سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسائل میں:

            (۱)        شریعت کے اندر سلام، مصافحہ اور معانقہ کا حکم، وقت اور طریقے کیا ہیں؟

            (۲)       عید کی نماز کے بعد اگر آپس میں سلام، مصافحہ اور معانقہ کرے اوراس کو ضروری یا لازم نہ سمجھے تواس کی گنجائش ہے یا نہیں؟

            (۳)      کچھ لوگ گھر سے باہر رہتے ہیں، ان سے عیدگاہ میں ملاقات ہوتی ہے، تو ان سے مصافحہ اور معانقہ کرنا درست ہوگا یا نہیں؟ بینوا و توجروا۔

المستفتی:

محمد لقمان قاسمی عفی عنہ

کتب خانہ دارالعلوم دیوبند

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب:  سلام کرنا سنت ہے ملاقات کے وقت اور مصافحہ، سلام کا تکملہ ہے، لہٰذا یہ مسنون ومستحب ہے، سلام مسنون یہ ہے کہ کہاجائے ’’السلام علیکم‘‘ اور ورحمۃ اللہ کااضافہ ہوتو بہتر ہے اور اس سے بھی افضل یہ ہے کہ اس طرح سلام کیا جائے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور مصافحہ میں سنت دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہے، صحابہ، تابعین اور مشایخ عظام سے یہی طریقہ منقول ہے  والسنۃ أن تکون بکلتا یدیہ (شامی) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:  علّمنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ وکَفِّيْ بَیْنَ کَفَّیْہِ التشہد کما یعلّمنی السورۃ من القرآن۔  یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد ایسے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے اوراس وقت میرا ہاتھ آپ … کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھا (بخاری) اگر کسی سے غایت درجہ کی معرفت ہو یا طویل فصل کے بعد ملاقات ہوئی ہو تو ایسے مواقع پر جوش محبت و فرط مسرت میںمعانقہ کرنا بھی ثابت و مشروع ہے، معانقہ یعنی گلے ملنا ایک مرتبہ میں ایک بار اور ایک ہی جانب ہونا چاہیے، بار بار یا تین مرتبہ ملنے کو ضروری سمجھنا جہالت یا رسم ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ معانقہ دائیں جانب کرنا چاہیے یا بائیں جانب، اجازت دونوں طرف میں ہر طرف کی ہے؛ لیکن بائیں جانب راجح ہے ؛ کیوںکہ ادھر دل ہے جو مرکزِ محبت ہے اورمعانقہ جوشِ محبت کی وجہ سے ہی مشروع ہے تو دل سے دل مل جائیں، اس سے محبت بڑھے گی۔ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ لکھتے ہیں: ۔۔۔۔ اس بارے میں کوئی صراحت نظر سے نہیں گزری، عام اصول کے مطابق تو تیامن (دائیں) کو ترجیح معلوم ہوتی ہے؛ مگر معانقہ کا منشاء چونکہ ہیجان المحبۃ ہے جس کا محل قلب ہے اور صورت تیاسر (داہنی طرف سے معانقہ کرنا) میں جانبین کے قلوب باہم زیادہ قریب ہوتے ہیں اس لیے تیاسر راجح ہے۔۔۔ (احسن الفتاویٰ ۸/۴۱۱)

             (۲،۳) عید کی نماز کے بعد مصافحہ اور معانقہ کا بعض علاقوں میں رواج ہے گوکہ لوگ اعتقاداً اس کو ضروری نہ سمجھیں؛ لیکن عملاً اس کاالتزام کرتے ہیں بایں طور کہ نماز سے پہلے ملاقات ہونے پر کوئی مصافحہ یا معانقہ نہیں کرتے، لوگ گھنٹوں پہلے مسجد یا عیدگاہ میںآکر بیٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو دیکھتے اور باتیں بھی کرتے ہیں اور نماز کے اختتام پر اچانک گلے ملنا شروع کردیتے ہیں، یہ التزام و تخصیص درست نہیں۔ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: قاعدہ کلیہ ہے کہ عبادات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہیئت اور کیفیت معین فرمادی ہے اس میں تغیر وتبدل جائز نہیں اور مصافحہ چونکہ سنت ہے؛ اس لیے عبادات میں سے ہے تو حسب قاعدہ مذکورہ اس میں ہیئت وکیفیت منقولہ سے تجاوز جائز نہ ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف پہلی ملاقات کے وقت بالاجماع یا رخصت کے وقت بھی علی الاختلاف منقول ہے، بس اب اس کے لیے ان دو وقتوں کے سوا اور کوئی موقع ومحل تجویز کرنا تغیر عبادت ہے جو ممنوع ہے، لہٰذا مصافحہ بعد عیدین یا بعد نماز پنج گانہ مکروہ وبدعت ہے۔‘‘ (امدادالفتاویٰ) جو لوگ گھر سے باہر رہتے ہیں اگر ان سے عیدگاہ میں ہی عید کی نماز کے بعد ملاقات ہوئی ہے تو ان سے مصافحہ ومعانقہ میں حرج نہیں۔

فقط واللہ أعلم۔

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۴؍۱۱؍ ۱۴۳۹ھ

===================================

            سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

            مسئلہ یہ ہے کہ سُوَاسْتِھیْ  یا اُومْ  ا اسی طرح جے ماتا دی وغیرہ جوکہ غیرمسلموں کا پہناوا ہے، مسلمان لڑکیاں مزدوری کے طور پر موتیوں کے ہار یا پٹیوں میں بناتی ہیں تو کیا یہ بنانا یا اس کی کمائی جائز ہے یا ناجائز؟

            قرآن وحدیث کے روشنی میں مفصل جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

المستفتی:

قاری محمد آصف شاملی

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب:مسلم لڑکیوں کو چاہیے کہ موتیوں کے ہار یا پٹیوں پر ہندوانہ علامات بنانے سے احتراز کریں شرعاً اس کام کی کمائی جائز نہیں۔

فقط واللہ أعلم۔

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۷؍۱۱؍ ۱۴۳۹ھ

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts