یہ امن ومحبت کے گہوارے کب تک دہشت گردی کے الزامات کی زد میں رہیں گے؟

حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            گزشتہ مہینے (نومبر) کی آخری تاریخوں میں ایک مرکزی وزیر (گری راج سنگھ) دیوبند آئے اور دارالعلوم دیوبند کے خلاف ایک غیرسنجیدہ شرانگیز بیان دے کر چلے گئے، انھوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند سے بغدادی اور حافظ سعید جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، اخباری رپورٹ کے مطابق انھوں نے دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا مندرتک کہہ دیا۔ موصوف کے اس بیان کی غیرسنجیدگی کا اصل تقاضا تو یہ تھا کہ اس کو بالکل نظر انداز کیاجاتا؛ لیکن چوں کہ ایسے گھٹیا اور خلاف واقعہ بیانات بھی میڈیا میں جگہ پاکر بہت سے ذہنوں کو متاثر کرجاتے ہیں اس لیے فوری طور پر دیوبند اور دیگر علاقوں کے متعدد علماء کرام اور صاف ذہن صحافیوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے حضرات نے اس بیان کی شدید مخالفت کی اور اسے ذہنی دیوالیہ پن کی علامت قرار دیا۔

            غور کیاجائے تواس بیان کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی، ویسے بھی سنجیدہ لوگوں کی نظرمیں یہ اور اس طرح کے بیانات، انتخابی ماحول کے پس منظر میں آرہے ہیں ؛ لیکن چوں کہ مدارس اسلامیہ اور مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات لگانے کا سلسلہ کسی نہ کسی انداز میں جاری رکھا ہی جارہا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس موضوع پر چند گزارشات پیش کردی جائیں ۔

            جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، اس کا کوئی حقیقی مفہوم آج تک متعین نہیں ہوسکا ہے؛ بلکہ مختلف ممالک اور ان کی ایجنسیوں اور اُن سے وابستہ مفکرین نے اپنے اپنے مفادات ورجحانات کے مطابق دہشت گردی کا مفہوم متعین کیا ہے۔ اس موضوع کی ایک کتاب ’’الإرہاب والسلام‘‘ میں ایک مصنف کے حوالے سے  لکھا ہے کہ اس نے دہشت گردی کی ایک سو نو تعریفات ذکر کی ہیں ، اس صورت حال سے قطع نظر اجمالی طور پر اس لفظ کا جو بھی مفہوم سمجھا جاتاہے، اس کے اعتبار سے دیکھاجائے تو دنیا میں اس لفظ کو امریکہ اور اس کی ایجنسیوں نے رواج دیا ہے اور سب سے پہلے انہی کی جانب سے اسلامی مدارس پر بھی دہشت گردی کا لزام عاید کیاگیاہے، جس کی زیادہ سے زیادہ توجیہ یہ ہوسکتی تھی کہ ہمارے بعض پڑوسی یا قریبی ملکوں میں امریکہ کا نشانہ بننے اور اس سے مقابلہ کرنے والے طبقہ کی فکری یا نظریاتی وابستگی، مدارس اسلامیہ یا اکابر دیوبند سے تھی، حقائق سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ یہ اس الزام کے لیے کتنی کمزور بنیاد تھی؟ لیکن اس کے باوجود پروپیگنڈے کے دوش پر یہ الزام چل پڑا اور ہمارا ملک بھی اس سے متاثرہوا۔

            اب سے پندرہ بیس برس قبل تو صورت حال ایسی ہوگئی تھی کہ ہرفرقہ پرست لیڈر، شاید اس وقت تک اپنے حلقہ میں اعتماد نہیں حاصل کرپاتا تھا جب تک کہ وہ مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ پر دہشت گردی کا الزام نہ لگادے اور دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا اڈہ یا دہشت گردوں کاٹریننگ سینٹر نہ قرار دے دے۔ پھر امن وقانون نافذ کرنے کی ذمہ دار ایجنسیوں کو بھی اس ذہنیت نے متاثر کیا اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ چل پڑا۔ ان حالات میں دارالعلوم دیوبند نے ۲۵؍فروری ۲۰۰۸ء کو ایک عظیم الشان دہشت گردی مخالف کانفرنس منعقد کی، جس کی آواز دور تک سنی گئی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اور متعدد مدارس اور اداروں نے اس قسم کے اجتماعات اور اجلاس منعقد کیے جس کے نتیجے میں حالات میں بڑی حد تک تبدیلی آئی۔ پھر گذشتہ آٹھ دس سالوں میں ملک کی مختلف عدالتوں سے، ان مسلمانوں کو باعزت بری کیاگیا جنھیں دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیاگیا تھا۔ عدالتوں کے ان فیصلوں سے بھی صورت حال بہتر ہونے میں مدد ملی۔

            لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اس موضوع کو اپنے مفادات کے لیے زندہ رکھنا چاہتی ہیں ۔ اسی لیے ۲۰۱۸ء کے آغاز میں یوپی کے ایک وقف بورڈ کے چیرمین نے باقاعدہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو خط لکھ کر مدارس پر پابندی لگانے اور انھیں سرکاری تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا اور مدارس پر دہشت گردی کی تعلیم وتربیت دینے اور پڑوسی ملکوں سے امداد لینے کے بے سروپا الزامات عائد کیے، حالانکہ انکے اس موقف کی خود اُن کے فرقہ نے کھل کر مخالفت کی اوراُسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے واضح طور پر اُن کی تردید کی۔ مگر چوں کہ مذکورہ چیرمین نام کے اعتبار سے مسلمان ہیں اس لیے اُن کے اس بیان کے نقصانات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

            اسی زمانے میں ایک اوراسی قسم کے نام نہاد مسلمان لیڈر جو شاہ بانوکیس میں پوری ملت کے متفقہ موقف کی مخالفت کرکے بدنام رہ چکے ہیں اورحال ہی میں تین طلاق پر پابندی کے فیصلہ پر وزیراعظم کو مبارک باد دے کر دوبارہ اپنی ذہنیت کو واضح کرچکے ہیں ۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ جو نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بیانات سے فرقہ پرستوں کو مزید تائید وتقویت حاصل ہوتی ہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاریوں کا سلسلہ کم ہویازیادہ، اسی طرح اس موضوع پر بیانات کم آئیں یا زیادہ، بہرصورت یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو مسلسل اپنا کام کررہی ہے اور دوسروں کے اداروں میں معصوم ذہنوں کو نفرت سے بھرنے کے علاوہ ناواقف لوگوں کو مسلمانوں اورمدارس اسلامیہ سے بدگمان اور متنفر کرنے کا کام مسلسل جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں دوریاں بڑھ رہی ہیں اور غلط فہمیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اس صورت حال کے ازالے کے لیے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں :

            (۱) دارلعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ کے کردار کو دوسروں کے سامنے واضح کیاجائے؛ بالخصوص ملک کے لیے قربانیوں کی تاریخ کو عام کیا جائے، نیز معاشرے کی اصلاح کے لیے ان کے کردار کو سامنے لایا جائے۔

            (۲) مدارس کا نصاب تعلیم، دین اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مشتمل ہے، اس لیے اسلام کے امن پسند چہرے کو روشن کرنا ضروری ہے، دنیا کو بتایا جائے کہ اسلام نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کیسی عظیم اور مفید تعلیمات پیش کی ہیں ۔

            (۳) اسلامی رواداری سے متعلق تعلیمات اور تاریخی واقعات کو عام کیاجائے۔

            (۴) غیرذمہ دارانہ بیان دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔

            (۵) مدارس اسلامیہ اپنی اپنی آبادیوں سے اپنا رابطہ مضبوط کریں اور حتی الامکان، بلا تفریق سماجی خدمات میں اپنا کردار ادا کریں ۔

            (۶) سیاسی وسماجی طور پر مؤثر برادران وطن سے رابطہ رکھا جائے اور ان کو مدارس سے قریب کیا جائے۔

            (۷) خود مسلمانوں کے معاشرے کی اصلاح کے لیے بھرپور محنت کی جائے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ مسلسل محنت سے ایسی فضا پیدا کردی جائے کہ کسی کے لیے غلط فہمیاں پیدا کرنا آسان نہ رہے اور مدارس اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور لوگوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ ۔؎

یہ پہلا سبق ہے کتابِ ہدیٰ کا              کہ مخلوق ہے ساری کنبہ خدا کا

حضرت مولانا اسرار الحق جوار رحمتِ حق میں

            ۷؍دسمبر۲۰۱۸ء = ۲۸؍ربیع الاوّل ۱۴۴۰ھ جمعہ کی شب میں تین بجے معروف عالم دین حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی، مختصر سی علالت کے بعدجوار رحمت حق میں پیوست ہوگئے  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔  اس حادثہ نے ملک بھر کے دینی وملّی حلقوں میں رنج وغم کی لہر دوڑا دی اور سبھی نے اس اچانک حادثہ کو شدت سے محسوس کیا۔

            حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہترین عالم دین، ملی وسیاسی رہنما، قلم کار، مدبر، منتظم اور بہترین قائدانہ صفات سے متصف تھے، وہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد دس سال سے زائد عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، پھر ملّی خدمت کے میدان میں آئے اور دس سال تک ملک کی قدیم وعظیم تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی کے منصب پر رونق افروز رہے، وہاں سے علیحدگی کے بعد آل انڈیا ملی کونسل کی تاسیس میں شریک رہے اور اس کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی خدمت کرتے رہے۔ پھر آل انڈیا تعلیمی وملی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی اوراس کے تحت جگہ جگہ تعلیمی ادارے، اسکول کالج اور مکاتب وغیرہ قائم کیے، مسلمانوں کے تعلیمی مسائل اس وقت اُن کی دلچسپی کا نمایاں میدان تھے، اسی کے تحت انھوں نے کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سینٹر قائم کرانے میں اہم کردار اداکیا۔

            وہ دوبار پارلیمنٹ کے  ممبر بنے اور دونوں بار کامیابی میں اُن کی ذاتی مقبولیت نے بنیادی کردار ادا کیا۔ سال گذشتہ صفر ۱۴۳۹ھ میں اُن کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیاگیا، اس طرح ان کی شخصیت اس وقت مختلف ملّی وتعلیمی میدانوں میں نہایت فعال تھی۔ ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ اُن کا قرطاس وقلم سے اتنا مضبوط رشتہ تھا کہ مختلف اخبارات ورسائل میں ان کے متعدد مضامین ہرہفتہ یا ہر ماہ شائع ہوتے تھے، وفات کے وقت ماہ نامہ دارالعلوم میں اشاعت کے لیے تین مضامین آئے ہوئے تھے جن میں سے دو اس اشاعت میں شامل کیے جارہے ہیں ۔

            مجموعی اعتبار سے حضرت مولانا کی شخصیت اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بسا غنیمت تھی، اُن کے جانے سے بلاشبہ ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ رب ا لعزت حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے اور ملت اسلامیہ کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،  جلد:103‏،  ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts