از: مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری
استاذ دارالعلوم دیوبند
موت ایک ایسی مسلمہ اور ناقابالِ انکار حقیقت ہے جس کا انکارکسی فرد بشر کو نہیں ؛ بلکہ تمام کے تمام انسان موت کو ماننے اور اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ؛ کیوں کہ ہر شخص اپنی زندگی میں بارہا اس کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرلیتا ہے، کبھی کسی انسان کو آخری سائنس گنتا ہوا دیکھتا ہے تو کبھی اپنے عزیز وقریب کو اپنے ہاتھوں مٹی کی آغوش میں دیتا ہے، کوئی سپردِ خاک کرتا ہے تو کوئی آگ کے حوالہ کرتا ہے، موت سے صرفِ نظر کیسے کیاجاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ موت سے ہر آنے والے کو سابقہ پڑتا ہے عالم ہو یا جاہل، مال دار ہو یا فقیر، غریب ہو یا امیر اسی دستور اور اصول کے مطابق ہمارے استاذِ محترم حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی رحمۃ اللہ علیہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند بھی آج سیکڑوں نہیں ؛ بلکہ ہزاروں متعلقین اور شاگردوں کو روتا، بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کے سانحۂ ارتحال سے جس طرح آپ کی نسبی اولاد واحفاد اور رشتے دار مغموم ومحزون ہیں ، اسی طرح حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی اولاد اور احفاد بھی آپ کے فراق اور جدائی کا احساس وادراک کرتے ہوئے سخت اذیت وکرب میں مبتلا ہیں ؛ لیکن إن اللّٰہ مع الصابرین فرمانِ باری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اشک ریزی کے بجائے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے اور حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی روح کی تسکین کی خاطر زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب اور دعائوں کے اہتمام کی ضرورت ہے، نیز مرحوم کو سچا خراجِ عقیدت زندوں اور اس کے تعلق داروں کی طرف سے یہ نہیں کہ کوئی جلسۂ تعزیت کرکے ان کے محاسن کو صرف بیان کردیا جائے؛ بلکہ ان کے محاسن کو اپنانے اور ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اصل خراج ہے اسی جذبے سے درج ذیل سطور رقم کی جارہی ہیں کہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سے متعلق اجمالی تعارف سب کے سامنے آجائے اور قارئین حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کے محاسن اور خوبیوں کو اپناکر اپنی زندگی کے باقی ایام کو کامیاب بناسکیں۔
سن پیدائش
سابق ضلع سہارنپور موجودہ ضلع ہردوار میں تحصیل بھگوان پور میں قصبہ سکروڈہ (بھگوان پور سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع) میں جناب جان محمد مرحوم کے یہاں ۱۹۴۷ء کے اوائل میں پیداہوئے (پاسپورٹ وغیرہ میں اگرچہ سن پیدائش ۱۹۵۰ء ہے؛ لیکن موصوف خود اس کو غلط بتاتے تھے)
حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ اپنے سات بھائی بہنوں میں بالکل وسط میں پیدا ہوئے دوبھائی اور ایک بہن کے بعد اور دوبھائی اور ایک بہن سے پہلے۔ سب سے بڑے بھائی حمیداحمد جو الحمدللہ بقید حیات ہیں پھر ایک بہن یہ بھی الحمدللہ حیات ہیں ، نذیراحمد بچپن میں ہی انتقال کرگئے پھر حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ پیداہوئے، پھر ایک بہن یہ بھی الحمدللہ باحیات ہیں پھر بشیر احمد یہ بھی بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے پھر سب سے چھوٹے بھائی جناب قاری صغیراحمد صاحب جو الحمدللہ باحیات ہیں اور بھائی کے وصال سے نہایت مغموم ہیں۔
تعلیم وتربیت
حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف سکروڈہ ہی میں حاصل کی، ناظرہٴ قرآن کریم اور درجہ پنجم تک پرائمری کا انتظام گائوں میں تھا، اس سے آگے کا نظم نہیں تھا لہٰذا علاقہ کے مشہور ومعروف ادارے کاشف العلوم چھٹمل پور ضلع سہارنپور میں چند سال رہ کر علمی تشنگی دور فرمائی پھر ایک آدھ سال کے لیے مظاہرعلوم کی شاخ میں سہارنپور پڑھا؛ لیکن حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل پیاس تو ازہرہند مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں آکر بجھی۔ مادرعلمی میں تین سال تک اساطین علم سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں۔ حضرت کے ممتاز اساتذہ میں حضرت فخرالمحدثین حضرت مولانا شیخ فخرالدین قدس سرہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس سرہ، حضرت مولانا فخرالحسن قدس سرہ، حضرت مولانا شریف الحسن قدس سرہ، حضرت مولانا میاں اختر حسین قدس سرہ، حضرت مولانا نعیم احمد قدس سرہ، حضرت مولانا نصیراحمد خاں قدس سرہ، حضرت مولانا محمد سالم قدس سرہ، حضرت مولانا عبدالاحد قدس سرہ، حضرت مولانا وحیدالزماں قدس سرہ اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری قدس سرہٗ وغیرہ۔
اجازت وخلافت
حضرت علوم ظاہری میں کمال کے ساتھ ساتھ علوم باطن اور کمالِ باطنی سے بھی آراستہ تھے، ابتدائً حضرت تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا اسعداللہ صاحب قدس سرہ ناظم مظاہر علوم سہارنپور کے دامن فیض سے وابستہ رہے اور حضرت ناظم صاحب قدس سرہ سے والہانہ تعلق تھا جس کا ذکر بار بار فرماتے رہتے تھے، پھر حضرت مفتی مظفر حسین صاحب ناظم اعلیٰ مظاہرعلوم سہارنپور کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی، حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد محی السنہ حضرت شاہ ہردوئی قدس سرہ کے خلیفہ اجل حضرت مفتی عبدالرحمن صاحب بنگلہ دیشی قدس سرہ سے منسلک ہوگئے اور تادمِ آخر وابستہ رہے۔ آخرالذکر رحمۃ اللہ علیہ ہی سے اجازت وخلافت حاصل ہوئی۔
تدریسی خدمات
۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے اعلیٰ نمبرات (پچاس میں سے ۴۵ سے اوپر) سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا پھر اپنے مادرعلمی مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور ضلع سہارنپورمیں تدریسی امور انجام دئیے، اس کے بعد گاگل ہیڑی ضلع سہارنپور میں پڑھانے کا اتفاق ہوا؛ لیکن مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اکابر کی نگاہوں نے اس قیمتی ہیرے کو مادرعلمی کے لیے منتخب فرمایا، لہٰذا ۱۹۷۷ء میں آپ کا تقرر عمل میں آیا، ۱۹۸۱ء میں قضیہ نامرضیہ کے پیش آنے کے بعد بعض مصالح کی بنا پر حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ کے ساتھ رہے، ۲۰۰۰ء تک دارالعلوم وقف دیوبند میں حدیث شریف کی مختلف کتابیں پڑھانے کا اتفاق ہوا، بخاری شریف،مسلم شریف، ابودائود شریف وقتاً فوقتاً؛ البتہ ترمذی شریف مستقل طور پر حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق رہی اوراس دور میں حضرت الاستاذ کا درس ترمذی مشہور ومعروف تھا۔ اسی دوران ایک سال مدرسہ معین الاسلام میرٹھ میں عارضی طور پر پڑھانے کا اتفاق ہوا۔
الغرض ۲۰۰۰ء میں حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مادرعلمی میں لوٹ آئے جس میں ۱۹۷۷ء میں تقرر ہوا تھا اور خدائے تعالیٰ بزرگ وبرتر کا صددر صد احسان وکرم ہے کہ اسی سال راقم السطور کو حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ سے ہدایہ ثالث پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، اسی وقت پہلے دن حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ جیسے بچہ اپنی ماں کی آغوش میں آنے کے لیے تڑپتا ہے، اسی طرح اپنی مادرعلمی کی آغوش میں آنے کو میں تڑپتا رہا، آج اللہ تعالیٰ نے میری دیرینہ تمنا پوری فرمادی۔ اس وقت سے سالِ رواں تک تسلسل کے ساتھ مادرعلمی میں کامیاب اور مقبول استاذ کی حیثیت سے مختلف کتابیں پڑھاتے رہے۔ ہدایہ ثالث، قواعد الفقہ، مسامرہ، ہدایہ ثانی، ہدایہ رابع، مشکاۃ شریف، موطا امام مالک وغیرہ۔
تصنیفی خدمات
حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ میدان تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان کے بھی بہترین شاہ سوار تھے، آپ کے اشہب قلم نے درسِ نظامی کی تسہیل کی طرف پیش قدمی کی؛ لہٰذا درس نظامی کی بہت سی کتابوں کی اردو شروحات تصنیف فرمائیں : (۱) ہدایہ چاروں جلدوں کی شرح فرمائی، اول، ثانی اور ثالث کی شروح اشرف الہدایہ کے نام سے نو جلدوں میں فرمائی اور ہدایہ رابع کی شرح تفہیم الہدایہ کے نام سے تین جلدوں میں فرمائی، دو جلدیں طبع ہوچکی ہیں اور تیسری جلد زیرطبع ہے۔ (۲) علامہ تفتازانی کی مختصرالمعانی کی شرح تکمیل الامانی کے نام سے تین جلدوں میں فرمائی دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان وپاک کے بیشتر مدارس میں چونکہ فنِ اول ہی داخلِ نصاب ہے اس لیے ابتدائً دو جلدوں میں فن اول ہی کی شرح فرمائی تھی؛ لیکن بہت سے مدارس میں ہندوپاک میں بھی اور بنگلہ دیش وبرما میں زیادہ تر مدارس میں مکمل تینوں فن پڑھائے جاتے ہیں ؛ اس لیے تقاضہ تھا کہ فن ثانی وثالث کی بھی شرح فرمادیں ، لہٰذا حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ نے ابھی دو تین سال پیشتر تیسری جلد تصنیف فرمائی، (۳) منتخب الحسامی کی شرح فیض سبحانی کے نام سے دو جلدوں میں فرمائی، (۴) نورالانوار کی شرح قوت الاخیار کے نام سے دو جلدوں میں فرمائی (۵) اصول الشاشی کی شرح اجمل الحواشی کے نام سے ایک جلد میں فرمائی، (۶) طحاوی شریف کی شرح درس طحاوی کے نام سے فرمائی، (۷) بیضاوی شریف کی شرح التقریر الحاوی کے نام سے استاذِ محترم حضرت مولانا فخرالحسن صاحب مرادآبادی قدس سرہ کے درسی افادات کو اپنے رفیقِ محترم حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب سیتاپوری مدظلہ کے ساتھ جمع فرمایا۔ نیز حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کے عزائم میں جلالین، مشکاۃ شریف کی شرح بھی تھی؛ لیکن عوارض اور موانع کی وجہ سے ان عزائم کی تکمیل نہ ہوسکی۔
عادات واخلاق
حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف حمیدہ اور محاسن وخوبیوں کا تذکرہ کرنے والا سب سے پہلے اوقات کی پابندی اور اپنے کام کے دھنی ہونے کا تذکرہ ضرور کرے گا؛ لہٰذا تمام اسباق میں گھنٹہ ہونے سے پانچ منٹ قبل ہی درس گاہ کے اطراف میں حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ ٹہلتے نظر آتے تھے، وعدہ وفائی بھی آپ کا معروف وصف تھا، معاملہ کی صفائی میں بھی آپ بے نظیر تھے،حق گوئی میں بھی لومۃ لائم کا اندیشہ پیش نظر نہ ہوتا تھا، چھوٹوں پر شفقت وترحم کے باوجود ان کی کمزوریوں سے صرفِ نظر نہیں فرماتے تھے، اکابر واسلاف سے والہانہ تعلق رکھتے تھے، اربابِ انتظام سے ٹکرائو کے بجائے تعاون کا برتائو خود بھی رکھتے تھے اور ہم خردوں کو نصیحت ووصیت فرماتے تھے، ان میں احسان فراموشی کے بجائے احسان شناسی آپ کا وصف تھا۔
اولاد واحفاد
اللہ رب العزت نے حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کو شاگردوں کی شکل میں ہزاروں روحانی اولاد کے ساتھ نسبی وجسمانی اولاد سے بھی نوازا تھا؛ لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین لڑکے (۱) حافظ خلیل احمد (۲) حافظ عبد اللہ جمیل (۳) عبدالرحمن جمیل اورایک لڑکی عطا فرمائی تھی۔ الحمدللہ دو لڑکے اور ایک لڑکی شادی شدہ ہیں صرف عبدالرحمن جمیل شادی سے رہ گئے ہیں اور شادی شدہ تینوں بچوں کے یہاں اولاد ہے، لہٰذا حافظ خلیل احمد کے تین لڑکے اور دولڑکیاں کل پانچ بچے ہیں جن میں سے ایک محمد عمار اس سال دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہوجائیں گے۔ حافظ عبداللہ جمیل کے ایک لڑکا اور ایک لڑکی کل دو بچے ہیں اور لڑکی کے ایک لڑکا ہے۔
مرض الموت اور وفات
تقریباً تین سال قبل حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ نے پورے جسم کا چیک اپ کرایا تھا اس وقت پھیپھڑوں میں ایک کالا داغ دکھائی دیا تھا؛ لیکن ڈاکٹر نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا تھا کہ کچھ نہیں ہے، ایسے دھبے آجاتے ہیں ؛ لیکن اب ڈیڑھ سال قبل کھانسی کا عارضہ زیادہ بڑھا اور پھیپھڑوں کا چیک اپ کرایاگیا اور پھر وہی دھبہ آیا اب ڈاکٹر نے اندیشہ ظاہر کیا؛ لہٰذا اس کی جانچ کرائی گئی اور سرطان (کینسر) کی تشخیص ہوئی، لہٰذا ۳۱؍جنوری ۱۸ء کو پہلا کیمو لکھا اور تسلسل کے ساتھ ایک سال دو ماہ جی۔ ٹی۔ بی (گرو تیغ بہادر) ہسپتال میں حضرت زیرعلاج رہے اور اپنی فطری اور طبعی پابندی اوقات کی وجہ سے بڑی پابندی کے ساتھ کیمو لگواتے رہے اور بڑی ثابت قدمی کے ساتھ بیماری کا مقابلہ فرماتے رہے؛ تیمارداری کرنے والوں کو آپ سے مل کر حوصلہ ملتا تھا، فرماتے تھے کہ بتائو حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کوئی مثال ایسی ہے جو موت سے بچا ہو مرنا سب کو ہے، لہٰذا موت سے کیا ڈرنا؟ ایسے تسلی کے الفاظ فرماتے تھے کہ تسلی دینے والا کچھ کہہ نہیں پاتا تھا۔ الغرض آخری ایک ماہ بڑی سخت اذیت اور تکلیف کا رہا تقریباً پندرہ سے بیس دن مقامی ڈاکٹر ڈی۔ کے۔ جین کے یہاں اور قریب دس روز دہلی میں نہایت کرب وبے چینی اور شدید تکلیف کے ساتھ گزار کر حضرت والا ۳۱؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز اتوار سوا پانچ بجے شام دنیا وی تمام اذیتوں اور تکلیفوں کو چھوڑ کر اپنے مالک ومولیٰ کی آغوشِ رحمت میں پہنچ گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
یکم اپریل بروز پیر صبح نوبجے احاطہ مولسری میں ایک بڑے جم غفیر کو حضرت الاستاذ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند نے نمازِ جنازہ ادا کرائی اور مزار قاسمی میں اپنے اساتذہٴ کرام کے پہلو میں آسودہ خواب ہوگئے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٴ نو رُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 5-6، جلد:103، رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء
* * *