امامِ تدبیر وسیاست، صحابیِ رسول حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ

از:  عبدالصمد ساجد

               سیدنا  معاویہ رضی اللہ عنہ بعثتِ نبوی  سے پانچ سال قبل خاندانِ بنو امیہ کے چشم و چراغ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر پیدا ہوئے، ربِ لم یزل نے روزِ آفرینش ہی سے آپ کو گوناگوں عمدہ خصال و عادات اور صفات سے نواز رکھا تھا، ظاہری حسن و جمال ،باطنی خوبیوں، اولوالعزمی و بلند ہمتی اور رشد و ہدایت کے آثار بچپن ہی سے عیاں و نمایاں تھے؛تاہم آپ نے باقاعدہ اسلام کا اظہار فتح مکہ کے موقع پر کیا؛جب کہ پوشیدہ طور پر آپ حدیبیہ کے موقع پر اسلام لاچکے تھے۔

            یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کا اعزاز ہی تصور کیا جائے گا کہ آپ نے اسلام سے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شرکت نہیں کی،آپ رضی اللہ عنہ ان نصیبہ ور اور خوش بخت شخصیات میں سے ہیں جنہیں  بارگاہِ نبوت میں بارہا حاضری کا موقع نصیب ہوا   اور سراج ِمنیرکی ضیاء پاش کرنیں ان پر پوری پوری پڑیں اور انہیں نور ِ ایمان و تقویٰ سے منور اور روشن کیا ۔

            آپ نہ صرف  صحابیِ رسول ہیں  بلکہ کاتبِ وحی،محب ِرسول،محبوب ِ رسول،رسول اللہ … کے معتمداور آپ کی خاص دعاؤں کے مصداق بھی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب قرآن و سنت اور اقوالِ سلف صالحین سے واضح اور روشن ہیں،آپ کے فضائل کے بیان میں اول تو یہ بات خوب ذہن نشین رہنی چاہیے کہ وہ تمام فضائل و مناقب جو مطلقاً بغیر کسی تقیید و تخصیص کے مجموعی طور پر ـــ جماعت ِصحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے وارد ہوئے ہیں ان کا مصداق جہاں پوری جماعت ِ صحابہ ہے بعینہٖ اسی طرح ان فضائل و کرامات میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی برابر کے شریک و سہیم ہیں،علاوہ ازیں خاص آپ رضی اللہ عنہ کے بھی بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں،سر ِدست چند ایک پیش ِخدمت ہیں:

            حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان چند منتخب اور چنیدہ بختاور افراد میں سے ہیں جن کو بارگاہ ِنبوت علیہ الصلاۃ و السلام سے کتابت ِوحی کا شرف حاصل تھا اور وہ وحیِ الٰہی لکھا کرتے تھے،ان کاتبینِ وحی کی فضیلت ،کرامت اور شرافت قران ِحکیم نے بیان کی ہے،

        بِأَیْدِی سَفَرَۃٍ ،کِرَامٍ بَرَرَۃٍ [سورۃ العبس، الایۃ ۱۵،۱۶]

            یعنی یہ قرآن ایسے لکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے جو باعزت ،پاکبازاورنیکوکار ہیں۔

            حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ جبرائیلِ امین ؑ آنحضرت… کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا اے محمد …!معاویہ کو وصیت کیجیے کیونکہ وہ اللہ تعالی کی کتاب کے امین ہیں اور بہت اچھے امین ہیں ۔[ تطہیر الجنان]

            صادق و امین پیغمبر ِدو عالم  … نے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی منزلت و مرتبت واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی اور آپ کو نیک دعاؤںسے نوازا؛چنانچہ فرمایا:

        اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا وَاہْدِ بِہِ [جامع ترمذی،جلد۲،صفحہ۲۴۷،]

            ترجمہ:اے اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو راہنما اور ہدایت یافتہ  اوران کے ذریعے ہدایت پھیلا۔

            دوسری جگہ آپؓ کی علمی و فنی ترقی اورفلاحِ آخرت کی دعا فرمائی۔

        اللہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ "

                                                            [ مسند أحمد،۲۸/۳۸۳، رقم الحدیث۱۷۱۵۲]

            ترجمہ۔۔ اے اللہ ! معاویہ کو کتاب اللہ اور حساب کا علم عطا فرما اور عذاب سے محفوظ فرما۔

            حضور … نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو قیمتی نصائح سے بہرہ ور فرمایا،مسند ِ احمد ہی میں ہے آںحضرت  … نے حضرت معاویہ کو نصیحت فرمائی کہ اے معاویہ ! اگر تمہیں حکومت دی جائے تو تقوی اختیار کرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ [ رقم الحدیث۱۶۹۳۳]

            حضور سرورِ کونین … کا مذکورہ ارشادجہاں معاویہ ؓ سے خیرخواہی پر مبنی ہے وہیں اس میں ایک گنا حضرت معاویہ ؓ کی حکومت و خلافت کا اشارہ بھی موجود ہے۔

            ایک اور مقام پر ارشاد مبارک فرمایا:

            ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرے راز دار معاویہ  ہیں جو ان سے محبت رکھے گا ،نجات پائے گا اور جو ان سے  بغض رکھے گا، ہلاک ہوگا،[ ریاض النضرہ، ۱/۳۶]

            امامِ بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت  معاویہؓ  آںحضرت  … کے پیچھے سواری پر سوار تھے ، آپ  …  نے پوچھا، اے معاویہ ! آپ کے جسم کا کون سا حصہ میرے نزدیک ہے؟ تو انہوں نے کہا :یارسول اللہ !  میرا پیٹ ! اس پر آپ  … نے فرمایا: اے اللہ ! اسے علم و حلم سے بھر دے!  [ التاریخ الکبیر،۸/۱۸۰، رقم ۲۶۲۴ ]

            قرآن و سنت کے بعد آثار ِ صحابہ اور اقوال ِسلف صالحین سے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت و مقام آفتاب ِ نیم روز کی طرح روشن اور عیاں ہے۔

            علامہ ابن ِحجر مکی ؒ رقم طراز ہیں کہ خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق ِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:لوگو ! جب امت میں تفرقہ اور فتنہ عام ہوجائے تو تم حضرت معاویہ کی اتباع کرنا اور ان کے پیچھے شام چلے جانا۔ [ تطہیر الجنان، صفحہ۳۷ ]

            صحیح بخاری میں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک فقہی مسئلہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی دیگر صحابہ سے مختلف رائے ذکر کی گئی تو حبرالامت حضرت ابن ِعباس ؓ نے جواباً فرمایا: رہنے دویہ باتیں معاویہ تو فقیہ ہیں ، انھیں کچھ نہ کہو وہ صحابیِ رسول ہیں اور اگلی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ’’أَصَابَ، إِنَّہُ فَقِیہٌ‘‘  یعنی ان کی رائے درست ہے، بے شک وہ فقیہ ہیں ۔ [رقم الحدیث۳۷۶۴]

            مشہور مؤرخِ اسلام علامہ ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہے کہ محدثِ کبیر حضرت امام عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہؓ  افضل ہیں یا حضرت عمر ن عبدالعزیز؟تو انہوں نے فرمایا: حضورِاکرم … کی معیت و رفاقت میں جہاد کرتے ہوئے جو مٹی حضرت معاویہؓ کے گھوڑے کے ناک میں گئی ، اس مٹی کے ذرے بھی عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہیں۔ [البدایہ و النہایہ، جلد۸،    صفحہ۱۳۹]

            نیز یہ بھی آپ کی عظمت و شرافت کی دلیل ہے کہ آپ کو حضور نبی کریم  … سے قرابت و رشتہ داری بھی حاصل ہے،آپ کی ہمشیرہ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  آپ  … کے حرم و زوجیت میں تھیں،یوں حضرت معاویہؓ حضور … کے برادر ِ نسبتی ٹھہرے،اورایمان و عمل کے ساتھ قرابت ِ رسول بھی بہت بڑا شرف ہے۔

            بعض مودودیت زدہ و متاثرین ِ رفض حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خال المؤمنین کے لقب پر برہم و سیخ پا نظر آـتے ہیں؛ جب کہ حافظ ابن کثیر نے حالات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں صراحۃً یہ لقب استعمال کیا ہے، در حقیقت یہ بھی شیعی اعتراض ہے۔

            ـحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حلم و بردباری،فہم و فراست ، علم و ہنر،دین و دانش،جود و سخا ، مہر و وفا، تسلیم و رضااور صدق و صفا کے بحرِ بے کراں تھے،آپؓ ایک ایسے روشن دماغ سیاست دان،مردِشہباز حکمران،تجربہ کار،مدبر،جری و بہادرسپہ سالار تھے،جن کے نام سے قیصر وکسری  اور پوری دنیائے کفر پر لرزہ طاری تھا،آپ کے تاریخی سنہری کارناموں کو دیکھ کر عقل دنگ اور انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے،قیامت تک کے حالات و واقعات کی خبر گیری کرنے والے پیغمبرِ کائنات … کا فرمانِ عالی ہے کہ میری امت کا وہ پہلا لشکر جو سمندری جہاد کرے گا، اس کے لیے جنت واجب ہے،[ صحیح بخاری]

            چنانچہ تاریخ ِاسلام میں سب سے پہلے امام ِ تدبیر و سیاست سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے  بحری بیڑہ ایجاد کیا اور زبان ِ نبوت سے صادر و وارد اس عظیم فضیلت کے مصداق ٹھہرے۔

            فائدہ: سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر مطاعن و اعتراضات کا طوفان ِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے،  ایسے لچر اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل وارد نہیں ہیں ، اس کا تفصیلی تحقیقی جواب تو دوسری کتب سیرت ِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں ملے گا ، سرِ دست شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کا بہترین تبصرہ نقل کیا جاتا ہے۔

            ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا سیاسی موقف چونکہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے خلاف ا ور جمہور اہل السنۃ کے نزدیک حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؛ اس لیے ان کے مخالفین بالخصوص روافض کو ان کے خلاف پرو پیگنڈے کا موقع مل گیا ، اور ان کے خلاف الزامات و اتہامات کا طور مار لگا دیا گیا جس میں ان کے فضائل و مناقب چھپ کر رہ گئے، ورنہ وہ ایک جلیل القدر صحابی ، کاتب ِ وحی اور ایسے اوصاف ِ حمیدہ کے مالک تھے کہ آج ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ‘‘ [جہان ِ دیدہ، ۳۰۳]

            آپ ؓ  نے بحیرۂ روم کے ساحل سے لے کر طرطوس تک فوجی چھاؤنیاں قائم کیں،جرائم کی روک تھام اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی و اصلاح کے لیے محکمۂ پولیس کا اجرا کیا،دس بڑی بڑی سلطنتوں کے پانچ ہزار چار سو علاقہ جا ت پراسلامی حکومت قائم کی، اُس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہر قیساریہ(جس کے تین سو بازار تھے)حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہی فتح کیا،آپ وہ عظیم فاتح و حکمران ہیں جنہوں نے پینسٹھ لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض رقبہ پر اسلام کے پھریرے لہرا دیے،بلا شبہ ــ جماعت ِصحابہ رضی اللہ عنھم میں رقبہ کے لحاظ سے وسیع ترین اور مدت کے اعتبار سے طویل ترین  حکومت آپ رضی اللہ عنہ کی تھی۔

            ان سارے فضائل و مناقب اور محاسن و محامد کے حامل ،نصف سے زائد دنیا پر اسلام کے جھنڈے گاڑ دینے والے اِس عظیم حکمران ،امام ِعادل، امام ِ تدبیر و سیاست نے ۲۲؍رجب ۶۰ ہجری کو داعیِ اجل کی دعوت ِ اجل پر لبیک کہا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:102‏،  شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts