از:  مفتی تنظیم عالم قاسمی

استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد

            زمانۂ جاہلیت کے تاریک دور میں جب قرآن روشن دلائل لے کر نازل ہوا تو بہت سے خوش نصیب لوگ پہلے ہی وہلے میں اسلام کے در پر جھک گئے، قرآن نے ان کے دلوں میں ہلچل پیدا کردی، خدا کے وجود، اس کی لامتناہی قدرت و عظمت کے وہ قائل ہوے اورانھیں اعتراف کرنا پڑا کہ ایک خدا کے علاوہ جن بتوں کے سامنے ہم سجدہ کرتے تھے، وہ باطل اورجھوٹے ہیں ، اسلام کی سچائی پاکر وہ اپنی قسمت پر نازکرتے اور گمراہی میں گذری ہوی زندگی پرانھیں کبھی کبھی بڑا افسوس ہواکرتا تھا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، وحدانیت، حشر و نشر، قیامت، جنت و جہنم اور آخرت کے مناظر کو اس طرح صاف اور روشن دلائل سے بیان کیا ہے کہ ان میں ادنیٰ غور و فکر سے ہدایت نصیب ہوسکتی ہے؛لیکن اس کے باوجود کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد کفر و شرک پر قائم رہی، اسلام ان کے قلب و جگر کو مسخر نہ کرسکا اور نہ ہی اس کے دلائل ان کی زندگی کو صحیح رخ دے سکے، قرآن نے اس کی وجہ بیان کی ہے :

{إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَاء ٌ عَلَیْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ O  خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} O (البقرۃ :۶-۷)

            ترجمہ: ’’جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انھیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہر حال وہ ماننے والے نہیں ہیں ، اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے، وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ‘‘

            یعنی ان باتوں میں تاثیر بجا طور پر پائی جاتی ہے؛ مگر کسی مؤثر کلام سے فائدہ اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب کہ سننے والوں کا ارادہ نیک ہو، وہ اسے قبول کرنے اور ماننے کا قصد کریں ، ورنہ کسی موقف پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کے لیے ہزار دلائل بھی بے سود ہیں ۔

            کفار مکہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا کہ وہ حق بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اگر سمجھتے بھی تو اسے عناداً قبول نہیں کرتے، سچی بات کو متوجہ ہوکر نہیں سنتے، راہ حق کو نہیں دیکھتے تھے، ان لوگوں نے نفرت و عناد کے سبب کچھ ایسا حال بنالیا تھا کہ مذہب اسلام کی صداقت ایک خدا کے وجود اور حشر و نشر کے روشن اور واضح سے واضح دلائل کو دیکھنے اور سننے کے لیے وہ تیار ہی نہیں ہوتے تھے، ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کوشش کرتے وہ رائیگاں ہوجاتی اور ذرہ بھی ان کے دل و دماغ پر اس کا اثر مرتب نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تسلی دیتے ہوے کہا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ باتوں کو رد کردیا ہے اور سچے راستہ کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے ؛ اس لیے اللہ نے ان کی حالت پر نظر رکھتے ہوے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے، ان کے نتائج انتہائی بُرے اور خوفناک ثابت ہوں گے ۔

            کسی چیز پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے ؛ تاکہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو، کفار مکہ نے سوچنے سمجھنے اور قبولِ حق کے تمام راستے اپنے اوپر بند کرلیے تھے ؛ اس لیے ان کی اصلاح کی توقع فضول تھی، قرآن نے ان کے دلوں پر مہر بندی کی اطلاع کے ساتھ عذاب عظیم سے با خبر کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کا دلوں پر اثر انداز نہ ہونا؛ اس لیے ہوتا ہے کہ گناہوں کی کثرت اور بے توجہی کے سبب قدرتاً دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے جو ایک انسان کے لیے بڑی محرومی اور بد بختی کی بات ہے اور یہ دنیا و آخرت کا بڑا خسارہ ہے ۔

            آج ہم اپنے دلوں کا جائزہ لیں ، سماج اور معاشرہ پر نظر ڈالیں کہ اسلامی احکام کی اتباع کے لیے ہم کتنا دوڑ رہے ہیں ، دینی اجلاس و اجتماع کی کثرت ہے، درس قرآن اوردرس حدیث کی کمی نہیں ، دینی تحریکات اور اصلاحی کوششوں کی بھی کمی نہیں ، ہر جمعہ نماز سے قبل مختلف عنوان پر اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری ہے، ہر طرف قرآن اور حدیث کی ہی باتیں آپ کو ملیں گی، مدارس و مکاتب اور خانقاہوں کا وجود نہ صرف باقی؛ بلکہ ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، پھر اس کے باوجود روحانی اعتبار سے ملت بیمار کیوں ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خود مسلمانوں کے گھروں اور سماج میں ایسی بے حیائیاں جنم لے رہی ہیں ، جن سے انسانیت کو بھی شرم آتی ہے، سود، رشوت، شراب نوشی، زناکاری، ظلم و زیادتی، قتل وغارت گری، گالی گلوج، بد اخلاقی و بدکرداری، ناجائز عقد و معاملات اور دیگر برائیاں اس طرح مسلم معاشرے میں جڑ پکڑ گئی ہیں کہ ان کے ازالہ کے لیے بڑے سے بڑے مصلح، داعی، مفکر و مدبر کی کوششیں بے کار ثابت ہورہی ہیں ، قرآن و حدیث پر مشتمل ان تقاریر و بیانات کا کوئی اثر ہے اور نہ اصلاحی ودینی مضامین و مقالات اور کتابوں کا، پہلے کے مقابلے میں اب دینی رسائل و جرائد کی بھی بہتات ہے اور کتابوں کی طباعت ہر سال بڑھتی جارہی ہے ؛ لیکن برائیوں اور بے حیائیوں کا سیلاب ہے جس پر بند لگانے کی ہر کوشش ناکام ہے ۔

            قرآن پڑھنے کی ایک مثال لیجیے، صحابۂ کرام ث جب قرآن پڑھتے یا سنتے تو ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، جہنم کے مناظر اور اس کے خوفناک عذاب کے بیان سے جسم کانپ اٹھتا، جنت کی لازوال نعمتوں کا اشتیاق پیدا ہوتا، وہ بچوں کی طرح روتے، بلکتے اورتڑـپتے تھے ؛بلکہ ابو جہل، ابو لہب، اخنس بن شریق جیسے سخت دل کفار مکہ بھی رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان اقدس سے تہجد کی نماز میں قرآن سنتے تو زار و قطار روتے اور ان کے کلیجے پھٹ پڑـتے تھے؛ مگر آج ہم بھی قرآن پڑھتے اور سنتے ہیں ؛ غور کیجیے کہ کیا اس عظیم الشان کتاب کی آیات سننے سے دلوں میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے، روح میں وجد آتی ہے، زندگی میں انقلابی اثرات رونما ہوتے ہیں ، شب وروز قرآن پڑہنے کے باوجود بھی کبھی نہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، نہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ، نہ ہمارے جذبات میں کوئی طوفان برپاہوتا ہے اور نہ ہی قلب و جگر کی تسخیر پائی جاتی ہے ۔

            اسی طرح عمل کی باری آئی تو صحابۂ کرام ث اس میں بھی کھرے اترے، جیسے ابتداء اسلام میں شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی، عرب کے دستور کے مطابق بعض مسلمانوں میں بھی اس کی لت پڑی ہوئی تھی ؛ لیکن مدنی زندگی میں سورہ مائدہ آیت ۹۰ – ۹۱ میں جب اس کو واضح طور پر حرام قرار دے دیا گیا تو وہی مسلمان جو اس کے دلدادہ اور عاشق تھے، اس کی حرمت سننے کے بعد فوری طور پر رک گئے، شراب کے برتنوں اور مٹکوں تک انھوں نے توڑ ڈالے اور گلیوں میں شراب بہادیے، روایت میں ہے کہ جس وقت شراب کی حرمت نازل ہوئی شراب کا جام بعض لوگوں کے ہاتھ میں تھا، کچھ پی چکے تھے، کچھ جام میں بچ رہا تھا،انھیں حرمت کا علم ہوا تو شراب کے باقی حصوں کو برتن میں انڈیل دیا اور اسے ضائع کردیا، پھر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کی، عام طور پر انسان جب کسی چیز کا عادی ہوتا ہے اور اس کی لت پڑجاتی ہے، اس کا چھوڑنا انتہائی دشوار اور دقت طلب ہوتا ہے ؛ لیکن اطاعت و فرمانبرداری اور خوف خدا کی یہ حیرت انگیز مثال دیکھئے کہ شراب جس کو وہ چائے کی طرح پینے کے عادی تھی، حکم خداوندی آتے ہی کسی پس و پیش کے بغیر اس کو ترک کردیا ؛ بلکہ شراب کا جو جام وہ ہونٹ سے لگا چکے تھے، جیسے ہی قرآن کی آیت سنائی گئی، اسی لمحے میں اپنے جام کو ہونٹ سے علیحدہ کرلیے اور پھر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں گیا، اس اطاعت دل پر کتنی گراں گذرتی ہوگی اور کس صبر سے انھوں نے کام لیا، کیا خوف خدا کی یہ مثال کہیں اور مل سکتی ہے ؟

            آج سودی کاروبار کرنے والے مسلمان سود کی حرمت کے خلاف تقریریں سنتے ہیں ، سود پر اللہ کا جو غضب نازل ہوتا ہے اور آخرت میں اس کے جو خوفناک نتائج ہوں گے، ان پر بھی ان کی اچھی نظر ہے، سودی لین دین کی لعنت والی قرآنی آیات و احادیث کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ؛ لیکن کیا ان بیانات سے قرآن وحدیث کی دھمکیوں سے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیداہوی، کتنے ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے خوف خدا کے سبب قرآنی احکام سنتے ہی ایسے کاروبار کو ترک کردیا ہو اور گذرے ہوے معاملات پر آنکھوں سے آنسو بہے ہوں ، زندگی گناہوں اور برائیوں سے لت پت ہے اور ان جرائم کے خلاف شب و روز قرآن وحدیث کی باتیں کانوں سے ٹکراتی ہیں ، عذاب قبر اور جہنم کے مناظر کا بیان بھی سامنے ہوتا ہے ؛لیکن جسم میں کوئی حس نہیں ہے، دل و دماغ میں کوئی انقلاب نہیں ، شب و روز کی عملی رفتار میں کوئی تغیر نہیں ؛ بلکہ نیکیوں کے بجائے برائیوں کی طرف رحمتِ خداوندی کے بجائے اس کے غضب کی طرف ہم لپک رہے ہیں ، بلا شبہ قرآن کی اپنی تاثیر باقی ہے، شریعت کی پابندیاں اپنی جگہ قائم ہیں ، جنت و جہنم کی ساری باتیں پہلے کی طرح اب بھی تازہ ہیں ؛ لیکن دلوں کی کیفیت بدل گئی، ایمانی حرارت میں فرق آگیا، عند اللہ جواب دہی کا احساس مٹ گیا، جس دل میں سختی پیدا ہوجاتی ہے، قبولیت کے تمام دروازے اس کے لیے بند ہوجاتے ہیں اور ایسے قلوب کے لیے قرآن نے بہت سخت وعید بیان کی ہے :

{فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن} (الزمر : ۲۲)

            ترجمہ: ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اورزیادہ سخت ہوگئے، وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوے ہیں ‘‘

            کہیں ایسا تو نہیں کہ بد اعمالیوں کے سبب ہمارے دلوں پر مہر لگادی گئی ہو، جس کی وجہ سے اصلاح کی تمام کوششیں ضائع ہورہی ہیں اور دل ودماغ پر قرآن و حدیث کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو یہ بڑی بدبختی اور محرومی کی بات ہوگی ؛ اس لیے اپنے قلوب کی تہوں میں جھانک کر دیکھئے، تنہائی میں غور کیجیے، دل کو ٹٹولیے اور توبہ کیجیے، اپنے گناہوں اور بد اعمالیوں سے آج اس کا موقع ہے، آنکھیں موند لینے کے بعد حسرت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔

            دلوں پر اچھی بات اثر انداز نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوے قرآن نے کہا :

{کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْن} (المطففین : ۱۴)

            ترجمہ:’’ہر گز نہیں بلکہ در اصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے‘‘

            گناہوں کی کثرت و مزاولت سے دل پر تاریکی چھاجاتی ہے، پھر جوں جوں گناہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تاریکی میں شدت پیداہوتی رہتی ہے اور حالت اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ روشن دلائل اور قرآن و حدیث کی باتوں اور نیک خیالات کا اس پر گذر نہیں ہوتا ۔

            حضرت ابو ہریرہ ص کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :

’’إن المؤمن إذا أذنب کانت نکتۃ سوداء في قلبہ، فإن تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ وإن زاد زادت حتی یعلو قلبہ ذاک الران الذي ذکر اللہ عز وجل في القرآن {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْن}‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر : ۷۹۳۹)

            ترجمہ:’’انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، اگر اس نے توبہ و استغفار کرلیا تو سیاہی مٹ جاتی ہے اوردل صاف ہوجاتا ہے ؛ لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کرلیا تو ایک دوسرا نقطہ سیاہ لگا جاتا ہے اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطہ لگتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوتی ہے، اسی ظلمت و سیاہی کا نام قرآن کریم میں ’’ران‘‘ آیا ہے : {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْن}‘‘

            اس مضمون پر مشتمل متعدد احادیث مذکورہ ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی سرکشی اور بداعمالیوں سے دل کی نورانیت ختم ہوجاتی ہے، پھر نصیحتوں اور نیک باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، دل کی سیاہی ایک پر ایک گناہ سے بڑھتی ہی جاتی ہے، جب تک توبہ واستغفار کرکے اسے پاک صاف نہ کرلیا جائے، ہر کلام اس کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے ؛ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل کو گناہوں سے آلودہ نہ ہونے دیں ، اگر بشری تقاضے کی بنیاد پر کبھی گناہ سرزد بھی ہوجائے تو اللہ کی طرف رجوع ہو، آنکھوں سے آنسو بہاکر خدا کے حضور صدق دل سے توبہ کرے، دل کی سیاہی ساری محرومی کی جڑ ہے، دل روشن اور پاکیزہ رہے تو تمام اعضا سے نیک اور خدا کی مرضی کے مطابق امور انجام پاتے ہیں اوردل میں ہی کجی رہی تو کوئی عضو نیک کام کے لیے تیار نہیں ہوتا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :

’’ألا وإن في الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وہي القلب‘‘ (صحیح بخاری )

            ترجمہ:’’خبردار ! بلاشبہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ ٹکڑا صالح رہتا ہے تو تمام بدن میں صالحیت رہتی ہے اور جب اس میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑجاتا ہے، خبردار! اور وہ ٹکڑا دل ہے‘‘

            جسم کا نظام بگڑنے سے مراد اس سے صحیح افعال کا صادر نہ ہونا ہے، یعنی جب دل میں کجی اور فساد آتا ہے تو اعضا سے بھی بُرے افعال صادر ہوتے ہیں اور دل صحیح رہتا ہے تو وہ اعضا کو صحیح اور نیک کام کی ترغیب دیتا ہے اور انسان سے اچھے کام کا صدور ہوتا ہے اور اس پر دین کی باتیں اثر انداز ہوتی ہیں ، ورنہ دل سیاہ رہتے ہوے قیمتی سے قیمتی باتیں بے سود ثابت ہوتی ہیں ، آپ اگر اپنی کامیابی چاہتے ہیں تو دل کو سیاہ ہونے سے بچائیے، گناہوں سے توبہ واستغفار کی عادت ڈالیے، توبہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، اس سے بڑا سے بڑا گناہ بھی ختم ہوجاتا ہے، اگر آپ نے گناہوں سے توبہ نہیں کیا تو دل کی سیاہی بڑھتی جائے گی اور پھر اچھے اچھے دینی مضامین، اچھی کتابیں اور مؤثر خطاب بھی آپ کو صحیح رخ نہیں دے سکتا، ضلالت و گمراہی آپ کا مقدر بن جائے گی، جو ایک انسان کے لیے ایسی ہلاکت ہے جس سے بڑی کوئی ہلاکت نہیں ۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،  جلد:103‏،  ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts