قرآنی اعجاز کا ایک پہلو یعنی قرآن کی حفاظت واقعات کی روشنی میں

از: مولانا عتیق الرحمن اعظمی

آزاد ول جنوبی افریقہ

            اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔(البقرہ:۱۸۵)

            ترجمہ: ماہ رمضان جس میں  قرآن نازل ہوا۔

            علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں :  اُنزلَ أشرفُ الکُتب باَشرف اللُّغات علی اَشرف الرُّسل بسَفارتِ أَشرفِ الملائکۃِ وکان ذلکَ فی أشرفِ بِقاعِ الأَرض واُبتدیٔ انزالُہ فی أشرفِ شہورِ السَّنۃ وہو رمضان فکمُل من کلِّ الوجوہ۔ (ابن کثیر: سورہ یوسف:۲)

            یعنی قرآن میں شرافت کی سب جہتیں  جمع ہوگئی ہیں : کتاب بہترین، زبان سب سے اشرف عربی، رسول سب سے اشرف نبی آخرالزماں  ﷺ، بیچ میں  واسطہ سب سے اشرف فرشتہ جبرئیل، نزول کی ابتداء ہوئی سب سے بہترین زمین کے ٹکڑے مکہ مکرمہ میں  اور بہترین ماہ رمضان میں ۔۔۔۔ لیلۃ القدر میں  قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا پھر بتدریج ۲۳ سال میں  پیغمبر پر اترا، نیز اسی شب میں  پیغمبر پر اس کے نزول کی ابتداء ہوئی۔ (فوائد علامہ عثمانیؒ: سورۃ الدخان والقدر)

            حضرت عثمانؓ پوری رات عبادت کرتے اور ایک رکعت میں  پورا قرآن ختم کرلیتے۔ (اقامۃ الحجۃ علی انّ الاکثارَ فی التعبُّد لیس ببدعۃ للعلامہ عبد الحی اللکہنوی ص۶۰)

            حضرت تمیم داریؒ بھی ایک رکعت میں  ختم کرتے تھے۔ (ایضاً ۶۲)                                                          

            حضرت علیؓ ایک دن میں  آٹھ ختم کرلیتے۔ (ایضاً ۶۴)

            حضرت ثابت بُنانیؒ روزانہ ختم کرتے اورہمیشہ روزہ رکھتے۔ (ایضاً ۷۰)

            حضرت قتادہؒ سات راتوں  میں  ایک ختم کرتے اور رمضان شریف میں  تین راتوں  میں  ایک ختم کرتے اور رمضان کے اخیر عشرہ میں  ہر رات ایک ختم کرتے۔ (ایضاً ۷۱)

            حضرت سعید بن جبیرؒ دوراتوں  میں  ختم کرتے، ایک مرتبہ بیت اللہ کے اندر ایک رکعت میں  پورا قرآن ختم کرلیا۔ (ایضاً ۷۲)

            حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ روزانہ ایک ختم کرتے تھے اور رمضان شریف میں  دو ختم کرتے ایک دن میں  اور ایک رات میں  اور عبداللہ بن مبارکؒ کی روایت ہے کہ دو رکعات میں  پورا قرآن ختم کرلیا کرتے تھے۔ (ایضاً ۷۶)

            امام زہریؒ روزانہ ختم کرتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے اور ۲۱،۲۵،۲۷؍رمضان کو افطاری سے پہلے پہلے قرآن ختم کرلیتے تھے۔ (ایضاً ۹۰)

            حضرت امام شافعیؒ بھی روزانہ ایک قرآن ختم کرلیتے اور رمضان شریف میں  دو ختم کرتے اور یہ سب ختم نماز میں  ہوتے۔ (ایضاً ۹۱)

            شیخ ابوالعباس بن عطا روزانہ ایک ختم کرتے اور رمضان شریف میں  روزانہ تین ختم کرلیتے۔ (ایضاً ۹۴)

            واصل بصری اور وکیع بن جراح ہر رات ایک قرآن ختم کرتے۔ (ایضاً ۹۵)

            (حضرت وکیع امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ تھے)

            سُلیم تُجیبی ہر رات تین قرآن ختم کرلیتے تھے۔ (ایضاً حاشیہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ ۹۶)

            حسن بن صالح اور علی بن صالح اور ان کی والدہ تینوں  رات کو تین حصوں  میں  تقسیم کرکے عبادت کرتے اور ہر رات ایک قرآن ختم کرتے جب والدہ کا انتقال ہوا تو دونوں  بھائی مل کر ختم کرتے جب علیؒ کا بھی انتقال ہوگیا تو حسن اکیلے ہر رات قرآن ختم کرتے۔ (ایضاً حاشیہ ص۹۶)

            ابوبکر بن عیاش (شاگرد امام عاصمؒ) ۳۰ سال سے روزانہ ایک ختم قرآن کرتے تھے، ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! اس کمرہ میں  اللہ کی نافرمانی نہ کرنا؛ اس لیے کہ میں  نے اس میں  بارہ (۱۲) ہزار قرآن ختم کیے ہیں ، انتقال کے وقت آپ کی بیٹی رونے لگیں  تو آپ نے فرمایا: کیوں  روتی ہو؟ کیا تم ڈرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب دیں  گے؛ حالانکہ میں  نے اس گوشہ میں  ۲۴ ہزار ختم کیے ہیں ۔ (ایضاً حاشیہ ۹۷) (نیز دیکھیے مقدمہ علم القراء ات از حضرت مولانا فضل الرحمن اعظمی مدظلہ ص۸۳)

            جعفر بن حسن سنبھلی نے بہت سارے ختم کیے ہر ختم ایک ہی رکعت میں  ہوتا تھا،نماز میں  سجدہ کی حالت میں  انتقال فرمایا۔ (ایضاً ۹۸)

            حضرت معاویہؓ کے دورئہ خلافت میں  مصر کے قاضی سُلیم بن عِشر باوجود قاضی ہونے کے ہر رات چار قرآن ختم فرماتے تھے۔ (ایضاً ص۹۹)

            شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ نے ’’اقامۃ الحجۃ‘‘ کے حاشیہ میں  ص ۹۸ و ۹۹ پر امام نوویؒ کے حوالہ سے تفصیل بیان کی ہے کہ مختلف حضرات مختلف اوقات میں  ختم کرتے تھے، بہت سے حضرات ایک مہینہ میں  ختم فرماتے، کئی حضرات نے ہفتہ بھر میں  ختم کیا، اسی طرح تین دنوں  میں  یا ایک دن میں  ختم کرنے والے بھی بہت گزرے ہیں ، ایک ہی دن میں  دو ختم والے اور تین ختم والے بھی کئی حضرات گزرے ہیں  اور بعض حضرات نے ایک ہی دن میں  آٹھ ختم بھی کیے ہیں  اور فرمایا: سب سے زیادہ تعداد ختم  قرآن کے بارے میں  ہمارے علم کے مطابق یہی (آٹھ) ہے۔ (اقامۃ الحجۃ ص۹۸ والاذکار للنووی ص۵۹)

            وکان کثیرون یختِمون فی کل یوم ولیلۃ ختمۃ،  یعنی روزانہ قرآن ختم کرنے والے بہت گزرے ہیں ۔ (الاذکار، ص۵۹)

            حضرت امام بخاریؒ روزانہ تراویح کی ہر رکعات میں  بیس آیتیں  سناتے پھر اخیر شب میں  ایک تہائی سے نصف قرآن تک پڑھتے اور ہر تیسرے دن ختم کرتے اور دن میں  افطار کے قریب تک ایک ختم فرماتے۔ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ۴۸۱ بحوالہ ہدیۃ الدراری ص۳۵ از شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحمن زیدمجدہ)

            علامہ شامیؒ بھی رمضان شریف میں  روزانہ معانی میں  تدبر کے ساتھ قرآن ختم فرماتے،  وکان فی رمضان یختم کل لیلۃ ختما کاملا مع تدبر معانیہ۔  (قرۃ عیون الاختیار ص۹)

            حافظ کریم بخش نابینا تھے، گنگوہ کے رہنے والے تھے اور وہیں  پڑھاتے تھے، وہ ساڑھے تین گھنٹے میں  پورا قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۱؍۸۴)

            حضرت شمس الدین محمد بن احمد بصری عراقی م۸۱۶ھ روزانہ چار عمرے ادا فرماتے اور روزانہ قرآن ختم فرماتے۔ (اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ص۱۳۵)

            کان یعتمر فی کل یوم أربع عمر ویختم کل یوم ختمۃ۔ (شذرات الذہب ۷/۱۲۳)

            حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ گورنر کوفہ کے پاس حکم نامہ بھیجا کہ فوجیوں  کو قرآن پاک حفظ کرائیں  اور سال کے اخیر میں  ان کی فہرست میرے پاس بھیجیں ، انھوں  نے حفظ شروع کرادیا اور سال کے آخر میں  ان کی لسٹ بھیجی جس میں  تین سو حفاظ کے نام تھے، اسی طرح ابو موسیٰ اشعریؓ گورنر بصرہ کے پاس حکم نامہ بھیجا، ان کے پاس سے سال کے اخیر میں  دس ہزار حفاظ کی لسٹ آئی۔ (ملفوظات فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ۳/۵۹ طبع جدید کراچی)

            امام محمدؒ امام ابوحنفیہؒ کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو امام صاحب نے آپ کو قرآن شریف حفظ کرنے کا حکم دیا، امام محمدؒ ایک ہفتہ غائب رہے پھر آکر فرمایا پورا قرآن یاد کرلیا۔ (الجواہر المضیئۃ ۲/۵۲۸)

            شیخ عزالدین ابن جماعہ تیس علوم میں  مہارت رکھتے تھے، قرآن مجید کو ایک ماہ میں  یاد کرلیا تھا۔ (اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۹۹)

            ہشام کلبیؒ کا بیان ہے کہ میں  نے ایسا یاد کیا ہے کہ کسی نے نہ کیا ہوگا اور بھولا بھی ایسا کہ کبھی بھولا نہ ہوگا، فرماتے ہیں  کہ میرے چچا ہمیشہ مجھے قرآن یاد نہ کرنے پر ملامت کیا کرتے تھے، ایک دن مجھے بڑی غیرت آئی میں  ایک گھر میں  بیٹھ گیا اور قسم کھائی کہ جب تک کلام باری تعالیٰ حفظ نہ کرلوں گا اس گھر سے باہر نہ نکلوں گا؛ چنانچہ پورے تین دنوں  میں  قرآن کریم کو حفظ کرکے اپنی قسم پوری کرلی اور بھول جانے کا قصہ یہ ہے کہ میں  نے آئینہ میں  دیکھا کہ داڑھی لمبی ہوگئی ہے تو میں  نے اس کو چھوٹی کرنا چاہا ایک مشت سے زائد کو قطع کرنے کے لیے داڑھی مٹھی میں  لی اور بجائے نیچے کے اوپر قینچی چلادی؛ چنانچہ داڑھی صاف ہوگئی۔ (وفیات الاعیان (۶/۸۲) واسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۸۴ و شامی ۵/۲۶۱ یا ۶/۴۰۷ تاریخ خطیب بغدادی ۱۶/۶۸)

            اللہ تعالیٰ نے ایسا اس لیے کرایاکہ ان کے اندر اس سے کبر نہ پیدا ہوجائے کہ تین دن میں  قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۲/۲۵۳ طبع جدید کراچی)

            خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں  چار سال کا ایک بچہ لایا گیا جس نے قرآن مجید پڑھ لیا تھا، مسائل شرعی سے بھی واقف تھا؛ مگر جب بھوکا ہوتا تو بچوں  کی طرح روتا یعنی بچوں  کا خاصہ موجود تھا۔

            قاضی ابوعبداللہ اصبہانی نے فرمایا کہ میں  نے پانچ سال کی عمر میں  قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (مقدمہ ابن الصلاح ص۱۳۱، النوع ۲۴ واسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ص۲۰۲)

            نیز مولانا فضل حق خیرآبادیؒ (م۱۲۷۸ھ) نے صرف چار ماہ میں  قرآن حفظ کرلیا تھا۔ (ایضاً، ونزہۃ الخواطر ۷/۴۱۳)

            حضرت روح اللہ لاہوریؒ نے مکہ معظمہ میں  ماہ رمضان مبارک کے اندر بیس دنوں  میں  پورا قرآن حفظ کرلیا۔ (ایضاً ص۲۰۶)

            حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ جب حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو سمندر میں  جہاز پر رمضان شریف کا چاند نظر آگیا، رفقاکی خواہش ہوئی کہ تراویح پڑھی جائے؛ مگر کوئی حافظ نہیں  تھا لوگوں  کے اصرار پر ایک پارہ روزانہ دن میں  حفظ کرتے اور رات کو تراویح میں  سنادیا کرتے؛ اس طرح پورا قرآن (ایک ماہ میں ) یاد کرکے سنادیا۔ (اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۲۰۷)

            حضرت مولانا محمد اسحاق بردوانی (خلیفہ حضرت تھانویؒ) کودورانِ تدریس حفظ قرآن کا شوق پیداہوا اور آپ نے صرف سات دن اور چار گھنٹوں  میں  پورا قرآن مجید حفظ کرلیا، آپ کے حافظہ اور کرامت پر تمام شہر کانپور میں  ہلچل مچ گئی، حضرت حکیم الامتؒ (اپنے وعظ میں ) فرماتے تھے: ’’ہمارے ایک دوست مولانا محمداسحاق بردوانی کا انداز حفظ کلام مجید بھی معجزاتِ کلام الٰہی میں  سے ایک ہے‘‘۔ (کاروانِ تھانویؒ ص۱۰۴)

            شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خاں  صاحبؒ خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں  صاحبؒ وبانی جامعہ فاروقیہ کراچی روزانہ ایک پارہ دن میں  یاد کرتے اور رات کو تراویح میں  سنادیتے، ۲۷ یا ۲۹ دنوں  میں  پورا قرآن حفظ کرلیا۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۱/۸۵ وماہنامہ الخیر ص۲۴، صفر۱۴۲۶ھ)

            حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کو ان کے بچوں  کے حفظ کی تکمیل پر خیال آیا کہ بچوں  کو حافظ بناکر اپنے لیے اور اپنے اہلیہ کے لیے تاج کی فضیلت کا انتظام کرلیا؛ لیکن اپنے والدین کے لیے کچھ نہیں  کیا؛ چنانچہ اپنی مصروفیات کے باوجود تقریباً تین ماہ کی مدت میں  قرآن کریم حفظ کرلیا اس وقت حضرت مفتی صاحب کی عمر چھیالیس سال تھی۔ (انوارالرشید ۲۳۵ والخیر شمارہ صفر ۱۴۲۶ھ)

            ایک سات سالہ بچہ نے پانچ ماہ سے کم مدت میں  قرآن حفظ کرلیا، احمد پور شرقیہ ضلع بھاول پور کے ایک دینی ادارہ جامعۃ الحنیف الاسلامیہ کے سات سالہ طالب علم محمد ساجد (پیدائش ۲۸؍دسمبر ۱۹۹۶ء) نے ایک اگست ۲۰۰۳ء کو نورانی قاعدہ سے اپنی تعلیم شروع کی اور ۱۸؍جنوری ۲۰۰۴ء کو قرآن کریم مکمل حفظ کرلیا، اس دوران ۲۸ یوم کی تعطیلات ہوئیں ، اس حساب سے بچے کی تدریسی مدت چار ماہ ۲۳ دن بنتی ہے۔ (ماہنامہ الخیر ص۴، شمارہ ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ)

            مصر کے سید مصطفی کی عمر کل گیارہ (۱۱) برس کی ہے؛ لیکن خدادادصلاحیت، قوت حافظہ اور محنت شاقہ کی بدولت اس نے تین ماہ میں  قرآن مجید اور چھ مہینوں  میں  قراء ات عشرہ پر مشتمل مکمل قرآن حفظ کرلیا، یہ کارنامہ بے مثال ہی کہا جائے گا۔۔۔ الخ (ماہنامہ القاسم نوشہرہ پاکستان ص۲۲، محرم ۱۴۳۵ھ نومبر ۲۰۱۳ء)

            حضرت مولانا ظفراحمد عثمانیؒ فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ میرا خود دیکھا ہوا ہے جس زمانہ میں  میرا قیام مدرسہ راندیریہ رنگون میں  تھا تو ہندوستان سے ایک شخص رنگون آیا اس کے ساتھ اس کی لڑکی بھی تھی جس کی عمر چار سال سے زیادہ نہ تھی، اس نے کہا یہ لڑکی حافظۂ قرآن ہے اور بغیر پڑھے پڑھائے پیدائشی حافظہ ہے، آپ جہاں  سے چاہیں  ایک آیت پڑھ دیں  یہ اس سے آگے دس بارہ آیتیں  پڑھ دے گی؛ چنانچہ رنگون میں  بہت سے مقامات پر اس کا امتحان لیاگیا جیسا کہا تھا ویسا دیکھا گیا، رنگون کے لوگوں  نے اس لڑکی کو بہت انعام دیا، اس کے باپ کی آمدنی اسی لڑکی کے اس کمال ہی سے تھی، میں  نے اس سے کہا کہ اسے آمدنی کا ذریعہ نہ بنائو مجھے اندیشہ ہے کہ اس طرح یہ لڑکی زیادہ نہ جیے گی؛ چنانچہ میرا خیال صحیح نکلا، اگلے سال میں  نے سن لیا کہ اس بچی کا انتقال ہوگیا ہے۔ (الخیر ص۶، ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ بحوالہ اشرف البیان فی معجزات القرآن للشیخ ظفراحمد عثمانی)

            شاہ اسماعیل شہیدؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جب آدمی قرآن پاک کی تلاوت بکثرت کرتا رہتا ہے تو اس کا جلد پڑھنا آسان ہوجاتا ہے حتیٰ کہ گھنٹہ سوا گھنٹہ میں  قرآن شریف پورا کرلیتا ہے، کہا کچھ اس انداز سے جس سے سامعین یہ سمجھے کہ خود بھی اس پر قادر ہیں ، اس لیے آپ سے اتنی دیر میں  ختم کردینے کی درخواست کی آپ نے دہلی میں  جمنا کے کنارہ پر عصر بعد کا وعدہ فرمایا حسب وعدہ وقت مقررہ پر لوگ جمع ہوگئے تو پڑھنا شروع کیا اور مغرب سے پہلے ہی پورا کلام پاک ختم کردیا۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۳/۱۱۴ وحکایاتِ ا ولیاء (معنی) ص۶۷ حکایت نمبر ۵۳)

            شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا صاحبؒ ایک مکتوب میں  تحریر فرماتے ہیں : بندہ نے جب یہ رسالہ (فضائل رمضان) لکھا تھا اس وقت میں  نے اپنے دوستوں  سے (رمضان میں  ان کے قرآن پاک پڑھنے کے معمولات لکھنے کی) فرمائش کی تھی تو متعدد کے جوابات (پورے رمضان المبارک میں ) ساٹھ (۶۰) سے لے کر پینسٹھ (۶۵) (تک پڑھنے) کے آئے تھے، جن میں  ایک عزیز مولانا انعام الحسن بھی تھے اور میرے والد صاحبؒ تو قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد سے چھ ماہ تک ایک قرآن پاک روزانہ پڑھا کرتے تھے۔۔۔ محمد زکریا عفی عنہ ۱۷؍رمضان المبارک ۱۳۸۷ھ۔ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص۹۳ از مولانا محمد شاہد سہارنپوری مدظلہ)

            حضرت مولانا انعام الحسنؒ کے لڑکے مولانا زبیرالحسن صاحب نے سہارنپور قرآن سنایا، ۲۹؍رمضان میں  دہلی گئے، مولانا عشا کے بعد پہنچے، حضرت مولانا انعام الحسن نے فرمایا کیا ارادہ ہے؟ کہا جو آپ فرمائیں ، فرمایا: چلو مصلے پر؛ چنانچہ مولانا زبیرالحسن صاحب مصلے پر پہنچے اور صبح سحری کے قریب تک پورا قرآن پاک پورا کرکے مصلے سے ہٹے،اسی رات بقیہ رات میں  سارا قرآن پورا کرکے  ہٹے۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۳/۲۷۴)

            شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں : میری دادی صاحبہ نوراللہ مرقدہا حافظہ تھیں  اور بہت اچھا یاد تھا، سال بھر کا معمول خانگی مشاغل کھانے پکانے کے علاوہ ایک منزل روزانہ کا تھا اور رمضان میں  چالیس پارے روزانہ کا۔ (آپ بیتی ۱/۹۵ طبع جدید سہارنپور)

            حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ نے ایک طالب علم سے پوچھا جو قرآن پاک حفظ کرتے تھے کہ کتنا پارہ سناتے ہو؟ انھوں  نے بتایا کہ آدھا پارہ، اس پر فرمایا کہ میں  نے مدت دراز تک نصف قرآن ہر روز نماز میں  پڑھا اور رمضان میں  ہمیشہ ہر روز ایک قرآن پورا کرنے کا معمول ہے۔ (ملفوظات فقیہ الامت ۳/۳۴۲)

            علی متقی الہندی صاحب کنزالعمال نے پورا قرآن ایک صفحہ پرلکھ دیا ہر سطر چوتھائی پارہ کی تھی جو ایک عجوبۂ روزگار تھی۔ (نزہۃ الخواطر ۴/۲۱۶، اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ۱۹۸ والخیر ص۳۷ رمضان ۱۴۲۶ھ)

            شیخ جنید حصاری تین دن میں  پورا قرآن مع اعراب لکھ لیا کرتے تھے اور یہ کام درس وتدریس کے بعد فرصت کے وقت کیا کرتے تھے۔ (الخیر ایضاً)

            مولانا یوسف بنوریؒ نے فرمایا کہ میں  نے ان کا تذکرہ ابن خلکان میں  دیکھ لیا وہ ابوبکر حنفی گزرے ہیں  جنھوں  نے ایک ہزار جلد میں  تفسیر لکھی ہے، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے فرمایا جس قدر علوم الٰہیہ کی خدمت دین محمدی کے متبعین نے کی ہے اس قدر ساری امتوں  کی بھی مل کر نہ ہوگی(۱) اور پھرنہ صرف کماً بلکہ کیفاً بھی ایسا ہی ہے پانچ سو اور تین سو جلدوں  والے تو بہت ہوئے۔ (ماہنامہ محدث عصر ص۱۲ شمارہ اگست ۲۰۰۴ء)

            تفسیر حدائق ذات بہجۃ علامہ ابویوسف عبدالسلام قزوینی (م۴۸۳ھ) کی ہے تین سو جلدوں  میں  ہے، بعض نے کہا پانچ سو یا سات سو جلدوں  میں ہے، غرائب وعجائب کا مجموعہ ہے، آیت  واتَّبعوا ما تَتلوا الشَّیاطینُ علی مُلکِ سُلَیمان (بقرہ:۱۰۲) کی تفسیر میں  پوری ایک جلد ہے۔ (یتیمۃ البیان لمشکلات القرآن علامہ بنوریؒ ص۱۷ ونایاب تحفہ ۳۳ و محدثین کی قوت حفظ از مولانا ابوبکر غازی پوریؒ، ص۱۳۱)

            محمد ابن جریر طبریؒ نے ۳۰ ہزار ورق میں  تفسیر لکھی تھی پھر اس کا اختصار کرکے ۳ ہزار ورق میں  لکھی جو اس وقت ۳۰ جلدوں  میں  پائی جاتی ہے اندازہ یہ ہے کہ اصل تفسیر ۳ سو جلدوں  میں  ہوگی، ابوبکر ابن العربی نے ۸۰ ہزار ورق میں  تفسیر لکھی، ابو عبداللہ المقدسی الحنفی نے ۵۰ یا ۸۰ یا ۹۹ جلدوں  میں  لکھی (مختلف اقوال ہیں )، ابوبکر محمد الانصاری النقاش نے ۱۲ ہزار ورق میں  تفسیر لکھی۔ (اس تفسیر اور دیگر تفاسیر کے لیے دیکھیے یتیمۃ البیان ص۱۷-۱۸)

            علامہ فخرالدین رازیؒ نے فرمایاتھا کہ سورئہ فاتحہ سے ایک ہزار مسائل کا استخراج کیا جاسکتا ہے، کسی حاسد نے اعتراض کیا تو علامہ رازی نے سورئہ فاتحہ کی تفسیر لکھی پوری ایک جلد میں ۔ (دیکھیے تفسیر رازی ابتداء سورہ فاتحہ)

قرآن کی حفاظت

            امام قرطبی نے سند متصل کے ساتھ ایک واقعہ لکھا ہے کہ امیر المومنین مامون کی عادت تھی کہ کبھی کبھی اس کے دربار میں  علمی مسائل پر بحث ومباحثے اور مذاکرے ہوتے تھے جس میں  ہراہل علم کو آنے کی اجازت تھی، ایک مذاکرہ میں  ایک یہودی بھی آگیا جو شکل اور لباس وغیرہ کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتا تھا، پھر گفتگو کی تو وہ بھی فصیح وبلیغ اور عاقلانہ گفتگو تھی، جب مجلس ختم ہوگئی تو مامون نے اس کو بلاکر پوچھا کہ تم اسرائیلی ہو؟ اس نے اقرار کیا، مامون نے کہا اگر تم مسلمان ہوجائو تو ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے، اس نے جواب دیا میں  تو اپنے اوراپنے آبا واجداد کے دین کو نہیں  چھوڑتا، بات ختم ہوگئی، یہ شخص چلاگیا، پھر ایک سال کے بعد یہی شخص مسلمان ہوکر آیا اور مجلس مذاکرہ میں  فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر اور عمدہ تحقیقات پیش کیں ، مجلس ختم ہونے کے بعد مامون نے اس کو بلاکر کہا کہ تم وہی شخص ہو جو سال گزشتہ آئے تھے؟ جواب دیا، ہاں  وہی ہوں ، مامون نے پوچھا اس وقت تو تم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا پھر اب مسلمان ہونے کا سبب کیا ہوا؟ اس نے کہا میں  یہاں  سے لوٹا تو میں  نے موجودہ مذاہب کی تحقیق کرنے کا ارادہ کیا، میں  ایک خطاط اور خوشنویس آدمی ہوں ، کتابیں  لکھ کر فروخت کرتا ہوں ، میں  نے امتحان کے لیے تورات کے تین نسخے کتابت کیے جن میں  بہت جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کردی اور یہ نسخے لے کر میں  کنیسہ میں  پہونچا، یہودیوں  نے بڑی رغبت سے اس کو خرید لیا، پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کمی بیشی کے ساتھ کتابت کرکے نصاریٰ کے عبادت خانے میں  لے گیا وہاں  بھی عیسائیوں  نے بڑی قدر ومنزلت کے ساتھ یہ نسخے مجھ سے خرید لیے، پھر یہی کام میں نے قرآن کے ساتھ کیا اس کے بھی تین نسخے عمدہ کتابت کیے جن میں  اپنی طرف سے کمی بیشی تھی ان کو لے کر جب میں  فروخت کرنے کے لیے نکلا تو جس کے پاس لے گیا، اس نے دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے مجھے واپس کردیا، اس واقعہ سے میں  نے یہ سبق لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے؛ اس لیے میں  مسلمان ہوگیا۔ (معارف القرآن مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ص۵/۲۸۲ سورۃ الحجر:۹، از قرطبی)

فصاحت وبلاغت

            علامہ طنطاویؒ نے اپنی تفسیر’’الجواہر فی تفسیر القرآن‘‘ میں  اپنے دوست کا ایک واقعہ نقل کیا ہے ان کے دوست نے فرمایا کہ میں  جرمنی میں  تھا، وہاں  کے چند عربی علوم سے دلچسپی رکھنے والے فضلاء کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ان میں  سے ایک نے پوچھا کیا تم بھی عام مسلمانوں  کی طرح قرآن کے بارے میں  یہ خیال رکھتے ہو کہ قرآن عربیت وفصاحت وبلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے؟ میں  نے کہا ہاں  میں  ایمان رکھتا ہوں  اس میں  تعجب کی کیا بات ہے؟ یہ تو ایک علمی مسئلہ ہے اس کا امتحان ابھی ہوسکتا ہے میں  ایک بات کہتاہوں  آپ اس کو فصیح عربی میں  ادا کریں ، وہ یہ ہے: جہنم بے حد وسیع ہے، ان سب نے مل کر ۱۵-۲۰ جملے بنائے مثلاً  ان جہنم لوسیعۃ، ان جہنم لاوسع مما تظنون، ان سعۃ جہنم لا یتصورہا عقل انسان، کل ما خطر ببالک فی سعۃ جہنم فانہا لارحب منہ واوسع وغیرہ، میں  نے کہا اور محنت کیجیے، انھوں  نے کہا ہم اپنی محنت اور فکر ختم کرچکے، میں  نے کہا قرآن نے جو بیان کیا ہے اس کو سنیے:  یوم نقول لجہنم ہل امتلئت وتقول ہل من مزید (ق:۳۰) چونکہ وہ عربی داں  تھے، اچھل پڑے اور اپنی رانوں  پر ہاتھ دے مارے اور اقرار کیا کہ ہم عاجز رہے۔ (تفسیر الجواہر للطنطاوی ۲۳/۱۰۷)

قرآن کی جامعیت

            ہارون رشید کے پاس ایک نصرانی طبیب علاج کے لیے رہتا، تھا اس نے علی بن حسین بن واقد سے کہا کہ تمہاری کتاب قرآن میں  علم طب کا کوئی حصہ نہیں  ہے؛ حالانکہ دنیا میں  دوہی علم ہیں  ایک علم ادیان دوسرا علم ابدان جس کا نام طب ہے، علی بن حسین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے فن طب اور حکمت کو آدھی آیت میں  جمع کردیا ہے، وہ ہے  کُلوا وشرَبوا ولا تُسرِفُوا (اعراف:۳۱) پھر اس نے پوچھا کیا تمہارے رسول کے کلام میں  بھی طب کے متعلق کچھ ہے، انھوں  نے فرمایا:  رسول اللہ ﷺ نے چند کلمات میں  سارے فن طب کو جمع کردیا، فرمایا:  المِعدۃُ بیت الدَّاء والحمیۃُ رأسُ الدواء واَعطِ کلَّ بدن ما عوَّدتَہ(۲) معدہ بیماریوں  کا گھر ہے، مضر چیزوں  سے پرہیز ہر دوا کی اصل ہے، ہر بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عادی ہے، نصرانی طبیب نے سن کر کہا کہ تمہاری کتاب اور تمہارے رسول نے جالینوس کے لیے کوئی طب نہیں  چھوڑی۔ (معارف القرآن ۳/۵۴۷، کشاف ۲/۹۷، اعراف ۳۱)

            ملیشیا میں  منعقد ہونے والی کتابوں کی نمائش میں  پانچ سو (۵۰۰) سالہ قدیم ایک میٹر لمبا نسخہ قرآنی متعارف کرایاگیا، نیز ایک نصف میٹر لمبا کھجور کے پتوں  پر قلم بندقرآنی نسخہ بھی دکھایا گیا، یہ قرآن کی عظمت اور مسلمانوں  کی اس کتاب کے ساتھ وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔ (الفاروق کراچی، ص۲۹، رجب ۱۴۲۸ھ)

            حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں  کہ ہینڈن ایک ندی ہے قریب مدرسہ شاہ عبدالرحیم دہلوی کے، ایک دفعہ اُس ندی کی ایک ڈہانگ گری، اس میں  سے ایک لاش جوں  کی توں  نکلی جس کا کفن میلا تھا اور وہاں  سے بہہ کر عین دھار میں  ٹھہرگئی، کچھ دیر بعد دوسری ڈھانگ گری اوراس میں  سے بھی ایک لاش نکلی جس کا کفن بالکل صاف تھا، کہیں  داغ دھبہ نہ تھا، وہ پہلی لاش سے مل کر دھاری دار چلدی جیسے کوئی کسی کا منتظر ہو اور دونوں  مل کر روانہ ہوجائیں ، لوگوں  نے ان لاشوں  کی تحقیقات کرنی شروع کردی، جستجوکے بعد ایک بڑھیا نے بتایا کہ یہ دونوں  قرآن کے حافظ تھے، اس کے بعد حضرت امام ربانی نے ارشاد فرمایا: اب قیاس جاتا ہے کہ جس کا کفن صاف تھا وہ باوضو تلاوت کرتا ہوگا اور دوسرا بے وضو۔۔۔ الخ (تذکرۃ الرشید ۲/۳۱۵ طبع جدید دیوبند)

            ایسے بے شمار واقعات تاریخ میں  ملیں گے، ان واقعات سے قرآن کی حقانیت نیز دین متین کی حقانیت اوراس کی حفاظت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے، اسی طرح کے واقعات محدثین عظام، فقہاء کرام اور دیگر علمائِ اسلام کے بھی ملتے ہیں ، حق فرمایا حق تعالیٰ نے:  اِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَ واِنّا لہٗ لَحافِظُون۔

وصلّی اللّٰہ تعالی علی خَیرِ خلقِہ محمدٍ وآلِہٖ وأصحابِہ وأتباعِہ أجمعین والحمد للّٰہِ رب العٰلَمین۔

٭        ٭        ٭

حواشی

(٭)        اس مضمون کا مقصد قرآن کی عظمت کو بیان کرنا ہے کسی انسان کو حد سے بڑھانا نہیں ، قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی ذات وصفات عقل سے ماورا ہے، قرآن معجزہ ہے، معجزہ خلافِ عقل ہی ہوتا ہے۔

                یہ مضمون ماہنامہ الخیر ملتان میں  شائع ہوا۔ دیکھیے الخیر رمضان المبارک ۱۴۲۸ھ ص۱۳، ومحرم ۱۴۲۹ھ ، ص۳۹۔

(۱)           ابوالفیض فیضی ہندی (م۱۰۰۴ھ) نے دو جلدوں  میں  تفسیر لکھی جس میں کوئی نقطہ والا حرف استعمال نہیں  ہوا، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:  العلومُ کلُّہا صُداعٌ إلا علمُ کلامِ اللّٰہِ وکلامُ اللّٰہ لا عدّ لمَحامِدہ ولاحدّ لِمَکارمِہ ولا حصرَ لرُسُومِہ ولا اِحصائَ لعُلومِہ وما علِم علومَ کلامِ اللّٰہِ کلہا احدٌ إلا اللّٰہُ ورسولُہ وأولُو العلمِ ما علِموا إلا عدادًا۔ (اعجاز القرآن علامہ عثمانیؒ ۵۹)

(۲)          تنبیہ: یہ حدیث محدثین کے نزدیک ثابت نہیں  ہے؛ بلکہ یہ اطبا کا قول ہے۔ اس کے لیے دیکھیے: تخریج احادیث الکشاف للزیلعیؒ ۱/۴۵۹ ح۴۶۲)، والمقاصد الحسنہ للسخاویؒ ص۴۴۶ ح۱۰۳۳، و کشف الخفاء للعجلونیؒ ص۲۱۴ ح۲۳۲۰، الموضوعات الکبری (الاسرار المرفوعہ) للقاریؒ ص۳۰۹ ح۴۴۲، وغیرہ۔

                بلکہ اس قصہ کے بارے میں  بھی حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :  لم أجد لہذہ الحکایۃ اسنادًا۔ (الکافی الشاف علی الکشاف ۲/۹۶) اور حافظ زیلعی بھی فرماتے ہیں : غریب جدا۔ (تخریج ۱/۴۵۹)

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts