از:  مولانا محمد اسرارالحق قاسمیؒ

            عہدِ حاضر کے انسان نے اپنا ساراجھکائو مادیت کی طرف کردیاہے؛اسی لیے اب وہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر شے کو مادیت کی ترازو میں تولنا چاہتا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسانی زندگی غیر متوازن ہوکر رہ گئی ہے اور بہت سے ایسے پہلو جو حیاتِ انسانی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ، نظر انداز کیے جارہے ہیں ۔اخلاق، روحانیت اور انسانی قدریں تیزی سے روبزوال ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اب عوام الناس کے ایک بڑے طبقے کا ذہن روحانیت اور انسانی قدروں کو سمجھنے سے ہی قاصر ہوگیا ہے۔روحانیت اور انسانی قدروں کی باتیں انھیں فرسودہ دکھائی دیتی ہیں اور وہ کھل کر ان کے خلاف آواز بھی بلند کرتے ہیں ۔ دراصل مادی اور مشینی ماحول میں انسان کی حسّی صلاحیت کُند ہوجاتی ہے اور اس کا انسانی ضمیر مردہ ہوتا چلا جاتاہے، جس کے باعث بہت سی وہ باتیں یا وہ واقعات جو غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہوتے ہیں ، ان میں انھیں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔بقول اقبال: ’احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات‘‘۔مثال کے طورپر وہ لباس جس میں عورت کا بدن نظرآئے، اس کے جسم کے نشیب وفراز دکھائی دیں ، مشینی اور مادی ماحول میں رہنے والے انسان کو اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔وہ اس کے دور رس نتائج کو بھی نہیں دیکھ پاتا۔آج کے عہد میں اگر کوئی ایسے لباس کے خلاف اپنے خیالات کااظہارکرتاہے تو اسے آڑے ہاتھوں لے لیا جاتا ہے اور اس پر دقیانوسیت کاالزام لگادیا جاتاہے۔چاہے وہ لاکھ اس لباس کے نقصانات گِنائے، کیسی کیسی مثالیں دے کر سمجھائے؛کیونکہ مادیت پسند لوگوں کا ذہن اسے قبول ہی نہیں کرتا۔وہ تو صرف سکّے کے ایک رخ کو دیکھتا ہے جوجس طرح رہنا چاہے رہے، جو جس طرح کے کپڑے پہننا چاہے ، پہنے، یہ اس کی اپنی پسند ہے ۔انسان کو آزادی حاصل ہے اور آزادی کا تقاضہ ہے کہ اسے اس کی مرضی وپسند پر چھوڑ دیاجائے؛ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کچھ عورتیں اپنی مرضی وپسند سے اسکارف یا برقع پہنتی ہیں تو وہ ان کے خلاف آواز بلند کرنے لگتے ہیں اور حجاب پر پابندی لگانے کی بات کرنے لگتے ہیں ۔ نہ جانے اس وقت ان کا نعرۂ آزادی کہاں چلا جاتاہے؟ اسے ذہنیت کا بگاڑنہیں کہاجائے تو کیا کہا جائے؟۔

            اس طرح کے خیالات صرف غیر مسلم اقوام کے ہی نہیں ہیں ؛ بلکہ مسلمان بھی اب ان باتوں سے متاثر دکھائی دے رہے ہیں ۔اخلاق، روحانیت،قدریں ان کے معاشرے میں دم توڑ رہی ہیں ۔اب مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو بھی ہرطرح کی آزادی کا نعرہ لبھا رہا ہے۔لباس کی آزادی، اجنبی مردوعورت کے مابین دوستی کی آزادی، اختلاطِ مردوزن کی آزادی، حجاب اور برقع سے آزادی، اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی آزادی ۔مسلمانوں کے مابین یہ تبدیلی بھی ماحول کی دَین ہے۔غیر مسلم قوموں کی طرح مسلمان بھی مادیت پسند ہوگئے ہیں ۔انھیں بھی ڈھیر ساری دولت چاہیے۔تعیش ومستی کے وسائل وذرائع چاہئیں ۔انھوں نے بھی زندگی کو صرف ایک ہی رخ سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان یہ تغیر و تبدیلی کیوں کر واقع ہوئی؟اس کے اسباب ومحرکات کیا ہیں ؟

            ظاہر ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات میں سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ بہت کم مسلمان ہیں جو دین کی تعلیمات سے واقف ہیں ۔دین کے حوالے سے انھیں بنیادی باتوں تک کا علم نہیں ۔اس دور کے انسان کی ذہنیت اور اسلام کے درمیان کیا فرق ہے۔ انھیں معلوم نہیں اور اگر اتنا پتہ ہے کہ اسلام عہدجدید کی بہت سی باتوں کے خلاف ہے تو یہ پتہ نہیں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ۔مثلاً اس دورمیں بے حیائی معیوب نہیں ہے؛لیکن اسلام اس کا مخالف ہے۔حدیث ہے: ’’الحیاء شعبۃ من الایمان‘‘ حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

            اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کا اسلام قائل نہیں ؛ جب کہ عہدِ جدید کا ذہن اختلاطِ مردوزن میں کو ئی قباحت محسوس نہیں کرتا؛ بلکہ اسے بہتر خیال کرتا ہے۔اتنا ہی نہیں ؛ بلکہ غیر مردوں اور غیر عورتوں کے درمیان دوستی بھی دورِ جدید میں درست ہے؛ حالانکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتاہے۔حد تو یہ ہے کہ عہدِحاضر میں زناکاری وفحاشی بھی معیوب نہیں سمجھی جاتی۔اگر بالغ مردو وعورتیں بنا نکاح کے آپسی رضا مندی سے باہم جنسی وجسمانی تعلقات بناتی ہیں تو یہ بھی کوئی غلط قدم نہیں ؛ جب کہ اسلام میں زنا چاہے وہ بالجبر ہو یا بالرضا حرام ہے اور بہت بڑا گنا ہے۔قرآن میں زنا کے قریب تک جانے کی بھی ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لاتقربو الزنا (زنا کے قریب بھی مت جائو) زناکاری جیسا قبیح عمل صرف غیر مسلمان سوسائٹیوں میں ہی نہیں ہورہا ہے؛ بلکہ مسلمان سوسائٹیاں بھی اس تعلق سے پیچھے نظر نہیں آتیں ، مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اس ذہنی اور عملی یکسانیت وہم آہنگی کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان بھی مادیت کے سمندر میں ڈوب گئے ہیں اور دین سے دور ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں ۔

            دین اسلام سے دوری کی وجہ اگرچہ موجودہ زمانے کا غیر مذہبی ماحول تو ہے ہی؛ مگر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان خود دینی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ان کا سارا زور عصری تعلیم پر ہے، جس کے حصول کے بعد ان کے خیالات اور زیادہ مادی ہوجاتے ہیں ۔ایسے حالات میں یہ نہایت ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیاجائے اور قرآن وحدیث کے مطالعے کا ان میں شوق پیدا کیاجائے۔چاہے وہ کسی بھی شعبے سے جڑے ہوئے ہوں ، قرآن وحدیث سے وہ وابستہ رہیں ۔اپنے ذہن کو صاف کرنے ، اپنے احساس وضمیر کو زندہ رکھنے اور اپنی زندگی کو دین کے مطابق گزانے کے لیے سیرت کامطالعہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیسے بسرہوئی؟ جب آپ کئی کئی فاقوں سے ہوتے کیسے صبر سے کام لیتے اور مطمئن رہتے۔جب آپ کے پاس بہت سا مال آتا ، تو اسے راہِ خدا میں کیسے خرچ کردیتے، جب آپ تنہائی میں ہوتے تو آپ کے اعمال کیا ہوتے اور جب لوگوں کے درمیان ہوتے تو آپ کیسے رہتے؟بات کرتے تو کس قدر نرم گفتاری سے کام لیتے، وعدہ کرتے تو کیسے اسے نبھاتے، بیویوں کے ساتھ آپ کا سلوک کتنا عمدہ ہوتا، پڑوسیوں کے ساتھ آپ کا برتائو کیسا ہوتا، محلہ داروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ۔مہمانوں کی مہمان نوازی کیسے کرتے، انسانوں کے ساتھ آپ کا سلوک کتنا اعلیٰ ہوتا اور جانوروں کا آپ کس قدر خیال رکھتے تھے۔عبادتِ الٰہی میں آپ کس درجہ استغراق فرماتے۔مسائل میں گھرے ہوتے تو انھیں کیسے حل کرتے، دشمنانِ اسلام حملہ آور ہوتے تو کیسے دفاع کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کس قدر عمدہ تھی اور کس قدر حکمت کے ساتھ آپ نیکی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے ۔ غرض سیرت طیبہ میں انسانی زندگی کے بہت سے پہلو نظر آجائیں گے۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات پڑھتے ہوئے دل ودماغ پر مثبت اور اچھے اثرات پڑتے ہیں ۔ذہن صاف ہوتا ہے، دل روشن ہوتا ہے۔انسانی زندگی کے تمام شعبوں کی طرف نگاہ جاتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ’’زندگی‘‘ کتنی قیمتی ہے اور زندگی کے اصل تقاضے ومطالبات کیا ہیں ؟ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سیرت کی کتابوں کو اپنے مطالعے میں ضرور رکھیں ۔ اگر زیادہ وقت نہ ملے تو روزانہ پندرہ بیس منٹ مطالعۂ سیرت کے لیے ضرور نکالیں ۔اگر کسی کے پاس زیادہ وقت ہو تو وہ اور زیادہ وقت سیرت طیبہ کے مطالعے پر صرف کرے۔آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو سیرت طیبہ سے ناواقف ہے ، دوچار واقعات تک ہی ان کا مطالعہ محدود ہے۔صرف اتنے سے کام نہیں چلنے والا۔آپ کی پوری زندگی کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سیرت کی متعدد کتابوں کا مطالعہ کرچکے ہیں یعنی سیرت طیبہ کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے ہیں لیکن اب وہ سیرت کے مطالعے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں ۔یہ بھی مناسب بات نہیں ہے۔مطالعۂ سیرت اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے استقلال کے ساتھ اپنے مطالعے میں رکھا جائے؛ تاکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات ومعمولات سے مسلمان نہ صرف آگاہ رہیں ؛ بلکہ ان کے اثرات سے فیضیاب بھی ہوتے رہیں ۔

            انسان کی فطرت ہے کہ وہ ایک وقت بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے؛ لیکن آہستہ آہستہ اس کااثر ہلکا ہوتاجاتاہے؛کیونکہ اور بہت سی چیزیں اس کی زندگی میں آتی رہتی ہیں اورمتاثر کرتی رہتی ہیں ۔کسی چیز سے مستقل متاثر رہنے کے لیے اس کا استحضار ضروری ہے اور اس کے زیر اثر رہنا اہم ہے۔اگر کوئی سیرت طیبہ کے اثرات کواپنے اوپر طاری رکھنا چاہتاہے تو وہ سیرت کے مطالعے سے جڑا رہے۔اس بات سے بھلا کون انکار کرے گا کہ سیرت طیبہ تمام مسلمانوں کے لیے آئیڈیل ہے۔اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ قدم پر چلنے میں ابدی کامیابی ہے تو پھر مسلمان آپ کی حیاتِ طیبہ کو کیوں نہ سامنے رکھیں اور اس سے روشنی حاصل کریں ۔سیرت کا مطالعہ جس قدر زیادہ ہوگا، اسی قدر دین اسلام سے قربت ہوگی ، اسلامی نقطئہ نظر بنے گا، تفقہ فی الدین حاصل ہوگا، زندگی معتبر ہوگی، دونوں جہان کی کامیابی کا تصور ذہن میں ابھرے گا،احساس وضمیر بیدار رہے گا، انسان اپنی اصل فطرت کی طرف عود کرے گا اور غیر فطری باتوں اور کاموں سے دور ہوتا جائے گا۔

            فی زمانہ مسلمان مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں ، ہر طرف انھیں گھیرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان پر الزامات لگائے جارہے ہیں ، ان کی شبیہ کو مشکوک ومشتبہ بنایاجارہاہے، خود ان کی سوسائٹیاں جرائم اور بداعمالیوں کے نرغے میں ہیں ۔ ایسے بد تر حالات سے نکلنے کے لیے بھی سیرت طیبہ معاون ثابت ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان آپ کی سنتوں پر عمل پیراہوں ، جو آپؐ نے ارشاد فرمایا اور جس طرح آپؐ نے زندگی گزاری، اس  کے مطابق اپنی زندگ بسرکریں ۔سیرت کامطالعہ کریں اور اسے عمل میں بھی لائیں ۔یہ نہیں کہ صرف نامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  تک اپنی محبت کو محدود رکھیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے روشنی حاصل نہ کریں ۔جتنی جلدی مسلمان سیرت طیبہ سے حقیقی طورپر جڑجائیں گے ،اسی قدر بات بہترہوگی۔

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،  جلد:103‏،  ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts