از: مولاناڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر

            حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو نرالا اورامت کے لیے مینار ہدایت ہے، اگرچہ آپ کا تشریعی دورنبوت کے بعد شروع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا، امت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔

            آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے؛ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل وانصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں ، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں ؛ لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے؛ کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔

            بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگائو اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریش مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لارہے ہیں ۔

            اور شرم وحیا اتنی غالب کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھارکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گرپڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔

            کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا  التاجر الصادق الأمین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔

            معاملہ فہمی اورمعاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اوراس میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجراسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں ؛ لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اوراس پر راضی ہوگئے۔

            صداقت وامانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست، دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے، چناں چہ تمام قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا:

            ’’ہم نے بارہا تجربہ کیا، مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا۔‘‘

            یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی؛ کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت ورسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اورامت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بہ طور اسوئہ حسنہ پیش کرنا تھا۔

            ’’بلاشبہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سیکھنی ہے، بالخصوص اس شخص کو جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اوراللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘ (الاحزاب)

            چالیس سال کی عمر میں آپ کومنصب رسالت پر فائز کیاگیا اور وحی آسمانی کا آغاز ہوا اوراس کے لیے جبرئیل امین کا انتخاب ہوا، جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔

            ’’بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے، جو بڑی قوت والا، صاحب عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔‘‘ (التکویر)۔

            اس وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہرپہلو امت کے لیے ایک بہترین اسوئہ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ اسی حقیقت کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں :

            ’’یعنی آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ جمیل مائوں نے نہیں جنا۔‘‘

            آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے، گویا آپ اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیے گئے۔‘‘

            امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتا ہے۔

            آپ کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اسوئہ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک اسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کام یابی کے ساتھ چلایا۔

            آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اورآپ  نے قضا اور عدل وانصاف کے وہ اصول بیان فرمائے جن سے انسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی۔ آپ ہی کا فرمان ہے:

            ’’بخدا! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

            اور آپ ہی کا فرمان ہے:

            ’’اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اورمالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے؛ لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اورمدعاعلیہ پر قسم ہے۔‘‘

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادرسپاہی کے لیے بھی اسوئہ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں ، بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوئہ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اکھڑ گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے۔

            ’’میں سچا نبی ہوں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘

            ایک بار اہل مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبراکر باہر نکلے؛ تاکہ معلومات حاصل کریں ، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبرائو نہیں ، میں سب دیکھ کر آگیا ہوں ۔ کوئی خطرہ نہیں ۔

            آپ غزوات میں تجربہ کار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے، جیساکہ غزوئہ بدر اور غزوئہ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں ۔

            اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل وانصاف کا یہ عالم کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انھیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول انسان کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔

            آپ اپنی امت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط انسان دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آپ ہی کا ارشاد ہے:

            ’’ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کم زور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے۔‘‘

            صبر وتحمل میں آپ سب کے امام ہیں ۔ ایک اعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردن مبارک پر نشانات پڑ جاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرارہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو  اتنا مال دے دیا جائے۔

            حق پر صبر واستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپ کے مخالفین نے آپ کو مال ودولت خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ وجلال کی لالچ دی؛ تاکہ آپ دعوت حق کو ترک کردیں ؛ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرا برابر بھی متاثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہل حق کے لیے ہمیشہ مشعل راہ  رہیں گے۔ آپ نے فرمایا:

            ’’قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج  میرے داہنے ہاتھ پر  اور چاند  بائیں ہاتھ پر رکھ دیں ؛ تاکہ میں اپنی دعوت حق کو چھوڑ دوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا؛ جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔‘‘

            عفو وکرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا۔ مکہ مکرمہ فتح ہوا، آپ ایک فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے؛ لیکن کبر وغرور کے ساتھ نہیں ؛ بلکہ نہایت متواضع انداز میں اور ساتھ ساتھ رحمت وکرم کا اعلان شروع ہوجاتا ہے، فرمایا: آج رحم وکرم کا دن ہے، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔

            آپ بیت اللہ شریف میں تشریف لے جاتے ہیں ، تمام اہل مکہ بحیثیت مجرم آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ، جو کفر وشرک جیسے گناہِ عظیم میں مبتلا تھے، جنھوں نے آپ اور آپ کے جاں نثاروں کو سخت ایذائیں دی تھیں ، انھیں شہید کیاگیا، گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا تھا اور پھر ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور ان کے خلاف جنگ کرتے رہے، آج یہ سب مجرم آپ کے سامنے ہیں ، آج اگر آپ کے بجائے دنیا کا کوئی اور حاکم یا بادشاہ ہوتا تو ان کے ساتھ وہ سلوک کرتا جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جیسا کہ آج کے دور میں مہذب درندے مفتوح قوموں کے ساتھ کررہے ہیں ؛ لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ رحمۃ للعالمین ہیں ، آپ ہی کا ارشاد ہے:

            ’’جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے بُرا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔‘‘

            اس تعلیم کا آج عملی نمونہ پیش کیا جارہا ہے، آپ نے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والاہوں ؟ سب نے بیک زبان کہا ’’ہمیں آپ سے بھلائی کی امید ہے، آپ ایک شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے فرزند ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی:

            ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔‘‘ (یوسف)

            پھر فرمایا:

            ’’جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘

            جودوسخا میں بھی آپ سب سے آگے، صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں :

            ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کا جودوسخا کا سمندر ٹھاٹیں مارتا تھا۔‘‘

            اخلاق میں آپ اتنے اونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا:

            ’’اور یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بلندخلق پر قائم ہیں ۔‘‘

            اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر امت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہرکو کیسا ہونا چاہیے، ایک باپ کیسا ہو اور ایک دوست کیسا ہو۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے، آپ ایک کامل معلم اور استاذ اور ایک عظیم مربی تھے؛ اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اسوئہ حسنہ ہیں ۔

            اس مضمون میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بحیثیت ایک معلم کے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے فریضۂ منصبی کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

            ’’اللہ نے احسان فرمایا ایمان والوں پر، جو بھیجا ان میں رسول انہی میں سے، پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتاہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی باتیں اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے۔‘‘ (آل عمران)

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے معلم بناکر بھیجا، آپ نے فرمایا: ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘ آپ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔

            ’’اے پیغمبر! آپ اپنے اس رب کا نام لے کر قرآن پڑھیے، جس نے پیدا کیا، جس نے انسانوں کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اس نے انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ (علق)

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام صفات عالیہ موجود تھیں جو ایک معلم کامل میں مطلوب ہیں ۔ آپ کمال علم، خلق عظیم، اسوئہ حسنہ اور کمال شفقت اور رحمت جیسی صفات کے ساتھ موصوف تھے۔

            علوم کامل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فن میں پوری مہارت رکھتا ہو، آپ کے بارے میں ارشاد باری ہے:

            ’’اور سکھائیں آپ کو وہ باتیں جو آپ نہ جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے۔‘‘ (النسائ)

            ایک معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت مشفق اور ہم درد ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صفت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ آپ معلم ہونے کے ساتھ ایک والد کی طرح مشفق اور مہربان بھی تھے۔ آپ کی زبان نہایت پاکیزہ تھی، آپ نے کبھی گالی گلوچ سے کام نہیں لیا۔ ایک صحابی فرماتے ہیں : ’’میں نے آپ سے بہتر نہ آپ سے پہلے کوئی معلم دیکھا، نہ آپ کے بعد، خدا کی قسم! نہ آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے بُرا بھلا کہا۔‘‘

            کام یاب معلم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ فصیح اللسان ہو اور جو مضمون پڑھائے طلبہ کے ذہن نشین کرادے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک افصح العرب تھے اور جامع کلمات کے مالک تھے، آپ نے فرمایا: ’’مجھے جوامع الکلم کی صفت عطا کی گئی ہے۔‘‘ یعنی آپ کے الفاظ مبارک کم اور ان کے معانی زیادہ ہوتے تھے۔

            نیز آپ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے، جو بھی اسے سنتا اسے سمجھ لیتا اور بہ وقت ضرورت ایک بات کو تین بار دہراتے، حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

            ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح لگاتار گفتگو نہیں فرماتے تھے؛ لیکن آپ جب گفتگو فرماتے تو کھلی ہوئی گفتگو فرماتے، جو بھی اسے سنتا اسے یاد کرلیتا۔‘‘

            یہی وجہ ہے کہ آپ کی ایک ایک بات آج امت کے پاس محفوظ ہے۔ ایک کام یاب معلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت بلند اخلاق کا مالک ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی تعریف خود رب العزت نے بیان فرمادی ہے۔

            ’’بے شک آپ خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز ہیں ۔‘‘ (القلم)

            نیز ایک معلم کا کمال یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ شاگردوں کی صحیح تربیت بھی کرے اور خود اپنی ذات کو بہ طور عملی نمونہ کے پیش کرے۔ آپ کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے:

            ’’آپ ان کی تربیت اور تزکیہ فرماتے ہیں ۔‘‘

            اور آپ کی زندگی کو پوری امت کے لیے اسوئہ حسنہ بناکر پیش کیا۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کمال اور خوبی یہ تھی کہ آپ تعلیم میں مختلف طریقے اور اسلوب استعمال فرماتے تھے اور سامعین کا خیال فرماتے اور ان کے عقلی معیار کے مطابق گفتگو فرماتے اور مختلف علمی مضامین کے اعتبار سے اسلوب بدلتے رہتے، یہاں پر اس اسلوب بیان کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں ۔

حفظ کا طریقہ

            بعض علمی مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کی عبارتوں کو یاد کرنا ضروری ہوتا ہے، جیسے ہمارے تعلیمی مضامین میں پہاڑے وغیرہ ایسے مضامین میں آپ کا یہی اسلوب مبارک تھا، جیسے قرآن کریم کی آیات، ماثور دعائیں اور مختلف اوراد، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

            ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استخارے کی دعا ہمارے کاموں کے سلسلے میں اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔‘‘

تعلیم بالعمل

            بعض مضامین عملی ہوتے ہیں جنھیں عمل ہی کے ذریعہ سکھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کی بیشتر تعلیمات عملی ہیں ؛ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خود عمل فرماکر صحابۂ کرامؓ کے سامنے پیش فرماتے اور صحابۂ کرامؓ آپ کو دیکھ کر ویسا ہی عمل کرتے، مثلاً جب نماز کا حکم نازل ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے نماز ادا فرمائی اور حکم دیا:

            ’’تم اس طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا۔‘‘

            اور جب حج فرض ہوا تو آپ بہ نفس نفیس خود تشریف لے گئے اور اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر ارکان حج ادا فرمائے، تاکہ ہر شخص آپ کو آسانی سے دیکھ سکے اور آپ کے افعال کا مشاہدہ کرسکے اور اعلان فرمایا:

            ’’مجھ سے اپنے حج کے احکام سیکھ لو۔‘‘

            اسی طرح بقیہ احکام کو آپ نے عملی شکل میں پیش فرمایا۔

نصوص کی تشریح

            قرآن کریم کی آیات کو یاد کرانے کے بعدآپ ان کی تشریح بھی فرماتے تھے۔ اگر وہ تشریح طلب ہوتیں اور اگر ان کا تعلق عمل سے ہوتا تو عمل سے اس کی تشریح فرماتے؛ چناں چہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

            ’’اور جو لوگ ایمان لے آئے اور نہیں ملایا انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو، انہی کے لیے امن ہے اور وہی لوگ ہیں سیدھی راہ پر۔‘‘ (انعام)

            تو صحابۂ کرامؓ پریشان ہوئے اور عرض کیا: ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہ کیاہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ ظلم سے مراد یہاں شرک ہے، وہ معنی نہیں جو تم مراد لے رہے ہو، پھر یہ آیت آپ نے پڑھی:  {ان الشرک لظلم عظیم} (بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے)۔

سوال وجواب کے ذریعہ تعلیم

            آپ کے پاس کوئی شخص آتا، کبھی حضرت جبرئیل علیہ السلام انسانی شکل میں آتے اور آپ سے سوالات کرتے اور آپ ان کا جواب دیتے یہ سب منظرصحابۂ کرامؓ کی مجلس میں پیش ہوتا، وہ اسے دیکھتے اور سنتے، اس طریقۂ تعلیم میں طالب علم کی پوری توجہ علم کی طرف رہتی ہے اور وہ جوابات کو شوق اور بے چینی سے سنتا ہے اور حدیث جبرئیل اس کی واضح مثال ہے۔

تعلیم بذریعہ سوالات

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی صحابی یا بہت سے صحابہ کے سامنے کوئی ایک سوال یا متعدد سوالات پیش فرماتے، پھر ان سے جواب سنتے، اگر جواب صحیح ہوتا تو اس کی تحسین فرماتے اوراگر صحیح نہ ہوتا تو صحیح جواب کی طرف راہ نمائی فرماتے، جیسے آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کا گورنر اور قاضی بناکر بھیجا تو آپ نے ان سے کئی سوالات کیے اور ان کے صحیح جوابات پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

تعلیم بذریعہ اقرار وارشاد

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی مسلمان کو کوئی کام کرتا دیکھتے،اگر وہ صحیح ہوتا تو اسے برقرار رکھتے اور اگر صحیح نہ ہوتا تو صحیح بات کی طرف اس کی راہ نمائی فرماتے، جیسے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سفر کی حالت میں سخت سرد رات میں گرم پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل جنابت کے بجائے تیمم کرلیا اور نماز پڑھی اور آپ نے ان کو اس پر برقرار رکھا۔

تعلیم بذریعہ رسم ونقشہ

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کی تعلیم کے وقت بعض امور کو واضح کرنے کے لیے کبھی رسم اور نقشہ سے کام لیتے تھے۔ ایک بار آپ نے ایک مربع خط کھینچا اور ایک خط اس مربع خط کے درمیان کھینچا اور اس خط کے دائیں بائیں مختلف خطوط کھینچے اور ایک خط مربع خط سے باہر کھینچا، پھر آپ نے فرمایا: ’’جانتے ہو یہ کیا چیز ہے؟‘‘ سب نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ درمیانہ خط انسان کی مثال ہے۔ اس خط کے دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے خطوط وہ عوارض ہیں جو انسان کو پیش آتے رہتے ہیں ، ایک سے اگر چھوٹ گیا تو دوسرا اسے پکڑلیتا ہے اور مربع خط انسان کی اجل ہے، جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو خط باہر جارہا ہے یہ اس کی امیدیں ہیں ۔

تعلیم بذریعہ ضرب الامثال

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیم وتربیت اس طرح بھی فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو کسی درپیش مسئلہ میں جس میں ، ابھی تک کوئی حکم بذریعہ وحی نازل نہ ہوتا، صحابہ کے سامنے حل کے لیے پیش فرماتے۔ قرآن کریم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا تھا۔ ’’آپ ان سے مشورہ کرتے رہیے۔‘‘ اس معاملہ میں صحابۂ کرامؓ اپنی اپنی رائے کا اظہار فرماتے اور آپ آخر میں جو صحیح رائے ہوتی اس کی تائید فرماتے یا صحیح رائے کی طرف راہ نمائی فرماتے۔ اس طرح آپ نے صحابۂ کرامؓ کو عملی تربیت اس بات کی دے دی کہ آئندہ امت کو درپیش مسائل کا حل کس طرح کریں ۔ اسی کو قرآن کریم نے ایک اصول اور قاعدہ کے طور پر یوں بیان فرمادیا ہے۔

            ’’اور ان کے معاملات آپس میں مشورے سے طے ہوتے ہیں ۔‘‘ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ نماز کے وقت مسلمانوں کو مسجد میں کس طرح بلایاجائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی مجلس میں یہ معاملہ پیش فرمایا، غور وفکر شروع ہوا، کسی نے گھنٹی بجانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کا اور بعض نے آگ وغیرہ جلانے کا؛ لیکن آپ نے یہ کہہ کر ان آراء کو مسترد کردیا کہ یہ غیرمسلموں کے شعار ہیں ، آخر میں جب حضرت عبداللہ بن زید اور دوسرے صحابہؓ نے خواب میں موجودہ اذان سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرا رکھا اور فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور حق ہے۔

            غرضے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ کی تعلیم میں وہ تمام اسالیب اختیار فرمائے جو مفید سے مفید تر ہوسکتے ہیں اور آج کے اس ترقی کے دور میں اس سے بہتر کوئی علمی ادارہ نیا اسلوب نہیں پیش کرسکا۔

            ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک معلم اوراستاد کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ معلّمین حضرات حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں (العلماء ورثۃ الانبیاء) اور اس مرتبۂ عظیم کے ساتھ عظیم تر ذمہ داریاں بھی انھیں پر عائد ہوتی ہیں ۔

            اس لیے ہم اس ماہ مبارک میں صدق دل سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں گے جو ایک معلم کامل میں مطلوب ہیں اور اپنے سامنے ہمیشہ معلم کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بہ طور معیار کے رکھیں گے۔

            ہم ان اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنی علمی درس گاہوں کا معیار بلند کریں ، ہمارے اسکولز، ہماری یونی ورسٹیاں ، ہمارے علمی ادارے، اپنے تعلیمی معیار میں ،تربیتی اعتبار سے، نظام کے اعتبار سے، اخلاق کے اعتبار سے، وقار کے اعتبار سے، صفائی کے اعتبار سے، نظامت کے اعتبار سے اتنے بلند ہوں کہ طلبہ ان کی طرف کھینچے ہوئے آئیں اور کسی دوسری طرف اپنا رُخ نہ کریں ۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسندہے کہ جب تم کوئی کام کرو تو اسے خوش اسلوبی سے کرو۔‘‘

            ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہماری کوتاہیوں سے ہمارے علمی اداروں کا معیار تعلیم پست ہوا اور ہمارے بچوں نے غیرمسلموں کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا اوراس کے نتیجہ میں وہ اپنے دین سے منحرف ہوئے اور اپنے قومی اور وطنی جذبہ سے محروم ہوئے تواس کی ذمہ داری اور اس کا وبال سب پر پڑے گا اوراس کا جواب ہمیں کل اللہ کے سامنے دینا ہوگا اور اس ذمہ داری کا احساس ہر فرد کو ہونا چاہیے، خصوصاً تعلیمی اداروں کے ذمہ دار حضرات اور وزارت تعلیم کے سرکردہ افراد کو۔

            اللہ تعالیٰ ہم سب کوخصوصاً تعلیمی میدان میں کام کرنے والوں اور اساتذہ ومعلّمین کو، معلم کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:103‏،  ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts