حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہد میں انسانی حقوق کاتحفظ (مدت حکومت:۱۱ھ تا ۱۳ھ -۶۳۲ء تا ۶۳۴ء)

از:ڈاکٹرظفر دارک قاسمی

پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشعبہ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

            خلافت راشدہ ان خطوط پر قائم تھی جن کی طرف نبی کریمﷺ نے رہنمائی وہدایت کی تھی اسی وجہ سے حقوق انسانی کی حفاظت ،رعایا کے ساتھ نیک برتاؤ خلفاء راشدین کاشیوہ تھا۔ انھوں نے اپنی دور حکمرانی میں شورائی طرزکورواج دیا نیز اسلام کے امن، سلامتی اور عدل کے پیغام کو عام کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔

نام ونسب

            عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبدالکعبہ تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا، ابوبکر کنیت، اور عتیق لقب تھا ، والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ، والدہ کا نام سلمی، ام الخیر کنیت تھی، آپ کا پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عبداللہ بن عثمان، بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التیمی(۱)

            ماخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے ان کی دیانت، راست بازی کا شہرہ تھا، اہل مکہ ان کو حسن اخلاق کی بنا پر نہایت معزز محترم سمجھتے تھے، حتی کہ دور جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے یہاں جمع ہوتا تھا۔ اگر کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوجاتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔(۲)ماخذ یہ بھی بتاتے ہیں آپ کو بچپن ہی سے محمدﷺ سے لگاؤ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ اکثر تجارتی سفر میں محمدﷺ کے ہمراہ جانے کا شرف آپؓ کو حاصل ہوا۔(۳)ابوقحافہ فتح مکہ تک نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔  فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہﷺ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے تو اپنے فرزند حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ دربار رسالت میں حاضر خدمت ہوئے۔ حضورﷺ نے ان کے ضعف کی بنا پر فرمایا کہ انھیں کیوں تکلیف دی میں خود ہی ان کے پاس پہنچ جاتا۔ اس کے بعد آپؐ نے شفقت ومحبت کے ساتھ ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور حلقۂ اسلام میں داخل فرمایا۔(۴)آپ کی والدہ حضرت ام الخیر سلمیٰ بنت صخر کو ابتدا ہی میں اسلام میں داخل ہونے کاشرف حاصل ہوا۔(۵)

غیر مسلموں کے حقوق اور ان سے مشفقانہ برتاؤ

            حضرت ابوبکرؓ دو سال تین ماہ دس دن مسند خلافت پر متمکن رہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپؓ نے اپنے دور حکمرانی میں تمام شہریوں سے انتہائی عادلانہ برتاؤ کیا۔ ان کے تمام حقوق کی حفاظت کی آپؓ کے زمانہ میں جس قدر شورشیں برپا ہوئیں آپ نے انھیں اپنی سیاسی حکمت عملی سے فرو کیا اور اسلامی حکومت کادائرہ کافی حد تک وسیع کیا ۔ آپ کو کئی طرح کے فتنوں سے نبردآزما ہونا پڑا وہ داخلی فتنے تھے اور خارجی فتنے بھی تھے۔ الغرض آپ دنیائے انسانیت کے لیے ایک مثالی حکمراں کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ ماخذ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جب خلیفہ منتخب ہوگئے آپ نے منبر پر بیٹھ کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ رعایا کا کس قدر خیال رکھتے تھے :

          یاایہا الناس فانی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم فان احسنت فاعیونی وان اسات فقومونی الصدق امانۃ والکذب خیانۃ والضعیف فیکم قوی عندی حتی اریح علیہ حقہ انشاء اللّٰہ والقوی فیکم ضعیف عندی حتی اخذ الحق منہ ان شاء اللّٰہ لایدع قوم الجہاد فی سبیل اللّٰہ الاضر بہم اللّٰہ بالذل ولا تشیع الفاحشۃ فی قوم قط والا عمہم اللّٰہ بالبلاء واطیعونی ما أطعت اللّٰہ ورسولہ فاذا عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم قومو الی صلاتکم یرحمکم اللّٰہ (۶)

’’اے لوگوتم پر والی مقرر کیا گیا ہوں ؛ حالاں کہ میں تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری اعانت کرو اگر برائی کی طرف جاؤں تو سیدھا کردو، صدق امانت ہے اور کذب خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف فرد میرے نزدیک قوی ہے؛ یہاں تک کہ میں اس کا حق واپس دلادوں انشاء اللہ۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اس کو خدا ذلیل وخوارکردیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری عام ہوجاتی ہے خدا اس کی مصیبت کوبھی عام کردیتا ہے، خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو؛ لیکن جب خدا اوراس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر اطاعت واجب نہیں ، اچھا! اب نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ خدا تم پر رحم کرے‘‘۔

            اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد رعایا کے حقوق اور ان میں عدل ومساوات کے فروغ کو کس حد تک قائم رکھا اور رعایا کو احساس دلایا کہ میری اطاعت معروف میں کرنا اور جو فعل میں خلاف شرع کروں ، اس میں میری اطاعت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ چنانچہ اس تقریر سے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ میری پالیسی غیر مسلموں کے حقوق کی بھی ضامن ہے۔

            حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ہدایات ہمیں فتوحات میں ملتی ہیں جو آپ نے لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کو تحریری یا زبانی طور پر دیں وہ غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے عزت وآبرو نیز جان ومال کی ضامن ہیں جب آپ نے ملک شام کی فتوحات کے لیے فوج بھیجی تو سپہ سالاروں کو جو ہدایات ارشاد فرمائیں وہ انتہائی اہم ترین ہیں آپ نے فرمایا:

          اوصیکم بتقوی اللّٰہ اغزو فی سبیل اللّٰہ فقاتلوا من کفر باللّٰہ فان اللّٰہ ناصر دینہ ولاتغلوا ولاتغدروا ولا تجبنوا ولا تفسدوا فی الارض ولا نعصوا ماتومرون ولاتحرقن نخلاً ولاتغرقنہا ولاتعقروا بہیمۃ ولاشجرۃ مثمرا ولاتہدموا بیعہ ولاتقتلوا الولدان والشیوخ ولا نساء و ستجدون اقواماً جلسوا انفسہم فی الصوامع فرعوہم وستجدون آخرین اتخذ الشیطان فی رؤوسہم افحاحاً فاذا وجدتم اولئک فاضربوا اعناقہم (۷)

’’میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اللہ کے راستے میں جہاد کرو جن لوگوں نے خدا کو مانے سے انکار کردیا ہے ان سے جنگ کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت فرمائے گا۔ غلول (مال غنیمت میں چوری) نہ کرنا، غداری نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا زمین میں فساد نہ مچانا اور دئیے ہوئے احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھلدار درخت کوکاٹنا، غیرمسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنھوں نے گرجاگھروں میں اپنے آپ کو محبوس کررکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے کہ جن پر (تباہی وبربادی سے بھرپور) شیطنت سوار ہے اور وہ شیطانی سوچ کے حامل ہیں جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑادو‘‘۔

            یہ ہدایات حضرت ابوبکرؓ کی عمومی ہیں جن کاتعلق ریاست کے تمام شہریوں (بشمول غیر مسلم رعایا) سے ہے اور ان ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں غیر مسلموں کے حقوق ان کی جان ومال، عزت وآبرو،عبادت خانے اور ان کے مذہبی پیشواؤں ،وغیرہ کی حفاظت کی گارنٹی تحریری دستاویزکی شکل میں عطا کی گئی تھیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی لشکر کے تمام سپہ سالار ان ہدایات پر ہمیشہ عمل پیرا رہے۔

عہد صدیقی کے صلح نامے

            اگر ہم عہد صدیقی پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں مختلف اقوام سے معاہدہ کیے گئے جن میں غیر مسلموں کو تمام مراعات سے نوازہ گیا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا اور باقاعدہ دستاویزی شکل میں انھیں جملہ مراعات وحقوق عطا کیے گئے۔

اہل مجاعہ سے معاہدہ

            یہ وہ معاہدہ ہے جس پر خالد بن ولید نے مجامعہ بن مرارہ سلمہ بن عمیر اور دیگرفلاں فلاں اشخاص سے صلح کی ہے۔ اس قبیلہ کے تمام افراد کو کچھ شرطوں کے ساتھ امان اور آزادی کی گارنٹی دی گئی۔(۸)

نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ

            جب اہل نجران کو رسول اللہﷺ کی وفات کی اطلاع ملی جن میں اس وقت بنی الافعی کے جو بنی الحارث سے قبل وہاں متوطن تھے جن کی تعداد چالیس ہزار تھی انھوں نے تجدید معاہدہ کے لیے ایک وفد ابوبکر کے پاس بھیجا یہ وفد ابوبکر کے پاس آیا انھوں نے حسب ذیل فرمان ان کو لکھ کر دیا واضح رہے کہ عہد رسالت میں نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی تجدید کے لیے یہ وفد آیا تھا۔ آپ نے بلاچون وچرا اس معاہدہ کی تجدید کرکے یہ ثابت کردیا کہ آپ غیر مذاہب کے ماننے والوں کا خاصا احترام کرتے تھے۔

            بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ فرمان عبداللہ ابی بکر خلیفۃ الرسول کی طرف اہل نجران کے لیے لکھاجاتا ہے میں نے ان کو اپنی اور اپنی فوج کی طرف سے پناہ دی اور جو فرمان رسول اللہﷺ نے ان سے کیاتھا میں بھی اسے تسلیم کرتا ہوں اور اس کی توثیق کرتا ہوں ۔ ان کی جان، مذہب، املاک، حاشیہ متعلقین چاہے وہ اس وقت نجران میں ہوں یا باہر، ان کے پادری،راہب اور گرجا جہاں وہ بنے ہوئے ہیں اور تھوڑی یا زیادہ جس قدر ان کے املاک ہیں ان سب کو ان کے حق میں رہنے دیتے ہیں ۔ بشرطیکہ جوسرکاری لگان مقرر ہے وہ ادا ہوتا رہے اور جب وہ اپنے واجبات پورے کریں تو پھر ان کو نہ جلاوطن کیاجائے نہ ان سے عشر لیا جائے نہ کسی پادری کو اس کے حلقے سے بدلا جائے اور نہ کسی راہب کو اس کی خانقاہ سے نکالاجائے جوکچھ اس تحریر میں لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے لیے محمدﷺ کی ضمانت اور تمام مسلمانوں کی ضمانت دی جاتی ہے اس کے ساتھ اہل نجران کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ اور وفادار ہیں ۔(۹)

ابن صلوبا سے معاہدہ

            ۱۲ھ میں جب حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن الولیدؓ کوعراق کی فتح کے لیے روانہ کیا تو۔ وہاں پہنچ کر سواء کی بستیوں بانقیا بار وسما اور  ایسس میں اترے یہاں کے باشندوں نے حضرت خالد سے معاہدہ صلح کرلیا۔ آپ سے یہ مصالحت ابن صلوبا نے کی تھی ماخذ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد نے ان لوگوں سے جزیہ لینا قبول کیا اور حسب ذیل تحریر ان کو لکھ کر دی۔(۱۰)

            بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وثیقہ خالد بن ولید کی طرف سے ابن صلوبا سواء باشندوں ساحل فرات کے حق میں لکھاجاتا ہے چونکہ تم نے جزیہ دینامنظور کرلیا ہے اس لیے تم کو خدا کی امان ہے۔ تم نے جزیہ کی یہ رقم ایک ہزار درہم اپنی طرف سے اور اپنے خراج دہندوں ، جزیرے اور بانقیا باروسما کے باشندوں کی طرف سے اداکی ہے میں اس کو قبول کرتا ہوں ۔ میرے ساتھ کے تمام مسلمان اس معاہدے پر خوش ہیں آج سے تم کو اللہ، اللہ کے رسول اور مسلمانوں کی حفاظت میں لیاجاتاہے۔(۱۱)

قبیصہ بن ایاس سے مصالحت

            حضرت خالدؓ جب اپنی فوج کو لے کر حیرہ پہنچے وہاں کے شرفاء قبیلہ قبیصہ بن ایاس کی سرکردگی میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے جزیہ دینا قبول کرتے ہیں ؛ چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے ان سے نوے ہزار درہم پر مصالحت کردی(۱۲)

اہل حیرہ سے معاہدہ

            حضرت خالد بن ولید نے ۱۲ھ میں اہل حیرہ سے معاہدہ کیا جس کی شرائط حسب ذیل ہیں :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

          ھذا ما عاھد علیہ خالد بن الولید عدیا وعمراً بنی عدی، وعمرو بن عبدالمسیح، وایاص بن قبیصہ، وحیری بن اکال (و قال عبید اللّٰہ جبری، وہم نقباء اھل الحیرۃ) ورضی بذلک اھل الحیرۃ وامروھم بہ عاھدھم علی نستعین ومائۃ الف درھم تقبل فی کل سنۃ جزاء عن ایدیہم فی الدنیا رھبانہم وقسسیسہم الا من کان منہم علی غیری ذی ید جیسا عن الدنیا تارکا لھا الا من کان غیر ذی ید حبیساً عن الدنیا تارکاً لدنیا وعلی المنعۃ فان لم یمنعم فلا شی علیہم حتی یمنعہم وان غدروا بفعل او بقول فالذمۃ منہم برئیۃ (۱۳)

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ معاہدہ خالد بن ولید نے عدی کے دونوں بیٹوں عمر اور عمرو بن عبدالمسیح سے اوراباس بن قبیصہ سے اور حیری بن اکالی سے کیا ہے یہ لوگ اہل حیرہ کے نقیب ہیں انھوں نے ان لوگوں کو اس معاہدے کی تکمیل کے لیے مجاز گردانا ہے اور وہ اس معاہدہ پر رضا مند ہیں ۔ معاہدہ اس امر پر ہے کہ اہل حیرہ اور ان کے پادریوں اور راہبوں سے سالانہ ایک لاکھ نوے ہزار درہم جزیہ وصول کیاجائے گا مگر غیر مستطیع اورتارک الدنیا راہب اس سے مستثنیٰ ہوں گے اس کے معاوضے میں ہم ان کے جان ومال کی حفاظت کریں گے اورجب تک ہم حفاظت نہ کریں جزیہ نہ لیا جائے گا۔ اگر ان لوگوں نے اپنے کسی قول یا فعل سے اس کی خلاف ورزی کی تو یہ معاہدہ فسخ ہوجائے گا اور ہم ان کی حفاظت کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے‘‘۔

صلوبا بن نسطونا سے معاہدہ

            ماخذ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل حیرہ کی حضرت خالد بن ولید سے مصالحت ہوگئی اس وقت صلوبا بن نسطونا جو دیرناطف کے پادری کا منیب تھا حضرت خالد بن ولید کے پاس ان کے لشکر میں حاضر ہوا اور آپ بانقیا اور باسما کے قصبات سے متعلق مصالحت کرلی، اور وہ ان دونوں قصبوں اور ان کی ان تمام امراض کے لگان کاذمہ دار ہوگیا جو دریائے فرات کے کنارے پر واقع تھیں ؛ اس لیے اپنی ذات اپنے خاندان اور اپنی قوم کی طرف سے دس ہزار دینار دینے کاوعدہ کیا اور کسریٰ کے موتی اس رقم کے علاوہ تھے۔ یہ جزیہ فی کس چار درہم کے حساب سے عائد کیا گیا تھا اس معاہدے کی باضابطہ تحریر لکھی گئی اور اس پر طرفین کے دستخط ہوئے اور یہ جتادیا گیا کہ اگر اہل فارس نے بغاوت کی تو اس کے بعد یہ معاہدہ کالعدم ہوجائے گا۔ معاہدہ کی تحریر حسب ذیل ہے۔(۱۴)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

          ھذا کتاب من خالد بن الولید صلوبا بن نسطونا وقومہ انی عاھدتکم علی الجزیۃ والمنعۃ علی کل ذی یدببا نقیا وبسما جمیعـاً علی عشـرۃ آلاف وسوی الحرزۃ القوی علی قوتہ والمقل علی قدرا فلا لہ فی کل سنۃ وانک قد نقبت علی قومک وان قومک قد رضوا بک وقد قبلت ومن معی من المسلمین ورضیت ورضی قومک، ملک الذمۃ والمنعۃ فان منعناکم فلنا الجزیۃ الا فلا حتی نمنعکم شہد ھشام بن الولید، والقعقاع بن عمرو، وجرید بن عبد اللّٰہ حمیری، وحنظلۃ بن الربیع (۱۵)

’’یہ معاہدہ خالد بن ولید کی طرف سے صلویا بن نسطونا اوراس کی قوم کے لیے لکھا جاتا ہے میں تم سے جزیہ قبول کرتا ہوں اور اس کے معاوضے میں تمہاری دونوں بستیوں بانقیا اور باسما کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں ، اس جزیہ کی رقم دس ہزار دینار ہے موتی اس کے علاوہ ہیں یہ رقم ہر مستطیع سے اس کی حیثیت کے مطابق سالانہ وصول کی جائے گی اور تم کو اپنی قوم کا نقیب مقرر کیاجاتا ہے جس کو تمہاری قوم قبول کرتی ہے میں اور میرے ساتھ کے سب مسلمان اس معاہدے پر رضا مند ہیں اور اس کو قبول کرتے ہیں اسی طرح تمہاری قوم بھی رضا مند ہے آج سے تم ہماری ذمہ داری اور حفاظت میں داخل ہو، ہم تمہاری حفاظت کریں گے تو جزیے کے حقدار ہوں گے ورنہ نہیں اس معاہدہ پر ہشام بن ولید قعقاع بن عمر، جریر بن عبداللہ، حمیری حنظلہ بن ربیع نے گواہی کے دستخط کیے‘‘۔

زاد بن یہیش اور صلوبا بن نسطونا سے معاہدہ

            ماخذ میں لکھا ہے کہ حیرہ کے اطراف کے زمیندار اس انتظار میں تھے کہ اہل حیرہ خالد کے ساتھ کیامعاملہ کرتے ہیں ۔ جب اہل حیرہ اور خالد کے مابیں معاہدات طے پاگئے تو ملطاطین کے زمیندار بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک تو زاد بن یہیش سریا کی ندی کا زمین دار تھا اور دوسرا صلوبا بن نسطونا بن بصیری کاتھا ایک روایت کے مطابق وہ صلوبا بن بصیری تھااور نسطونا تیسرا زمین دار تھا؛ چنانچہ ان لوگوں نے خالد سے غلاسیج لے کر ہرمز جر وتک کے علاقے کے لیے مصالحت کی۔ ماخذ کے مطابق یہ معاہدہ ماہ صفر ۱۲ھ میں تحریر کیاگیا تھا معاہدہ کی تحریر درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

          ھذا کتاب من خالد بن الولید لزاد بن یہیش وصلوبا بن نسطونا لکم الذمۃ وعلیکم الجزیۃ، وانتم ضامنون لمن نقبتہم علیہ من اھل البہقیاذ الاسفل والاوسط وقال عبید اللّٰہ وتم ضامنون جزیۃ من نقیم علیہ علی الفی الف تقبل فی کل سنۃ عن کل ذی ید سوی ما علی بانقیا وبسما وانکم قد ارضیتمونی والمسلمین وانا قد ارضناکم اھل البہقیاذ الاسفل ومن دخل معکم من اھل البہقیاذ الاوسط علی اموالکم لیس فیہا ما کان لال کسری ومن مال علیہم (۱۶)

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ تحریر خالد بن ولید کی طرف سے زاد بن یہیش اورصلوبا بن نسطونا کے لیے لکھی جاتی ہے۔ ہم تمہاری جان ومال کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور تم پر جزیہ عائد کیا جاتا ہے۔ تم بقیاد الاسفل اور اوسط کے باشندوں کے نقیب اور ان کے ضامن ہو، اور عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ تم ان لوگوں کی جنگ کے جن کے تم نقیب قرار دئیے گئے ہو ذمہ دار ہو، اس جزیہ کی مقدار بیس لاکھ ہے جو تم میں کے صاحب قدرت لوگوں سے سالانہ وصول کیا جائے گا مگر بانقیا اور باسماکامحاصل اس رقم سے الگ ہے میں نے ،مسلمانوں نے، تم نے، نیز بہقیاد اسفل اور بہقیاد اوسط کے باشندوں نے ان شرائط کو تسلیم کیا ہے مگر آل کسری اور جو لوگ ان کے ساتھ چلے گئے ہیں ان کی املاک کا اس معاہدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

اہل عانات سے معاہدہ

            ماخذ بتاتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولیدؓ دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا:

          علی ان لا یہدم لہم بیعۃ ولاکنیسۃ وعلی ان یفربوا نواقیسہم فی ای ساعۃ شاء وا من لیل او نہار الا فی اوقات الصلوٰۃ وعلی ان یخرجوا الصلبان فی ایام عیدھم واشترط علیہم ان یضیفوا المسلمین ثلاثۃ ایام ویبذرقومہم (۱۷)

’’ان کی گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی وہ ہماری  نماز پنجگانہ کے سوا ہروقت اپنا ناقوس بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں مسلمان مسافر کی تین دن ضیافت کریں اور وقت پڑنے پر مسلمانوں کی جان ومال کی نگہہ داشت کریں ‘‘۔

            ان معاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی مراعات سے نوازہ گیا اس کے علاوہ اور بھی معاہدات تاریخ میں مذکور ہیں جو اس بات پر بین ثبوت ہیں کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں کے غیر مسلم باشندوں سے متذکرہ بالا معاہدے کیے ان میں وضاحت سے یہ درج ہے کہ جزیہ کے معاملہ میں ان کے مال وجان کی حفاظت ہوتی رہے گی اور جب ان کی حفاظت نہ ہوسکے گی تو ان سے جزیہ نہ لیا جائے گا۔

حقوق انسانی کی حفاظت

            اہل حیرہ سے جو معاہدہ ہوا تھا جس کاتذکرہ راقم نے گزشتہ اوراق میں کیا ہے وہ راقم نے طبری کے حوالہ سے بیان کیا ہے؛ مگر امام یوسف نے اس معاہدہ کو مزید تفصیل سے لکھا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں غیر مسلموں کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کی گئی۔ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کیے جائیں گے ان کا وہ قصر نہ گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں ان کو ناقوس اور گھنٹے بجانے کی ممانعت نہ ہوگی۔ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے نہ جائیں گے، کوئی بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہو جائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہوکر مجبور ہوجائے یا جو پہلے مالدار ہو پھر ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے تو ایسے لوگوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل وعیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں ؛ البتہ وہ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو ان کے اہل وعیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہ ہوگی۔ اس معاہدہ میں اس کا ذکر بھی تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس پہننے کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی۔ بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں اس کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ مسلمان اور ذمیوں میں فرق باقی رکھ کر ان کی یعنی ذمیوں کی پوری حفاظت کی جائے۔ معاہدہ اس کا بھی تھا کہ وہ مسلمانوں سے دشمنی کا اظہار نہ کریں اور مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کی ان کمزوریوں سے آگاہ نہ کریں ۔(۱۸)

مدعیان نبوت کے ساتھ برتاؤ

            حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں مدعیان نبوت کا فتنہ برپا ہوا انھیں میں سے ایک اشعث بن قیس تھا اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جب وہ گرفتار کرکے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے حاضر کیا گیا تو اس نے توبہ کی؛ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے نہ صرف ان کو معاف کردیا؛ بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے ان کا نکاح بھی کرایا۔(۱۹)  طلیحہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ؛لیکن جب حضرت ابوبکرؓ کے پاس معذرت لکھ بھیجی تو ان کا دل آئینہ کی طرح صاف ہوگیا اور ان کو مدینہ واپس آنے کی ا جازت دے دی۔(۲۰)

تحفظ ناموس

            جب حضرت مہاجربن امیہ کو یمامہ کاامیر مقرر کیا تو ان کی امارت کے زمانہ میں دوگانے والی عورتوں میں سے ایک نے رسول اللہﷺ کی ہجو میں گاناگایا اور دوسری نے گانے میں مسلمان کو بُرا کہا۔ حضرت مہاجربن امیہ نے سزا میں ان کے ہاتھ کاٹ دئیے اور دانت اکھڑوادئیے ، حضرت ابوبکرؓ کو یہ معلوم ہوا تو سخت برہمی کااظہار کیا ان کو لکھ بھیجا کہ اگر رسول اللہﷺ کی ہجو کرنے والی عورت اسلام کی پیرو ہے تو وہ مرتد ہوگئی اس کو ارتداد کی سزا ملنی چاہیے تھی اور اگر وہ ذمیہ تھی تو اس نے خلاف عہد کیا؛ لیکن جس عورت نے مسلمانوں کو بُرا بھلا کہا اس کو کوئی سزا نہ دینی چاہیے تھی کیوں کہ اگر وہ مسلمان عورت ہے تو اس کو صرف معمولی تنبیہ کرنے کی ضرورت تھی اور اگر وہ ذمیہ ہے تو جب اس کی مشرکہ ہونے کو گوارا کرلیا گیا تو مسلمانوں کو بُرا کہنے کی کیا سزا ہوسکتی ہے۔ بہرکیف یہ تمہاری پہلی خطا تھی اس لیے معاف کردیاجاتا ہے۔  مثلہ کرنا نہایت نفرت انگیز گناہ ہے صرف قصاص کی حالت مجبوراً مباح ہے۔(۲۱)

            ماخذ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عہد رسالت میں غیر مذاہب کے پیرو کو اسلامی ممالک مفتوحہ میں پناہ اور ان کے تمام حقوق کا تحفظ فرمایا تھا جس کی تفصیل راقم نے گزشتہ صفحات میں بیان کی ہے؛ چنانچہ عہد صدیقی میں نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھا؛ بلکہ دستاویزی شکل میں اس کی توثیق فرمائی۔ اور ان کے جو ممالک فتح ہوئے وہاں کی ذمی رعایا کو وہی حقوق دیئے جو مسلمانوں کوحاصل تھے۔

            ماخذ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عہد صدیقی میں جزیہ یا ٹیکس کی شرح نہایت آسان تھی اور انہی لوگوں پر مقرر کرنے کاحکم تھا۔ جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں ؛چنانچہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر کیے گئے تھے معاہدوں میں یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ذمی بوڑھا، اپاہج اور مفلس ہوجائے گا تو وہ جزیہ سے بری کردیا جائے گا نیز بیت المال اس کاکفیل ہوگا۔

حوالے وحواشی:عہد صدیق اکبرؓ

(۱)       ابن سعدابوعبداللہ محمدبن سعد ، الطبقات الکبری، ج:۲،ص: ۱۱۹۔ مطبع دار صادر ، بیروت

(۲)       کنز العمال، ج:۹، ص: ۳۱۳    (۳)      ایضاً       (۴)      اصابہ فی تمیر الصحابہ، ج:۴،ص: ۲۲۲

(۵)      ماخذ بتاتے ہیں کہ ان سے قبل صرف انتالیس مسلمان ہوئے تھے اس کو اپنے ایمان کا اظہار کھلم کھلا نہیں کیاتھا۔ اور نہ ہی کفار ومشرکین کو اعلانیہ دین کی دعوت دے سکتے تھے۔ الاصابہ، ص:۲۲۲

(۶)       ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۲، تذکرہ خطبہ ابوبکر

(۷)      ابن عساکر، تاریخ دمشق، ابواب ماجاء فی النصوص فی فضل دمشق علی الخصوص ، باب ذکر اہتمام ابن بکر الصدیق، حدیث نمبر ۵۲

(۸)      طبری، ج:۳، ص:۲۹۸                                (۹)       ایضاً، ص:۳۲۱                               (۱۰)     الوثائق السیاسیۃ، ص:۳۱۸

(۱۱)      طبری، ج:۲، تذکرہ فتوحات عراق       (۱۲)     الوثائق السیاسیۃ، ص:۳۱۶     (۱۳)     طبری، ج:۳،ص:۳۶۷

(۱۴)     الوثائق الساسیۃ، ص:۳۱۹                  (۱۵)     ایضاً،ص: ۳۲۴                              (۱۶)     ایضاً، ص:۳۲۳

(۱۷)     ابویوسف ، کتاب الخراج، باب۳، فصل ۱۶          (۱۸)     یعقوبی، ج۲،ص:۱۴۹                       (۱۹)      ایضاً، ص:۱۴۵

(۲۰)     تاریخ الخفائ، ص:۹۶          (۲۱)     سید صباح الدین عبدالرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری، ص۹۹، بحوالہ تاریخ الخلفائ، ص:۹۶

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:103‏،  محرم الحرام 1441ھ مطابق ستمبر 2019ء

*    *    *

Related Posts