از: قاری عبد السلام مضطر ہنسوری
بلغ العلی بکمالہٖ کشف الدجی بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ
وہ محمدؐ احمد مصطفیؐ ، وہ نبی امی و ہاشمیؐ
وہی ناسخ صحف و ملل ، وہ امام اور سبھی مقتدی
’لک ذکرک‘ کی وہ رفعتیں کہ مبشر اس کے ہراک نبی
سر عرش تک اسی خوش خرام کے نقشِ پا کی ہے روشنی
بلغ العلی بکمالہٖ کشف الدجی بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ
ہو جبینِ ماہ عرق عرق، جو تجھے میں ماہ لقا کہوں
بڑی کش مکش میں ہوں تجھ کو شاہد منتظر کہوں، کیا کہوں
بخدا خدا نہیںتجھ کو نورِ خدا کہوںتو بجا کہوں
تجھے اے سراجِ منیرؐ کیوں نہ ضیائے ارض و سما کہوں
بلغ العلی بکمالہٖ کشف الدجی بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ
ترا جلوہ رحمت و عفو کا، تری خوئے بندہ نواز میں
تری بارگاہ میں فرق کچھ نہیںغزنویؔ و ایازؔ میں
وہ چمن کھلادئے حسن خلق کے ریگ زار حجاز میں
کہ عدو بھی آکے اسیر سب ہوئے تیری زلفِ دراز میں
بلغ العلی بکمالہٖ کشف الدجی بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ
یہ ہے حکایتِ حسن جو نہ کبھی کسی سے تمام ہو
مرا مضطرؔ ان پہ ہمیشہ تابہ اَبد درود و سلام ہو
یہی ورد میرا رہے سدا، یہی شغل میرا مدام ہو
کہ درود و پاک لبوں پہ ہو، وہ قعود ہو کہ قیام ہو
بلغ العلی بکمالہٖ کشف الدجی بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ صلوا علیہ وآلہٖ
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:102، محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء
٭ ٭ ٭