از: مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

            ’’تقویم‘‘(کیلنڈر) ایک قومی،سماجی اور انسانی ضرورت ہے۔تاریخ محفوظ رکھنے کے لیے، واقعات مرتب کرنے کے لیے، لائحہ عمل طے کرنے کے لیے، بیشتر دینی و شرعی مسائل کا لزوم معلوم کرنے کے لیے اورزندگی سے جڑی ہر یاد کو دوام بخشنے کے لیے تقویم کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ تقویم،انسان کے لیے ضبطِ اوقات کا ایک ناگزیر پیمانہ اور منصوبہ بندی کا اہم ترین معیار ہے؛ اسی لیے زمانۂ قدیم سے انسان ایام وماہ و سال کو یاد رکھنے کا ضرورت مند رہا ہے اور آج بھی ہے۔

            مورخین کا خیال ہے کہ عموماً تین بنیادوں پر تقاویم کا اجراء عمل میں آیا ہے،  چاند، سورج اور ستارے۔ چاندکی گردش کو بنیاد بناکر جو تقویم منظر عام پرلائی گئی وہ قمری کہلائی، سورج کو معیار بناکر جس کی ایجاد ہوئی وہ شمسی کہلائی اور ستاروں کی بنیاد پرجورائج و عام ہوئی وہ نجومی کہلائی۔

اممِ سابقہ میں تاریخ کا رواج

            ان تین مآخذ کے علاوہ پچھلی قوموں میں تاریخ معلوم کرنے کے لیے اور بھی مختلف چیزوں کومدار بنایا جاتا رہا،  اس سلسلہ میں امام طبریؒ نے اپنی تاریخ میں امام زہریؒ اور امام شعبیؒ سے روایت نقل کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے کہا: جب آدم علیہ السلام جنت سے اتارے گئے اوران کی اولاد ادھر ادھر پھیل گئی تو ان کی اولادنے ھبوط آدم ؑکے واقعہ سے تاریخ کا شمار کیا، اور یہ تاریخ حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت تک جار رہی، پھر لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت سے غرق کے واقعہ تک تاریخ شمار کی، پھر طوفان نوح کے واقعہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے تک تاریخ شمار ہوتی رہی، پھر اس واقعہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کی بعثت تک اور پھر وہاں سے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک، پھر وہاں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت تک، اور پھر وہاں سے بعثت عیسیٰ علیہ السلام تک، اور پھر بعثت عیسیٰ علیہ السلام سے بعثت محمدﷺ تک تاریخ کا سلسلہ چلتارہا۔ امام طبریؒ کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کا جوسلسلہ امام شعبیؒ نے بتایا ہے یہ یہود کے مابین رائج تھا۔ (تاریخ طبری:۱/۱۲۰)

            تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیابھر میں کم وبیش ۱۵ ؍کیلنڈر رائج رہے اور مرور زمانہ کے ساتھ ان کے اندر مختلف تبدیلیاں، مناسب ترمیمات اور ضروری اضافے ہوتے رہے؛ کیونکہ وہ تمام انسانی دماغوں کی ایجاد و اختراع تھے نیزان کی بنیاد بھی کسی مضبوط دلیل پر نہ تھی؛جبکہ ان سب کے بر عکس اسلامی یا ہجری تقویم کو یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ وہ جب سے تجویزہوئی ہے،  اس میں کوئی ایسی قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی گئی جو دوسروں میں متعدد بار رو نما ہوئی اور نہ ہی رہتی دنیا تک اس میں کسی ترمیم و تہذیب کی ضرورت پیش آنے والی ہے؛ کیونکہ اس تقویم کی بنیاد منشائے الٰہی کے عین مطابق چاند پر ہے اور چاند کو اللہ تعالیٰ نے سن وسال کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا ہے، جیسا کہ سورہ یونس، آیت:۵ ؍میں ارشادِ الٰہی ہے ’’اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے سورج کو ضیاء و روشنی اور چاند کو اجالے اور چاندنی کے لیے بنایا ہے اور چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں؛ تاکہ اس کے ذریعے تم سالوں کی تعداد اور حساب و کتاب معلوم کر سکو‘‘ اور دوسری جگہ سورہ البقرہ، آیت:۱۸۹میں فرمایا:’’(اے نبی! ﷺ)لوگ آپ سے چاند کی مختلف حالتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں،  انھیں بتادیں کہ یہ لوگوں کے لیے، (کاروبار کے ) اوقات اور حج کا وقت معلوم کرنے کے لیے ہیں ‘‘ اسی ہجری کیلنڈر کے ۱۲؍ مہینے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ، آیت۳۶میں یہی فرمایا ہے ’’اللہ تعالیٰ نے جب سے زمین و آسمان بنائے ہیں،  اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہیں‘‘ اس آیت سے اورپہلی آیت سے معلوم ہوا کہ سال کے۱۲؍ماہ اور ہر ماہ کے آغاز اور تاریخ کا پتہ چلانے کا ربانی ذریعہ چاند (ہلال) ہے تمام شرعی امور مثلاً رمضان، حج،  یومِ عرفہ،  ایامِ تشریق اور ایامِ بیض چاند ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ غرض اس ہجری،قمری اور اسلامی تقویم کی بنیاد اِسی فطری اور قدرتی نظام پر قائم ہے؛ جس کے واضح اشارے قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہیں۔

ہجری تقویم؛ تاریخ وتدوین

            سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عرب میں قمری کیلنڈر کا رواج تو پہلے سے ہی تھا؛ مگر عہد فاروقی تک سرکاری مراسلات میں صحیح اور مکمل تاریخ کا اندراج لازمی نہ سمجھاجاتا تھا جسے ایک طرح کی دفتری خامی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور اس خامی کا علاج حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ بلا کر کردیا۔ سنہ ہجری کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس کے متعلق علامہ شبلی نعمانیؔ’’ الفاروق‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:۲۱ھ میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی، جس پر صرف شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیونکر معلوم ہو کہ گذشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اسی وقت مجلس شوریٰ طلب کی گئی او رہجری تقویم کے مختلف پہلو زیربحث آئے جن میں سے ایک بنیادی پہلو یہ بھی تھاکہ کون سے واقعہ سے سن کا آغاز ہو۔ حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ حضور اکرمﷺ نے ۸؍ربیع الاوّل کو ہجرت فرمائی تھی۔ چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے؛ لہٰذا دو مہینے ۸دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سن ہجری قائم کیا گیا۔اس طرح اس سن کا آغاز یکم محرم الحرام بروز جمعۃ المبارک ۰۱ھ مطابق ۱۶؍جولائی۶۲۲ء سے ہوا،  یہ سن فطری اور حقیقی ہے؛ مگرجاہلیت کے زمانے میں اہل عرب نے دنیا کی دیکھا دیکھی قمری سال کو دنیوی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے شمسی سال کے مطابق کرناچاہا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اضافی دنوں یا مہینوں کی پیوندکاری کاطریقہ اپنایا۔ اسی طرح اللہ کے شعائر خصوصاً حج کے ایام میں گڑ بڑ پیدا کردی گئی۔پھر یہ خلل صرف حج تک ہی محدود نہ رہا؛بل کہ دوسرے امور میں بھی در آیا۔ حضور اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے حرمت کے چارمہینے قرار دیے گئے تھے،  ان مہینوں کے متعلق اہل عرب کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ان مہینوں میں نہ تو آپس میں جدال وقتال کریں گے نہ کسی تاجر یا راہ گیر کو لوٹ کھسوٹ سے پریشان کریں گے۔ یہ مہینے رجب، ذی القعدہ،ذی الحجہ او رمحرم الحرام تھے۔ ان میں تین اکٹھے مہینے حج کے پُراطمینان سفرکے لیے تجویز کیے گئے تھے؛ چونکہ یہ ایک پسندیدہ دستور تھا۔لہٰذا اسلام نے اسے بحال رکھا۔ آپﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا:اے لوگو!’’نسی‘‘ کفر میں اضافہ ہے،  یہ کافروں کو گمراہ کرنے کے لیے ہے۔ کسی سال اس کو حلال ٹھراتے ہیں اور کسی سال حرام کہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کرکے اس کے حرام کیے ہوئے کو جائز بنالیں اور جائز حرام کرلیں۔ اب زمانہ پھر گھوم گھام کر صحیح وقت اور اصل صورت پر آگیا ہے۔ جیسا کہ وہ تخلیق کائنات کے دن تھا۔ مہینوں کی تعداد اللہ کے یہاں نوشتۂ الٰہی میں جس دن سے اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا بارہ مہینے ہیں۔ سنو! اب آئندہ نہ کبیسہ ہوگا نہ نسی ہواکرے گی۔ چار مہینے حرمت والے ہیں، تین پے درپے اور ایک رجب کا مہینہ ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے بیچ میں ہوتا ہے۔ (ملاحظہ کریں :صحیح بخاری بروایت ابی بکرہ) رسول ﷺکایہی فرمان ہجری سنہ کا ماخذہے؛  اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی تقویم کی ندرت یہ ہے کہ یہ فطرت سے ہم آہنگ ہے اور ہرسال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے۔

اسلامی تقویم کا آغاز واقعہ ہجرت سے کیوں؟

            ہجری تقویم دنیا کے رائج سنین اور تقویموں میں ایک بہت ہی معروف ومشہور تقویم ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز دنیا کی عظیم ہستی اور اللہ کے آخری نبی محمدﷺ کا اہم ترین سفر ہجرت ہے۔ جو حکم الٰہی کی تعمیل کے ساتھ ساتھ، آپﷺ کی سیرت کا درخشاں عنوان اور تاریخ انسانی کا قابل ذکر باب ہے؛ بل کہ ہجرت، اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، کفر و ایمان کی کشمکش،حق و باطل کی آویزش اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ہجرت کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ہجرت ایک اہم ترین عبادت، انبیاء کرام کی سنت، دعوت دین کی شاہ راہ اور کامیابی وظفرمندی کی دلیل ہے۔

            یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تقویم کے لیے ہجرت کا انتخاب کیوں کیا ؟ جو بظاہر درماندگی، شکست اور مجبوری میں کیاگیااقدام ہے۔ انھوں نے دیگر قوموں کی طرح فتح وظفر کو مبداء تاریخ کیوں نہیں بنایا؟اس سلسلہ میں ایک معروف اسلامی اسکالر رقم طراز ہیں کہ: ’’حضو ر اکرم ﷺ  کی عظیم اسلامی تحریک کی جدوجہد میں واقعہ ہجرت بظاہر تو ایک نا خوشگوار واقعہ ہے؛ لیکن حقیقتاً یہ اسلامی انقلاب کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ مسلمانوں نے اسی لیے اپنی تقویم کو کسی شخصیت، خاندان یا قوم کی طرف نسبت دینے کے بجائے ایک نظریہ کی جدوجہد کے مخصوص مرحلے سے نسبت دی ہے۔ مسلمانوں کا سنہ، سنہ ہجری ہے جو ہجرت کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے چناں چہ ہردفعہ جب مسلمان اپنے سالِ نو کا آغاز کرتے ہیں تو وہ عظیم ترین اسلامی تاریخ کی بھرپور جدوجہد کے لیے ایک ایسے مرحلے کی یادتازہ کرتے ہیں جب وہ کسمپرسی اور جبروتشدد کے ماحول سے نکل کر ایک اسلامی ریاست کے قیام کے مرحلے میں قدم رکھ رہے تھے۔۔۔  یہ اللہ کی حکمت ہے کہ ہجرت کی تاریخ نئے سال کی یکم تاریخ کے ساتھ اس طرح منطبق ہوگئی کہ ہجرت ہی مسلمانوں کے لیے سال نو کا موضوع بن کر رہ گئی ہے۔ بلاشبہ ہجرت مدینہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت کے لحاظ سے فتح مکہ سے کسی صورت کم نہیں ہے؛ بلکہ شاید کچھ زائد ہی ہے۔ جس روز ہجرت کرکے مکہ چھوڑا جارہا تھا، اسی روز تاریخ کے ایوان میں مکہ کی فتح کا سنگ بنیاد رکھا جارہا تھا۔‘‘ (ہجرت رسولﷺ سید اسعد گیلانیؒ، نقوش سیرت نمبر ج ۸، ص۲۵۰-۲۵۱)

ہجری تقویم کے بعض خصائص وامتیازات

             ہر تقویم کے کچھ امتیازات ہوتے ہیں اسی طرح ہجری تقویم کے بھی بعض ایسے امتیازات ہیں جو دوسرے سنین اور کیلنڈر میں نہیں پائے جاتے، ان میں سے بعض ذیل میں درج کیے جارہے ہیں :

            ۱-         دنیا بھر کے مروجہ سنین کی ابتدا پرنظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی سن کسی بڑی شخصیت یا بادشاہ کی پیدائش،  وفات یا تاجپوشی سے شروع ہوتا ہے یا پھر کسی ارضی یا سماوی حادثہ مثلاً زلزلہ، سیلاب یا طو فان سے؛ مگرصرف سن ہجری کو یہ اعزاز و شرف حاصل ہے کہ اس کا آغاز دین اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر چلے جانے سے ہوا ہے۔ اپنے وطن کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنا ایک بہت بڑی قربانی ہے اور ایسے اوقات میں ہر شخص کا دل بھر آتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے بھی ہجرت کے وقت مکہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور مجھے پیارا لگتا ہے۔ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کہیں نہ رہتا‘‘(ترمذی)۔

            ۲-        سن ہجری، قمری تقویم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ماہ وسال کی تعیین کے لیے چاند ہی معیار بن سکتا تھا۔ اس کے برعکس رائج شمسی سال (عیسوی کیلنڈر)فطری سال نہیں بلکہ خالص حسابی سال ہے۔ جو علم ہیئت اور علم ریاضی پر مبنی ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں علم ہیئت کے نظریات میں تبدیلی یا اصلاح کے ساتھ ترمیم وتنسیخ بھی ہوتی رہی ہے۔(ملاحظہ کریں : وقت، تعریف، اقسام اور ضروری اصطلاحات از پروفیسر رفیع اللہ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ مجلہ دراسات دینیہ )

            ۳-        اختلاف لیل ونہار اور گردش ارض وقمر سے سال ومہینے کا جو فطری نظام ہے،  ہجری سنہ بالکل اس کے مطابق ہے قمری سال حقیقی سال ہوتا ہے۔ جب چاند زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرلے تو مہینہ اور بارہ چکر مکمل کرلے تو سال پورا ہوتا ہے۔ حالاں کہ عیسوی سنہ میں ایسا کچھ استقلال نہیں ہے۔ عیسوی سنہ سال میں۳۶۵ دن اور تقریبا چھ گھنٹے ہوتے ہیں گویا آخری دن ربع کے اختتام پر ہی سال مکمل ہوجاتا ہے، اس طرح بلامنزل بیچ دن ہی میں سال کا اختتام ہوجاتا ہے۔

            ۴-        سنہ ہجری شروع سے اپنی اصل صورت مجوزہ پر باقی اور قائم چلاآرہاہے،  اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ اسلامی تقویم کی یہ وہ منفرد خصوصیت ہے جو غالباً دنیا کے کسی متداول کیلنڈر میں نہیں، عیسوی تقویم بھی اس خصوصیت سے عاری ہے۔ (رحمۃ للعالمین جلد دوم ص۴۵۰)

            ۵-        بہ لحاظ تداول اور استعمال بھی سنہ ہجری دنیا کے اکثر مروجہ سنین سے قدیم سنہ ہے گرچہ دوسرے مروجہ سنین اپنے اعداد کے لحاظ سے سنہ ہجری سے زیادہ پرانے معلوم ہوتے ہیں۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: رحمۃ للعالمین جلد دوم۴۵۰تا۴۵۱)

خلاصۂ کلام

            مختصر یہ کہ ہجری کیلنڈر کا اسلام اور مسلمانوں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے،  اس کی ترویج و اشاعت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ قرون اولی کے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں نے اسے اولین انتخاب کے طور پراستعمال کیاہے؛ لیکن افسوس صد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خود ہماری بے شعوری،لاپرواہی اور تساہل کے سبب اس کی وہ حیثیت باقی نہ رہ سکی جو قرون اولیٰ میں اسے حاصل تھی۔نیز امت کی سیادت وخلافت سے محرومی اور سیاسی وتعلیمی زوال بھی اس کی ایک بنیادی وجہ ہے؛ کیوں کہ جب کوئی قوم کسی خطہ میں غلبہ پاتی ہے تو وہاں کے باشندوں پر اپنی تہذیبی ومعاشرتی بلکہ ہرطرح کے اثرات چھوڑتی ہے۔

            ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی تقویم ہجری کے استعمال کی عادت ڈالیں، اپنے روز مرہ کے استعمال میں اس تقویم کو مد نظر رکھیں، اگرچہ! دوسری تقویمات،  تاریخوں اورکیلنڈروں کااستعمال گناہ نہیں ہے،  شرعاً اس کے اختیار کرنے میں بھی ممانعت نہیں ہے؛ لیکن شمسی تقویم کا ایسا استعمال کہ ہم اسلامی تقویم کو بالکلیہ بھلا بیٹھیں!یہ کسی طرح درست نہیں،  اس لیے کہ اسلامی تقویم ہجری کی حفاظت بھی مسلمانوں کافرض ہے اوراس کے استعمال میں ثواب ہے،  جس سے محروم نہیں ہوناچاہیے،  نیز! اپنی شناخت اور اپنے امتیاز کو باقی رکھنابھی ایک غیرت مند مسلمان کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے،  اس معاملے میں اس کی بہترشکل یہ ہے کہ ہم قمری تاریخ کے استعمال کوترجیحی بنیادوں پر دوسری تقویم کے مقابلے میں استعمال کریں، خدا نخواستہ اگر سب مسلمان اسلامی تقویم ہجری کو چھوڑ بیٹھیں اور بھلا دیں تو سب کے سب اللہ کے ہاںمجرم ٹھہریں گے،  اس لیے کہ اسلام کی بہت ساری عبادات کا تعلق وربط اسی تقویم کے ساتھ ہے، حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’بیان القرآن‘‘ میں ر قم طرازہیں:۔۔۔ ’’البتہ چوں کہ احکام شرعیہ کامدار حساب ِقمری پرہے، اس لیے اس کی حفاظت’’فرض علی الکفایہ‘‘ہے،  پس اگرساری امت دوسری اصطلاح کواپنا معمول بنالے، جس سے حساب ِقمری ضائع ہوجائے، تو سب گنہگار ہوں گے اوراگر وہ محفوظ رہے تودوسرے حساب کااستعمال بھی مباح ہے؛ لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اورحسابِ قمری کابرتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابُدَّ افضل واحسن ہے‘‘۔ (بیان القرآن)

            حق تعالی ہمیں اپنے دینی تشخص و ورثے کی حفاظت کا اہتمام کرنے اور اس جانب خصوصی توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts