از: مولانا عبدالعلی فاروقی، مہتمم دارالعلوم فاروقیہ، کاکوری، لکھنوٴ
مئی ۲۰۰۵/ کی ۱۷/ تاریخ اور رات تقریباً ۱۰/بجے کا وقت تھا کہ اچانک برادر عزیز مولوی عبدالولی فاروقی سلّمہ نے یہ دلخراش خبردی کہ ابھی علم ہوا ہے کہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب کی وفات ہوگئی، زبان پر بے ساختہ کلمہ ترجیع آیا اور دماغ پر ایک سناٹا سا چھاگیا۔
دل نے سرگوشی کی کہ سال ڈیڑھ سال پہلے کی طرح یہ خبر غلط بھی تو ہوسکتی ہے؟ کافی تگ و دو کے بعد ہردوئی سے رابطہ قائم ہوسکا اور فون پر مفتی مفضال الرحمن صاحب نے خبرکی تصدیق کرہی دی کہ ع
جانے والا گیا داستاں رہ گئی
کیوں کر باور کراؤں کہ بزم تھانوی کی اس آخری شمع کے گل ہوجانے کی یہ خبر میرے لئے غیرمتوقع تھی؟ قانون فطرت، دین و ایمان، حضرت کی عمر طبعی، اور پھر اس طویل علالت کا سلسلہ جس کا مقابلہ صرف ”قوت ارادی“ یا ”قوت روحانی“ سے ہورہا تھا ․․․․ یہ ساری چیزیں خبر وفات کو ”غیرمتوقع“ گرداننے کے حق میں کہاں تھیں؟ مگر ہائے رے انسان کی غفلت شعاری، شیوئہ ناقدری، اور زندگی جیسی بودی اور کمزور چیز پر اندھے اعتماد کا عالم کہ موت و حیات کے بیچ کے صرف ایک سانس کے فاصلہ کو طویل سے طویل تر بنادینے کا آرزو مند ہوتا ہے؟ اپنوں کی چاہت کا یہ انداز بھی کیسا عبرت ناک ہے کہ موت جیسی کڑوی اوراٹل حقیقت بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، اور روح کے بجائے جسم سے،اعمال کے بجائے اعضاء و جوارح سے، اور محبوب کی پسند کے بجائے اس سے وابستہ اپنی پسند ہی کو مدار محبت اور کمال سعادت سمجھتا رہتا ہے۔ فیا حسرتا علی العباد․
آنکھوں میں ”بے تعبیر خواب“ سجانے کا انجام تو یہی ہونا فطری ہے کہ جب آنکھ کھلے تو سب کچھ ”غیرمتوقع“ نظر آئے؛ لیکن اسے کیا کیجئے کہ راقم الحروف جیسے ظلوم و جہول کا تو ذکر ہی کیا؟ عمر بن الخطاب جیسے دانا و بینا فرزانے کو بھی ”دیوانگی محبت“ کے ہاتھوں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات ”غیرمتوقع“ ہی لگی تھی۔
ان سب کے باوجود حقیقت بہرحال یہی ہے کہ وہ ایک مینارئہ نور، وہ مرکز رشد وہدایت، وہ پیکراخلاص و مروت، وہ آئینہ کمالات نبوت، وہ وارفتہٴ عشق رسول، وہ شیدائے اصحاب رسول، وہ اتباع سنت کا پیکر جمیل، وہ حسنات اسلاف کا آخری جامع، وہ مرشد تھانوی کاآخری منظورنظر، اور وہ احسان و تصوف کے قلمرو کا متفقہ تاجدار ․․․․ یعنی محی السنة حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب حقی ہماری اس فانی دنیا سے رخصت ہوکر اپنے انعام و اکرام عطا کرنے والے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
فیا ایتہا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة ․
حضرت کا تعلق ایک خوش حال اور عصری تعلیم یافتہ لیکن دین پسند گھرانے سے تھا، ان کے والد ماجد محمودالحق صاحب اپنے وقت کے ایک نامور وکیل تھے۔ ان کی اولاد میں سے ایک صاحبزادہ انوارالحق حقی صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سبکدوش اور وظیفہ یافتہ پروفیسر ہیں، دوسرے چھوٹے بھائی پاکستان میں کسی اعلیٰ منصب سے وظیفہ یافتہ ہیں، ایک صاحبزادی مراد آباد کے ایک گرلس کالج میں پرنسپل ہوکر وظیفہ یافتہ ہیں۔ سب بھائی بہنوں میں تنہا حضرت مولانا ہی تھے جن کا انتخاب انھوں نے اپنے مرشد حکیم الامت حضرت تھانوی کے ایماء پر دینی تعلیم کے لئے کیا تھا، اور اس میں کیا شک ہے کہ اخلاص نیت کی برکت سے حق تعالیٰ نے ان کے اس فرزند کو اس طرح قبول فرمایا کہ نہ صرف وہ ایک عالم باعمل بنا، بلکہ اس کی قرآن و سنت سے پختہ وابستگی نے اسے روز اول ہی سے یہ امتیاز عطا کیا کہ ایک مرتبہ مرشد تھانوی نے وکیل صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کا ایک بیٹا عصری تعلیم حاصل کررہا ہے اور دوسرا دینی تعلیم، آپ نے دونوں میں کیا فرق محسوس کیا؟
وکیل صاحب نے نہایت ہی بلیغ جواب دیا کہ میں جب اپنے جوتے کے لئے پکارکر کہتا ہوں تو عصری تعلیم حاصل کرنے والا بیٹا میرے جوتے نوکر کے ذریعہ بھجوادیتا ہے اور یہ دینی تعلیم حاصل کرنے والا نوکر سے نہیں بھجواتا ہے بلکہ خود لے کر آتا ہے۔
اللہ اللہ ! کسی صالح و خدا شناس باپ کا اپنے بیٹے کی سعادت مندی ولیاقت پر یہ اعتماد، اور اپنے انتخاب پر اس درجہ اطمینان، کیا کسی بیٹے کے لئے معمولی سرمایہ ہے؟ اور پھر اس ”سرمایہ“ میں اضافہ و ترقی تو ایسی ہوئی کہ ”اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند“ کی بات یوں صادق آکر رہی کہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود باپ تو مرشد تھانوی سے مجاز بیعت ہونے کے حق دار نہ بن سکے؛ لیکن بیٹا صرف ۲۲برس کی عمر میں اس مقام پر پہنچ گیا کہ حضرت تھانوی جیسے بااصول اور متبع سنت مرشد نے اسے اجازت بیعت وارشاد عطا فرمادی۔ وذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء ․
یوں تو ہمارے تمام اکابر و بزرگان دین کے یہاں بزرگی وبڑائی کا اصل پیمانہ ”اتباع سنت“ ہی رہا ، اور معیار یہی رہا کہ جس کی زندگی اور اس کے معمولات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام سے جتنے زیادہ قریب ہوئے اسے اسی درجہ میں بزرگی و ولایت کا حق دار گردانا گیا ․․․․ تاہم محی السنة حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے یہاں یہ رنگ کچھ زیادہ ہی گہرا، نکھرا، اور نمایاں رہا ․․․․ جینے کی مختلف راہوں میں سے نبی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے ان کے حرص و اصرار نے انہیں اپنے معاصرین بلکہ اپنے اکابر کے درمیان بھی محبت آمیز احترام اور عقیدت آمیز اعتماد عطا کردیا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دنیا مسافرت کا گھر ہے ہم سب مسافر ہیں اور ہمارے سفر کی آخری منزل آخرت ہے ․․․․ دنیا کے ہر مسافر کو اپنے سفر میں تین چیزیں مطلوب ہوتی ہیں:
(۱) یہ کہ سفر راحت و آرام سے ہو۔
(۲) یہ کہ سفر عزت کے ساتھ ہو۔
(۳) یہ کہ سفر عجلت کے ساتھ ہو۔
ان ہی تینوں چیزوں کے حصول کے لئے ہر مسافر اپنی حیثیت کے مطابق اے سی کلاس سے لے کر سلیپرکلاس تک ریزرویشن کراتا ہے تاکہ سفر راحت کے ساتھ ہو، ٹکٹ خریدتا ہے اور ریلوے کے دوسرے تمام قوانین کی پابندی کرتا ہے تاکہ سفر عزت کے ساتھ طے ہو اور دوران سفر کسی قسم کی بے عزتی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور پھر منزل تک پہنچنے کے لئے تیزرفتار گاڑیوں کا انتخاب کرتا ہے کہ سفر عجلت کے ساتھ ہو اور جلد سے جلد منزل تک پہنچ سکے ․․․․ دنیا سے آخرت کی طرف سفر میں بھی یہی تین چیزیں مطلوب ہیں کہ یہ سفر بھی راحت کے ساتھ ہو، عزت کے ساتھ ہو،اور عجلت کے ساتھ ہو، اور اس شان کے ساتھ سفر طے ہونے کا واحد ذریعہ ”اتباع سنت“ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دنیا سے آخرت کی طرف سفر کو جس طرح طے کرکے دکھادیا ہے اسی پر گامزن ہوجانے میں راحت بھی ہے، عزت بھی ہے،اور عجلت بھی ․․․․ اور اسی چیز کا نام ”اتباع سنت“ ہے۔
ترویج و اشاعت سنت کے علاوہ حضرت کی دوسری محنت ”صحت قرآن مجید“ کے سلسلہ میں تھی جس کے لئے انھوں نے اپنے مدرسہ اشرف المدارس کے علاوہ ملک و بیرون ملک میں بہت سے مکاتب قائم فرمائے تھے جہاں بچوں کو ابتدا ہی سے قواعد تجوید کی پوری رعایت کے ساتھ حروف و الفاظ کی شناخت کرائی جاتی ہے، ان درس گاہوں میں حفظ و ناظرہ کی تعلیم حاصل کرنے والے بچے ”قاری“ کے سند حاصل کئے بغیر ہی قرآن کو اس کے اصل لب و لہجہ میں اور مخارج و قواعد کی پوری رعایت کے ساتھ پڑھنے پر قابل رشک حد تک قابویافتہ ہوتے ہیں۔
حضرت کو عام ارباب مدارس سے بجا طور پر اس کا شکوہ بھی ہوتا اور وقتاً فوقتاً اس کی فہمائش بھی کرتے رہتے کہ ہمارے عام دینی مدارس میں قرآن مجید کو نہ اس کے شایان شان مقام حاصل ہوتا ہے نہ اس پر وہ محنت ہوتی ہے جو ہونا ضروری ہے ․․․․ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے قرآن مجید کے حافظ بلکہ علمائے کرام بھی قرآن مجید کو مجہول پڑھتے ہیں، وقف اور وصل میں غلطیاں کرتے ہیں، حروف کو ان کے مخارج کے خلاف ادا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بسا اوقات تو ”لحن جلی“ بھی کرگزرتے ہیں، اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ کیا پڑھنا چاہئے تھا اور کیا پڑھ دیا؟
”القرآن“ یعنی کتاب اللہ کو ساری کتابوں میں سب سے افضل و برتر قرار دیتے ہوئے اس کی درسگاہ، اس کے طلبہ، اوراس کے اساتذہ کو وہ سب سے زیادہ اکرام و مراعات کا حقدار قرار دیتے تھے کہ ان سب کا رشتہ براہ راست قرآن مجید سے ہوتا ہے۔ وہ قرآن کے جزدان اور رکھنے کی رحل کے سلسلہ میں انتہائی حساس تھے اور ادنیٰ بے توقیری اور بے لحاظی پر سخت گرفت کرتے تھے۔
وہ ایک جید الاستعداد اور صاحب نظر عالم تھے، قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے ساتھ ساتھ اقوال فقہاء پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان سب کے باوجود ان کی یادگار کتابوں میں ضخیم علمی و فنی کتابوں کے بجائے سب سے اہم کتاب ”ایک منٹ کا مدرسہ“ ہے جس کا تعلق ایک عام مسلمان سے لیکر جلیل القدر علماء تک سے ہے اور جس کے ذریعے انھوں نے روزانہ صرف ایک منٹ صرف کرکے ایک مسلمان کو سچا اچھا اور پابند سنت مسلمان بنانے کا انتہائی سادہ اور عام فہم نصاب پیش کیا ہے، اور جس کی برکت سے نہ جانے کتنے روایتی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ہر اہم اور لائق ذکر آدمی کے اس دنیا سے رخصت ہونے پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات سے ایک ”خلا“ پیدا ہوگیا ․․․․ لیکن حضرت ہردوئی کے ہماری اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد احسان و تصوف، اصلاح و موعظت،اخلاص و مروت، نظم و اکرام، اور ادب و رعایت مراتب کے میدانوں میں اسلامی تعلیمات کے ”عملی نمونہ“ کے طور پر جو خلا پیداہوا ہے اس کی کسک دور تک اور دیرتک محسوس کی جاتی رہے گی۔ ․․․․ اور بس یہی ہے ان کی عمر بھر کی کمائی جس کا بہترین صلہ انشاء اللہ ان کو اپنے اس رب سے ملے گا جس کے دین کی سربلندی کے لئے وہ ساری زندگی کوشاں و سرگرداں رہے۔ فرحمة اللّٰہ علیہ رحمة واسعة ․
$ $ $
ذکر اس انعام خداوندی کا کردینا بھی مناسب ہے کہ اپنی تمام تر بے صلاحیتوں اور عملی کوتاہیوں کے باوجود محض باپ دادا کی نسبت اور علماء و صلحاء کے خاندان میں پیدا ہوجانے کی سعادت کی وجہ سے اپنے وقت کے بہت سے اکابر، صلحاء، اور علماء سے مخاطب ہونے، جوتیاں سیدھی کرنے، اور دعائیں پانے کے اس ناکارہ راقم الحروف کو خوب خوب مواقع ملے ․․․․ یہ الگ بات ہے کہ پیاسا کنویں کے قریب ہوکر بھی اپنی کوتاہی عمل کی بنا پر پیاسا کا پیاسا ہی رہ گیا، تاہم بہ قول فراقؔ گورکھپوری یہ انعام خداوندی بھی کیا کم لائق ذکر بلکہ لائق فخر ہےکہ
آ نے و ا لی نسلیں تم پر نا ز کریں گی ر ند و !
جب یہ سنیں گی تم وہ ہو، جس نے فراقؔ کو د یکھا ہے
شعور کی آنکھ کھلتے ہی حضرت مولانا ابرارالحق صاحب کی حکمرانی دل پرپائی۔ ان کی ہیبت و جلالت کا سکہ ان کی آخری سانس تک چلتا رہا ․․․․ وجہ یہ نہیں تھی وہ تندخو اور کھرے ہوں، یا بات بے بات جھڑک دینے کا اندازہ ہو! نہیں نہیں! وہ تو قطرئہ شبنم کی طرح نرم، کھلتی کلی کی طرح خوبرو، اور ایک مالی کی طرح اپنے گلشن کے گلوں ہی نہیں خاروں کے بھی قدرداں و نگہبان تھے۔ ان کی ایک لطیف مسکراہٹ دور دراز سے آنے والے مسافر کی تھکاوٹ دور کردیتی تھی، پھر ان کا پروقار استقبال، تبسم آمیز استفسار، اور ضیافت و مہمان نوازی کا والہانہ انداز، غرض کہ کیفیت کچھ یوں تھی کہ
ع کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است
ہاں سامنا کرنے سے جھجھک، اور دل پر ہیبت اس بات کی ضرور ہوا کرتی ہے کہ میرے بے اصول سراپا اور میری بے ربط گفتگو سے کہیں اس ”آبگینے“ کو ٹھیس نہ لگ جائے اور میں فرحت و انبساط کے بجائے اذیت و انقباض کا ذریعہ نہ بن جاؤں ․․․ اس کے باوجود وہ جو بزرگوں کے یہاں ”نسبت“ کے نام سے ایک ”مراعاتی کالم“ ہوا کرتا ہے اس کا فائدہ راقم الحروف کو خوب خوب ملا۔ ملاقات نہیں ملاقاتیں اتنی مرتبہ ہوئیں کہ تعداد یاد نہیں، خصوصی ضیافتوں کے مزے بھی لوٹے، یادگار لمحے بھی میسرآئے، الطاف و عنایات کی بارشوں سے شرابور ہونے کی سعادت بھی ملی، ان کی خردنوازی کے صدقے ان کے حلقوں میں کئی مرتبہ ”خصوصی مقرر“ بن کر دینی مجلسوں سے خطاب کرنے کے مواقع بھی ملے۔ اور میری ایک ادنیٰ بلکہ صحیح معنوں میں ”گستاخانہ“ درخواست پر پہلے سے طے شدہ پروگرام میں بروقت ترمیم کرکے ہردوئی سے لکھنوٴ جاتے ہوئے دارالعلوم فاروقیہ کاکوری میں قدم رنجہ فرماکر اپنے نصیحت آمیز خطاب اور دعاؤں سے بھی نوازا․․․ اللہ اللہ ! ۔
ع یہ عنایتیں یہ نوازشیں، مری ایک خستہ سی جان پر
اور پھر ابھی پانچ ہفتہ قبل ہی کی اس آخری زیارت وملاقات کو کیوں کر فراموش کرسکتا ہوں، جو ۱۴/ اور پھر ۱۵/اپریل ۲۰۰۵/ کو اس حال میں ہوئی تھی کہ شدید ضعف ونقاہت کے باعث حضرت والا تین دن سے اپنے رہائشی کمرہ سے نکل کر مدرسہ نہیں آسکے تھے۔ اور جناب مولانا افضال الرحمن صاحب جیسے قریبی بلکہ ”منھ لگے“ بھی مجھے فون پر پیشگی اس کی یقین دہانی نہیں کراسکے تھے کہ زیارت و ملاقات ہوہی جائے گی۔
سفر بلگرام ضلع ہردوئی کے ایک دینی جلسہ میں شرکت کے لئے تھا، اور میں نے اپنے مشفق بھائی مولانا افضال صاحب سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم لوگ نماز عصر مدرسہ اشرف المدارس کی مسجد میں ادا کریں گے۔ آپ اس کی اطلاع کردیں اگر اجازت مل گئی تو زیارت ومصافحہ ہوجائے گا۔ ورنہ میری قسمت !
نماز عصر سے ۱۵-۲۰ منٹ قبل مدرسہ میں قدم رکھتے ہی مولانا افضال الرحمن کو منتظرپایا، اور انھوں نے کہا بس جلدی کرکے ابھی نماز سے قبل ہی آپ حضرات ملاقات کرلیجئے، حضرت آپ لوگوں کے منتظر ہیں۔ اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے میں نے اور میرے ساتھیوں مولانا حسین احمد صاحب، حافظ محمد ہاشم صاحب اور محمد حنیف صاحب (ڈرائیور) نے حاضری دی، اور حضرت والا نے حسب سابق نہایت ہی کشادہ روئی کے ساتھ ملاقات ہی نہیں کی، بلکہ میرا نظام سفر دریافت فرمانے کے بعد فرمایا کہ نماز کے بعد میری طرف سے چائے پی لیں۔ اس کے بعد پھر ایک ملاقات ہوجائے گی۔ دوبارہ حاضری پر حضرت والا نے چائے کے سلسلہ میں دریافت فرمایا اور خاص طورپر ڈرائیور صاحب کے بارے میں پوچھا اور ان سے پھر مصافحہ فرمایا، پھر بلگرام سے لکھنوٴ واپسی کا نظام دریافت فرمایا اور میرے اس جواب پر کہ صبح فجر بعد واپسی ہوگی، اپنے خاص انداز میں فرمایا کہ اگر کوئی زحمت نہ ہو اور کسی نظام میں خلل نہ ہو تو صبح کا ناشتہ یہیں کرلیں ․․․․ اندھا کیا چاہے ؟ چنانچہ ہم لوگ نماز فجر کے بعد ایک پیالی چائے پی کر بلگرام سے روانہ ہوکر ہردوئی پہنچ گئے۔ یہ ۱۵/ اپریل کی صبح تھی اور جمعہ کا دن، حضرت والا کئی دن کے بعد آج اپنی مخصوص کرسی (وہیل چیئر) پر بیٹھ کر مدرسہ کے ایک ایک چپہ کا معائنہ فرمارہے تھے اور مختلف ہدایات دے رہے تھے، مجھے مدرسہ میں داخل ہوتے ہی جہاں یہ خوشخبری ملی کہ آج حضرت والا کی طبیعت بشاش ہے اور مدرسہ آکرحسب معمول معائنہ فرمارہے ہیں وہیں یہ جان کر ایک نامعلوم قسم کی بے چینی اور گھبراہٹ بھی ہوئی کہ اس دوران نظام میں کچھ بے ترتیبیوں کی وجہ سے حضرت والا کو تکلیف ہوئی ہے اور متعلقہ ذمہ داروں سے باز پرس فرمارہے ہیں، اور آج کل کے چلے ہوئے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ ”موڈ آف ہے“ ابھی میں ”اپنی خیریت“ کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت والا کی مخصوص کرسی آگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب غصہ آیا تھا اور کس پر اترا تھا؟ میں نے تو اسی منور منور، اجلے اجلے چہرہ کی زیارت کی اور حضرت والا نے مسکراتے لبوں اور بولتی آنکھوں سے ہم ”بے استحقاقوں“ کا استقبال کرتے ہوئے مصافحہ کی سعادت بخشی، پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی نگرانی میں ہمیں ناشتہ کرایا۔ ناشتہ سے فراغت کے بعد حضرت والا نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈال کر فرمایا کہ ابھی اتنی گنجائش ہے کہ آدھ گھنٹہ کے بعد بھی روانہ ہوکر آپ لوگ انشاء اللہ تعالیٰ ۱۱/بجے تک لکھنوٴ پہنچ جائیں گے، اگر بار نہ ہو اور طبیعت میں انشراح ہو تو چند منٹ مسجد میں کچھ بیان کردیجئے۔ طلبہ و اساتذہ کے علاوہ کچھ بیرونی مہمان اور جوار کی شاخوں سے آئے ہوئے اساتذہ و علماء بھی ہیں۔ تعمیل حکم کو اپنی سعادت سمجھتے ہوئے میں بلا تاخیر اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ کیوں کہ ایسی سعادت پہلے بھی میسر آچکی تھی ․․․․ چند منٹ کے بعد میں مسجد پہنچ گیا اور مجھے کرسی پر بٹھا دیاگیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا؟ دیکھا کہ حضرت والا کی مخصوص کرسی آئی اور میری کرسی کے ٹھیک سیدھ میں کچھ فاصلہ پر روک دی گئی ․․․․ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت والا کے روبرو اور ان کی سماعت میں لاتے ہوئے مجھے اس طرح ”خطیب“ بن کر کچھ کہنا پڑے گا؟ کیوں کر بیان کروں کہ فوری طور پر میری کیا کیفیت ہوئی؟ کرسی سے کیوں کر اتروں؟ اور اپنی بے بضاعتی کا حوالہ دے کر حضرت سے واپس چلے جانے کی درخواست کرنے کی ہمت کہاں سے لاؤں؟ کچھ بھی نہ کرسکا اور بات اس حوالہ سے شروع کردی کہ یہاں سب طالب بن کر آتے ہیں اور مجھے اچھی طرح اس کا احساس ہے کہ ان طالبین میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے سامنے مجھ جیسے تہی مایہ کوجرأت بیان نہ ہونا چاہئے ․․․ مگر کیا کروں؟ حکم حضرت والا کا ہے اور یہاں ان کے تشریف فرما ہونے سے یقین ہے کہ توجہ بھی فرمارہے ہوں گے، اس لئے اپنی نہیں بلکہ حضرت والا کی زبان سے مختلف مواقع پر سنی ہوئی کچھ باتیں آپ کے سامنے دہرانے کی جرأت کررہا ہوں،نقل و تعبیر میں جو قصور ہو وہ میرے بیان و فہم کے قصور کا نتیجہ ہوگا۔
۲۰-۲۵ منٹ بیان ہوا اور میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ ابتدا میں قائم ہونے والی ہیبت، اور سانسوں کی بے ترتیبی کی کیفیت بہت جلد ختم ہوگئی اور میں نے جو کچھ کہا شرح صدر کے ساتھ کہا اور درمیان تقریر وقفہ وقفہ سے حضرت والا کے لبوں پر پھیلنے والی مسکراہٹ میرے لئے آکسیجن کا کام کرتی رہی۔ تقریر ختم ہونے کے بعد حضرت والا کے چہرہ کی بشاشت لبوں کی مسکراہٹ، تشجیعی کلمات، اور دعاؤں نے مجھے یقین دلایا کہ ”کچھ کام کی بات“ ہوگئی۔ مزاج شناس دوستوں نے بھی نقد مبارکباد دی کہ حضرت والا بہت مسرور و محظوظ ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی علم ہوا کہ اس بیان کے کیسٹ کو بعد میں خود حضرت والا نے سنا بھی اور اہتمام کے ساتھ سنوایا بھی۔ کچھ دیر بعد حضرت والا نے تو مجھے مصافحہ و معانقہ فرماکر رخصت کردیا؛ لیکن خدا گواہ کہ اس کے بعد کئی دنوں تک میں ایک کیف و سرور کے عالم میں رہا، اپنی اس خوش بختی کا ذکر اپنے دوستوں اور گھر والوں سے بھی کیا ․․․․ اور نہ جانے کیوں یہ یقین آج بھی قائم ہے کہ میری عاقبت سنورنے کا کچھ تو انتظام ہوہی گیا ․․․․ اس یقین کا آغاز تو اسی مجلس بیان سے ہوگیا تھا، پھر اسے تقویت اس سے ملی کہ حضرت کے ایما سے برادرم مولانا افضال الرحمن صاحب نے حضرت کے متعلقین و منتسبین کے زیر اہتمام ۲/جون ۲۰۰۵/ کو شہر ہردوئی میں منعقد ہونے والے ایک دینی جلسہ میں شرکت و بیان کا وعدہ لیا، اور خود حضرت والا نے بھی ”بہ شرط قیام و اجازت معالج“ اس جلسہ میں شرکت کا وعدہ فرمالیاتھا۔
میں مگن تھا کہ ایک مرتبہ پھر ہردوئی حاضری ہوگی، حضرت والا کی زیارت ہوگی ․․․ اور اس مرتبہ تو کچھ اور بھی ”خصوصی نگاہ“ ہوگی، ممکن ہے کہ بیان کے لئے کسی مضمون کی بھی رہنمائی ہو ․․․․ لیکن یہ کیا؟ ابھی تو ۲/جون کی تاریخ آئی بھی نہیں تھی کہ حضرت والا اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون ․
سہانے خواب بکھر گئے اور ان کی جگہ خواہشوں، تمناؤں، اور حسرتوں نے لے لی۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مر ے ا ر ما ں ، پھر بھی کم نکلے
حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہماری اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے، یہی اس دنیا کا نظام بھی ہے ۔ کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ․ ابھی زخم ہرے ہیں اس لئے احساس کی شدت ہے، اب کیا ہوگا؟ اب کون ایسا روحانی معالج ملے گا؟ اب کون ایسا ہے جسے دیکھ کر اور جس کی ایک ایک نقل و حرکت سے سنتوں کا علم ہوگا؟ اتباع سنت کی وہ لگن، اور نہی عن المنکرات کے لئے وہ تڑپ اب کہاں دیکھنے کو ملے گی؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ذہنوں میں کلبلاکر بے چین و بے قرار کررہے ہیں ․․․․ مگر حقیقت بہرحال یہی ہے کہ حق کا کارواں چلتا ہی رہے گا۔اللہ کے دین کا کام کسی بھی شخصیت کا محتاج نہیں ہے۔ جس کا کام ہے وہی اپنے کام کے لئے افراد پیدا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ نظام انشاء اللہ یوں ہی چلتا رہے گا۔
ہاں ہماری حضرت والا سے سچی وابستگی،اور حقیقی عقیدت کا تقاضا یہ ضرور ہے کہ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہم روشن رکھیں اور ان کے مشن کا اپنے کو وارث سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوشاں ہوں ․․․․ بس یہی ہے ان کو سچا خراج عقیدت !
سدا رہے نام اللہ کا
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 89 ، جماد ی الثانی، رجب 1426ہجری مطابق اگست 2005ء