا۔ ۱۳ ؍مارچ ۱۹۳۰ ئکو مہاتما گاندھی نے اپنی تحریک نمک ستیہ گرہ کی پامالی کے خلاف ڈانڈی مارچ تحریک شروع کی اور سول نافرمانی تحریک بھی چلائی گئی۔ اس سے ناراض ہوکر انگریز حکومت نے لوگوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دئے۔ ان کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا، گولیوں کا نشانہ بنایا گیااور جیل بھیجا گیا۔ جمعیت علماء ہند نے وقت کی ضرورت کو محسوس کیااور سول نافرمانی تحریک میں کانگریس کے تعاون کے لیے عزم مصمم کر لیا۔چنانچہ مفتی کفایت اللہؒ، حضرت مولانااحمد سعیدؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا مبارک حسین سنبھلی ؒکو جمعیت علماء ہند کے ڈکٹیٹر کے طور پر یکے بعد دیگرے جیل بھیج دیا گیا۔ اس سزا میں مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒکا ساتواں نمبر تھا چنانچہ ۶ مہینے کے لیے وہ بھی قید کر دئے گئے۔ ابتداء میں ان کو دہلی کے B Class جیل میں رکھا گیا؛ لیکن بعد میں ملتان جیل بھیج دیا گیا اور سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد رہا کیا گیا۔
۱۹۳۴ء میں مرکزی کابینہ کے انتخاب کے اعلان کے بعد راجا سلیم پور کی صدارت میں ایک مسلم اتحاد بورڈ بنایا گیااور اس کو یونائٹیڈ، سینٹرالک، بہار اور مدراس جیسے صوبوں میں الیکشن کرانے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ شاہ جہاں پور اور بجنور میں سر یعقوب ؒاور مسٹر کریم الرضاخان ؒجو بورڈ کے ممبر تھے، کے درمیان زبردست مقابلہ آرائی ہوئی ۔مرادآباد بورڈ کے انچارج مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒتھے۔ انھوں نے پوری دلجمعی کے ساتھ اس میں حصہ لیا اور بورڈ کے امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ کامیابی بلا شبہ جمعیت علماء ہند اور مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒکی کوششوں کا ہی ثمرہ تھی۔ اسی طرح جب صوبائی الیکشن کا وقت آیا تو مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ وجود میں لایا گیا۔ جمعیت علماء ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا احمد سعید ؒکی طرف سے محمد علی جناح کو بورڈ کے ممبران کے انتخاب کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ مسٹر جناح نے ۵۶ میں سے ۲۲ کا انتخاب کیا جن میں سے ۲۰ جمعیت علماء ہند کے اور ۲ احرار کے ممبر ان تھے۔ مولانا اسمٰعیل سنبھلیؒ کو یوپی بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ نیز وہ تحصیل بلاری اور مرادآباد کے سنبھل علاقہ سے امیدوار بھی منتخب کیے گئے۔ ان دنوںزمیندار، نواب، راجہ اور انگلش کا لیبل لگانے والے لوگ خوب لطف اندوز ہوئے؛ کیونکہ انگریز حکومت سے مدد یافتہ لوگوں کا شمار سماج کے معزز لوگوں میں ہوتا تھالیکن جن لوگوں کا سینہ قوم کی خدمت سے لبریز تھا انھوں نے انگریز معاون ممبر کو شکست دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ سنبھل کی مشہور ومعروف شخصیت نواب عاشق حسین خان ؒکو مولانا اسمٰعیل سنبھلی ؒ کے خلاف ٹکٹ دیا گیا۔ سنبھل بورڈ کے ۲۰ سال تک چیرمین ہونے اور تقریبا اسی مدت تک وہاں کے خصوصی مجسٹریٹ ہونے کی حیثیت سے نواب عاشق حسین خاںؒ لوگوں میں کافی مقبول تھے اور حکومت کو سالانہ دس ہزار روپئے ٹیکس بھی دیاکرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے اور مولانا اسمٰعیل سنبھلی ؒفتح سے ہمکنار ہوئے۔ بلا شبہ ان کی فتح ایک تاریخی فتح تھی جس سے قوم کو اور زیادہ تقویت ملی۔ دوسرے مقامات پر بھی مسلم لیگ کے ممبران کو فتح حاصل ہوئی لیکن الیکشن کے بعد مسٹر علی جناح ، حکومت کی پارٹی کے ممبران کو بھی جو کانگریس کے خلاف تھے اس میںشامل کرنے کی کوشش کرنے لگے اور دوسرے ممبران کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے لکھنؤکی ایک میٹنگ میں ان کو بھی اس میں شامل کردیا۔مسٹر ظہیر الدین فاروقی اور دیگر لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیںاس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جمعیت علماء ہندنے مسلم لیگ کی مدد کی ہے اور یہ کانگریس کے تئیں نرم بھی ہے لیکن مسٹر جناح نے یہ کہہ کر ان کو خاموش کر دیا کہ یہ لوگ بورڈ میں شامل کر دیے گئے ہیں اور اب جمعیت علماء ہند یا احرار کو اصول کے خلاف جانے کا کوئی حق نہیں ہے۔یہ الفاظ سن کر مولانا اسمٰعیل سنبھلی ؒاپنی نشست سے اٹھ گئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ کہا کہ ہم نے الیکشن کے مقصد کے پیش نظر آپ کا ساتھ دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنے نظریات اور اصول سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اپنا حل تلاش کرنے کا خود ہمیں حق ہے۔ (ان کی یہ پوری تقریر مولانا حسین احمد مدنی ؒکی کتاب میں موجود ہے)۔ چنانچہ مولانا اسمٰعیل سنبھلی ؒ اور جمعیت علماء ہند کے حامی ان کے ساتھیوں نے کانگریس کو اختیار کر لیا۔
۱۹۳۹ء میں جب یورپ میں جنگ شروع ہوئی اورحکومت ہندنے ممبران کا اعتماد حاصل کیے بغیرہندوستانی فوج یورپ بھیج دی تو کانگریس نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور اسمبلی کا بائیکاٹ کر رام گڑھ میں ۲۰ سے ۲۱؍مارچ ۱۹۴۰ء میں مولانا ابولکلام آزادؒ کی صدارت میں ایک پروگرام منعقد کیا اور اس میںسول نافرمانی تحریک کا اعلان کر دیااور ۱۹۴۰ء میں عدم تشدد سول نا فرمانی تحریک شروع کی گئی ۔ ۱۹۴۲ء میں مولانا اسمٰعیل سنبھلیؒ کو مرادآباد میں گرفتار کر ۹ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ پھر اگست ۱۹۴۲ء میں کانگریس نے ہندوستان چھوڑو کا نعرہ بلند کیاجس کی وجہ سے مہاتما گاندھی کو گرفتار کر سابرمتی جیل بھیجاگیااور پورے ملک میں گرفتاری کا سلسلہ جاری ہوگیا چنانچہ مولانا اسمعیل سنبھلیؒ کو ایک بار پھر گرفتار کر غیر معینہ مدت کے لیے مرادآباد جیل بھیج دیا گیا اور ایک سال بعد رہا کیے گئے۔
جمعیت علماء ہند
۱۹۴۶ء میں الیکشن کے اعلان کے بعد کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان رسہ کشی بالکل اعلیٰ پیمانہ پر تھی۔ مسلم لیگ کے نعرہ کے سامنے کانگریس کی حمایت ایک بہادری کا کام تھا۔ چنانچہ مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی ؒ مسلم لیگ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ابتداء میں اپنے لوگوں کے دھوکہ کی وجہ سے انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دوسرے الیکشن میں مولانا کی طرف سے پرچۂ نامزدگی داخل کیے جانے کے بعد بغیر کسی مقابلہ آرائی کے کامیابی ان کے قدم بوس ہوئی اور ۱۹۵۲ء تک وہ MLA رہے۔ ذہنی انتشار کی وجہ سے ۱۹۴۶ء میں مدرسہ شاہی مرادآباد کی مدرسی کو بھی خیرباد کہنا پڑا۔ پھر ۱۹۵۲ء تک جمعیت علماء ہند کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے دہلی میں مقیم رہے۔ اور چار سال تک اسی پلیٹ فارم سے سماجی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔
بیعت وخلافت
۱۹۳۵ء میں آپ نے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی۔ ۱۹۴۶ء میں جب آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ہمراہ مرادآباد جیل میں تھے تو جیل میں ہی شیخ الاسلام نے آپ کو اجازت بیعت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے اوَّلین خلفاء میں سے ہیں۔
حدیث کی عظیم خدمت
آپ ۱۹۵۷ء میں جمعیت علماء ہند سے مستعفی ہو کرسنبھل پہنچے اور اپنے شیخ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒکے حکم اورمدرسہ چلّہ امروہہ کے منتظمین کی درخواست پر مدرسہ ہٰذا میں شیخ الحدیث کا عہدہ قبول فرمایا۔ تقریباً چھ سال آپ نے مدرسہ چلّہ امروہہ میں بخاری شریف کا درس دیا۔ ۱۹۶۲ء میں مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں انھیں شیخ الحدیث مقرر کیا گیا اور تقریبا تین سال تک وہاں صحیح بخاری کا درس دیتے رہے۔ بعد میں بار بار کی درخواست پر انھوں نے مدرسہ تعلیم الاسلام (آنند،گجرات) کا رخ کیا اور آٹھ سال تک وہاں بحیثیت شیخ الحدیث قیام پذیر رہے۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۱ء تک آپ نے آنند (گجرات) میں بخاری شریف پڑھائی۔ ۱۹۷۱ء میں آپ مونگیر (بہار) کے مشہور مدرسہ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے جہاں آپ نے ایک سال درس بخاری دیا۔ ۱۹۷۲ء میں حضرت بنارس کے دارالعلوم (جامعہ اسلامیہ) میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے جہاں آپ ۱۹۷۴ء تک درس حدیث دیتے رہے۔ اس طرح مختلف اداروں میں کم وبیش ۲۰ سال تک آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے۔ بنارس کے قیام کے دوران ہی آپ کی مشہور ومعروف دو تصانیف (تقلید ائمہ اور اخبار التنزیل ) تحریر ہوئی تھیں، جن کی اشاعت کے لیے دیگر حضرات کے علاوہ دارلعلوم دیوبند کے حالیہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی دامت برکاتہم نے اپنی خدمات پیش فرمائی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مہتمم صاحب کو اس عمل خیر پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ جس وقت دادا محترم حضرت مولانا سنبھلیؒ جامعہ اسلامیہ بنارس میں حدیث کی بڑی کتابیں پڑھارہے تھے اُس وقت حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب بھی اسی ادارہ میں قرآن وحدیث کی خدمات پیش فرمارہے تھے۔
۱۹۷۴ء میں ملازمت کا خیال ترک کر کے وہ سنبھل واپس آگئے اور اپنی نا مکمل کتابوں کی تکمیل میں مشغول ہو گئے۔ تقلید ائمہ، اخبار التنزیل اورمقامات تصوف ان کی مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ اسی دورا ن موانہ (میرٹھ )کے لوگوں کی درخواست پر وہ وہاں گئے اور آٹھ ماہ قیام فرمایا۔ موانہ میں قیام کے دوران انھوں نے آٹھ ماہ تک درس قرآن دیا ۔ اسی طرح قرآن کریم کی تفسیر بیان کر نے کے لیے کئی سال ماہ ِرمضان ممبئی میں گزارا۔ اگرچہ آخری رمضان میں انھیں ہر افطار کے بعد انجکشن لینا پڑتا تھا؛لیکن درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا اور پورا رمضان اسی کیفیت میں گذرا۔ اسی بیماری کی حالت میں آپ سنبھل واپس تشریف لے آئے۔ واپسی کے بعد حد درجہ کمزوری کی وجہ سے انھیں مرادآباد کے ایک سرکاری اسپتال میں داخل کر ایا گیا،جہاں ہر مکتبہ فکرکے لوگ، سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان کودیکھنے کے لیے جوق در جوق اسپتال پہنچنے لگیں۔ڈاکٹروں کی مختلف جماعت ان کی نگرانی کر رہی تھی۔ CMO اور سابق وزیر صحت جناب دودیال کھنہ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ انھیں دیکھنے آئے لیکن دن بہ دن صحت گرتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو گئے۔ پورے راستہ مکمل طور پر بے ہوشی طاری رہی۔ اچانک ان کا داہنا ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا اور بہ آواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد زبان پرجاری ہو گیا۔ اسی کیفیت میں گھر پہنچے ا ور بالآخر ڈیڑھ مہینے کی طویل علالت کے بعدبتاریخ ۲۳؍نومبر ۱۹۷۵ئ، بروز اتوار، بوقت ڈیڑھ بجے دو پہر علم و عرفان کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:103، صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء
* * *