مولانا نسیم احمد فریدیؔ امروہوی: شخصیت، شاعری اور تعمیر جمہوریت

از:   مولانا امداد الحق بختیار قاسمی

چیف ایڈیٹر عربی مجلہ ’’الصحوۃ الاسلامیہ‘‘

صدر شعبہ عربی ادب جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

            لفظ جمہوریت : جمہور سے مشتق ہے ، جس کے معنی ہیں :عوام، تو جمہوریت کا ترجمہ :عوامی سے بھی کرسکتے ہیں ، یعنی ایسا نظام جس کا محور عوام ہواور عوام میں ہرطبقہ کے لوگ ہوتے ہیں ؛اس لیے نظام جمہوریت اسے کہا جاتا ہے ، جس میں سب کے حقوق کی رعایت کی جاتی ہے ، اور جمہوریت :مساوات ، احترام انسانیت ، آزادی اور اخلاقی قدروں کا نام ہے اور مؤخر الذکر یعنی اخلاقی قدریں جمہوریت کی اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں ، جان ٹی۔ ریڈ کے الفاظ میں : تعمیر جمہوریت میں یہ اخلاقی اعتقاد ، روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے کہ انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔(۱)

            شعر وادب کا تعلق چونکہ راست طور پر عوام سے ہوتا ہے ؛اس لیے اردو زبان خصوصاًشاعری نے ہمیشہ جمہوری اقدار اور عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے ، فرقہ پرستی ، نسلی منافرت ، ظلم وتشددکے خلاف، وہ ہر موقع پر سینہ سپر نظر آتی ہے ، اتحاد ویکجہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، آزادی رائے ، احترام آدمیت ، حقوق انسانی کا تحفظ، منصفانہ اقدار کے فروغ ، غریبوں اور ناداروں کی حمایت ، جاگیر داروں اور آمروں ، نیز غیر ملکی سامراج کے خلاف عوامی رائے عامہ کی ہمواری ابتداء سے ہی اردو ادب کے شریانوں میں خون بن کر دوڑ تا رہا ہے۔(۲)

            ۱۹۴۷ءمیں ملک کی تقسیم کے بعد فرقہ واریت کے سایہ میں ہمارے شاعروں نے جمہوری اقدار کو جب بھی مجروح ہوتے دیکھا ، اس تلخی اورتیزی کو اپنے فن کے قالب میں ڈھال دیا ، انھوں نے جمہوریت اور سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے مفادات کی سیاست کرنے والے عوامی نمائندوں پر بھی تنقید کا تیر چلایا ہے کہ آشوب اور ابتلاء کے عہد میں اردو شاعری ہی امید کی واحد کرن بن کر نمودار ہوتی ہے ، آزادی اور جمہوریت کو ایک سیاسی نظام کے طور پر قبول کرلینے کے بعد ہمارے شاعروں نے تہذیبی وحدت کا سفیر بن کر جمہوریت کے ستونوں کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے ایسی شاعر ی کی ، جس سے جمہوریت کا قد مزید اونچا ہوا۔(۳)

            ملک کے طول وعرض میں جن ادباء ، شعراء ، دانشوران قوم ملت نے ملک عزیز ہندوستان کی جمہوریت کی بنیادوں کو استحکام بخشا ، اپنی تقریروں ، تحریروں ، تخلیقات اور نگارشات کے ذریعہ جمہوریت کی جڑوں کو مضبوطی عطا کی اور ایک پرامن جمہوری نظام کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ، اس جماعت میں ایک نام مفتی نسیم احمد فریدی ؔ امروہی کا بھی ہے۔

امروہہ گہوراۂ علم وادب

             شمالی ہند جسے اردوزبان کی جنم بھومی کہا جاتا ہے اور جہاں ادب نے اپنی ارتقائی منزلیں بڑی آسانی ، حوصلے اور جذبے کے ساتھ طے کی ہیں ،وہیں عالمی شہرت یافتہ ایک شہر’’ امروہہ‘‘ ہے، اس گہوارۂ ادب کو بڑے بڑے علماء ، فضلاء، صوفیاء ، اولیاء ، اطباء ، شعراء اور صاحبان علوم وفنون کا مولد ومسکن ہونے کا شرف حاصل ہے ، یہاں گیسوئے اردو سنوارے گئے، لکھنوی دبستاں کے عظیم شاعر وں ناسخؔ اور آتشؔ کو اس سرزمین نے استاد فراہم کیا ، سعادتؔ امروہوی نے میرؔ (شہنشاہ متغزلین )کو اردو شعر کہنے پر راغب کیا ، مرزا عبد القادر بیدلؔ نے امروہہ ہی کے ایک شاگرد عطاؔ کو اپنا قلم دان بخشا۔(۴)

            ڈاکٹر سیادت نقوی لکھتے ہیں :

’’ امروہہ ہندوستان کی ایک ایسی تاریخی بستی ہے ، جو ابتدا ء  ہی سے علم و ادب اور فنون لطیفہ کا گہوارہ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ادبی دنیا میں بھی یہاں پرہر زمانہ میں ایسے عظیم فنکار ، شاعر و ادیب پیدا ہوتے رہے ہیں ، جن کے بغیر اردو شاعری کی تاریخ ہمیشہ ناتمام سمجھی جاتی رہے گی۔‘‘(۵)

مولانا نسیم احمد فریدیؔ کا ادب میں مقام

            علم و ادب کے اسی خاک ِتاب دار سے مفتی نسیم احمد فریدی ؔجیساگوہر آبدارہویدا ہوا ہے، جو ایک طرف مفسر ، محدث ، فقیہ ، مبلغ اور معقولی عالم تھے، تو دوسری طرف ادیب و انشا ء پرداز ، فصاحت وبلاغت کے ماہر ، قادر الکلام اور صاحب دیوان شاعر بھی تھے،آپ کا دیوان’’ نسیم سحر‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آچکا ہے، امروہہ کے مشہور مزاحیہ شاعر علامہ سلطان احمد شہبازؔ امروہوی مرحوم (متوفی: ۲۱/ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ=یکم جون ۱۹۸۵ء)اپنے کلام پر آپ سے مشورہ لیتے تھے، امروہہ ہی کے دوسرے نعت گو شاعر حافظ ماسٹر عبد الرؤوف صاحب رؤفؔ نے اپنے دیوان کی اصلاح مولانا فریدیؔ سے کرائی اور تقریظ بھی لکھوائی ۔(۶)

            پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :

’’ابتدائی زمانہ میں شاعری کا بڑا شوق تھا ، اپنے مکان میں مشاعرے کی محفلیں بھی اکثر منعقد کرتے تھے ، منشی عزیز احمد صاحب عزیز ،ؔ مضطرؔ خیر آبادی سے (جو امیر مینائی کے شاگرد تھے)تلمذ حاصل کیا ، منشی عبد الرب شکیبؔ سے بھی شعر و شاعری میں مشورہ لیا ، وہ ابو الحسن ساکتؔ امروہوی (تلمیذ خاص نظام رامپوری)کے شاگرد تھے ، انھوں نے ہی امداد ؔسے فریدیؔ تخلص رکھوایا ۔‘‘ (۷)

            علمی ، تحقیقی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ہندوستان کے باوقار علمی ایوارڈ ’’صدر جمہوریہ‘‘ ہند سے نوازا گیا ، ۲۰/ مارچ ۱۹۸۲ء کو صدر جمہوریہ ہندنیلم سنجیوا ریڈی نے راشٹر پتی بھون میں آپ کو توصیفی سندِ اعزاز اور شال پیش کی اور آپ کے لیے تاحیات مالی امداد بھی جاری ہوئی۔(۸)

مولانا نسیم احمد فریدیؔ اور تعمیری جمہوریت میں عملی کردار

            مفتی نسیم احمد فریدیؔ امروہی نے نہ صرف اپنے کلام ہی کے ذریعہ ؛بلکہ اپنی شبانہ روز جدوجہد اور جفاکشی کے ذریعہ بھی اس ملک کی جمہوریت کی آبیاری کی ہے اور جمہوریت کی خوشبو پھیلانے میں قابل تقلید کاوشیں پیش کی ہیں اور اس کی فضا کو مکدر ہونے سے بچانے کے لیے ہر ممکن راہ طے کی ہے ؛ چناں چہ جمعیت علماء ہند جس نے ملک کی جمہوریت کی تاسیس میں قائدانہ رول ادا کیا ہے اور پورے ملک میں جمہوری ماحول عام کرنے میں بے مثال تاریخی خدمات انجام دی ہیں ،مفتی نسیم احمد فریدیؔ امروہی تاحیات اس مؤقر تنظیم کے سرگرم رکن رہے ، آپ کو جمعیت علماء کی مجلس عاملہ کا رکن بھی منتخب کیا گیا تھا ؛تاہم آپ نے بغیر کسی عہدے کے ملی اور قومی خدمات انجام دینے کو ترجیح دی ، مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :(حیات فریدی،ص:۱۲۹،۱۳۰)

            فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒتحریر فرماتے ہیں :

’’مرحوم اپنے احسانی مشاعل اور علمی و تحقیقی سر گرمیوں کے ساتھ ملی و سماجی کاموں سے بھی بڑی دلچسپی رکھتے تھے، جمیعۃ علماء ہند سے انھیں والہانہ تعلق تھا ، اس کے اکثر پروگراموں میں ضعف پیر ی اور آنکھوں سے معذوری کے باوجود نہایت ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور رایوں ومشوروں میں بھر پور حصہ لیتے تھے ، مولانا کے مخلصانہ کردار سے کارکنان جمعیۃ کو بڑا حوصلہ ملتا تھا۔‘‘(۹)

            حکومت کے ہر فیصلہ کو سراہنا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا ، اس کے اقدامات کی آنکھ بند کرکے تائید کرتے رہنا ، جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے ؛ بلکہ یہ جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ اور ضرررساں ہے، ہمارے ملک کے دانشوران اور مردان باصفا نے ہر اس موڑ پر جمہوریت کا دفاع کیا ہے ، جب جب حکومتی ادارہ یا کسی غیر حکومتی جماعت نے ملک میں جمہوریت کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی کوشش کی ، وہ اس طرح کے ہر حملہ کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے،ہندوستان میں بعض حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی سے چند ایک ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ، جو سراسر غیرجمہوری اور عوام مخالف تھے، جن سے تن جمہوریت بھی داغدار ہوا اور ملک کے باشندے بھی وقتی مصیبت میں مبتلا ہوے، انھیں فیصلوں اور حکومت کی مغرب کی اندھی تقلید اور تباہ کن انجام سے غفلت کی ایک مثال ہندوستا ن میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا ، جو اندرا گاندھی کے دور کے تشدد اور ظلم کی یاد ابھی بھی تازہ کرتا ہے ، اس فیصلہ کے بعد لوگوں کی جبراً نسبندی کی جانے لگی ، کہیں بھی کسی کو پکڑ کر حکومت کے کارندہ نسبندی کردیتے ، اس کی وجہ سے ڈر ، خوف و ہراس اور دہشت نے اپنی تاریک چادر پورے ملک پر تان دی،  ہر انسان پر ناامیدی کی کیفیت سوار رہنے لگی، کسی میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی ، ایسے پر آشوب حالات میں ملک کی جمہوریت کی حفاظت کے لیے چند جرأت مند ملک کے سپوت بے خوف وخطر ہوکر اس فیصلہ کی مذمت کررہے تھے انھیں میں مولانا نسیم احمد فریدیؔ امروہی بھی تھے ، ملک اور باشندگان ملک کی اس حالت زار پر مولانا فریدیؔ کی بے چینی ، تڑپ قابل رحم تھی ، ایک مرتبہ مولانا فریدیؔ نے خواجہ حسن ثانی نظامی سے کہا کہ آپ میرا ایک پیغام اندرا گاندھی کو پہنچا دیناکہ :حکومت فسق و فجور کے ساتھ تو چل جاتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں چلتی، اگر انہوں نے یہ ظلم بند نہیں کیا تو ان کا تختہ پلٹ جائے گا اور اگلے انتخاب میں دنیا نے دیکھا کہ کانگریس کا کیا حشر ہوا ۔

            نسبندی کے اس دور میں ہر ہندوستانی خائف و ترساں اور حراساں تھا ، ہر ایک پر سراسیمگی طاری تھی ، اس سنگین ہولناکی کے وقت امروہہ کے ایس۔ڈی۔ ایم نے مولانا فریدیؔ سے پوچھا کہ نسبندی کرانا کیسا ہے تو انھوں نے پوری بے باکی کے ساتھ جواب دیا کہ مسلمان ہی کے لیے نہیں ؛ بلکہ انسان کے لیے نسبندی حرام ہے ، جواب سن کر ایس۔ڈی۔ ایم خاموشی کے ساتھ واپس ہوگیا ، اگلے دن پورے شہر کی در دیوار پر لکھا دیکھا گیا :’’ نسبندی حرام ہے ‘‘، ایسے حالات میں جب کہ لوگ خوف کی وجہ سے چھپے چھپے رہتے تھے، مولانا فریدیؔ بالکل بے خوف اور نڈر ہو کر پورے علاقے کا دورہ کرتے تھے اور لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کو مہمیز دیتے ، مولانا فریدیؔ جہاں جاتے لوگوں میں حوصلہ اور ہمت کی نئی کرن جاگ جاتی تھی۔(۱۰)

مولانا فریدیؔ کے کلام میں حرّیت اور جمہوریت کے اشتیاق کی جھلک

            مولانا فریدی نے اپنے کلام  کے ذریعہ اہل ہند کے دلوں میں وطن کی محبت ، آزادی کی نعمت ، اس کے حصول کے جذبات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ جاگزیں کیا ہے ،اور وطن کی فضا کو پرامن بنانے اور وطن کے کاز میں بھر پور حصہ لینے ، ملک کے تئیں وفاداری ، معمارانِ جمہوریت کی قدر شناسی ، تعصب ، لسانی ، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت سے تنفر کا پیغام دیا ہے :

شاید شبِ فراق سے پہلے ہوں ختم ہم

امید زیست ہو تو امیدِ سحر کریں

بیٹھے ہوئے قفس میں بہارِ چمن سے دور

کب تک ہم انتظارِ نسیمِ سحر کریں

پیمانۂ وفا بھی چھلکتا ہے ظلم سے؟

مجھ کو قیاس آپ نہ اغیار پر کریں (۱۱)

فریدیؔ از پئے آسایشِ دارین لازم ہے

کہ جامِ حریت سے آدمی سرشار ہوجائے(۱۲)

بزمِ دلدار میں اے دل ابھی دیکھا کیا ہے

صبر کر صبر ، ذرا دیکھ کہ ہوتا کیا ہے(۱۳)

ذبح بھی کرتا نہیں آزاد بھی کرتا نہیں

کچھ نہیں چلتا پتا مرضی ہے کیا صیاد کی(۱۴)

تھا میں بزمِ کیف میں ہر شے سے بالکل بے خبر

جام و ساغر کے طلب کرنے کا لیکن ہوش تھا (۱۵)

مست ہونا چاہیے پی کر شرابِ حریت

ہے شرابِ ظاہری خانہ خرابِ حریت

حریت کی مَے کے متوالے ہیں رنج و غم سے دور

نور ہے آنکھوں میں ان کی اور ہے دل میں سرور

میکدہ ہندوستاں کا تا ابد باقی رہے

گردشِ تنظیم ہو اور دورِ آزادی رہے

اے فریدیؔ ساقیِ مطلق سے کر یہ التجا

ہو شرابِ حریت سے نشۂ ہمت سِوا(۱۶)

            مولانا فریدیؔ نے ملک کی آزادی پر تین طویل نظمیں کہی ہیں ، پہلی نظم سولہ(۱۶) اشعار پر مشتمل ہے ، جس کا طرحی مصرعہ ہے ’’ جب کہ آزادی کا جھنڈا ہند میں لہرائے گا ‘‘اور دوسری نظم میں گیارہ (۱۱) اشعار ہیں ،جب کہ تیسری نظم کے آٹھ(۸) اشعار ہیں ، تینوں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں :

دیکھنا خونِ محبانِ وطن رنگ لائے گا

چپہ چپہ ہند کا جنت نشاں ہوجائے گا

موسمِ گل میں رہے نالے جو بلبل کے یہی

در قفس کا دیکھ لینا خود بخود کھل جائے گا

اے فریدیؔ روح میں اک تازگی آجائے گی

جب کہ آزادی کا جھنڈا ہند میں لہرائے گا (۱۷)

            دوسری نظم کے چند اشعار

ابرِ رحمت ہند کی ساری فضا پر چھائے گا

جب کہ آزادی کا جھنڈا ہند میں لہرائے گا

ہندو مسلم کے سر پر سائباں بن جائے گا

جب کہ آزادی کا جھنڈا ہند میں لہرائے گا

جوش میں آکر فریدیؔ نغمہ زن ہوجائے گا

جب کہ آزادی کا جھنڈا ہند میں لہرائے گا (۱۸)

            تیسری نظم جو کہ آزادی کے بعد لکھی گئی ہے ، اس میں مولانا فریدیؔ نے اپنے جذبات ، خوشی و مسر ت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے  ، اس کے چند اشعار ملاحظہ کریں :

ریاضِ ہند میں آئی بہارِ آزادی

تجلی ریز ہے ہر سو نگارِ آزادی

ہر ایک قوم کا حق ہے درونِ مَے خانہ

بحکمِ ساقیٔ عالی وقار آزادی

فریدیؔ آیا ہے ساون میں جشنِ حرّیت

سرور خیز ہے ابرِ بہار آزادی(۱۹)

            مولانا فریدیؔ نے اپنے اشعار کو اپنے قلب وجگر میں پوشیدہ وطن کی بے پناہ محبت کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے ، انہوں نے بہت سے ایسے اشعار کہے ہیں ، جن سے وطن کے تئیں ان کی محبت ، وارفتگی اور عشق بالکل عیاں ہے ؛ بلکہ مولانافریدیؔ نے ’’ ترانۂ وطن ‘‘ کے نام سے ایک پوری نظم وطن کی الفت و محبت کی عکاسی میں کہی ہے ، ذیل کے اشعار پڑھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فریدی ؔنے ان کے ذریعہ باشندگان ہند کے دلوں میں وطن کی کیسی محبت راسخ کرنے کی مبارک کوشش کی ہے :    

اے دل کدھر چلیں درِ پیرِ مغاں سے ہم

وابستہ ہو چکے ہیں اسی آستاں سے ہم

بلبل کو گل سے اُنس فریدیؔ  ہے جس طرح

الفت اسی طرح رکھیں ہندوستاں سے ہم(۲۰)

            ترانۂ وطن کے چند اشعار ، جن سے مولانا فریدی ؔ کی وطن اور یہاں کے نظام بلکہ ہر ہر چیز سے محبت آشکارہ ہے:

ہم وطن کے وطن ہمارا ہے

دلِ پُر غم کا اک سہارا ہے

چشمِ پُر آرزو کا تارا ہے

اس کی ہر ہر ادا دل آرا ہے

جان سے بھی ہمیں یہ پیارا ہے

اے فریدیؔ نہ دیر کر اصلا

وقت ہر گز نہیں تساہل کا

سونے والوں کو نیند سے چونکا

گلشنِ ہند میں یہ نغمہ گا

ہم وطن کے وطن ہمارا ہے(۲۱)

            مولانا فریدیؔ کی شاعری میں ملکی مفاد کہاں تک ملحوظ ہوتاتھا ، اس کا اندازہ درج ذیل شعر سے بخوبی ہوتاہے :

شاعری ہو ملک و ملت کی قیادت کے لیے

اے فریدیؔ کیوں گل و بلبل کا سودا سر میں ہے(۲۲)

            لہٰذا ہندوستان کے نظام حکومت کی مدح میں لکھتے ہیں :

یہ مانا کھو گیا ہوں تری محبت میں

ترے مزاج کے انداز پا گیا ہوں میں

یہ دھن لگی ہے کہ پھر آشیاں کروں تعمیر

برائے برق عبث تنکے چن رہا ہوں میں (۲۳)

            ملک میں ہونے والے فسادات اور قومی یکجہتی کی شاندار روایت کو تار تار کرنے والے تشدد کے واقعات سے مولانا فریدیؔ تڑپ اٹھتے تھے، ایک شعر میں انہوں نے اپنے اسی غم کو بیان کیا ہے :

چمن میں بلبلیں کہتی ہیں یوں صیاد سے رو کر

کیا تاراج ظالم کس خطا پر آشیاں تونے (۲۴)

نشیمن کو اجاڑا سنگدل صیاد نے جس دم

صداے الاماں نکلی مرے ٹوٹے ہوئے دل سے

چمن کے نو نہالوں سے یہ ربط و ضبط ہے مجھ کو

اُدھر ٹوٹی کلی کوئی فغاں نکلی اِدھر دل سے (۲۵)

            مولانا فریدیؔ نے اپنی نظموں اور اشعار میں جمہوریت کے عظیم علمبردار اور معمار گاندھی جی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ، پنڈت جواہر لعل نہر و اور دیگر کی ملک کے حوالے سے خدمات، ان کی آزادی اور جمہوریت کے لیے تاریخی کاوشوں کو اپنے اشعار کا نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے اور اس طرح عوام کے سامنے ان کے کارناموں کو روشن کرکے جمہوریت کی تعمیر اور استحکام میں رائے عامہ ہموار کرنے کی شاندار سعی کی ہے :

گاندھی جی کو قید کرتے دم نہ سوچا یہ ذرا

اس گرفتاری سے شعلہ اور بھی بڑھ جائے گا(۲۶)

بنایا قدرتِ مطلق نے جس کو جوہر و لعل

وہی بنا ہے دُرِ شاہوارِ آزادی

وہ صدرِ بزمِ ادب یعنی حضرتِ آزاد

فزوں ہے جن کے سبب اعتبارِ آزادی(۲۷)

            مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے تعلق سے اپنی اندرونی کیفیات کا بیان مولانا فریدیؔ نے اس انداز سے کیا ہے:

نہاں ہے ان کے دل میں حبّ مذہب

پُر از سوزِ وطن ہے ان کا سینہ

وہ سینہ حریت کا ہے جو معدن

وہ سینہ جو ہے جرأت کا خزینہ

رضینا قسمۃ الجبار فینا

لنا شیخ وللحساد جینا(۲۸)

            ملک کے امن وامان اور مسلمان اور برادران وطن کے درمیان بھائی چارگی کے تعلق سے مولانا فریدی ؔ لکھتے ہیں :

ایک صاحب نے کہا مجھ سے دبے لہجے میں یہ

ہندؤوں کے ساتھ مل کر تم کو کیا مل جائے گا

یہ کہا برجستہ میں نے ان سے اے مشفق مرے

آپ انگریزوں سے مل جائیں تو کیا مل جائے گا(۲۹)

            مولانا فریدی ؔ کے ان تمام اشعار سے یہ بات بالکل یقین کے درجہ میں پہنچتی ہے کہ انہوں نے ملک کی آزادی اور ما بعد آزادی ملک کے حالات کی اپنے کلام میں بخوبی ترجمانی کی ہے اور ملک کی سالمیت اور یہا ں کی بھائی چارگی کی قدیم روایت کے فروغ میں بھر پور حصہ لیا ہے ؛ چنانچہ ڈاکٹر محمد سیادت نقوی تحریر کرتے ہیں :

’’ جب انگریز آزادی کے متوالوں سے ہار مان کر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ، ملک آزاد ہوگیا اور آزاد ہندوستان میں عوامی زندگی کو امن و سکون میسر ہوا تو عام طور پر افکار و خیالات میں بھی سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا ہونے لگی اور عموماً شعراء بھی نئے انداز و آہنگ میں درپیش مسائل حیات کی ترجمانی کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ، اس نئے انقلاب کا سورج امروہہ کے افق پر بھی حیات تازہ لے کر نمودار ہوا اور یہاں کے شعرا نے بھی اپنے ہم عصر شعراء کے دوش بدوش عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فنی کمالات کا مظاہرہ کرکے اپنے وطن کی ادبی تاریخ کو چار چاند لگائے ہیں ، ان میں : حیاتؔ امروہوی ، رئیسؔ امروہوی ، تاباں ؔ نقوی، حکیم کلب علی شاہدؔ ، مولانا شہبازؔ ،مولانا نسیم فریدیؔاور مولانا کلیمؔ کی شخصیات قابل ذکر ہیں ۔‘‘(۳۰)

٭٭٭

حواشی ،مراجع ومصادر

(۱)           جان ٹی۔ریڈ، جمہوریت ، امریکی شعبۂ اطلاعات ، نئی دہلی ، ص:۷، بحوالہ :آزادی اور جمہوریت کا تصور اردو نظموں میں ، ڈاکٹر شائستہ نوشین ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز ، دہلی ،ط۱(۲۰۰۸ء )ص:۲۵۔

(۲)          اجراوی ، ابرار احمد ،جمہوری اقدار کے فروغ میں اردو شاعری کا مخلصانہ کردار ، خیابان ابرار اجراوی: http://ijravi.blogspot.in/?m=1۔

(۳)          حوالہ بالا۔

(۴)          مولانا محب الحق، حیات فریدی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی ، ط۱(۲۰۱۶ء)ص:۳۱،۳۳،۳۴۔

(۵)          امروہوی ، ڈاکٹر شمیم احمد عباسی ، گلدستۂ شمیم ، حلقہ ارباب ذوق رجسٹرڈ، امروہہ (۲۰۱۱ء)ص:۲۱،۲۲۔

 (۶)          حیات فریدی، ص: ۲۳۰-۲۳۱۔

(۷)          فریدی نمبر،ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ ، خصوصی اشاعت ،ج:۵۷،شمارہ:۵تا ۸، مئی تا اگست ۱۹۸۹ء/رمضان تا ذی الحجہ ۱۴۰۹ھ، ص:۶۷۔

 (۸)          حیات فریدی:۱۷۷،۱۷۸۔

 (۹)           الفرقان لکھنؤ ، فریدی نمبر ،ص:۲۹۔

  (۱۰)         حیات فریدی، ص:۲۰۶،۲۰۸-۲۰۹۔

(۱۱)          امروہوی ، مفتی نسیم احمد فریدی ،نسیم سحر ،مرتب : انیس احمد فاروقی امروہی ، بابا فرید ایجوکیشنل سوسائٹی (رجسٹرڈ)امروہہ، ط۱ (۲۰۰۲ء)ص: ۳۰۳، ۳۰۴۔

(۱۲)         نسیم سحر ، ص:۳۲۸۔

(۱۳)         نسیم سحر ، ص:۳۳۲۔

(۱۴)         نسیم سحر ، ص:۳۳۶۔

(۱۵)         نسیم سحر ، ص:۳۳۸۔

(۱۶)         نسیم سحر ، ص:۴۲۸۔

(۱۷)         نسیم سحر ، ص:۴۲۹،۴۳۲۔

(۱۸)         نسیم سحر ، ص:۴۳۳-۴۳۵۔

(۱۹)          نسیم سحر ، ص:۴۳۶-۴۳۷۔

(۲۰)         نسیم سحر ، ص: ۲۸۷-۲۸۸۔

(۲۱)         نسیم سحر ، ص: ۴۲۳-۴۲۴۔

(۲۲)        نسیم سحر ، ص: ۲۹۰۔

(۲۳)        نسیم سحر ، ص: ۲۹۲۔

(۲۴)        نسیم سحر ، ص: ۲۷۴۔

(۲۵)        نسیم سحر ، ص: ۳۶۵۔

(۲۶)        نسیم سحر ، ص: ۴۲۹۔

(۲۷)        نسیم سحر ، ص: ۴۳۶۔

(۲۸)        نسیم سحر ، ص: ۴۱۸-۴۱۹۔

(۲۹)        نسیم سحر ، ص: ۴۳۱۔

(۳۰)        گلدستۂ شمیم ، ص:۲۵۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:103‏،  رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts