از:   مفتی توقیر عالم قاسمی

استاذِ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال

ابتدا ءِ اسلام میں وصیت کرنا فرض تھا

            ابتداء اسلام میں جب تک تقسیم میراث کا حکم نازل نہیں ہوا تھا موت سے پہلے والدین اور رشتے داروں کے لیے ترکہ اور مال کی وصیت کرنا فرض اور واجب تھا:  اللہ تعالی کا فرمان ہے:           ’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘‘۔ (البقرۃ:۱۸۰)

             ترجمہ: فرض کردیا گیا تم پر وصیت کرنا جب تم میں سے کسی کو موت حاضر ہو بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال، والدین کے لیے اور رشتے داروں کے لیے انصاف کے ساتھ، یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں پر۔

            پھر جب سورۂ نساء کی آیت میراث(نمبر:۱۱):  یُوْصِیْکُمُ اللَّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ ، الخ :  نازل ہوئی اور تقسیم میراث کا تفصیلی حکم نازل ہوا تو وصیت کے وجوب کا حکم منسوخ اور ختم ہو گیا؛ البتہ استحباب باقی رہا۔  (تفسیر نسفی: ۱/۱۵۷، تفسیر خازن: ۱/۱۰۹، تفسیر ابن کثیر: ۱/۴۹۲،۴۹۴)

            اور فوائد عثمانی میں ہے: وصیت اس وقت فرض تھی جس وقت تک آیت میراث نہیں اتری تھی، جب سورۂ نساء میں احکام میراث نازل ہوئے اور سب کا حصہ اللہ تعالی نے خود معین فرمادیا، اب ترکۂ میت میں وصیت فرض نہ رہی، اس کی حاجت ہی جاتی رہی؛ البتہ مستحب ہے۔

جواز وصیت کی شرطیں

            وصیت کے جائز ہونے کی من جملہ شرطوں میں سے یہ شرطیں بھی ہیں : وصیت کرنے والا عاقل وبالغ ہو ؛ نابالغ یا پاگل کی وصیت درست نہیں ہے۔ وہ مقروض ومدیون نہ ہوکہ ادائگی قرض میں پورا مال ختم ہو جائے۔ اگر وصیت کسی آدمی کے لیے کی ہے تو وصیت کرنے کے وقت وہ آدمی زندہ ہو۔ جس آدمی کے لیے وصیت کی ہے وہ اس کا وارث نہ ہو۔ وصیت تہائی مال یا اس سے کم کی ہو، تہائی سے زائد کی نہ ہو۔ وصیت کسی معصیت اور گناہ کی نہ ہو۔ (درمختار مع الشامی:۵/۳۱۶)

وصیت کے اقسام

            وصیت کی چار قسمیں ہیں : (۱) واجب (۲)مباح (۳)مکروہ (۴) مستحب۔

             واجب :  فرائض وواجبات میں جو کوتاہی ہوئی ہے، جس کی قضا اس کے ذمے باقی ہے، اس کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے؛لہٰذا جو نماز، روزہ کی قضا ہو گئی ہے اس کے فدیہ کی وصیت کرے، اگر قسم وغیرہ کا کفارہ ادا کرنے سے رہ گیا ہے تو موت سے پہلے اس کے ادا کرنے کی بھی وصیت کرے، یا حج فرض تھا ادا نہیں کیا تو حج بدل کرانے کی وصیت کرے اور ان تمام صورتوں میں وصیت کرنا واجب ہے۔

            قال فی البدائع: الوصیۃُ بما علیہ مِنَ الفرائضِ والواجباتِ کالحجِّ والزکاۃِ والکفاراتِ واجبۃٌ۔ (بدائع الصنائع، بیان جواز الوصیۃ: ۷/۳۳۰)

            یعنی آدمی پر جو فرائض وواجبات باقی ہیں ان کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔

            اور عالم گیری میں ہے: وإن کان علیہ حقٌ مستحقٌّ للّہِ تعالی کالزکاۃِ أو الصیامِ أو الحجِّ أو الصلاۃِ التی فَرَطَ فیہا، فَہِیَ واجبۃٌ۔ (۵/۹۰، وکذا فی البحر: ۸/۴۶۰، کتاب الوصایا)

            یعنی اگر کسی آدمی پر اللہ کا کوئی واجب حق رہ گیا ہے جیسے زکاۃ، روزہ، حج، اور نماز جس میں اس نے کوتاہی کی ہے تو (فدیہ کی)وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔

            اور اگر کسی کا قرض اس پر ہے اور ادا نہیں کیا ہے تو اس قرض کی ادائگی کی وصیت کرنا مرنے والے پر موت سے پہلے واجب ہے: فی المواہب: تجبُ علی مدیونٍ بما علیہ للّہِ تعالی أو للعبادِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)

            یعنی مدیون ومقروض پر خواہ دین اللہ کا ہو یا بندوں کا وصیت کرنا واجب ہے۔

            اسی طرح اگر اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہوئی ہے تو اس کی ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے۔  (تفسیر قرطبی:۲/۲۵۹)

مباح وجائزوصیت

            مال دار کے لیے وصیت کرنا جائز ومباح ہے۔

مکروہ وصیت

            ایسا آدمی جو فسق وفجور میں مبتلا ہو اس کے لیے وصیت کرنا مکروہ ہے، جب کہ غالب گمان یہ ہو کہ وہ آدمی اس مال کو فسق وفجور میں خرچ کرے گا۔ (درمختار: ۵/۳۱۵)

مستحب وصیت

            وہ رشتے دار اور خویش واقارب جو وارث نہیں ہیں ان کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے۔ عالم دین اور صلاح وتقوی والے شخص کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے۔  (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)

قضا نماز وغیرہ کا فدیہ اور کفارہ

            اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس پر قضا نمازیں ہوں اور وہ وصیت کرے کہ اس کی نماز کا کفارہ ادا کیا جائے تو ہر نماز کے بدلے ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں ، یا اس کی قیمت دے گا، اور ہر روزہ کے بدلے بھی ایک کلو  ۶۳۳/ گرام گیہوں ، یا اس کی قیمت دے گا۔

            یعنی ہر فرض نماز اور ہر روزہ کا کفارہ اور فدیہ:  ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں ،یا اس کی قیمت ہے۔

             واضح رہے کہ یہ فدیہ اور کفارہ اس کے ثلث مال ہی سے ادا کیا جائے گا، فدیہ میں ایک تہائی سے زیادہ مال نہیں دیا جائے گا۔

            إذا ماتَ الرجلُ وعلیہ صلواتٌ فائتۃٌ، وأوصی بأن یُعْطِیْ کفارۃَ صلاتِہ یُعْطِیْ لِکُلِّ صَلاَۃٍ نصفَ صاعٍ مِن برٍّ، ولِصومٍ نصفَ صاعٍ، وإنَّما یُعطیَ من ثلثِ مالِہِ۔ (البحرالرائق، سجود السہو فی الصلاۃ: ۲/۹۸)

بغیر وصیت ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں

            اگر مرنے والے پر زکاۃ ، کفارات وغیرہ کا دین ہو اور اس نے ان کو ادا کرنے کی وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پر ان کا ادا کرنا ضروری اور لازم نہیں ہے؛ البتہ اگر وہ اپنی طرف سے تبرع اور احسان کردے تو اور بات ہے۔ ودینُ الزکاۃِ والکفاراتِ ونحوِہا فلایلزَمُ الورثۃَ أدائُہا إلاَّ إذا أوصیَ بِہَا، أو تَبَرَّعُوا مِنْ عندِہِم۔ (مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، کتاب الفرائض: ۲/۷۴۷)

وصیت پر عمل واجب ہے، اس میں کوتاہی جائز نہیں

            وصیت پر عمل واجب ہے، اس میں کوتاہی جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ قرآن وسنت کا حکم ہے؛ اسی لیے قرآن میں اللہ تعالی نے وصیت کو دین پر مقدم کیا ہے ، اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے، اگرچہ دین کو پہلے ادا کیا جائے گااور وصیت پر عمل اس کے بعد ہوگا۔ (روح المعانی، معارف القرآن: ۲/۳۲۹)

تہائی مال کی وصیت پر وارد ہونے والی چند حدیثیں

          (۱) عن أبی ہریرۃؓ قال رسولُ اللہِ صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم:إنَّ اللَّہَ تَصَدَّقَ علیکم عندَ وفاتِکُم بثلثِ أموالِکُم زیادۃً فی أعمالِکُم۔ (ابن ماجہ، باب الوصیۃ ، حدیث: ۲۷۰۹)

          (۲) عن أبی الدَّردارءؓ عن النبیّ صلَّی اللَّہ علیہ وسلَّم:إنَّ اللَّہ تَصَدَّقَ علیکم بثلثِ أموالِکم عندَ وفاتِکم۔ (مسند أحمد، حدیث: ۲۷۴۸۲)

          (۳) عن معاذ بن جبلؓ عن النبیّ صلَّی اللَّہ علیہ وسلَّم: إنَّ اللَّہ عزَّ وجَلَّ قد تَصَدَّقَ علیکم بثلثِ أموالِکم عندَ وفاتِکم زیادۃً فی حسناتِکم؛ لِیجعلَہا لکم زیادۃً فی أعمالِکم۔ (سنن دارقطنی ، کتاب الوصایا، حدیث: ۴۲۸۹)

            مذکورہ حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمہاری وفات کے وقت تمہارے ثلثِ اموال (کی وصیت) کے ذریعہ تم پر احسان اور فضل کیا  ہے، تمہارے اعمال اور نیکیوں میں زیادتی کے لیے؛ تاکہ تمہارے اعمال میں اضافہ ہو۔ یعنی تمہارے لیے تہائی مال کی وصیت جائز ہے، تم کو اس کی اجازت ہے۔

ایک ثلث سے زائد کی وصیت جائز نہیں

            ایک ثلث سے زائد کی وصیت کرناجائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو ایک ثلث(تہائی) سے زیادہ کی وصیت کرنے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میر ے پاس بہت مال ہے اور وارثین میں میری صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! میں نے کہا: آدھا مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! میں نے کہا : ایک تہائی مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: ہا ں ، اور ایک تہائی کثیر ہے، بلا شبہ تم اپنے ورثاء کومال دار چھوڑکر دنیا سے جاؤ، بہتر ہے اس سے کہ ان کو فقیر اور محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں سے سوال کرتے پھریں اور لوگوں کا دست نگر بنیں۔ (بخاری حدیث:۲۷۴۲، مسلم حدیث: ۵ -۱۶۲۸ ،وسنن اربعہ)(العنایۃ شرح الہدایۃ: ۱۰/۱۴۵)

ثلث سے زائد کی وصیت نافذ کیوں نہیں ہوتی

            بیمار کی وصیت شریعت میں صرف ایک تہائی مال میں جاری ہونے کی وجہ اور حکمت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کے تصرف میں خود مختار ہوتا ہے؛ لیکن جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کے مال کے ساتھ ورثاء کا حق وابستہ کردیا گیا ہے اور چوں کہ صاحبِ مال ابھی زندہ ہے تو اس کو اپنے مال کے اندر سے بالکل محروم بھی نہیں کیا گیا؛ بلکہ یوں سمجھا گیا کہ اکثر مال یعنی دو تہائی سے اس کا حقِ اختیار نکل گیا، اس میں اس کا قول لغو ہے اور اقل مال یعنی ایک تہائی میں اس کا قول معتبر ہے اور اس کا تصرف صحیح ہے۔ حدیث میں اسی بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: أیُّ الصدقۃِ أَعْظَمُ أجراً؟ کس صدقے کااجر وثواب سب سے بڑا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم صدقہ وخیرات کرو، اس حال میں کہ تم صحت مند اور تندرست ہو، مال سے تم کو محبت ہو، تم فقر اور غریبی سے ڈر رہے ہو (اس وقت کا صدقہ کرنا سب سے افضل ہے)، اور تم لوگ صدقہ وخیرات کرنے میں دیر اور تاخیر مت کرو ،یہاں تک کہ جب تمہارا آخری وقت آجائے اور روح حلقوم تک پہنچ جائے تو تم کہو:  لِفلانٍ کذا، ولفلانٍ کذا، وقَد کانَ لفلانٍ :  اتنا مال فلاں کے لیے ہے، اور اتنا مال فلاں کے لیے ہے؛ حالاں کہ اب مال فلاں (وارثین) کا ہو چکا ہے۔  (بخاری حدیث: ۱۴۱۹، مسلم حدیث: ۹۲-۱۰۳۲)

            وقد کان لفلان: اب مال فلاں کا ہو چکا ہے:  علامہ عینیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :  لأنَّ المالَ حینئذٍ خَرَجَ عنکَ وتَعَلَّقَ بِغِیْرِکَ۔ (عمدۃ القاری، باب أیّ الصدقۃ أفضل: ۸/۲۸۰)

            یعنی مال اس وقت تمہاری ملکیت سے نکل چکا ہے اور تمہارے غیر(وارثین) سے اس کا حق متعلق ہو چکا ہے؛ اس لیے تم کل مال میں اب تصرف نہیں کرسکتے۔

            اور ملاعلی قاریؒ اس کی تشریح میں رقمطراز ہیں :  أی وَقَدْ صارَ المالُ الذی تتصرّفُ فیہ فی ہذہ الحالۃِثلثاہ حقاً للوارثِ، وأنتَ تتصدّقُ بجمیعہ، فکیفَ یقبلُ منک۔ وقال الطیبی: قیل:إشارۃٌ إلی المنعِ عن الوصیۃِ لتعلّقِ حقّ الوارثِ، أی وقدکان لفلانٍ الوارث۔ (مرقاۃ، تحت رقم حدیث:۱۸۶۷: ۴/۱۳۲۲)

            یعنی مرض الموت میں جس مال میں تم تصرف کر رہے ہو اس کا دو ثلث وارث کا حق ہے اور تم تمام مال کو صدقہ کر رہے ہو تو کیسے تم سے قبول ہوگا اور علامہ طیبیؒ نے فرمایا: اس حدیث میں کل مال کی وصیت کرنے سے منع کی طرف اشارہ ہے؛ اس لیے کہ مال وارثوں کا ہو چکا ہے۔

اگر ورثاء اجازت دیدیں تو جائز ہے

             اگر ثلث سے زائد کی وصیت کرے تو ثلث سے زائد میں وصیت نافذ نہیں ہوگی؛ البتہ اگر ورثاء اس زائد کی اجازت دیدیں اور تمام ورثاء بالغ ہوں تو پھر ثلث سے زائد میں وصیت نافذ ہوجائے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ورثاء نے اجازت وصیت کرنے والے کی موت کے بعد دی ہواور اگر بعض ورثاء نے اجازت دی ہے اور بعض نے نہیں دی ہے تو جنہوں نے اجازت دی ہے ان کے حصے کے بقدر میں وصیت نافذ ہوگی، مثلاً زید نے وصیت کی کہ میرے مال میں سے نصف مال میرے مرنے کے بعد خالد کو دیدیا جائے، تویہ ثلث سے زائد کی وصیت ہے، اور زید کے ورثاء صرف دو لڑکے ہیں اور ان میں سے ایک نے ثلث سے زائد کی وصیت کی اجازت دیدی، تو مال اس طرح تقسیم ہوگا ۔ جس نے اجازت نہیں دی ہے اس کو ایک ثلث ملے گا، اجازت دینے والے وارث کو ربع ملے گا۔ جس کے لیے وصیت کی گئی ہے یعنی خالد اس کو ایک ثلث اصلی وصیت کا اور ایک سدس( چھٹا حصہ) وصیت کی اجازت دینے والے کی طرف سے ملے گا۔  (شامی، نعمانی: ۵/۴۱۷)

وصیت کرنے میں وارثین کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو

            وصیت کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچاناجائز نہیں ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:  مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصَی بِہَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ۔ (سورۂ نساء:۱۲)

            یعنی میراث ملے گی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعدجس کی وصیت کی گئی ہے، یا اگر دین ہو تو اس کے بھی نکالنے کے بعد بشرطیکہ وصیت کرنے والا کسی وارث کو ضرر نہ پہنچائے۔

            غَیْرَ مُضَارٍّ کی تفسیر کرتے ہوئے مجاہدؒ نے فرمایا: اَلْمُوْصِیْ لاَ یُضَارُّ فی المیراثِ أَہْلَہُ۔ (تفسیر مجاہد)

            یعنی وصیت کرنے والا میراث میں اپنے وارثین کو ضرر اور نقصان نہ پہنچائے ۔

            اور ابن جبیرؒ نے فرمایا: غیرَ مُضَارٍّ أی من غیرِ ضَرَرٍ لِوَرَثَتِہِ، فَلاَیُقِرُّ لحقٍ لَیْسَ عَلَیْہِ، وَلاَیُوْصِیْ أَکْثَرَ مِنْ ثُلُثٍ۔(روح المعانی:۲/۴۴۱)

            یعنی وصیت میں اپنے ورثاء کو ضرر نہ پہنچائے، پس کسی ایسے حق کا کسی کے لیے اقرار نہ کرلے جو اس پر واجب نہ ہو  اور ثلث سے زیادہ کی وصیت نہ کرے۔

            اور تفسیر راغب اصفہانی میں ہے:  والإضرارُ أن یقرَّ بمالٍ لأجنبیٍّ رداً للمیرثِ، أویبیعُ مالَہ أو شیئاً منہ محابیاً فیہ، أویَہِبُ، أویُوصِیْ لوارثٍ قصداً للإضرارِبغیرِہ۔  (تفسیر الراغب الأصفہانی: ۳/۱۱۳۷)

            یعنی وصیت میں ضرر اور نقصان یہ ہے کہ کسی غیر کے لیے کچھ مال کا اقرار کرلے میراث کو رد اور ختم کرنے کے لیے، یا مرض الموت میں اپنا مال بیچ دے ، یا کسی کو ہبہ کردے؛ تاکہ وہ اس کے لیے مخصوص ہو جائے، یا کسی وارث کے لیے وصیت کردے، دوسرے وارثوں کو ضرر پہنچانے کے ارادے سے ۔

            اور تفسیر بغوی میں ہے: غیرَ مضَارٍّ: أی غیرَ مُدْخِلٍ الضررَ علی الورثۃِ بمجاوزۃِ الثلثِ فی الوصیۃِ۔ (۱/۵۸۲) یعنی ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کرنا وارثوں کو نقصان پہنچانا ہے۔

            حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الإضرارُ فی الوصیۃِ من الکبائرِ۔  وصیت میں ضرر پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔ (دار قطنی حدیث: ۴۲۹۳، سنن کبری للبیہقی حدیث: ۱۱۰۲۶)

            اور ہدایہ کی شرح عنایہ میں ہے:تہائی سے زیادہ کی وصیت اور وارث کے لیے وصیت کبائر میں سے ہے۔  (۵/۴۱۷)

             حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ الرجلَ لیعملُ والمرأۃَ بطاعۃِ اللَّہِ سِتِّیْنَ سنۃً ، ثُمَّ یَحْضُرُ ہُمَا الموتُ فَیُضَارَّانِ فی الوصیۃِ فتجبُ لہما النارُ۔  (ترمذی حدیث:۲۱۱۷، ابوداؤد : ۲۸۶۷، مسند أحمد: ۷۷۴۲)

            یعنی مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت میں زندگی گزارتے ہیں ، پھر جب موت کی علامت ظاہر ہوتی ہے (مرض الموت میں مبتلا ہوتا ہے ) تو وصیت میں نقصان پہنچاتا ہے، پس ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے۔

            ملا علی قاریؒ مشکاۃ کی مشہور شرح مرقاۃ میں تحریر فرماتے ہیں :  وصیت میں ضرر یہ ہے کہ کسی اجنبی یعنی غیر کے لیے ثلث سے زیادہ کی وصیت کردے۔ یا تمام مال وارثین میں سے کسی ایک کو ہبہ کردے؛ تاکہ دوسرے وارثین اس کے مال میں سے کسی بھی چیز کا وارث نہ ہو، پس یہ ناجائز ہے، مکروہ تحریمی ہے اور اللہ کے حکم اور فیصلے سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔( مرقاۃ، باب الوصایا، تحت رقم حدیث: ۳۰۷۵)

            اور ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:  مَنْ فَرَّ مِنْ مِیْرَاثِ وَارِثِہِ قَطَعَ اللَّہُ میراثَہ من الجنۃِ یومَ القیامۃِ۔( ابن ماجہ حدیث: ۲۷۰۳)

            جو آدمی اپنے وارث کی میراث سے بھاگے گا (اس کومحروم کرے گا) اللہ تعالی قیامت کے دن اس کواس کی میراث جنت سے محروم کر دے گا۔

            اور ایک روایت میں ہے:  مَنْ قَطَعَ میراثاًفَرَضَہُ اللَّہُ قَطَعَ اللَّہُ میراثَہ مِن الجنۃِ۔ (سنن سعید بن منصور حدیث: ۲۸۵)

            جو شخص اس میراث کو کاٹے گا جو اللہ نے متعین اور فرض کیا ہے اللہ تعالی اس کی میراث کو جنت سے کاٹ دے گا۔

وارث کے لیے وصیت جائز نہیں

            حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الداع کے خطبے میں فرمایا: إنَّ اللَّہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ، فَلاَوصیۃَ لِوارثٍ‘‘۔ (أبو داؤد حدیث: ۲۸۷۰، ترمذی حدیث: ۲۱۲۰، ابن ماجہ حدیث: ۲۷۱۳)

            اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق دیدیا ہے؛لہٰذا وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے۔

            لیکن اگر کسی آدمی نے کسی وارث مثلاً چھوٹے بیٹے کے لیے کچھ مال کی وصیت کردی اورباقی ورثاء نے اس کی موت کے بعد اس کی اجازت دیدی تو پھر یہ جائز ہے اور وصیت نافذ ہوگی اور اس پر عمل کیا جائے گا؛ اس لیے کہ ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: لاتجوزُ وصیۃٌ لوارثٍ إلاَّ أن یشائَ الورثۃُ۔ (سنن دارقطنی حدیث: ۴۱۵۵، فتح الباری:۵/۳۷۳)

            یعنی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ؛ مگر یہ کہ ورثاء چاہیں اور اس کی اجازت دیدیں۔

            اور مرقاۃ میں ہے:  فإنْ أَوْصَی، وَأَجَازَ باقی الورثۃِ صَحَّتْ۔ ( مرقاۃ، تحت حدیث رقم: ۳۰۷۳)

            یعنی اگر کوئی وارث کے لیے وصیت کرے اور باقی ورثاء اس کی اجازت دیدیں تو وصیت صحیح ہے۔

            غرض جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ کسی وارث کے لیے وصیت کسی حال میں جائز نہیں ؛مگر جب کہ مورث کے مرنے کے بعد باقی ورثاء اس کی اجازت دیدیں ، پس اگر باقی ورثاء نے مورث (وصیت کرنے والے) کی موت کے بعد اس کی اجازت دیدی تو جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ان ہی میں سے امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، اور احمد بن حنبلؒ ہیں۔ (التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید: ۱۴/۳۰۶، تحت حدیث رقم: ۳۸)

غیر وارث رشتے دار کے لیے وصیت کرنا مستحب

            وہ رشتے دار اور خویش واقارب جو وارث نہیں ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، نواسہ، نواسی، بیٹے کی موجودگی میں پوتا پوتی جن کا باپ مرگیا ہے، وغیرہ، ان کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مساکین پر صدقہ کرنے سے صدقہ کا ثواب ملے گا اور ذورحم محرم رشتے دارپر صدقہ کرنے سے دو ثواب ملیں گے: صدقہ کا ثواب اور صلہ رحمی کا ثواب۔ (شرح البخاری لابن بطال، باب الصدقۃ عند الموت: ۸/۱۵۵)

            عن سلمان بن ربیعۃ الضبیّ ؓقال : سمعتُ رسولَ اللَّہِ صلّی اللَّہ علیہ وسلَّم: الصدقۃُ علی المساکینِ صدقۃٌ، وہِیَ علی ذِیْ الرحمِ ثنتانِ۔ (مکارم الأخلاق للخراطی، باب ماجاء فی الصدقۃ علی ذی الرحم من الفضل: ۱/۱۰۵)

میراث سے محروم یتیم پوتے پوتیوں کو دادا فراموش نہ کرے

            اسلام کا یہ حکم ہے کہ اگر بیٹا مرجائے تودوسرے بیٹوں کی موجودگی میں پوتے، پوتیاں محرو م ہو جائیں گے، ان کو دادا کی میراث سے کچھ نہیں ملے گا ، اسلام اور شریعت کے اس حکم پر غیر اور بعض مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں ؛ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت نے دادا کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے جتنا چاہے ان کو دے سکتا ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، اسی طرح زندگی کے آخری لمحات یعنی مرض الموت میں بھی ثلث مال میں وصیت کرکے جتنا چاہے اپنے پوتے اور پوتیوں کو دے سکتا ہے، اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی کہ ’’ذی رحم رشتے دار کو صدقہ کرنے اور مال دینے سے ڈبل اجر ملے گا، صدقے کا، اور صلہ رحمی کا‘‘؛ لیکن خود دادا ہی معاشرے اور سماج کے اس پروپگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے کہ پوتا محروم ہوگیا، اور شریعت نے اس کو ہبہ وعطیہ کے ذریعے ان بے چارے پوتے پوتیوں کو مال دینے کاجو اختیار کلی دے رکھا ہے ، اس کو وہ استعمال نہیں کرتا ہے؛ اس لیے اس طرح کی صورت حال میں جو آدمی مبتلا ہوجائے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث پر عمل کرکے اپنے یتیم پوتے اور پوتیوں کو ضرور کچھ دیدے؛ تاکہ وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے نہ پھریں اور دوسروں کا دست نگر نہ بنیں اور غیر کو شریعت کے حکم کو نشانہ بنانے کا موقع بھی نہ ملے۔

            اور بدائع الصنائع میں ہے:

          الوصیۃُ بالثلثِ لأقاربِہ الذینَ لایرثونَ أفضلُ مِنْ الوصیۃِ بہ للأجانبِ۔ (ا/۳۳۱)

            یعنی غیر وارثین اعزہ واقارب کے لیے تہائی مال کی وصیت کرنا افضل ہے۔

            اور تفسیر ابن کثیر میں ہے:

          اَلأقاربُ الّذینَ لا میراثَ لَہُمْ یستحبُّ لہ أن یُوصی لہم من الثلثِ۔ (۱/۴۹۴)

            یعنی وہ رشتے دار جن کے لیے کوئی میراث نہیں ہے ، مرنے  والے کے لیے مستحب ہے کہ ان کے لیے تہائی مال میں سے وصیت کردے۔

وراثت سے محروم رشتہ داروں کی دلداری ضروری

            اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں ہدایت فرمائی ہے:  وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَأُولُوا الْقُرْبَی وَالیَتَمَی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوْہُمْ مِنْہُ وَقُوْلُوا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفاً۔ (سورۂ نساء:۸)

            اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ وارثوں میں ترکہ تقسیم کے وقت ان رشتے داروں کو بھی کچھ دے دو جن کا میراث میں حق نہیں ہے اور یتیموں اور مسکینوں کو بھی اس میں سے کچھ دیدو۔

مال کم ہو تو وصیت نہ کرے

            اگر مال کم ہو اور ورثاء غریب ومحتاج اور فقیر ہوں تو افضل یہ ہے کہ بالکل وصیت نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑواس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقیر ومحتاجگی کی حالت میں چھوڑواور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ (بدائع: ۷/۳۳۱، بخاری حدیث: ۲۷۴۲)

          والأفضلُ لِمَنْ لَہُ مالٌ قلیلٌ أَنْ لاَ یُوْصِی إِذَا کَانَتْ لَہ وَرَثَۃٌ۔ (عالم گیری: ۶/۹۰، بحر: ۸/۴۶۱)

            جس کا مال کم ہو اور اس کے وارثین ہوں اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وصیت نہ کرے۔

            اگر ورثاء نابالغ ہوں خواہ مال دار ہی کیوں نہ ہوں تو اس وقت کل مال کو ورثاء کے لیے چھوڑنا افضل ہے اور وصیت نہ کرنا بہتر ہے۔(درمختار مع الشامی، نعمانی: ۵/۴۱۸)

مال کثیر ہو تو وصیت کرنا مستحب

            اگر مال کثیر ہوں اور ورثاء مال دار ہوں توثلث، یا اس سے کم مال کی وصیت کرنا افضل ومستحب ہے۔( بدائع: ۷/۳۳۱، درمختار مع الشامی، نعمانی: ۵/۴۱۸)

جس کا کوئی وارث نہ ہو کل مال کی وصیت کردے

            جس کا کوئی وارث نہ ہو اور اس پر دین نہ ہو تو اس کے لیے اولی اور بہتر یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے صدقہ خیرات کرے اور موت سے قبل کل مال کی وصیت کردے۔ قال فی الحاوی القدسی: مَنْ لاَوَارِثَ لَہُ، وَلاَعَلَیْہِ دَیْنٌ، فالأولَی أن یوصِی بجمیعِ مالِہ بعدَ التَّصَدَّقِ بِیَدِہِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۴۱۸)

            اور اس کے کل مال کی وصیت نافذ ہوجائے گی۔  وَلَوْ أَوْصَی بِجَمِیْعِ مَالِہ ، وَلَیْسَ لَہُ وَارِثٌ نَفَذَتِ الوصیۃُ۔ (عالم گیری: ۶/۹۰)

تقسیم میراث میں یتیم کا پورا خیال رکھے

            جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تواس کے مال کے ہر ہر حصہ اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ ہر وارث کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اس کے نابالغ بچے یتیم ہوتے ہیں ، ان بچوں کے ساتھ عموماً ہر گھر میں ظلم وزیادتی کا برتاؤ ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص جو ان بچوں کے باپ کی وفات کے بعد مال پر قابض ہوتا ہے، خواہ ان بچوں کا چچا ہو، یابڑا بھائی ہو، یا والدہ، یا اور کوئی ولی یا وصی ہو، اول تو سالہا سال  مال کو تقسیم کرتے ہی نہیں ، ان بچوں کی روٹی کپڑے پر تھوڑا بہت خرچ کرتے رہتے ہیں ، پھر بدعات، رسومات اور فضولیات میں اسی مال مشترک سے خرچ کیے چلے جاتے ہیں ، اپنی ذات پر بھی خرچ کرتے ہیں اور سرکاری کاغذات میں نام بدلوا کر اپنے بچوں کا نام لکھواتے ہیں ، یہ وہ باتیں ہیں جن سے بعض گھرہی خالی رہتا ہوگا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۱۶)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک قوم قیامت کے دن اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ آگ سے بھڑک رہے ہوں گے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہوں گے، آپ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا؟: إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا، إِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا، وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۔  جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں ، اور عنقریب آگ (جہنم) میں داخل ہوں گے۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۵۹۶)

ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس سے میت کے لیے صدقہ وخیرات نہ کرے

            ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر تواضع اور صدقہ وخیرات کچھ جائز نہیں ، اس طرح کے صدقہ وخیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا؛ بلکہ ثواب سمجھ کر دینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے؛ اس لیے کہ مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور ان میں یتیم بھی ہوتے ہیں ، اس مشترک مال میں سے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کا مال چُراکر میت کے حق میں صدقہ کر دیا جائے۔ پہلے مال تقسیم کر دیا جائے، اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ وخیرات کریں تو ان کو اختیار ہے ۔

            تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترک ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں ؛ اس لیے کہ جو ان میں یتیم ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیدیں ، ہوسکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں اور لوگوں کے طعنوں کے خوف سے کہ اپنا مردہ کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کیے، اس عار سے بچنے کے لیے با دل ناخواستہ ہامی بھر لے۔۔۔۔۔ حالاں کہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہا ہو۔

             پہلے مال بانٹ لیں جس میں مرنے والے کی اولاد، بیوی، والدین، بہنیں ، جس جس کو شرعاً حصہ پہنچتا ہے اس کو دیدیں ، اس کے بعد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے مرنے والے کی طرف سے خیرات کریں ، یا مل کر کریں تو صرف بالغین کریں ، نابالغ کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں ، اور جو وارث غیر حاضر ہو اس کے حصے میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف درست نہیں۔  (معارف القرآن: ۲/۳۱۶،  ۳۱۷)

استحقاق میراث کا ضابطہ

          ,, لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ‘‘۔  الخ۔ (سورۂ نساء: ۷)

            مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے۔

            اس آیت میں وراثت کے دو بنیادی اصول بتلائے گئے ہیں : ایک رشتۂ ولادت جو اولاد اور ماں باپ کے درمیان ہے، جس کو لفظ  والدان  سے بیان کیا گیا، دوسرے عام رشتے داری جو لفظ اقربون  کا مفہوم ہے۔پھر اس لفظ نے یہ بھی بتلادیا کہ مطلق رشتہ داری وراثت کے لیے کافی نہیں ؛ بلکہ رشتہ میں اقرب (زیادہ قریب ) ہونا شرط ہے۔ نیز اسی لفظ اقربون  سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ مالِ وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں ؛بلکہ قرابت کے معیار سے ہے؛ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ غریب اور حاجت مند ہو اس کو زیادہ وراثت کا مستحق سمجھا جائے؛ بلکہ جو میت کے ساتھ رشتہ میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا، اگرچہ ضرورت وحاجت بعید کو زیادہ ہو،  اگر اقربیت کے ضابطہ کو چھوڑ کر بعض رشتے داروں کے محتاج، یا نابالغ ہونے کو معیار بنا لیا جائے تو نہ اس کا ضابطہ بن سکتا ہے اور نہ ایک طے شدہ مستحکم قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے؛ کیوں کہ اقربیت کے علاوہ دوسرا معیار لا محالہ وقتی اجتہادی ہوگا؛ کیوں کہ فقروحاجت کوئی دائمی چیز نہیں ؛ اس لیے کہ حالات بھی بدلتے رہتے ہیں ، درجات بھی، ایسی صورت میں استحقاق کے بہت سے دعویدار نکل آیا کریں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو ان کافیصلہ مشکل ہوگا۔

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

            اگر اس قرآنی اصول کو سمجھ لیا جائے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو بلاوجہ آج کل نزاعی مسئلہ بنا دیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کے ساتھ حل ہو جاتا ہے کہ اگرچہ یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو ؛ لیکن ’’اقربون‘‘کے قانون کی رُو  سے وہ مستحق وراثت نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ وہ بیٹے کی موجودگی میں اقرب  یعنی زیادہ قریب نہیں ہے؛ البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لیے دوسرے انتظامات اور صورتیں ہیں جو ماقبل میں بیان ہو چکی ہیں۔  (معارف القرآن: ۲/۳۱۰،۳۱۱)

مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کی تاکید

            قرآن کریم میں اللہ تعالی نے میراث کے حصوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:  وَصِیَّۃً مِّنَ اللَّہِ۔ (یہ حکم ہے اللہ کا) یعنی جو کچھ حصے مقرر کیے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے، اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم وصیت اور مہتم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘۔ یعنی اللہ تعالی سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے، جواحکام مذکور پر عمل کرے گااللہ کے علم سے وہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بد کرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۱)

            میراث کے احکام کو بیان فرمانے کے بعد ان احکام کو ماننے اور اور ان پر عمل کرنے کی فضیلت اور نافرمانی کرنے کی بری عاقبت کو اللہ تعالی نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:  تِلْکَ حُدُوْدُ اللَّہِ، وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا، وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا، وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔  (سورۂ نساء: ۱۳،۱۴)

            یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کے حکم پر چلے گااللہ تعالی اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گااور اس کی حدوں سے نکلے گااور تجاوز کرے گااس کو ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

            صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں :  وفی ختمِ آیاتِ المواریثِ بہذہ الآیۃِ إشارۃٌ إلی عظمِ أمرِ المیراثِ، ولزومِ الاحتیاطِ والتحریِّ، عدمِ الظلمِ فیہ۔  (۲/۴۴۳)

            یعنی میراث کی آیتوں کو اس مذکورہ آیت کے ذریعہ ختم کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ میراث کا معاملہ عظیم الشان ہے، اس میں احتیاط لازم اور ضروری ہے اور تقسیم میراث میں ظلم نہ ہو۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts