محمد سلمان بجنوری

            مدارس اسلامیہ کا تعلیمی سال شروع ہورہا ہے، رمضان کی تعطیلات کے بعد امتحان داخلہ کی سرگرمیاں جاری ہیں اور طالبان علوم نبوت کا قافلہ تازہ دم ہوکر ازسرِنو سرگرم عمل ہونے کے لیے تیار ہے، ایسے میں وقت کا ایک تقاضا تو یہ ہے کہ اس قافلۂ خیر کے یاران باصفا سے کچھ باتیں کی جائیں۔ دوسری طرف رمضان میں اور رمضان کے بعد بھی اخبارات میں مدارس اسلامیہ کے موضوع پر کچھ ایسے مضامین شائع ہوئے جن پر کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔ بعض حضرات نے تو خیرخواہانہ انداز میں مدارس کے حالات ومعاملات پر گفتگو کی ہے؛ لیکن بعض صحافی حضرات نے نہایت معاندانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے مدارس کو مطعون کیا اور نشانہ بنایا ہے، خصوصاً روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہونے والا مضمون بعنوان ’’اے طائرلاہوتی الخ‘‘۔ ایسے حضرات کی تحریروں کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے؛ لیکن اس کو ہم اگلی فرصت کے لیے مؤخر کرنے پرمجبور ہیں، سردست ایسے حضرات کی خدمت میں اختصار کے ساتھ دو تین باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں:

            پہلی بات یہ کہ آپ نے مدارس اور ان کے ذمہ داران سے جس لہجہ میں بات کی ہے اور جیسی گھٹیا زبان استعمال کی ہے، اس سے نہ تو اصلاحِ احوال میںکوئی مدد مل سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی خیرخواہی یا حسنِ نیت کا احساس ہوتا ہے؛ بلکہ کھلے طور پر عناد جھلکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ کی تحریر پڑھ کر اگرچہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ مدارس کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھتے ہیں؛ لیکن تحریر کا رُخ یہ بتاتا ہے کہ آپ نے یا تو ان معلومات کو نظر انداز کرکے سب کو ایک ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش کی ہے یا پھر آپ کے پاس صحیح معلومات ہی نہیں ہیں۔ اگر آپ مدارس کی اصلاح کے لیے مخلص ہیں تو یہ طرز عمل اس سے میل نہیں کھاتا اور یہ انداز بات کو اصلاحی رُخ دینے کے بجائے طعن وتشنیع کی طرف لے جاتا ہے۔ ہاں! اگر آپ ان باتوں کے ذریعے مدارس کی اصلاح کے بجائے اُن کو گردن زدنی قرار دینا چاہتے ہیں اور اُن طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو مدارس کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا تو پھر ہمیں آپ سے یااُن سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ پھر تو ہم صرف اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں کہ۔؎

وہ رہیں صاحبِ ملک دار ورسن

ہم بھی اپنے زمانے کے منصور ہیں

٭        ٭        ٭

            آغازِ سال کی مناسبت سے اپنے عزیز طلبہ سے بھی چند باتیں کرنا ضروری ہے:

            (۱) آپ اپنے گزشتہ تعلیمی سال کی کارکردگی اورنتائج کا گہرائی سے جائزہ لیںاور یہ متعین کریں کہ آپ کا گزشتہ سال کیسا رہا؟ کیا اس نے آپ کو علمی میدان میں آگے بڑھایا؟ یا آپ سے کچھ ایسی کوتاہیاں ہوئیں جن کا نقصان آپ کو اب اٹھانا پڑرہا ہے۔

            (۲) جن طلبہ نے اپنے قدیم مدارس سے منتقل ہوکر دارالعلوم دیوبند یا دیگر مرکزی مدارس میں داخلہ لینے کی کوشش کی ہو، اُن کے لیے اپنے حالات کا تجزیہ کرنا اور زیادہ آسان ہوگا، مثلاً یہ کہ جن کا داخلہ نہیںہوسکا وہ اپنی کوتاہیوں پر گہری نظر ڈالیں اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ کہاں کمی رہ گئی ہے، اپنی کمزوریوں کو نشان زد کرکے اُن کو دور کرنے کے لیے محنت کریں۔

            (۳) جو طلبہ بڑے مدارس میں داخلہ لینے میںکامیاب ہوگئے ہیں وہ بھی اسی پر قناعت کرکے نہ بیٹھ جائیں؛ بلکہ مزید محنت کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ طالب علم امتحانِ داخلہ کے لیے انتھک محنت کرکے داخلہ لینے میںکامیاب ہوجاتا ہے؛ لیکن بعد میں پھر سستی کا شکار ہوکر پیچھے چلا جاتاہے۔

            (۴) تمام ہی طلبہ، وقت کی قدر کریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ چوبیس گھنٹے کا نظام الاوقات بنالیں اور اس کو تحریر کرکے اپنے کسی استاذ کو دکھالیں، پھر سارے سال اُس کی پابندی کریں اس سلسلے میں یہ اصول یاد رکھیں کہ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہونا اور ہر وقت کے لیے ایک کام مقرر ہونا، کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

            (۵) تمام طلبہ اس بات کو ہر وقت یاد رکھیں کہ وہ کسی معمولی چیز کے حصول کے امیدوار نہیں ہیں؛ بلکہ میراث نبوت کے طالب ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کا کردار کسی بھی دوسرے طبقہ سے اعلیٰ ہونا چاہیے۔ نمازوں کی پابندی کے لیے اُن کو دارالاقامہ کی نگرانی یا تنبیہ کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، آپس میںایک دوسرے کے ساتھ اُن کا معاملہ خیرخواہی اورمحبت و احترام پر مبنی ہو، اساتذہ کا دل سے احترام اور نظامِ مدرسہ کی پابندی اُن کا شعار ہو، مختصر یہ کہ عبادات، معاملات اور معاشرت واخلاق میں اُن کا کردار مثالی ہو۔ یہ اُن کی کامیابی کے لیے لازمی شرط ہے۔

٭        ٭        ٭

’’ترکِ دانا‘‘ کی فتح

            ۲۴؍جون ۲۰۱۸ء کو ترکی میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں ترک صدر جناب رجب طیب اردوغان نے واضح اکثریت حاصل کرلی اور ۲۰۲۳ء تک اُن کا اس منصب پر برقرار رہنا یقینی ہوگیا۔ اس الیکشن پر ساری دنیا کا میڈیا گہری نظر رکھے ہوئے تھا اور اسے ترکی کی تاریخ میں نہایت اہم الیکشن کی حیثیت سے دیکھا جارہا تھا۔ اس کی اہمیت کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ اس الیکشن میں کامیاب ہونے والے حکمراں کو ۲۰۲۳ء تک اقتدار میں رہنا تھا اور ۲۰۲۳ء میںترکی اس ’’معاہدئہ لوزان‘‘ سے آزاد ہونے والا ہے جو ۱۹۲۳ء میںسوئزرلینڈ کے شہر’’لوزان‘‘ میں، عالمی اتحادی طاقتوں اور ترکی حکومت کے درمیان طے پایا تھا جس سے عثمانی خلافت کا خاتمہ، خلافت کے اثاثوں اور خلیفہ کے ذاتی اثاثوں کی ضبطی اور اُن کی اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کے علاوہ ترکی اوراس کے پڑوسی ممالک کی سرحدوں کی تعیین کی گئی تھی اور شام سمیت دیگر ممالک کو ترکی سے علیحدہ کرکے مستقل ممالک کی حیثیت دی گئی تھی، اس معاہدے کی جو دفعہ آج تک ترکی معیشت اور پالیسیوں کو متاثر کیے ہوئے ہے وہ یہ تھی کہ ترکی سو سال تک اپنی سرزمین میں یا باہر کہیں بھی تیل کی دریافت کے لیے کھدائی نہیں کرے گا؛ بلکہ اپنی ضرورت کا سارا تیل درآمد کرے گا، دوسرے یہ کہ ترکی اپنی اہم ترین بحری گذرگاہ ’’باسفورس‘‘ سے گذرنے والے جہازوں سے کوئی ٹیکس نہیں لے گا۔

            اب ظاہر ہے کہ  یہ معاہدہ ۲۰۲۳ء میںجب اپنی مدت پوری کرکے بے اثر ہوجائے گا تو ترکی کو تیل کی کھدائی اور باسفورس پر ٹیکس لگانے جیسے اختیارات حاصل ہوجائیںگے اوراس کو اپنی معیشت کے حوالے دور رس فیصلے کرنے کا موقع ملے گا۔ ایسے اہم تاریخی وقت میں اقتدار جس کے ہاتھ میں ہوگا اس کے نظریات پالیسیوں پراثر انداز ہوںگے۔ اس لیے تمام اسلام پسند ذہن رکھنے والے لوگ دل سے اس بات کے متمنی تھے کہ اس الیکشن میں اردوغان فتح سے ہمکنار ہوجائیں، جنھوںنے گذشتہ عرصہ میں اپنے اسلامی کردار اور ترکی کی ترقی کے حوالے سے اپنے اقدامات کے نتیجہ میں دنیا کے اسلام پسندوں میں بے نظیر مقبولیت حاصل کرلی ہے؛ چنانچہ اگر ایک طرف مغربی طاقتیں کھلے طور پر اردوغان مخالف امیدواروں کی حمایت کررہی تھیں تو دوسری طرف اسلامی ذہن اردوغان کی کامیابی کا دل سے خواہاں تھا اور اس کے لیے دعائیں کررہا تھا، اللہ تعالیٰ نے یہ دعائیں سُن لیں اور رجب طیب اردوغان واضح اکثریت سے اگلے پانچ سالوں کے لیے ترکی کے صدر بن گئے۔

            اب آنے والا وقت ہے اور دنیا بھر کے اسلام پسندوں کی وہ بھاری توقعات ہیں جو عالم اسلام کے گذشتہ چند سالوں کے حالات سے قدم قدم پر مایوسی ہاتھ آنے کی وجہ سے انھوں نے صدر اردوغان سے وابستہ کی ہیں۔ بلاشبہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں، ان میں قوت فیصلہ بھی ہے اور قوت نفاذ بھی اور یقینا وہ ایک دینی مزاج کے انسان ہیں؛ لیکن ظاہر ہے، ان کے سامنے مشکلات ومسائل اور چیلنجوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہوا ہے، جو اُن کی راہ کو مشکل بناتا ہے، مزید یہ کہ ترکی کے حالیہ ناکام انقلاب کے بعد (جس کا الزام گولن تحریک کے سر ہے) اردوغان کے اقدامات اور ایک قدرے سخت گیر حکمراں کی ان کی شبیہ بھی کچھ لوگوں کی نظر میں ایک الگ حیثیت رکھتی ہے، ایسے میں دعاء ہی کی جاسکتی ہے کہ خداکرے یہ مسلم قائد، عالم اسلام کے ان تمام مسلمانوں کی توقعات پر پورا اترے جو ہر طرف سے مایوس ہوکر اس سے بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ جناب اردوغان آئندہ اپنی بصیرت سے اپنے آپ کو ’’ترک دانا‘‘ کے اس لقب کا مصداق ثابت کریں گے جو بعض بزرگ معاصر اہل قلم نے اُن کو دیا ہے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:102‏،  شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء

٭        ٭        ٭

Related Posts