از:مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
روئے زمین پر سب سے محترم، مقدس اور باعظمت مقام ’’خانہ کعبہ‘‘ ہے ، اس میں مقام ابراہیم اور اللہ عزوجل کی نشانیاں ہیں ، قرآن کریم میں ہے: ’’فیہ آیات بینات ومقام أبراہیم‘‘ (آل عمران : ۹۷)۔
خانہ کعبہ کی ابتداء
قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :
’’إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ ‘‘ ( آل عمران: ۹۶) بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے جو لوگوں کے لیے متبرک جگہ اور سارے جہاں والوں کی ہدایت کا مقام ہے ۔اور اللہ عزوجل کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے : ’’جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاما للناس‘‘(سورۃ المائدۃ: ۹۷) (بنایا ہے اللہ نے کعبہ کو (جو) حرمت والا گھر ہے قائم رہنے کا باعث لوگوں کے لیے اور حرمت والے مہینوں کو اور قربانی کو اور پٹے والے جانوروں کو یہ( اس لیے) تاکہ تم جان لو کہ بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ) اس کے علاوہ بے شمار آیتیں ہیں ، جو خانۂ کعبہ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ ’’أن أول بیت وضع للناس‘‘ (المعجم الکبیر:۱۱؍۶۲۹) سے مراد خانہ کعبہ ، جس اللہ عزوجل نے بیت معمور سے پہلے زمین پر بسایاہے۔
خانہ کعبہ کو کو ’’بکہ‘‘ اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جو مسجد حرام اور بیت اللہ خانہ کعبہ میں واقع ہے ، ’’بکہ ‘‘ مسجد حرام کو کہتے ہیں ، یہ ’’بکّہ‘‘ سے مشتق ہے ، جس کے معنی ازدحام کے ہیں ؛ چونکہ یہاں لوگوں کی ہر دم بھیڑ اور ازدحام ہواکرتا ہے؛ اس لیے اس کو ’’بکہ‘‘ کہتے ہیں ، قتادہ کہتے ہیں ، بیت اللہ کو ’’بکہ‘‘ سے اس لیے تعبیر کیا گیاکہ یہاں مرد وعورت سب یکساں بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں ، یکجا نماز پڑھتے ہیں ، یہ صرف خانہ کعبہ میں درست ہے ۔
بعض مفسرین کا تو کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر آسما ن وزمین کی پیدائش سے پہلے ہوئی، اس گھر کو حضرت آدم علیہ السلام کے بھیجے جانے سے قبل فرشتوں نے تعمیر کیا تھا، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول سب سے پہلے کونسی مسجد بنی تو آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد حرام، پھر کونسی تو فرمایا: مسجد اقصی ، میں نے کہا : دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھاتو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’أربعین سنۃ ‘‘ ( بخاری، فی أحادیث الأنبیائ، حدیث: ۳۳۳۶۶) یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خانہ کعبہ کے بنانے کا ذکر ملتا ہے تو وہاں قرآن کہتا ہے ’’وإذ یرفع إبراہیم القواعد من البیت واسماعیل‘‘ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کو اس کی پرانی اساس اور بنیاد پر تعمیر کیا ہے ، اور یہ معلوم اور معقول ہے کہ جتنے انبیاء علیہ السلام تھے، ان پر نمازیں فرض تھیں ، اور وہ خانہ کعبہ کی جہت پر ہی نمازیں پڑھتے تھے۔
مجاہدحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : بیت اللہ کو زمین سے دو ہزار سال قبل بنایا گیا، پھر وہیں سے زمین پھیلا گئی‘‘ ’’ثم دُحِیَتِ الأرضُ منہ‘‘ ( المستدرک : ۲؍ ۸۵) ۔
اور ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر جو جگہ سب سے پہلے بنائی گئی وہ بیت اللہ کی جگہ وہیں روئے زمین کو پھیلایا گیا ’’ثم مُدَّتِ الأرضُ منہ‘‘ (شعب الإیمان للبیہقی: ۷؍۵۴۳، حدیث: ۳۶۹۸)
ابن وہب کہتے ہیں : بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں سرخ یاقوت کی شکل میں جنت کے یاقوت کا سا نور اس سے جھلکتا تھا، اس کا سونے کا ایک مشرقی دروازہ اور ایک مغربی دروازہ تھا، اس میں تین سونے کی قندیلیں تھیں جس سے نور دہکتا تھا، جس کے دروزے پر سفید یاقوت ستارے جڑے ہوئے تھے ، رکن یمانی اس زمانے میں سفید یاقوت کی شکل میں تھا، خانہ کعبہ کی یہی صورتِ حال نوح علیہ السلام کے زمانے تک رہی (مثیر العزم الساکن إلی أشرف الأماکن: ۱؍۳۹۳، باب الأصل فی الطواف، أزرقی فی ’’أخبار مکۃ ‘‘ ضمن حدیث طویل)
ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ بیت المعمور کے مثل ، اسی کے سائز اور مقدار میں گھر روئے زمین پر بنائیں ، اللہ عزجل نے فرشتوں کو اس کا حکم کیا، تو انھوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی ، اللہ عزوجل نے روئے زمین پر بسنے والی مخلوق کو خانہ کعبہ کے طواف کا ایسا ہی حکم دیا جیسا اہل آسان بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں ۔ (مثیر العزم الساکن إلی اشرف الأماکن : ۱؍۳۹۳)
ایک روایت میں ہے : جب حضرت آدم علیہ السلام کوروئے زمین پر بھیجا گیا تو فرمایا: اے آدم میرے لیے میرے آسمان میں گھر کے مقابل گھر بناؤ، جہاں تم اور تمہاری اولاد میری عبادت کرسکیں ، جس طرح میرے ملائکہ میرے عرش کے ارد گرد میری عبادت کرتے ہیں ، فرشتے زمین پر آئے، انھوں نے ساتویں زمین تک کھدائی کی ، اس میں روئے زمین کے اوپر تک فرشتوں نے ایک چٹان رکھی، حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ایک سوراخ دار سرخ یاقوت بھیجا گیا، جس کے چار سفید ستون تھے، اس کو اس بنیاد پر رکھا گیا، یہ یاقوت اسی طرح رہا؛ یہاں تک اللہ عزوجل نے اس کو اٹھالیا، اس کی بنیادیں یوں ہی برقرار رہیں ، پھر اس کے بعد اولاد آدم نے فرشتوں کی بنیاد پر مٹی اور پتھر کا گھر بنایا، یہ گھر ان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک معمور رہا، طوفان نوح میں یہ ڈھنک گیا، تو اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی بنیاد تلاش کرنے کا حکم دیا، جبرائیل علیہ السلام نے اپنے پر زمین پر مارے ، زمین کے نیچے سے خانہ کعبہ کی اساس اور بنیاد ظاہر ہوگئی، پھر ملائکہ نے اس بنیاد پر ایک چٹان رکھی، جس چٹان کو بمشکل تیس لوگ اٹھاپاتے، اس کے اوپر بیت اللہ کی تعمیر کی گئی۔ (الأثر أخرجہ الأزرقی فی ’’أخبار مکۃ:۱؍۴۳، عن عبد اللّٰہ بن زیاد، وذکرہ الصالحی فی: ’’سبل الہدی والرشاد‘‘:۱؍۹۱۴۷ )
حضرت عطائ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے کہا : مجھے خانہ کعبہ کے احوال بتلائیں تو انھوں نے فرمایا: اس کو اللہ عزوجل نے سرخ جوف دار یاقوت کی شکل میں حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ نازل کیا، فرمایا : اے آدم! یہ میرا گھر ہے ، اس کے ارد گرد طواف کرنا اور نماز ادا کرنا، جس طرح تم نے میرے فرشتوں کو طواف کرتے ہوئے، نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ آئے ، پتھروں سے انھوں نے کعبہ اللہ کی بنیاد رکھی، پھر ان بنیادوں پر خانہ کعبہ تعمیر کیا گیا، جب اللہ عزوجل نے قوم نوح کو غرق کیا تو اس گھر کو اٹھالیا، اس کی بنیاد رہ گئی (جامع شعب الإیمان:۷؍۵۴۹، أخرجہ الأرزقی فی اخبار مکۃ۱؍۰۴، بسند ضعیف فیہ عثمان بن ساج )
سہیلی کہتے ہیں : تفسیر میں مروی ہے : جب اللہ عزوجل نے آسمانوں اور زمین سے کہا ’’ائتنا طوعا أو کرھا قالتا آتینا طائعین‘‘ ( سورۃ فصلت:۱۱) یہ جواب صرف سر زمین حرم نے دیا ، اس لیے اللہ عزوجل اس سرزمین کو محترم بنایا ’’فلذلک حرمھا‘‘ (ذکرہ السھلی فی ’’الروض الأنف‘‘ : ۲؍۲۶۹، ذکرہ الفاسی فی ’’ شفاء الغرام: ۵۴)
اسی طرح مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ’’وأرنا مناسکنا‘‘ ( سورۃ البقرۃ:۱۲۸) تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور ان کو مناسک بتلائے ، ان کو حدود حرم کی واقفیت عطا کی ، ابراہیم علیہ السلام پتھروں کو اکٹھاکرتے اور علامات اور نشانیاں بناتے اور اس پر مٹی ڈالتے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کو حدود حرم کی واقفیت عطا فرماتے ، سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حرم کے حدود متعین کیے ، جب نبی کریم ﷺ نے مکہ کو فتح کیا تمیم بن اسید تو حکم دیا کہ وہ حدود حرم کی تعیین کریں ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انھوں نے چار قریش کی بڑی شخصیات( جن میں مخرمۃ بن نوفل، سعید بن یربوع، حویطب بن عبد العزی، ازہر بن عوف تھے ) کو حرم کے نشانات کی تعیین کے لیے بھیجا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حدود حرم کی تعیین کی ’’کذلک عثمان عثمان رضی اللّٰہ عنہ أمر بتحدید الأنصاب‘‘ (اخبار مکۃ للأزرقی: ۲؍۲۷۴، حدیث:۱۵۱۵)۔
حجر اسود اور مقام ابراہیم کی اہمیت
حضرت انس سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’الرکن والمقام یاقوتتان من یواقیت الجنۃ‘‘ (أخرجہ الحاکم فی ’’المستدرک: ۱؍۴۵۶، وأشار إلی صحتہ) رکن (حجر اسود) اور مقام ابراہیم یہ دونوں جنت کے یاقوت ہیں ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رکن اور مقام یہ دونوں جنت کے یاقوت ، اللہ عزوجل نے ان کی روشنی کو مٹادیا ہے ، اگر اللہ عزوجل ان کی روشنی ختم نہ کرتے تو اس سے مغرب اور مشرق روشن ہوجاتے ’’لأضاء ما بین الشرق والمغرب‘‘ (رواہ أحمد والترمذی، وابن حبان وحاکم)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : رکن اور مقام ابراہیم یہ جس رات حضرت آدم علیہ السلام کو بھیجا گیا ، اسی رات نازل ہوئی، صبح انھوں نے رکن اور مقام کو دیکھا تو ان کو پہچان لیا اور ان کا بوسہ لے کر انسیت حاصل کی ’’فضمھما إلیہ وأنس بھما‘‘ ( الأثر أخرجہ الأزرقی فی أخبار مکۃ:۱؍۳۲۵، ماء فی فضل الرکن الأسود، وذکرہ محب الطبری فی؍ القري لقاصد أم القري: ۲۹۳، ماء جاء فی فضل الحجر)
عبد اللہ بن عمر و بن العاص سے روایت فرماتے ہیں ، حجر اسود کو حضرت جبرائیل جنت سے لائے ہیں ، اس کو اس جگہ پر نصب کیا ہے ، جہاں پر آج یہ موجود ہے ، جب تک حجر اسود تمہارے بیچ موجود رہے گا تو تم اس سے استفادہ کرنا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس کو اٹھا لیا جائے اور یہ جہاں سے آیا ہے چلا جائے گا ’’فإنہ یوشک أن یجیء زمن فیرفع بہ من حیث جائ‘‘ (الأثر أخرجہ الازرقی فی أخبار مکۃ:۱؍۳۲۵، ما جاء فی الرکن الأسود، ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد: ۳؍۲۴۲، باب فی الطواف والرمل والاستلام، وقال رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ رجال الصحیح)
اور ایک حدیث میں : اللہ عزوجل جنت سے کوئی چیز روئے زمین پر نازل فرماتے ہیں پھر اس کو قیامت سے پہلے جنت میں لوٹادیتے ہیں ’’إلا أعادہ إلیہا قبل یوم القیامۃ‘‘ (الحدیث أخرجہ الازرقی فی أخبار مکۃ ۱؍۳۴۲، ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور:۱؍۹۳۲۴ )
انبیاء اللہ علیہم السلام کا بیت اللہ کا حج
بے شمار انبیاء علیہم السلام نے بیت اللہ کا حج کیا ہے ، حضرت آدم، نوح ،ابراہیم اور ان کے بعد کے انبیاء نے بھی بیت اللہ کا حج کیا ہے ، بہت ساری پہلی امتوں نے بیت اللہ کی زیارت کی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں : جب حضرت آدم علیہ السلام نے بیت اللہ کا حج کیا تو ملائکہ سے ان کی ملاقات ہوئی، تو انھوں نے کہا: اے آدم ( علیہ السلام ) تمہارے حج قبول ہو، ہم نے آپ سے پہلے دو ہزار سال قبل اس بیت اللہ کا حج کیا تھا ’’حججنا ھذا البیت قبلک بألفی عام‘‘ (الأثر أخرجہ الأزرقی فی أخبارمکۃ:۱؍۵۴، سنۃ الطواف، الأثر ضعیف جدا فی إسنادہ طلحۃ بن عمرو الحضرمی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں : حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے پیدل چالیس حج کیے ہیں ’’إن آدم علیہ السلام حج أربعین حجۃ من الھند علی رجلیہ‘‘ مجاہد کہتے ہیں : کیا وہ سوار نہیں ہوتے تھے ، کسی چیز پر ( مثیر العزم الساکن : ۲؍ ۱۲۳، رقم الحدیث: ۳۳۴، من غیر السنــــد، وأخرجـــہ البیہقی فی شعب الإیمان: ۷؍۵۴۸، رقم الحدیث: ۳۷۰۲، ضعیف فی إسنادہ أبو یحیی القتات)
حضرت عطاء سے مروی ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کو ہندوستان میں اتاراگیا، حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا : اے رب مجھے ملائکہ کی آواز سنائی نہیں دیتی، جس طرح میں جنت میں سنا کرتا تھا، ؟ فرمایا: اے آدم تمہاری ادنیٰ لغزش کی وجہ سے ، جاؤ میرا گھر تعمیر کرو، جس طرح فرشتوں کو تم نے عرش کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے ؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام مکہ آئے، بیت اللہ کی تعمیر کی، جہاں آدم علیہ السلام کے دونوں قدم پڑے ہیں ، وہ گاؤں ، نہریں ، اور آبادیاں بن گئی، ان کے پیروں کے فاصلہ کے بیچ جنگل بن گئے ’’وکان موضع قدمی آدم قري أو انھارا أو عمارۃ، وما بین خطاہ مفاوز، فحج آدم علیہ السلام البیت من الہند أربعین سنۃ‘‘ (أخرجہ البیھقی فی الشعب الإیمان: ۷؍۵۴۷، رقم الحدیث:۳۷۰۱، ضعیف فی إسنادہ ثابت دینار، ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور:۱؍۳۱۸، وعزاہ للبیھقی)
حضرت عطاء سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سرزمین ہند میں اتارا گیا، ان کے ساتھ جنت کی چار قسم کی لکڑیاں تھی، ’’ ومعہ أربعۃ أعواد من الجنۃ‘‘ یہ وہ عود ہیں جس سے لوگ خوشبو حاصل کرتے ہیں ، انھوں نے اس بیت اللہ کا حج کیا، صفا مروہ کی سعی کی، مناسک حج ادا کیے (ذکرہ محب الدین طبری فی القري لقاصد أم القری : ۴۷، ما جاء فی حج آدم علیہ السلام وحج الملائکۃ)
وہب بن منبہ سے مروی ہے ، جب حضرت آدم علیہ السلام نے حج کیاتو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فرمایا کہ ان کومناسک اور مشاعر سکھائیں ، فرشتے ان کو لے کر چلے ، ان کو مزدلفہ ، منی ، اور رمی جمارکے مقام پر کھڑا کیا، اللہ نے ان پر نماز ، زکاۃ، روزے، جنابت کے غسل کے احکام نازل کیا ‘‘ ’’وأنزل علیہ الصلاۃ، والزکاۃ، والصوم والاغتسال من الجنابۃ‘‘ (اخرجہ البیہقی فی شعب الإیمان:۷؍۵۴۸، رقم الحدیث: ۳۷۰۳، إسنادہ ضعیف فیہ عبد المنعم بن ادرس، وإدریس بن سنا، ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور:۱؍۳۱۸، وعزاہ للبیہقی)
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : بیت اللہ کو اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے بنایا، یہ اس کا طواف کرتے ، اور وہاں اللہ کی عبادت کرتے ، پھر نوح علیہ السلام نے اس کا حج کیا، اور غرق سے پہلے یہاں آکر اس کی تعظیم کی، جب روئے زمین پر طوفان آیا ، نوح علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوگئی، بیت اللہ بھی طوفان کی زد میں آیا، یہ ایک سرخ ٹیلہ کی شکل باقی وبرقرار رہا ’’فکان ربو حمراء معروفا مکانہ‘‘ پھر ہر نبی نے بیت اللہ کا حج کیا ہے ’’ثم لم یبعث نبیا إلا حجہ‘‘ (الأثر أخرجہ البیہقی فی السنن الکبری:۵؍۱۷۷، إسنادہ ضعیف فیہ محمد بن اسحاق، وذکرہ محب الدین الطبری فی القری لقاصد أم القری:۵۰، وعزاہ للأرزقی)
عبد الرحمن بن عبد اللہ مولی بنی ہاشم فرماتے ہیں : جب کسی نبی کی امت کو ہلاک کردیا جاتا تو وہ مکہ آتے، وہاں وہ او ر ان کے ماننے والے عبادت کرتے ، وہیں ان کی موت ہوجاتی ، یہاں نوح، ہود ، صالح، شعیب علیہ السلام دفن ہیں ، ان کی قبریں زمزم اورحجر اسود کے درمیان ہیں (الحدیث أخرجہ الأزرقی فی ’’أخبار مکۃ‘‘:۱؍۶۸، بسند ضعیف فیہ عطاء السائب، وعبد الرحمن بن عبد اللّٰہ ملی بنی ہاشم، وذکرہ محب الدین الطبری فی القری لقاصد أم القري:۹۵۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں ، جس وقت نبی کریم نے حج فرمایا، تو وادی عسفان تشریف لائے ، فرمایا: اس وادی سے نوح، ہود، ابراہیم علیہم السلام نو زائد اونٹیوں پر سفر کیا ہے ، ان کی لگام پتوں کی تھی، ان کے کرتے عباء تھے ، ان کی چادریں اون کی تھیں ، انھوں نے بیت عتیق کا حج کیا ہے ’’یحجون بیت العتیق‘‘ (رواہ الواحدی)
مقاتل کہتے ہیں ، مسجد حرام میں زمزم، مقام ابراہیم اور حجر اسود کے ما بین ستر نبیوں کی قبریں ، جن میں ہود، صالح، اسماعیل شامل ہیں ، ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب اور یوسف علیہ السلام کی قبر بیت المقدس میں موجود ہے (الأثر أخرجہ الأزرقی فی أخبار مکۃ:۱؍۳۷، بسند ضعیف فیہ عثمان بن ساج، وکذلک أثر آخر إسنادہ حسن أخرجہ الزرقی فی أخبار مکۃ بمثلہ: ۱؍۶۸)
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام عسفان پر ٹھہرے اور فرمایا: ’’لقد مر بھذہ القریۃ سبعون نبیا ثیابھم العباء ونعالھم الخوص‘‘ (الحدیث أخرجہ ابن أبی حاتم فی علل الحدیث:۲؍۱۲۰، رقم الحدیث:۱۸۵۲) اس گاؤں سے ستر نبی گذرے ہیں ، ان کے کپڑے عباء اور ان کے جوتے چمڑے کے تھے ۔اور ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مسجد منی میں نماز پڑھی؛ اس لیے تمہیں اگر مسجد منی میں نماز کا موقع ملے تو نہ چھوڑنا ’’وصلو ا فی مسجد منی، فإن استعطت أن لا تفوتک الصلاۃ فی مسجد منی فافعل‘‘ (الأثر أخرجہ الأزرقی فی أخبار مکۃ: ۱؍۶۹، بسند ضعیف فیہ عثمان بن ساج وخصیف)
اور ایک روایت میں نبی کریم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد خَیف میں ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے ، جن میں موسی بن عمران بھی شامل ہیں ، ( معجم الکبیر للطبرانی) وہاں ستر نبیوں کی قبریں ہیں ( أخرجہ الفاکہی فی أخبار مکۃ : ۴:۲۶۶، رقم الحدیث۲۵۹۴)
عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے فرماتے ہیں ، بیت اللہ کا ایک ہزار بنو اسرائیل کے نبیوں نے طواف کیا ہے ، یہ مکہ میں مقام ذی طوی پر اپنے جوتوں کو رکھ کر داخل ہوئے تھے ’’لم یدخلوا مکۃ حتی وضعوا نعالھم بذی طوی) (الأثرأجرہ الأزرقی فی أخبار مکۃ:۱؍۱۳۱، بسند ضعیف فیہ مصعب شیبہ) ( ذو طوی باب مکہ کے قریب ایک وادی ہے )
یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ستر ہزار لوگو ں کے ساتھ بیت اللہ کا حج کریں گے جس میں اصحاب کہف بھی ہوں جو کہ مر چکے ہیں ؛ لیکن انھوں نے حج نہیں کیا ہے ’’ فإنھم لم یموتوا ولم یحجوا‘‘ (الأثر اخرجہ ابن الجوزی فی مثیر العزم الساکن:۲؍۰۳۱، رقم:۳۴۱)
نبی کریم ﷺ نے حج کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا، قتادہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں نے حضرت انس سے دریافت کیا نبی کریم ﷺ نے کتنے حج کیے ہیں ’’کم حج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ فرمایا: ایک حج، چار عمرے کیے ہیں ۔ (أخرجہ البخاری ، ومسلم ، ابوداؤد والترمذی)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گیارہ ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لوگوں کو حج کرایا، پھر ابو بکرؓ نے رجب سن بارہ ہجری میں عمرہ کیا، پھر لوگوں کو حج کرایا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا( الأثر أخرجہ ابن الجوزی فی مثیر الأنام الساکن:۲؍۱۳۷، رقم الحدیث: ۹۳۴۵)
محمد بن سعد سے مروی ہے کہ پہلے سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ عبد الرحمن بن عوف کی قیادت میں لوگوں کو حج کرایا، پھر انھوں نے اپنے زمانہ خلافت میں تمام حج کیے ، لوگوں کو دس حج کرائے، آخری حج میں ازواج نبی صلی اللہ علیہ کو حج کرایا، اپنے زمانہ خلافت میں تین عمرے کیے، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ گیارہ حج کیے ہیں (الأثر بطولہ أخرجہ ابن الجوزی فی مثیر العزم الساکن : ۲؍۱۳۹، رقم الحدیث: ۳۴۵)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب خلافت ملی تو عبد الرحمن بن عوف کو سن چوبیس ہجری میں امیر بنا کر حج پر روانہ کیا، حضرت عثمان نے سن پچیس ہجری میں لوگوں کو حج کرایا، پھر حضرت عثمان لوگوں کو سن چونتیس ہجری تک حج کراتے رہے ، پھر ان کو ان کے گھر میں محصور کردیاگیا، سن پینتیس میں حضرت عبد اللہ بن عباس نے لوگوں کو حج کرایا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت سے پہلے حج کی تعداد معلوم نہیں ، ایام خلافت میں فتنہ کی وجہ سے حج نہ کرسکے ، چونکہ ان کی خلافت صرف چار سال نو مہینے رہی ، ان کو سن پینتیس کے حج کی خلافت حاصل ہوئی، چونکہ حضرت عثمان کا انتقال جمعہ ۱۸؍ذی الحجہ کو اسی سال ہوا تھا، سن ۳۶ میں جنگ جمل ہوئی، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حج کرایا، پھر سن سینتیس میں واقعہ صفین ہوا، لوگوں کو عبد اللہ بن عباس نے ہی حج کرایا، سن ۳۸ میں لوگوں کو قثم بن عباس نے حج کرایا، پھر سن ۳۹ میں شیبہ بن عفان پر اتفاق ہوا، انھوں نے لوگوں کو حج کرایا، رمضان سن چالیس میں حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ کا انتقال ہوا (الأثر بطولہ ذکرہ ابن الجوزی فی مثیر العزم الساکن: ۲؍ ۱۴۳)
حضرت معاویہ نے اپنے زمانہ خلافت میں خود لوگوں کو حج کرایا، قضاعی کہتے ہیں ، سن چوالیس اور پچاس میں انھوں نے ہی لوگوں کو حج کرایا،سن ترسٹھ می عبد اللہ بن زبیر نے لوگوں کو حج کرایا، انھوں نے مسلسل آٹھ حج کرائے (الأثر ذکرہ ابن الجوزی فی مثیر العزم الساکن: ۲؍ ۴۴۱)
حضرت حسن بن علی نے مدینہ سے پیدل پچیس حج کیے ، اپنے ساتھ اونٹوں کو ہنکا کر لے جاتے تھے ، ابو نعیم حلیہ میں ذکر کیا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس بات سے شرم محسو س ہوتی ہے کہ میں اپنے رب سے اس حالت میں ملاقات کروں اور میں نے اللہ کے گھر کا پیدل حج نہ کیا، انھوں نے مدینہ سے پیادہ پا مکہ تک بیس حج کیے ’’فمشی عشرین مرۃ من المدینۃ إلی مکۃ علی قدمیہ‘‘ (الأثر أخرجہ أبو نعیم فی الحلیۃ: ۲؍۷بسند ضعیف جدا فیہ عباس بن فضل بن عمرو الواقفی )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے پانچ حج کیے ، تین پیدل، اپنے بعض حجوں میں انھوں نے بیس درہم خرچ کیے۔ ( الأثر ذکرہ ابن الجوزیفی مناقب الإمام احمد بن حنبل : ۳۶۲)
حسن دینوری نے سولہ حج پیدل کیے بغیر توشہ کے ننگے پیر ’’ماشیا حافیا بغیر زاد‘‘ (ذکرہ محب الدین الطبری فی القری لقاصد أم القری: ۴۷)
مغیر بن حکیم نے کچھ کم پچاس دفعہ ننگے پیر حالت احرام میں روزہ رکھتے ہوئے حج کیا ہے ’’نیفا وخمسین مرۃ حافیا محرما صائما‘‘ (الأثر ذکرہ محب الدین الطبری فی القری لقاصد أم القری : ۴۶)
یہ بیت اللہ کی فضیلت حرمت اور عزت ہے ، دیگر بزرگان دین نے تو ۷۰، ۸۰ بھی حج کیے ہیں ، اسی قدر عمرے بھی کیے ہیں ، وہ اس گھر کی عظمت وحرمت اور اس کے فضائل ومناقب اور اس کے مقامات مقدسہ، انبیاء علیہ السلام کی آمد اور دیگر اولیاء کی اس بابرکت گھر کے قصد کو جانتے تھے ۔
————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:103، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء
٭ ٭ ٭