از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            حضرت مولانا جمیل احمد ابن جان محمد سکروڈوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۳۱؍مارچ بہ روز اتوار پانچ بجے شام ہوئی، اللہ غریقِ رحمت فرمائیں ! مرحوم میں بڑی خوبیاں تھیں ، انھوں نے اپنے قیمتی اوقات علم دین کی تعلیم وتدریس، تصنیف و تالیف اور تبلیغ واشاعت میں گزارے، راقم حروف ۱۹۹۵ء میں دیوبند آیا، اس وقت موصوف دارالعلوم وقف دیوبند میں نہایت ہی طمطراقی کے ساتھ حدیث شریف کی تدریس میں مصروف تھے، قدیم طلبہ کرام سے معلوم ہوا کہ دارالعلوم میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری کو دیکھو اور وقف میں مولانا جمیل احمد صاحب کو دونوں شخصیت افہام وتفہیم میں بے نظیر ہیں ، اساتذہٴ کبار کے درمیان یہ امتیاز سن کر بڑی مسرت ہوتی اور جی چاہتا کہ مرحوم کے سبق میں بیٹھوں مگر اس سال اس کا اتفاق نہ ہوا کیوں کہ اسباق کا ناغہ گوارہ نہ تھا اور اس کے بغیر یہ تمنا پوری نہیں ہوسکتی تھی، غرض یہ کہ دورہٴ حدیث شریف کا سال گزرگیا، اس دوران درس طحاوی پر نظر پڑی اور معلوم ہوا کہ یہ حضرت مرحوم کی تصنیف ہے، اس کو شوق کے ہاتھوں لیا، ذوق کی نظروں سے دیکھا اور سب کچھ پڑھ ڈالنے کے جنونی جذبے کے تحت ازاوّل تا آخر پڑھ ڈالا، طحاوی شریف احناف کی بڑی اہم کتاب ہے، اس میں روایتیں بڑے اچھے اور البیلے انداز میں درج کی گئی ہیں اور نظریں تو بے نظیر ہیں ہی؛ لیکن آسان ہیں ، یہ کتاب ایسی نہیں کہ اس کے حل کے لیے شرح دیکھی جائے، مگر مرحوم کی عبقریت کے تصور نے ان کی نگارشات کے پڑھنے کی طرف متوجہ کیا، ما شاء اللہ! بڑے ہی اچھوتے انداز میں انھوں نے مضامین کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہر ادنیٰ سے ادنیٰ استعداد کا طالب علم اس کے ذریعے طحاوی کی بحث ونظر کو سمجھ سکتا ہے، موصوف کی زبان کی طرح ان کا قلم بھی رواں دواں اور آسان انداز کا عادی تھا، نہ تو الفاظ کا انتخاب پُرتکلف ہوتا اور نہ ہی اسلوب میں پیچیدگی ملتی تھی، ہدایہ، حسامی،نورالانوار،اصول الشاشی، مختصرالمعانی اور بیضاوی کی شروحات میں یہ خوبی ہر جگہ موجود ہے۔ درس میں کسی بات کی تفہیم میں دور نہیں جاتے تھے، کتاب کی عبارت کو نہایت ہی آسان انداز میں سمجھا دیتے تھے، صورت مسئلہ کو عام انداز میں پیش کرتے، ایسا لگتا کہ طالب علم پہلے سے اس صورت سے واقف ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ۲۰۰۰ء میں وقف سے دارالعلوم آئے، میں اس وقت معین مدرس تھا، پہلے سبق میں حاضر ہوا، کھلے پن اور بے تکلّفانہ اسلوب سے متاثر ہوا، انھوں نے فرمایا: جس طرح مؤمن کا دل مسجد سے معلق رہتا ہے اسی طرح میرا دل دارالعلوم سے معلق رہا، میں اگرچہ مادرعلمی سے جدا ہوا مگر قلبی کشش باقی رہی، میں نے بار بار ارباب حل وعقد سے اپنی خواہش کا اظہار کیا، بالآخر اس وقت یہ تمنا پوری ہوئی جب مولانا مرغوب الرحمن مہتمم دارالعلوم دیوبند نے درخواست دینے کا حکم فرمایا، مجھے وہی گریڈ اور وہی کتابیں دی گئیں جو میں پڑھاتا تھا۔

            پھر انھوں نے اپنی خصوصیت بیان فرمائی کہ جب گھنٹہ لگ جاتا ہے تو میرے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے؛ اس لیے میں بالکل وقت پر حاضر ہوجاتا ہوں ؛ مگر گھنٹے کے اخیر میں طلبہ کو پانچ دس منٹ پہلے چھوڑ دیتا ہوں ؛ اس لیے آپ حضرات گھنٹے سے پہلے حاضر ہوجایا کریں۔ یہ خصوصیت موصوف کی شناخت بن گئی تھی، عموماً اساتذہ اس کے برعکس پانچ دس منٹ کی تاخیر سے آتے اور گھنٹہ ختم ہونے کے بعد چھوڑتے ہیں ، مگر حضرت مرحوم کا یہ امتیاز اور زندگی کاریکارڈ تھا جو کوئی توڑ نہ سکا، ایک بار میں نے ازراہِ تفکہ عرض کیا: حضرت میرا نورالانوار کاسبق پہلے گھنٹہ میں ہے اور میں آپ سے پندرہ منٹ پہلے آجاتا ہوں اور سال بھر ایسا ہی معمول رہا، ہنس کر کہنے لگے یہ تو کوئی کمال نہیں کہ تم گھنٹہ سے پہلے آجاتے، اس میں طلبہ کو حرج ہوتا ہے، وقت پر ہی آنا اور اس کا معمول بنانا کمال ہے، میں نے کہا: ٹھیک ہے، حضرت! سچ فرمایا آپ نے، اب ان شاء اللہ گھنٹہ سے پہلے نہیں آئوں گا۔

            حضرت مرحوم کو مجھ سے بڑی بے تکلفی تھی اور صاف گوئی کی صفت غالب تھی؛ اس لیے بعض وقت ایسی بات بھی زبان پر چلی آتی تھی جس کو عام لوگ نہیں لاتے، یا اس کو مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں ، مثلاً جب میں دارالعلوم حیدرآباد سے دیوبند انٹرویو میں شریک ہونے کے لیے آیا تو حضرت سے مسجد رشید کے سامنے امرود کے ٹھیلے کے پاس ملاقات ہوئی، فرمایا: اچھا بہاری تو بھی آگیا، میں تمہارے لیے دعا نہیں کروں گا، میں صرف دارالعلوم کے لیے خیر کی دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مدرسین کا انتخاب فرمائیں جو دارالعلوم کے لیے مفید ہوں۔ میں نے برجستہ کہا: حضرت! میں آپ ہی کی دعا پر آمین کہتا ہوں ، اس پر ہنسنے لگے، اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور مادرعلمی میں میرا تقرر عمل میں آیا، اللہ تعالیٰ مجھے دارالعلوم کے لیے خیر کا باعث بنائیں ! (آمین)

            ایک بار جب حضرت مرحوم کی طبیعت ناساز تھی اور ڈاکٹروں نے کینسر تجویز کردیا تھا، میرا گزر ان کے مکتبے البلاغ (نزد وقف دارالعلوم) سے ہوا، عصر کا وقت تھا ایک اور مدرس میرے ساتھ تھے، عصر بعد کا وقت تھا، ہم دونوں وہاں سے تیز رفتاری سے گزر گئے کہ کافی دور جانے کا اور پھر نماز سے پہلے لوٹنے کا ارادہ تھا، حضرت کی نظر پڑگئی، مغرب بعد فون آیا کہ آخر کیا بات ہوگئی کہ تم سامنے سے گزرگئے اور میری خیریت نہ پوچھی؟ میں نے ان کے لیے صحت وسلامتی کی دعا کی اور عذر پیش کیا، کہنے لگے تم سے محبت ہے؛ اس لیے یہ احساس ہوا۔

            ایک بار حیدرآباد کے سیمینار کے لیے ایک مقالہ لکھا، اس کا عنوان تھا ’’عربی تفسیروں کے اردو تراجم و شروح‘‘ اس میں ’’التقریر الحاوی‘‘ کا بھی ذکر تھا اور حضرت کا تعارف خاطر خواہ انداز میں نہیں کرایا گیاتھا، جب مضمون طبع ہوا تو آپ نے اپنے کسی شناسا کے پاس اس کا ذکر کیا، میں نے معذرت کی کہ اس میں سکروڈوی کے بجائے سہارن پوری لکھا تھا؛ اس لیے میں متعین نہیں کرسکا کہ آپ ہی ہیں ، اس طرح کی بہت سی یادیں مرحوم سے وابستہ ہیں ، کس کس کو لکھا جائے اور کس کس کو نہیں ؟ مضمون طویل ہوجائے گا۔

            اچھا تو یاد آیا، ایک میرے رفیق درس جناب مفتی نورالاسلام بنگلا دیشی تھے، وہ ان سے مل کر آئے اور کہنے لگے: بھائی! آج مولانا جمیل صاحب کے پاس گیا تھا، انھوں نے ایک کام بتایا وہ کوئی مشکل نہیں تھا؛ لیکن ایک بار اچھی طرح سمجھایا، پھر پوچھا کہ سمجھ میں آیا، یا نہیں ؟ اس کے بعد دوبارہ سمجھانے لگے،ایسا لگ رہا تھا کہ ہدایہ کا کوئی مسئلہ سمجھا رہے ہیں ، اس نے تبصرہ کیا کہ تفہیم کی عادت نے ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی ہندی کی چندی کرنے کا عادی بنادیا ہے۔ بات بالکل صحیح تھی کہ افہام و تفہیم کا ملکہ لے کر پیداہوے تھے، اسی کے ذریعے انھوں نے اپنا فیض عالم میں پھیلایا۔

            جب دارالعلوم دوبارہ تشریف لائے تھے تو ہم لوگوں نے شعبہ مناظرہ کی صدارت کی دعوت دی، حضرت نے قبول فرمائی، آئے، مناظرہ سنا اور بڑی اچھی تقریر فرمائی، جب جانے لگے تو ہم دو تین ساتھی حضرت کے ساتھ ہوگئے، تو فرمایا: تم سب لوگ میرے گھر کے دروازے تک چلو، اس لیے کہ مجھے آج کل گھر کے باہر ڈر لگتا ہے، اس لیے مکتبہ البلاغ بھی نہیں جارہا ہوں۔

            غرض یہ کہ حضرت مرحوم دارفانی سے دارجاودانی کو سدھار گئے، اب ان کو کسی سکورٹی اور حفاظت کی ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس کے اعلیٰ درجے میں فروکش فرمائیں۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts