حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            رمضان المبارک اپنی تمام تربرکتوں  کے ساتھ سایہ فگن ہے، حسب معمول، استقبالِ رمضان کی تمام ظاہری تیاریاں  مکمل ہیں ، سحروافطار کے لوازمات کا اہتمام بھی ہماری روایت کا حصہ بن چکا ہے اور حسب گنجائش اس میں  کسی کوتاہی کے ہم قائل نہیں  ہیں ۔ مبارک بادی کے سلسلے بھی دراز ہوتے جارہے ہیں ، پہلے رمضان کی مبارک باد کا معمول تھا، اب تو ہر روزہ کی مبارک باد کا فعل عبث بھی شروع ہوچکا ہے۔ (جیسے کچھ لوگوں  نے ثو اب سمجھ کر جمعہ کی مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع کرکے ایک نئی بدعت کا اضافہ کردیا ہے)۔ ان ظاہری رسوم اور رواجی کاموں  کے درمیان رمضان اور اس کے روزوں  کی حقیقی روح شاید کہیں  گم ہوکر رہ گئی ہے۔

            حقیقت یہ ہے کہ اعمال کی حقیقی روح اور بنیادی مقاصد سے غفلت اور رواجی کاموں  کی اہمیت کسی قوم کے زوال کی علامات کا حصہ ہے اور ہم اس کا بری طرح شکار ہورہے ہیں ، اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اس طرزعمل کو چھوڑ کر اصل مقاصد کا احساس و ادراک پیدا کریں  اور قرآن وسنت کی ہدایات کے مطابق اپنے عمل کا جائزہ لیتے رہیں  اور اپنی زندگیوں  میں  تبدیلی لائیں ۔

            قرآن کریم میں  روزے کا مقصد انسانی زندگی کی اس عظیم تبدیلی کو قرار دیاگیا ہے جسے ہم تقویٰ کے نام سے جانتے ہیں  ایک انسان جب اپنی غفلت کو چھوڑ کر اور اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر، اللہ کے خوف کے تحت گناہوں  سے پاک زندگی گذارنے کی کوشش کرتا ہے تو اس تبدیلی کا نام تقویٰ ہے اور اللہ رب العزت کی مرضی یہ ہے کہ ہرمسلمان تقویٰ کی زندگی اختیار کرے، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ روزہ تمام مسلمانوں  پر فرض کیاگیا ہے اور اس کا مقصد اور فائدہ تقویٰ کا حصول بتلایاگیا ہے، معلوم ہوا کہ تمام مسلمانوں  کو متقی بنانا، اللہ تعالیٰ کی پسند اور منشا ہے اور یہ منشا حاصل ہونے میں  روزہ بہترین وسیلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

            روزے سے تقویٰ کس طرح حاصل ہوسکتا ہے اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آدمی روزے میں  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چیزوں  کو چھوڑ دیتا ہے جو عام حالات میں  اس کے لیے حلال اور جائز ہیں  تو ایک ماہ کے اس عمل سے اس کو اس بات کی عادت پڑ جانی چاہیے کہ باقی گیارہ مہینوں  میں  وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں  اور ممنوع اعمال سے پرہیز کرے، یعنی جس طرح وہ روزے کی حالت میں  چند امور کے سلسلے میں  اللہ تعالیٰ کے حکم کی پوری پابندی کرتا ہے۔ اسی طرح وہ ہر وقت اور ہرحال میں  اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بنالے۔ جس آدمی کا ایسا مزاج بن جاتا ہے اس کو قرآن وحدیث کی زبان میں  متقی کہا جاتا ہے۔

            متقی بننے یا تقویٰ اختیار کرنے کی بات آتی ہے تو ایک عام مسلمان دو طرح کی غلط فہمی میں  مبتلا نظر آتا ہے ایک تو یہ کہ وہ تقویٰ کو کچھ خاص مسلمانوں  یا بزرگوں  کے اختیار کرنے کی چیز سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو لازمی طور پر اس کا مخاطب نہیں  گردانتا۔ اس سلسلے میں  تو یہ عرض ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہر مسلمان کو ہے اور اللہ کی نظر میں  پسندیدہ مسلمان وہی ہے جو متقی ہو اور جو شخص تقویٰ کی صفت سے محروم ہے اس کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسی صورت میں  جہنم سے نجات یقینی نہیں  ہے یعنی غیرمتقی آدمی اس یقینی خطرے سے دوچار ہے کہ ایمان کی بنیاد پر جنت میں  جانے سے پہلے اسے گناہوں  سے پاک کرنے کے لیے ناپسندیدہ جگہ میں  ڈالا جائے جس کی ہمت کسی بھی انسان میں  نہیں  ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ تقویٰ اختیار کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی فکرکرے۔

            دوسری غلط فہمی تقویٰ کا مفہوم سمجھنے میں  ہوتی ہے کہ متقی وہ ہے جس سے کبھی کوئی گناہ صادر نہ ہو اور اگر کبھی گناہ ہوگیا تو پھر آدمی تقویٰ سے خارج اور متقی کے لقب سے محروم ہوگیا۔ حالانکہ قرآن وحدیث میں  تقویٰ کا یہ مفہوم نہیں  بیان کیاگیا ہے؛ بلکہ تقویٰ کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرکر زندگی گذارے اور گناہوں  سے پرہیز کی مکمل کوشش کرے اور اگر خدانخواستہ کوئی گناہ ہوجائے تو اس سے توبہ کرنے میں  تاخیر نہ کرے۔ گویا گناہوں  سے مکمل پرہیز کی کوشش کرنا اصل تقویٰ ہے؛ لیکن اگر کوئی گناہ ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ آدمی فوراً متقیوں  کی فہرست سے ہمیشہ کے لیے خارج ہوگیا؛ بلکہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو وہ دوبارہ متقی کی صفت پالیتا ہے، ہاں  اگر توبہ کی طرف توجہ نہ ہو اور گناہوں  کا سلسلہ جاری رہے تو یہ تقویٰ سے کھلی محرومی ہے۔

            اس لیے ہمیں  چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں  تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کریں  اور یقینا رمضان اور اس کے روزے اس سلسلے میں  سب سے بڑے معاون ہیں  بشرطیکہ رمضان کو رمضان کی طرح سے گذارا جائے۔

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی رحلت

            ۲۷؍رجب ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۴؍اپریل ۲۰۱۸ء بروز ہفتہ بوقت ظہر، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صدرمہتمم دارالعلوم (وقف) دیوبند بھی جوار رحمت حق میں  پیوست ہوگئے۔  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

            حضرت مرحوم، اس وقت پوری جماعت دیوبند میں  سب سے سینئر شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے، انھوں  نے جن اسلاف کی آنکھیں  دیکھی تھیں  اُن کا دیکھنے والا اب شاید کوئی باقی نہیں  ہے اس اعتبار سے ان پر یہ شعر بجا طور پر صادق آتا ہے کہ۔؎

داغ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اِک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

            حضرت مرحوم کو اللہ رب العزت نے جو نسبتیں  عطا فرمائی تھیں ، اُن میں  بھی اس وقت ان کا کوئی ہمسر اور شریک وسہیم نہیں  ہے۔ وہ حجۃ الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نوراللہ مرقدہ کے پڑپوتے اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ کے صاحبزادے ہونے کے علاوہ اس وقت طبقۂ دیوبند کے بہت سے اکابر علماء کے استاذ تھے۔ انھوں  نے فراغت کے فوراً بعد، اب سے تقریباً ستر سال قبل دارالعلوم دیوبند میں  تدریس کا اغاز کیا تھا، اس طرح اُن کے ابتدائی دور کے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد دنیا سے رخصت ہوچکی ہے، خود راقم سطور کے والد حضرت مولانا سعید احمد صاحب سہسپوری رحمۃ اللہ علیہ (فراغت ۱۹۵۵ء وفات ۱۹۸۵ء) بھی حضرت مرحوم کے تلامذہ میں  سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرحوم کی عمر میں  خوب برکت عطا فرمائی اور وہ  طُوبیٰ لمن طال عمرہ وحسن عملہ  کا مصداق بن کر دنیا سے تشریف لے گئے۔

            حضرت مولانا قدس سرہ کی شخصیت ایک جامع و ہمہ گیر شخصیت تھی، وہ ایک اعلیٰ پائے کے مدرس واستاذ تھے جن کو درس نظامی کی تقریباً تمام اہم کتابیں  بشمول بخاری شریف پڑھانے کا موقع ملا۔ تقریر کے میدان میں  انھوں  نے اپنے عالی مقام والد گرامی سے وہ میراث پائی کہ اُن کو بجا طور پر خطیب الاسلام کے لقب سے یادکیاگیا، تحریر ونگارش کے باب میں  وہ اپنے ایک خاص علمی اسلوب کے حامل تھے جس میں  اُن کے قلم سے متعدد بلند پایہ تصانیف وجود میں  آئیں ، ان سب خصوصیات کے ساتھ اُن کو اپنے بزرگوں  سے حکمت قاسمیہ اور علوم قاسمیہ سے خصوصی مناسبت میراث میں  ملی تھی جس کا ظہور ان کی تحریر وتقریر میں  بکثرت ہوتا تھا۔

            ان تمام تر علمی کمالات کے پہلو بہ پہلو اُن کے ذاتی محاسن واخلاق بھی اُن کی شخصیت میں  چارچاند لگاتے تھے، قدرت نے اُن کو حسن اخلاق، ذہانت وظرافت اور حسن تکلم کی دولت سے نوازا تھا، طبیعت میں  نرمی تھی، زبان کے استعمال میں  بہت محتاط اور پابند حدود تھے، حافظہ اچھا تھا، بیان میں  تسلسل تھا، اُن سے مل کر آدمی ایک عجیب سعادت ومسرت محسوس کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے جانے سے ایک عظیم شخصیت اور ایک بزرگ خاندان کے جانے کا سا صدمہ، جماعتِ دیوبند کا ہر فرد محسوس کررہا ہے۔

            دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت مرحوم کو اُن کے نامور آباء واجداد کے ہمراہ اپنے قرب خاص نوازے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور ہم سب کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts