از:مولانا دبیر احمد قاسمی

مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، دربھنگہ

وحدتِ بنی آدم

            اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا، حضرت آدم سے حوا کی تخلیق ہوئی اور ان دونوں  کے ذریعہ تمام روئے زمین میں  انسانوں  کو پھیلادیاگیا۔ قرآن کہتا ہے:  ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء‘‘(النساء:۱)  اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں  سے بہت سے مرد وعورت زمین میں  پھیلادیے۔

            قرآن کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ تمام انسانوں  کی اصل ایک ہے، سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ۔

            انسانوں  کے درمیان رنگ ونسل، زبان وبیان، قبیلوں اور خاندانوں  کا فرق اللہ کی قدرت کی نشانیوں  میں  سے ہے ’’وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ‘‘ (الروم:۲۲)  تمہاری زبانوں  اور رنگوں  کا اختلاف خدا کی قدرت کی نشانیوں  میں  سے ہے اس میں  جہاں  والوں  کے لیے عبرت کی بہت سی نشانیاں  ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ جس کی رنگت چاہے سفید کردے اور جس کو چاہے سیاہ فام بنائے  ’’یصور في الارحام کیف یشاء‘‘ جس کو جس خاندان میں  چاہے پیدا کرتے، کسی کو دولت وثروت کے ذخائر دے دے اور کسی نانِ جویں  کا محتاج بنادے، یہ سب اس کی قوت وطاقت کے کرشمے ہیں ، اس کی قدرت کی نشانیاں  ہیں ، یہ اس لیے ہیں  کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے، اس لیے نہیں  کہ اس کی بنیاد پر بڑائی اور برتری کا اظہار کیاجائے۔

            انسانوں  کے درمیان جغرافیائی اختلاف ہو یا رنگ وروپ اورنسل ونسب کا اختلاف یہ باہمی تعارف اور شناخت کا ذریعہ ہے۔

            باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

        ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ‘‘ (الحجرات:۱۳)

            ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں  مختلف قوموں  اور قبیلوں  میں  کردیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک تم میں  خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی شخص ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو۔

            عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے، خدا کے نزدیک وہی شخص سب سے زیادہ معزز اور بزرگ ہے جس میں  خدا کا خوف سب سے زیادہ ہو۔

            جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  ألا لافضل لعربي علی عجمي، ولا لأحمر علی أسود، ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی۔ (مسند أحمد:۵/۴۱۱)  ترجمہ: سنو اے لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی سفید کو کسی سیاہ پر، یا کسی سیاہ کو کسی سفید پر سوائے تقویٰ کے کسی اور بنیاد پر فضیلت نہیں  ہے۔

مذہبی اختلاف اور اسلام

            انسانوں  کے درمیان رنگ وروپ، نسل وخاندان اور زبان وبیان کے اختلاف کے ساتھ دین ومذہب اور فکر وعقیدے کا اختلاف بھی نمایاں  طور پر موجود ہے۔ مذہبی تنوع اور تہذیبی اختلاف اس دنیا کی ایسی حقیقت ہے، جس کا انکار مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے، یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔ قرآن کہتا ہے: ’’وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ‘‘ (سورۃ الھود:۱۱۸) اگر تیرا رب چاہتا تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔

            مذہبی اختلاف کو اسلام حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ دیگر مذاہب، عقائد اور نظریات کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کا رویہ دیگر مذاہب کے ساتھ معاندانہ نہیں  ہے۔ وہ ایک ایسے انسانی معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے جس میں  ہر مذہب کے ماننے والوں  کو یکساں  مذہبی اور شہری حقوق حاصل ہوں ؛ لیکن اس کے برخلاف اسلام کے مخالفین کی طرف سے ہمیشہ ان پروپیگنڈوں  کو عام کیاگیا کہ اسلام ایک تنگ نظر مذہب ہے، وہ آدمیت کے احترام اور انسان کی تکریم کا قائل نہیں  ہے، وہ جبر وتشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ سخت تنقید کا ہے، وہ مذہبی آزادی کا مخالف ہے۔ یورپ نے اس سلسلے میں  خاص طور پر پہل کی اور نام نہاد مغربی مفکرین کی ایک ایسی جماعت سامنے لائی گئی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کیا جائے، اس کی غلط تعبیر وتشریح کے ذریعے اسلام کے خلاف غلط فہمیوں  کا جال بچھایا جائے اور دنیا کو اسلام سے ہر طرح روکنے کی کوشش کی جائے۔

            آئندہ صفحات میں  ہم اختصار کے ساتھ اس کا جائزہ لیں گے کہ اسلام غیرمسلموں  کے ساتھ کس حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے، اسلام نے غیرمسلموں  کو کیا حقوق دیے ہیں ۔ اسلام میں  انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں  کی کیا اہمیت ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جس میں  مسلمانوں  اور غیرمسلموں  کے تعلقات مذہبی رواداری، نیکی ورحمدلی اور عدل وانصاف کی بنیاد پر استوار ہوں ۔ اسلام بلا امتیاز مذہب تمام انسانوں  کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نے غیرمسلموں  کو وہ تمام بنیادی حقوق دیے ہیں  جو حقوق اس نے مسلمانوں  کو دیے ہیں ۔

انسان کی تکریم

            مخلوقاتِ عالم میں  انسان تخلیق قدرت کا شاہکار ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو بے شمار ظاہری اور معنوی خوبیوں  سے آراستہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے سب سے خوبصورت سانچے میں  اس کی تخلیق فرمائی ’’لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم‘‘  اور علم، عقل، سمع و بصر اور تدبر وادراک جیسی بیش بہا نعمتوں  سے اس کو مالامال کیا۔ اللہ نے انسان کو ایک مکرم ومحترم وجود بنایا ہے اور مختلف وجوہ سے دوسری مخلوقات پر اس کو فضیلت عطا کی ہے۔ قرآن کہتا ہے:  ’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً‘‘ (الاسراء:۷۰)  ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت بخشی، انھیں  خشکی میں  اور دریا میں  سواری دی ان کو پاکیزہ ونفیس رزق عطا کیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو نمایاں  فضیلت وفوقیت دی۔

            اسلام نے مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر ہر انسان کو محترم قرار دیا ہے خواہ اس کا تعلق کسی دین اور عقیدے سے ہو۔ انسان جس طرح اپنی زندگی میں  محترم ہے، اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کا احترام ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزررہا تھا، آپؐ کھڑے ہوگئے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جنازہ یہودی کاہے، آپ نے فرمایا:  ’’أو لیست نفسا  کیا یہ انسان نہیں  ہے؟ (ابوداؤد باب القیام للجنازۃ)  غزوئہ احزاب کے موقع پر مشرکین میں  سے ایک شخص مارا گیا تو مشرکین نے قیمت دے کر اس کی لاش لینا چاہی، آپ نے بغیرقیمت لیے لاش ان کو سونپ دی؛ کیونکہ انسان کی خریدوفروخت اس کی عزت وتکریم کے منافی ہے،  اسلام کی نظر میں  انسانی جان کس قدر محترم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بے قصور انسان کا قتل اسلام کے نزدیک تمام انسانوں  کے قتل کے مرادف ہے اور کسی ایک انسان کی زندگی بچانا ساری انسانیت کی نجات ہے۔

            اسلام سے پہلے جنگی قوانین کا کوئی تصور نہیں  تھا، فاتح قومیں  مفتوح اقوام پر ہر طرح کا ستم روا رکھتی تھیں ، مقتولوں  کی لاش کا مثلہ کیا جاتا تھا، انسانی جان کی حرمت کو ہر طرح پامال کیاجاتا تھا، اسلام نے جنگی قوانین کی تہذیب کی، اس نے بچوں ، بوڑھوں  اور عورتوں  کے قتل سے منع کیا، کمزوروں  پر ہاتھ اٹھانے، مذہبی پیشوائوں  کو اپنی تلواروں  کا نشانہ بنانے سے روکا اس نے صرف برسرِ پیکار دشمنوں ، ظلم وزیادتی اور جبر واستبداد کے خلاف قتال کی اجازت دی ہے۔

            اس لیے معاشرے کے ہر ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسان کی تکریم اور انسانی جان کا احترام کرے۔ ظلم وجبر اور تشدد سے بچے، ناحق انسانوں  کا خون نہ بہائے اور دوسروں  کی عزت وآبرو کو اپنی عزت اور آبرو سمجھے۔

مذہبی آزادی کا حق

            ہرانسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے عقیدے اور ضمیر کی مکمل آزادی حاصل ہو، زور زبردستی سے اس کو کسی نظریہ کے ماننے پر مجبور نہ کیا جائے عقیدہ اور مذہب ایسی چیز نہیں  ہے کہ اس سلسلہ میں  کسی قسم کا جبر اور دبائو ڈالا جاسکے۔

            قرآن کہتا ہے:

            ’’لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۵۶)۔ اسلام میں  کوئی جبر اور قہر نہیں  ہے ہدایت صاف اور واضح ہے اور گمراہی سے الگ تھلگ ہے۔ دوسری جگہ قرآن کہتا ہے:  ’’أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ (سورہ یونس:۹۹)  کیا آپ لوگوں  کو مجبورکریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں ۔

            حق کا راستہ کھلا ہوا ہے اور ضلالت وگمرہی بھی واضح ہوچکی ہے۔ جن کو اللہ نے بصیرت کا نور اور قلب ونظر کی سلامتی عطا کی ہے نورحق ان کے دل میں  خود بخود جاگزیں  ہوجاتا ہے اور گناہوں  کی مزاولت اور غفلت وانکار کی وجہ سے جن کا قلب زنگ آلود ہوچکا ہوتاہے، ہدایت کی شمع روشن سے اس کے باطن کی سیاہی زائل نہیں  ہوتی۔

            ’’فَمَن یُرِدِ اللّہُ أَن یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن یُرِدْ أَن یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَاء‘‘ (الأنعام:۱۲۵)

            اللہ جسے ہدایت دینا چاہتے ہیں ، اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں  اور جس کو ہدایت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ، اس کے سینے کو خوب تنگ کردیتے ہیں  گویا کہ وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہے؛ اس لیے ایک داعی کی ذمہ داری بھی فقط اتنی ہے کہ وہ حکمت وبصیرت اور اخلاص ودل سوزی کے ساتھ دین کی دعوت دے؛ کیونکہ ہدایت دینا اس کے اختیار میں  نہیں  ہے۔

            ’’إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَائُ‘‘ (القصص:۵۶)

            اے رسول! آپ جس کو چاہیں  اسے ہدایت نہیں  دے سکتے؛ بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

            قرآن صاف اعلان کرتا ہے:

            ’’وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَاء  فَلْیُؤْمِن وَمَن شَاء  فَلْیَکْفُرْ‘‘ (الکہف:۲۹)

            اے نبی! آپ فرمادیجیے: تمہارے پروردگار کی طرف سے دین حق آچکا ہے پھر جو چاہے مانے جو چاہے نہ مانے۔

            گوکہ اس آیت کا انداز تہدید کا ہے؛ لیکن قرآن وسنت کی متعدد نصوص اور حضراتِ صحابہؓ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے مذہبی معاملات میں  کسی قسم کے جبر کو روا نہیں  رکھا۔

            تاریخ طبری کا یہ اقتباس پڑھیے، درج ذیل اقتباس دراصل اس معاہدہ کا ایک جزہے جو حضرت فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں  اہل ایلیا (قدس) کے ساتھ کیاگیا:

            ’’اللہ کے بندے عمر امیرالمومنین نے قدس کے باشندوں  کو امان دی، جان ومال کی امان، ان کے کلیسائوں  اور صلیبوں  اور دین کے تحفظ کی ضمانت، ان کے کلیسائوں  میں  کوئی دخل انداز نہیں  ہوگا۔ نہ انھیں  گرایا اور نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیب لی جائے گی، نہ ان کا کوئی مال چھینا جائے گا، نہ مذہب کے سلسلہ میں  ان پر کوئی جبر کیا جائے گا، نہ ان میں  سے کسی کو اذیت دی جائے گی، نہ ایلیا میں  کوئی یہودی قیام کرے گا۔‘‘ (تاریخ طبری ج۳ ص۶۰۹)

            مسلم خلفاء اور مسلم حکمرانوں  نے اپنی غیرمسلم رعایا کے ساتھ جس عدل ومساوات اور انصاف ورواداری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی ایک جھلک اس اقتباس میں  دیکھی جاسکتی ہے۔

            اسلام نے غیرمسلموں  کو صرف مذہبی حقوق نہیں دیے ہیں ؛ بلکہ ان کی عبادت گاہوں  کے تحفظ واحترام اور ان کے دینی شعائر کی حرمت کی بھی ضمانت لی ہے۔ اسلامی حکومت میں  وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی رسومات ادا کرسکتے ہیں ، وہ مسلم آبادی والے علاقوں  میں  بھی اپنے عبادت خانے تعمیر کرسکتے ہیں ، ان کے معبدوں  اور گرجاگھروں  کو منہدم نہیں  کیاجاسکتا، اس مقام پر کسی مسجد کی تعمیر نہیں  کی جاسکتی؛ البتہ اسلام ان پر یہ ذمہ داری ضرور ڈالتا ہے کہ وہ اسلای شعائر کی توہین اور بے حرمتی نہ کریں ، وہ اپنی مذہبی رسومات کو اس انداز سے نہ اداکریں  جس سے مسلمانوں  کے مذہبی جذبات مجروح ہوں اور فتنہ وفساد بھڑک اٹھے۔

            مسلم سلاطین وامراء نے نہ صرف ان کی عبادت گاہوں  کا تحفظ کیا؛ بلکہ عدل پروری انصاف پسندی اور رواداری کی ایک انوکھی مثال قائم کی، تاریخی حوالوں  سے کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں  پیش کی جاسکتی، جس سے یہ معلوم ہو کہ کسی مسلم حکمراں  نے محض مذہبی تعصب کی بنا پر ان کے معبدوں  اور گرجا گھروں  کو مسمار کیا ہو؛ البتہ صفحات تاریخ میں  ایسی سیکڑوں  مثالیں  ملتی ہیں  جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلموں  نے اسلامی حکومتوں  میں  آزادی کے ساتھ اپنے معبدوں اور گرجائوں  کی تعمیر کی۔

            مسلمانوں  نے جب شام اور بیت المقدس کا علاقہ فتح کیاتو وہاں  سیکڑوں  چرچ اور گرجے تھے جنھیں  جوں  کا توں  باقی رکھا گیا، نہ مسلمانوں  نے وہاں  کسی مسجد کی تعمیر کی، نہ انھیں  مسمار کیاگیا۔

            اسلام نے غیرمسلموں  کے مذہبی جذبات کو بھی ملحوظ رکھا اور ان کے عقائد ونظریات کے تمسخر اور ان کے معبودوں  کو برابھلا کہنے سے سختی سے روکا ہے۔

            ’’وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْمٍ‘‘ (سورۃ الأنعام:۱۰۸)

            اے مسلمانو! یہ کافر لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں  ان کو برا بھلا نہ کہو؛ کیوں کہ وہ جہالت کی بنا پر اللہ کو برا بھلا کہیں  گے حد سے آگے نکل کر۔

عزت وآبرو کی حفاظت

            ایک انسان کو اپنے جان ومال سے زیادہ اپنی آبرو عزیز ہوتی ہے۔ عفت وعصمت انسان کا سب سے قیمتی جوہر اوراس کی سب سے بیش قیمت متاع ہے؛ اس لیے ہرانسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کی آبرو کی حفاظت کی جائے۔ عزت وآبرو کا بدل نہ معافی ہوسکتی ہے، نہ مالی تاوان، مالی تاوان کے ذریعہ ذلت کے داغ کو مٹایا نہیں  جاسکتا اور نہ معافی رسوائی کے دھبوں  کو کچھ کم کرسکتی ہے؛ اس لیے اسلام کی نظر میں  اس کی سزا سرعام سنگسار کرنا یا سو درے مارنا ہے۔ اگر کسی پاک دامن عورت پر تہمت تراشی کی جائے تو اس کی سزا اسّی کوڑے لگانا ہے۔ ایسے شخص کی گواہی بھی قبول نہیں  ہوگی۔ سورۃ النور میں  خصوصیت سے معاشرتی زندگی کے ان مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کا تعلق انسان کی عزت وآبرو کی حفاظت سے ہے۔ اسلام نے معاشرہ کے ہر فرد کی آبرو کو محفوظ قرار دیا ہے؛ اس لیے نہ مسلمان عورت کی عزت وآبرو کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ غیرمسلم خواتین کی عصمت کو داغ دار کرنے کی گنجائش ہے۔

جان ومال کی حفاظت

            کسی غیرمسلم کے نارواقتل پر قصاص اور دیت کے احکام اسی طرح جاری ہوں گے جیسے ایک مسلمان کے ناحق قتل پر قصاص اور خوں  بہا کا حق مقتول کے ورثا کو حاصل ہوتا ہے۔

            امام ابودائود نے حضرت عبدالرحمن کے مراسیل میں  یہ روایت ذکر کی ہے کہ آپؐ کے پاس ایک مسلمان کو لایاگیا جس نے ایک ذمی کا قتل کیا تھا آپؐ نے بہ طور قصاص اس کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا:

            أنا أحق من أوفی بذمتہ (نصب الرایۃ، مصنف عبدالرزاق وبیہقی)  ذمی کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فریضہ ہے۔

            حضرت علیؓ کے دور خلافت میں  اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا، حضرت علیؓ نے قاتل کے قتل کا حکم دیا؛ لیکن مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہوگئے؛ چنانچہ انھیں  خوں بہادلایاگیا۔

            حضرت علیؓ ہی کا قول ہے:  من کان لہ ذمتنا لحومہ کلحومنا ودیتہ کدیتنا (نصب الرایۃ، طبرانی وبیہقی)

            ذمیوں  کا خون ہمارے خون کی طرح اور ان کا خوں  بہا ہمارے خوں  بہا کی مانند ہے۔

            امام بخاری نے فاروق اعظمؓ کا یہ قول نقل کیاہے:  أوصیکم بذمۃ اللّٰہ فإنہ ذمۃ نبیکم  جن لوگوں  کو خدا اور اس کے رسول کا عہد حاصل ہو ان سے کیے ہوئے عہد کی حفاظت کرو۔ عمران بن میمون کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں   ’’وأوصیہ بذمۃ اللّٰہ وأن یقاتل من ورائہم وأن لا یکلفوا فوق طاقتہم (رواہ البخاری)

            حضرت عمرؓ نے اپنے بعد کے خلفاء کو یہ وصیت کی کہ وہ ذمیوں  کے حقوق کی حفاظت کریں ، ان کے جان ومال کا دفاع کریں  اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالیں ۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  ألا من ظلم معاہدا أو انتقصہ أو کلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس منہ فأنا حجیجہ یوم القیامۃ (رواہ أبوداؤد)

            ترجمہ: خبردار! اگر کسی نے کسی معاہد پر ظلم کیا، یا اس کی حق تلفی کی یا اس پر اس کی حیثیت سے زیادہ بوجھ ڈالا یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں  قیامت کے روزاس کا وکیل ہوں گا۔

            لہٰذا اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے جان ومال کا دفاع اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے، ان کے حقوق پر دست درازی نہ کی جائے اور انھیں  جبروتشدد کا نشانہ نہ بنایاجائے۔

عدل وانصاف

            عدل کے مفہوم میں  بڑی وسعت ہے، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں  جس میں  عدل مطلوب نہ ہو۔ عدل اس کائنات کا جوہر اوراس کی روح ہے، عدل کے بغیر نظام عالم قائم نہیں  رہ سکتا۔ اسی طرح ظلم کی بھی ان گنت اور بے شمار قسمیں  ہیں ، ظلم انفرادی بھی ہوتا ہے اوراجتماعی بھی، ظلم معاشی بھی ہوتا ہے اور سیاسی بھی۔ اسلام ہر طرح کے ظلم سے روکتا ہے وہ مکمل عدل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ عام طور پر دو چیزیں  انسان کو عدل سے روکتی ہیں ، قرابت کا تعلق یا کسی شخص کی عداوت ودشمنی قرآن دونوں  چیزوں  سے روکتا ہے۔

            وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی (الأنعام:۱۵۲)  جب بات کہو توانصاف کی بات کہو چاہے مخاطب رشتہ دار ہو۔

        وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی(المائدۃ:۲-۸)

            اورلوگوں  کی عداوت ہرگز تمہیں  اس پرآمادہ نہ کرے کہ معاملات میں  انصاف نہ کرو، نہیں انصاف کرو! شیوہ انصاف پرہیزگاری سے قریب تر ہے۔

            اسلام نے جس طرح مسلمانوں  کو حصول انصاف کا حق دیا ہے اسی طرح غیرمسلموں  کو بھی عدل وانصاف کی پوری آزادی دی ہے۔

            مسلم حکمرانوں  نے غیرمسلموں  کے ساتھ مختلف ادوار تاریخ میں  جس عدل، مساوات اور رواداری کا مظاہرہ کیا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک نہایت روشن باب ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم یہاں  اس کی صرف ایک مثال ذکر کریں گے۔

            اورنگ زیب عالمگیرؒ پر عام طور پر ہندو مورخین تعصب وتنگ نظری کا الزام رکھتے ہیں ؛ لیکن اورنگ زیب کیسا عدل پرور اور منصف مزاج حکمراں  تھا، اس کا ندازہ پروفیسر آرنلڈ کی اس شہادت سے کیاجاسکتا ہے۔

            ’’ہمارے معاند اورنگ زیب کو ایک متعصب حکمراں  کہتے ہیں ۔ ایک منصب دار نے عالمگیر کو لکھا کہ عملہ تقسیم تنخواہ دوپارسی ملازم ہیں ، حکم ہوتو ان کو ملازمت سے برخاست کردوں  جواب ملا کہ کسی ہندو یا مجوسی کو محض اس لیے ملازمت سے نہیں  نکالا جاسکتا کہ وہ مسلمان نہیں  ہے۔‘‘ (preaching of islam.prof.ornald)

معاشی حقوق

            مسلم معاشرہ میں  غیرمسلم آزادی کے ساتھ اپنی معاشی ضرورتوں  کے لیے تگ ودو کرسکتے ہیں ۔ وہ مسلمانوں  کے ساتھ تجارت وکاروبار میں  شریک ہوسکتے ہیں ، گوکہ وہ مسلمانوں  کے ساتھ شراب اور خنزیر وغیرہ کی تجارت نہیں  کرسکتے ہیں ؛ لیکن باہمی طور پر وہ اس طرح کے معاملات کرسکتے ہیں  جو شریعت اسلامی میں  جائز نہیں  ہیں ۔ ان کا مال چوری ہونے پر قطع ید کی سزا اسی طرح مقرر کی جائے گی جیسے مسلمان کے مال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ ایسے مجبور اور بوڑھے لوگ جو کسب معاش سے عاجز ہوں  ان کے لیے اسلامی بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے گا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے ایک بوڑھے یہودی کو لوگوں  کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے دیکھا۔ وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے بڑھاپے اور محتاجی کی وجہ سے لوگوں  کے سامنے دست سوال دراز کررہا ہے۔ حضرت عمرؓ اسے بیت المال کے خازن کے پاس لے گئے اور خازن کو یہ حکم دیا کہ ایسے تمام لوگوں  کو بیت المال سے اتنی رقم دو کہ ان کی ضروریات پوری ہوسکیں  اور ان کے حالات درست ہوجائیں ، حضرت عمرؓ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ جائز نہیں  کہ ہم جوانی اور قوت کے زمانہ میں  اس سے جزیہ لیں  اور جب بڑھاپا آئے تو اسے ذلیل وخوار ہونے کے لیے چھوڑ دیں ۔ جائز کاموں  میں  اجرت پر غیرمسلموں  کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ ملازمتوں  میں  وہ حصہ لے سکتے ہیں ، جزیہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں  بھی ان پر کسی قسم کے جبر کی اجازت نہیں  دی گئی ہے، جزیہ کی مقدار اتنی معمولی رکھی گئی ہے کہ موجودہ عہد میں  اس کا تصور بھی نہیں  کیا جاسکتا جب کہ حکومتیں  اپنے شہریوں  پر بڑے بڑے ٹیکس عائد کرتی ہیں  جس کے تصور ہی سے تاجروں  اور سرمایہ داروں  کی نیند اڑنے لگتی ہے۔

            معاشی حقوق کے سلسلہ میں  اسلام نے غیرمسلموں  کے ساتھ کسی قسم کا تعصب نہیں  برتا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کاروبار کے بعض حصوں  پر ہمیشہ غیرمسلموں  کی بالادستی قائم رہی اور دولت کی افزائش اور کاروبار کی توسیع کے سلسلہ میں  انھیں  اسلامی حکومتوں  میں  مکمل آزادی حاصل رہی۔

حسن سلوک کی تاکید

            ایک ایسے معاشرہ میں  جہاں  مختلف فکر وتہذیب اور مذہب وعقیدہ کو ماننے والے لوگ رہتے ہوں  زندگی کے تانے بانے اسی وقت درست رہ سکتے ہیں  جب انسانوں  کے باہمی تعلقات استوار اور مستحکم ہوں ، ایک دوسرے کے حقوق کی مکمل رعایت کی جائے، مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر ہر کسی کے ساتھ ہمدردی، محبت اور خیرخواہی کا رویہ اختیار کیا جائے، حسن سلوک اور نیک برتائو کے ذریعہ ہر شخص کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اسلام اپنے ماننے والوں  کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ وہ حسن اخلاق کے دائرے کو صرف مسلمانوں  تک محدود نہ رکھیں ؛ بلکہ وہ ہرطبقہ اور ہرمذہب کے لوگوں  کے ساتھ نیک سلوک اوراچھا برتائو کریں ۔ ہدایت دینا خدا کے اختیار میں  ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص مسلمان نہ ہوتو اس کی بنیاد پر اس کے ساتھ حسن سلوک کو ترک نہیں  کیا جائے گا۔ قرآن کہتا ہے:

            لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَـکِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْرٍ فَلأنفُسِکُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّہِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (البقرۃ:۲۷۲)

            اے پیغمبر! آپ پر ان کو ہدایت دینے کی ذمہ داری نہیں  ہے۔ البتہ اللہ جسے چاہتے ہیں  ہدایت سے نواز دیتے ہیں ۔ تم جو بھی مال اللہ کی راہ میں  خرچ کروگے اس کا فائدہ تم ہی کو پہنچے گا دیکھو تم اللہ کی رضا کے لیے ہی خرچ کرتے ہو تم جو بھی مال خرچ کرتے ہو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی نہ ہوگی۔

            اس سلسلہ میں  قرآن مجید کی درج ذیل آیت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

            لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:۸)

            اللہ تعالیٰ تمہیں  اس بات سے نہیں  روکتا کہ تم ان لوگوں  کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کا برتائو کرو جنھوں  نے تم سے دین کے معاملہ میں  جنگ نہیں  کی اور نہ تمہیں  تمہارے گھروں  سے نکالا۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں  کو پسند کرتا ہے۔

            برّ  کے مفہوم میں  بڑی وسعت ہے، امام راغب اصفہانی اس کی شرح ان الفاظ میں  کرتے ہیں   التوسع فی الاحسان إلیہ ان کے ساتھ نیک برتائو میں  وسعت اور فراخی کا مظاہرہ کیا جائے اپنے رویہ میں  کسی طرح کی تنگی نہ رکھی جائے۔

حسن سلوک کی خصوصی ہدایات

            اسلام نے خصوصیت سے ایسے احکامات دیے ہیں  جن سے نہ صرف انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں  کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے؛ بلکہ ان کے ذریعہ فرقہ وارانہ اتحاد اور یکجہتی کی راہ بھی بہ آسانی ہموار کی جاسکتی ہے، دوریاں  ختم کی جاسکتی ہیں  اور نفرتوں  کو محبتوں  سے بدلا جاسکتا ہے۔ عام دعوتیں  ہوں  یا شادی بیاہ کی تقریبات کوئی معاشرہ ان سے خالی نہیں  ہے۔ دعوتیں  عداوتوں  کا باعث نہیں  ہوتیں ؛ بلکہ ان کے ذریعہ دوریاں  مٹتی ہیں  اور فاصلے ختم ہوتے ہیں ۔ آپؐ نے بغیر کسی معقول وجہ کے کسی کی دعوت کو رد کرنا پسند نہیں  فرمایا۔ مسلمان غیرمسلموں  کی دعوت میں  شرکت بھی کرسکتے ہیں  اور انھیں  اپنے یہاں  بھی مدعو کرسکتے ہیں ۔ آپؐ نے بارہا ایسی دعوتوں  میں  شرکت کی ہے اور خود غیرمسلم آپؐ کے یہاں  متعدد بار مہمان بن کر آئے ہیں ۔ موجودہ دور میں  اس قسم کی تقریبات ٹوٹے ہوئے دلوں  کو جوڑنے کا کام کرسکتی ہیں ۔

            اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ غیرمسلم اگر بیمار ہوں  تو ان کی عیادت اور مزاج پرسی کی جائے۔ آپؐ کے پاس ایک یہودی لڑکا آیا جایا کرتا تھا ایک مرتبہ آپؐ کو اس کی بیماری کی اطلاع ملی تو آپؐ اس کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ غیرمسلموں  کے جنازے میں  شرکت کی جاسکتی ہے۔ مرنے والا اگر قریبی رشتہ دار ہو اور کوئی اس کو دفن کرنے والا نہ ہوتو اس کی تجہیز وتکفین کی ذمہ داری مسلمان رشتہ دار پر ہوگی۔ بہ وقت ضرورت غیرمسلموں  کی مالی امداد کی جاسکتی ہے، غیرمسلموں  پر خرچ کرنا بھی خدا کی راہ میں  انفاق ہے، پڑوسی اگر غیرمسلم ہوتو وہ بھی اسی طرح حسن سلوک کا مستحق ہے جس طرح مسلمان ہم سایہ ہمارے حسن سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔ غیرمسلم قیدیوں  کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ غیرمسلم رشتہ داروں  کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیاگیا ہے، گوکہ وہ وراثت میں  شریک نہیں  ہوسکتے؛ لیکن ان کے ساتھ تحائف کا لین دین کیاجاسکتا ہے، ان کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ والدین اگر غیرمسلم ہوں  تب بھی ان کے ساتھ بدسلوکی روا نہ ہوگی، وہ حسن سلوک کے مستحق ہوں گے، ان کا نان ونفقہ اولاد پر واجب ہوگا۔

            اسلام کی ان روشن تعلیمات کے ذریعہ بخوبی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے غیرمسلموں  کے ساتھ جس عدل ومساوات اور انصاف ورواداری کی تعلیم دی ہے دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں  اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔

موجودہ دور کی سب سے اہم ضرورت

            موجودہ دور میں  امت مسلمہ جن نامساعد اورناموافق احوال سے دوچار ہے غالباً گذشتہ ادوار میں  اس کا تصور بھی نہیں  کیا جاسکتا تھا، اہل مغرب کی مسلسل ریشہ دوانیوں  اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی زہر افشانیوں  نے کم وبیش پوری دنیا کو اسلام کا مخالف بنادیا ہے، اسلام کے خلاف غلط فہمیوں  کا ایسا جال بچھادیا گیا ہے جس نے اسلام کی صحیح تصویر کو بگاڑکر رکھ دیا ہے، اسلام کو انسانیت کا دشمن اور تشدد کا علمبردار قرار دیا جارہا ہے، اسلام پر یہ الزام ہے کہ اس کا رویہ دیگر مذاہب کے ساتھ معاندانہ ہے، وہ مذہبی رواداری کا مخالف ہے۔ اسلام علیحدگی پسندی کی تعلیم دیتا ہے، اس لیے اس کے ماننے والوں  میں  انفرادیت پسندی پائی جاتی ہے۔ اسلام فرقہ وارانہ اتحاد اور یکجہتی کا قائل نہیں  ہے۔ ان پروپیگنڈوں  کا نتیجہ یہ ہے کہ باہم نفرتوں  کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور مفاہمتوں  کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ حالات صرف مسلمانوں  کے لیے فکرمندی اور تشویش کا باعث نہیں  ہیں ؛ بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے سخت تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں  اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے، اسلام نے غیرمسلموں  کو جو حقوق دیے ہیں  اس  سے دنیا کو روشناس کرایا جائے، اس نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں  کے ساتھ جس انصاف اور رواداری کی تعلیم دی ہے اس کو عام کیا جائے، ان تاریخی حقائق سے پردہ اٹھایا جائے جنھیں  مسخ کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ نفرتوں  کی خلیج کو پاٹا جاسکے، غلط فہمیوں  کے پردے چاک کیے جاسکیں  اور دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات صرف مسلمانوں  تک محدود نہیں  ہیں ؛ بلکہ اس نے غیرمسلموں  کے ساتھ بھی حسن سلوک کی خاص ہدایات دی ہیں ۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts