حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
وطن عزیز ہندوستان کے حالیہ انتخابات (اپریل، مئی ۲۰۱۹ء) کے نتائج، عمومی طور پر توقع کے خلاف محسوس کیے گئے، حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، شاید کسی کو بھی اس درجہ یک طرفہ نتائج کی امید نہیں تھی؛ لیکن بہرحال جو ہونا تھا ہوا اور دوبارہ مزید اکثریت کے ساتھ وہی حکومت برسراقتدار آگئی۔ ان نتائج کے اسباب کا تجزیہ مسلسل جاری ہے اور مختلف آراء سامنے آرہی ہیں ؛ لیکن جس بات میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ان نتائج نے مسلمانوں کو عام طور پر مایوس کیا اور اس صورت حال کوانھوں نے اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا۔ ۲۳؍مئی مطابق ۱۷؍رمضان المبارک کو یہ نتائج سامنے آئے اُس دن سے تقریباً ہفتہ بھر تک جس طبقہ یا جس علاقہ کے مسلمانوں سے رابطہ ہوا مایوسی اور اندیشے کی یہی کیفیت چھائی ہوئی نظر آئی پھر علماء کرام کی جانب سے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کیفیت کو دور کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
بعض حضرات نے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ انتخابات فلاں اور فلاں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہوئے اور جو ہارہوئی وہ کچھ سیاسی پارٹیوں ہی کی ہوئی، مسلمان اس طاقت آزمائی کے فریق نہیں تھے؛ لہٰذا اس شکست کو انھیں اپنے سرپر نہیں لادنا چاہیے۔ یہ بات گوضابطہ میں صحیح ہے؛ لیکن حالات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ مسلمان خواہ باقاعدہ فریق ہوں یا نہ ہوں ؛لیکن حالات سے بہرحال وہ متاثر ہوتے ہیں اور اُن کی مایوسی یا اندیشے اسی پر منظر میں ہیں ؛ اس لیے اصل ضرورت ہے کہ حالات کو بدلنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ خواہ کتنی ہی اکثریت سے آئی ہو اور قانون ساز اداروں میں طاقت کا توازن چاہے جتنا زیادہ اس کے حق میں ہو، بہرحال ملک کے تمام شہریوں کو مطمئن رکھنا اس کا فرض منصبی ہے۔ کوئی حکومت کتنی ہی مضبوط ومستحکم کیوں نہ ہو وہ معاشرے کے تمام طبقات کو انصاف فراہم کیے بغیر اپنے استحکام کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ تمام لوگوں کے جان ومال اور حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں اطمینان واعتماد کی فضا پیدا کرنا کسی بھی طبقہ سے پہلے حکومت کے حق میں ہے اور ملک میں بدامنی، بے اطمینانی اور بے اعتمادی کی فضاء کا نقصان کسی اور سے پہلے حکومت اور ملک کو ہوتا ہے؛ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ انصاف کے پیمانوں کو ووٹ کی سیاست یا فرقہ ومذہب کے تابع نہ بننے دے اور یہ بات اپنے عمل سے اس قوت کے ساتھ ثابت کرے کہ سماج دشمن عناصر کے حوصلے پست ہوں جو طرح طرح کے عنوانات سے یا براہ راست مذہبی شناخت کے حوالے سے قانون کی دھجیاں اڑانے لگے ہیں اور اُن کی چیرہ دستیوں کا شکار بے قصور مسلمان ہورہے ہیں ۔ یاد رہے کہ آگ بجھانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے تواس کی لپیٹ میں کبھی آگ لگانے والا بھی آجاتا ہے؛ اس لیے حکومت کو نہایت سنجیدگی سے کوشش کرکے ان لوگوں کا حوصلہ توڑنا چاہیے جو ہجومی تشدد جیسی ظالمانہ کارروائیاں بے خوف ہوکر کررہے ہیں ۔
دوسری ذمہ داری خود مسلمانوں اور اُن کی قیات کی ہے۔ مسلمان موجودہ وقت میں جس قسم کی غیرذمہ دارانہ زندگی عام طور پر گذار رہے ہیں موجودہ حالات درحقیقت اسی کا نتیجہ ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعر پوری طرح صادق آرہا ہو۔؎
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کوئی سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
(سرور بارہ بنکوی)
یہ بے ارادہ رواں ہونے والا کارواں کس منزل پر پہنچے گا یہ فکر ہرحساس آدمی کو ستارہی ہے؛ مگر عملی طور پر حال یہ ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ اور مؤثر کوشش نظر نہیں آتی، آپسی اختلافات حسب سابق ہیں ، خصوصاً مشترکہ ملی ضروریات میں جس متحدہ منصوبہ سازی کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے؛ بلکہ حالات کا صحیح تجزیہ بھی شاذ ونادر ہی کہیں دیکھنے سننے میں آتا ہے۔ ایک طبقہ بڑوں کی غلطیاں نکالنے اور اُن کی حکمت عملی کو ناکام قرار دینے میں مصروف ہے اور اسی فکر پر اپنی حکمت عملی کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، مسلمانوں میں قیادت ہو یا عوام آپسی رابطہ خطرناک حد تک کم ہے، باہمی اعتماد مفقود ہے اور ملت کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی خصوصاً اپنے خیالی جاہ ومرتبہ کی قربانی دینے کا تصور نہیں ہے۔ حقیقی اخلاص نہایت کم یاب جنس بن گیا ہے۔ طویل مدتی مفادات پر دوررس نگاہ ڈالنے کی صلاحیت عنقا ہورہی ہے، وقتی مفادات کے لیے عام طور سے کام کیا جارہا ہے۔
جہاں تک دینی صورت حال کا تعلق ہے وہ تشویش ناک حد تک خراب ہے، نماز جو دینی فرائض میں سرفہرست ہے اس سے مسلمانوں کی غفلت بھی سرفہرست ہے، دیگر فرائض خصوصاً زکوٰۃ اور روزہ کی ادائیگی کا معاملہ بھی عام آدمی کے تصور سے زیادہ خراب ہے، عبادات کے علاوہ دیگر شعبوں میں دیکھا جائے تو صورت حال شایداور زیادہ بدتر ہے، معاملات کی صفائی سے مسلمان عام طور پر محروم ہیں دیانت وامانت کے تقاضے پورے کرنا کچھ خاص ہی لوگوں کی عادت ہے۔ معاشرتی امور میں بھی بے حد کمزوری ہے، حقوق کی ادائیگی کی فکر نہیں ہے، اخلاقی صفات جیسے سچائی، دیانت، خیرخواہی، وعدے کی پابندی، خریدوفروخت میں شفافیت، دوسروں کے ساتھ اچھا برتائو، ہمدردی، دوسروں کے کام آنے کا جذبہ وغیرہ، ہمارے اندر برائے نام ہیں جب کہ ظاہری ترقی کے لیے بھی یہی چیزیں شرط کا درجہ رکھتی ہیں ، خلاصہ یہ ہے کہ بگاڑ ناقابل بیان ہے۔
ان حالات میں انفرادی واجتماعی سطح پر دو طرح کی محنت ضروری ہے: ایک طویل مدتی منصوبہ سازی جس کا تعلق خاص طور پر دینی اصلاح، تعلیم وتربیت، کاروبار، تحفظ اور سیاسی وقار سے ہو، اس کے لیے قرآن وحدیث اور سیرت نبوی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کی روشنی میں تفصیل سے عرض کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے فوری اقدامات مثلاً:
ہر سطح پر مہم چلاکر ذہنوں سے خوف ومایوسی دور کرنا۔
مسلمانوں میں اجتماعی شعور اور احساس ذمہ داری پیدا کرنا، وقت ضائع کرنے سے بچنے کا مزاج بنانا ۔
مسلمانوں کو ملک کے شہری کی حیثیت سے جو حقوق حاصل ہیں اُن سے واقف کرانا۔
حکومت سے پوری خود اعتمادی کے ساتھ حق وانصاف کا مطالبہ کرنا اور یہ مطالبہ کسی احسان کے طور پر نہیں ؛ بلکہ ملک کے شہری اور دوسری بڑی اکثریت کی حیثیت سے ہوگا۔
اس کے علاوہ جوبھی اقدامات ملک وملت کے مفاد میں ہوں ان کے بارے میں مشاورت جاری رکھی جائے اور عملی قدم اٹھائے جائیں ۔ ساتھ ہی مسلمان اپنی صحیح قیادت پر اعتماد کا مزاج بھی اپنائیں ۔
آخر میں یہ کہ رجوع الی اللہ کا بھرپور اہتمام کیا جائے، گناہوں سے سچی توبہ کی جائے، قرآن کریم کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے، تلاوتِ قرآن اور اللہ سے دعائیں مانگنے کا بھی اہتمام کیا جائے اوراپنی ذمہ داریوں سے ہرگز غفلت نہ برتی جائے۔
ایک محبِ علم وعلماء کی رحلت
۵؍شوال ۱۴۴۰ھ مطابق ۹؍جون ۲۰۱۹ء بروز اتوار، آمبور ضلع ویلور تمل ناڈ کے مشہور صاحب خیر تاجر جناب الحاج این فاروق صاحب، اچانک رحلت فرماگئے إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور درجات عالیہ نصیب فرمائے، آمین!
الحاج این فاروق صاحب کو اللہ رب العزت نے جن صفات سے آراستہ کیا تھا ان کا اندازہ ایسے آدمی کے لیے مشکل ہے جس نے اُن کو دیکھا نہ ہو۔ عام طور پر دینی مزاج رکھنے والے اہل خیر، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، دینی مصارف میں تعاون کرتے ہیں اور بلاشبہ ایسے حضرات کے تعاون سے ہندوستان کے مدارس کا وسیع نظام اور دیگر دینی وملی ضروریات بہرہ مند ہیں ؛ مگر اکثر اصحاب خیر کا کام بس مالی تعاون تک محدود رہتا ہے؛ لیکن فاروق صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسی دینی فہم اورعلم اور علماء کی محبت عطا کی تھی جس نے اُن کے کاموں میں انفرادیت کا رنگ پیدا کردیا۔ اس مزاج کی تشکیل میں اُن کے خالو حضرت مولانا مفتی جعفر علی صاحب رحمہ اللہ اور اُن کے استاذ حافظ محمد عثمان صاحب رحمہ اللہ کی تربیت کا بڑا دخل تھا۔ جس کی برکت سے ان کے مزاج میں عبادات کا اہتمام بھی پیدا ہوا، چنانچہ وہ نماز باجماعت کے پابند تھے اور فجر کے بعد دیرتک تلاوت اور اذکار میں مشغول رہتے تھے، اُن کادوسرا شوق دینی کتب کی اشاعت کا تھا، انھوں نے بہت سی کتابوں کی اشاعت میں تعاون کیا، خود متعدد کتب مرتب کرائیں جن میں سرفہرست، خطبات احتشام الحق ہے جس کی متعدد جلدیں ان کی نگرانی میں مرتب ہوکر اُن کے مصارف پر شائع ہوئیں ، اسی طرح اپنے استاذ حافظ محمد عثمان صاحب رحمہ اللہ کے خطبات مرتب کراکے شائع کیے۔ ۲۰۱۰ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ہندوستان تشریف لائے تو اُن کے پورے سفر کے خطبات مرتب کراکے خطبات دورئہ ہند کے نام سے شائع کیے۔ حضرت کے داعی ومیزبان بھی فاروق صاحب ہی تھے۔ اس کے علاوہ اُن کا تعاون بہت سے اکابر علماء کی کتابوں کی اشاعت میں شامل رہا۔
فاروق صاحب کا ایک شوق مساجد کی تعمیر کا تھا، چنانچہ آمبور شہر میں دوعالی شان مسجدیں اپنے مصارف سے تعمیر کرائیں ، ایک اپنے والد کے نام پر مسجد ہاشم، دوسری اپنی والدہ کے نام پر مسجد شمس، پھر مسجد ہاشم میں اعتکاف کا نظام قائم کیا جس کی مکمل میزبانی وہی کرتے تھے۔
علم اور علماء سے اُن کا تعلق رسمی نہیں قلبی تھا، جس کی برکت سے اُن کو اکابر علماء سے قرب واختصاص کا تعلق حاصل تھا۔ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم، شیخ المشائخ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم۔ نمونۂ اسلاف حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند، شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب دامت برکاتہم ڈابھیل، استاذ محترم حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی دامت برکاتہم نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند،اسی طرح حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے صاحبزادگان حضرت مولانا تنویر الحق صاحب دامت برکاتہم وغیرہ اور اُن کے علاوہ بے شمار علماء وصلحاء سے اُن کے قریبی روابط تھے اور یہ سب حضرات اُن سے قلبی محبت رکھتے تھے۔
علم وعلماء کے احترام کا ایک پہلو یہ تھا کہ فاروق صاحب مقامی علماء کرام کے ساتھ بھی احترام اور محبت کا وہی برتائو رکھتے تھے جو مشاہیر اور اکابر کے ساتھ تھا۔ اپنی مسجد کے امام صاحب کو بھی اپنی طرف بلاکر بات نہیں کرتے تھے۔ اُن کے پاس پہنچ کر پورے احترام سے بات کرتے تھے۔
مدارس اسلامیہ کا تعاون تو وہ کرتے ہی تھے اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ان نادار اور مستحق غربا کی تھی جن کی مدد وہ باقاعدگی سے ہرماہ کرتے تھے۔
رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی وہ اہتمام کرتے تھے، خاص طور سے والدہ کے ساتھ تو عجیب معاملہ تھا۔ والدہ کی رہائش چھوٹے بھائی کے ساتھ تھی؛ لیکن بلاناغہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اُن کے تمام کاموں کے ذمہ دار تھے، خود والدہ اپنی ہر ضرورت کے لیے انہی کو بلانے کا حکم دیتی تھیں ۔
راقم سطور کے ساتھ بھی بے پناہ محبت واحترام کا معاملہ تھا، اُن کو قریب سے دیکھ کر ان کی منفرد شخصیت کا جو اندازہ ہوا اسی نے یہ سطور لکھنے پر مجبور کردیا۔ ایک عجیب بات یہ کہ وفات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ حافظ قرآن بھی تھے۔ ان کی اولاد میں ایک صاحبزادہ جناب این فضیل صاحب اور دو بیٹیاں ہیں ۔
اُن کی وفات تقریباً ۶۶ سال کی عمر میں بالکل اچانک ہوئی؛ لیکن وہ اُس وقت بھی اپنے تمام معمولات اور تلاوتِ قرآن وغیرہ سے فارغ ہوچکے تھے کہ اچانک بلاوا آگیا اور وہ چلے گئے۔
اللہ رب العزت اُن کی مغفرت فرمائے اور اپنے قرب خاص کا مقام عطاء فرمائے۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 7، جلد:103، ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء
٭ ٭ ٭