از:مفتی توقیر عالم قاسمی

پورنیہ، بہار

             اسلام کے جامع مذہب ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے جانوروں  کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں  اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  ’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ (الانبیاء:۱۰۷)

            ترجمہ: اورہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں  کے حقوق بھی بیان فرمائے؛ چناں چہ بہت سی احادیث اور نصوص سے ثابت ہے کہ جانوروں  پر احسان اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت ورحمت عبادت ہے، جو بعض دفعہ اجر وثواب کے اعلیٰ درجات اور اسبابِ مغفرت کے اقوی سبب تک پہنچاتی ہے، جیسے چند حدیث ملاحظہ فرمائیں :

            بخاری ومسلم کی حدیث ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس اثنا میں  کہ ایک آدمی راستہ چلا جارہا تھا، اسے سخت پیاس لگی (چلتے چلتے) اس کو ایک کنواں  ملا، وہ اس کے اندر اترا اور پانی پی کر باہر نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدست سے وہ کیچڑ کھارہا ہے، اس آدمی نے دل میں  کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی (اور وہ اس کتے پر رحم کھاکر) پھر کنویں  میں  اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں  پانی بھر کر اس کو اپنے منہ سے پکڑا اور کنویں  سے باہر نکل کر اس کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس رحم دلی کو قبول فرمایا، اس کو بدلہ دیا اوراسی عمل پراس کی مغفرت فرمادی۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا جانوروں  (کی تکلیف دور کرنے) میں  بھی ہمارے لیے اجر وثواب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں  ثواب ہے۔ (بخاری حدیث: ۵۰۰۹، مسلم حدیث:۱۵۳-۲۲۴۴)

            ایک دوسری حدیث میں  ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک زانیہ عورت (رنڈی) نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں  کے گرد چکر لگارہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، تو اس نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں  سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔ (مسلم حدیث:۱۵۴-۲۲۴۵)

ہر ذی روح کو کھلانا پلانا باعث اجر

             ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں  اپنے اونٹ کو پانی پلانے کے لیے حوض میں  پانی بھرتا ہوں  اور دوسرے کا اونٹ آکر اس میں  سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، اور سنو! ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے۔ (ابن ماجہ حدیث:۳۶۸۶، مسند احمد حدیث:۷۰۷۵)

چرندپرند کودانہ ڈالنے سے صدقے کا ثواب

            آدمی جو کھیتی کرتا ہے، یا باغ لگاتا ہے اور اس کی کھیتی اور درخت سے کوئی جانور، یا پرندہ کچھ کھالیتا ہے، یا چُگ لیتا ہے تو اس میں  بھی مالک کو ثواب ملتا ہے، خواہ صاحبِ کھیت اور درخت والے کو اس کا علم نہ ہو۔ نبی رحمت رسولِ رافت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  مَا مِن مُسلمٍ یغرسُ غرسًا، أو یزرعُ زرعًا فیأکلُ منہ طیرٌ، أو إنسانٌ، أو بہیمۃٌ إلا کانَ لہ بہ صدقۃٌ۔ (بخاری حدیث:۲۳۲۰، مسلم حدیث: ۱۲-۱۵۵۳)

            یعنی جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اوراس درخت یا کھیتی میں  سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تواس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔

حیوانات کو تکلیف دینا گناہ

            شریعتِ اسلام نے جہاں  حیوان کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کو عبادتوں  میں  سے شمار کیا ہے وہیں  حیوان کے ساتھ برا سلوک، بلا وجہ اس کو تکلیف وعذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت میں  سے گردانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  عُذِّبَتْ امرأۃٌ فی ہرۃٍ سَجَنَتْہَا حتّٰی مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فیہا النارَ، لا ہي أَطْعَمَتْہَا، ولا سَقَتْہَا إذْ حَبَسَتْہَا، ولا ہي تَرَکَتْہَا تَأْکُلُ مِن خشاشِ الأرضِ۔ (بخاری حدیث:۳۴۸۲، مسلم حدیث:۱۵۱-۲۲۴۲)

            ترجمہ: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیاگیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں  تک کہ بھوکی پیاسی مرگئی؛ اس لیے وہ عورت جہنم میں  داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا جب اس نے اس کو قید کیا اورنہ ہی اس نے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں  کو کھاکر اپنی جان بچاتی۔

            اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کرکے داغا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں  کو یہ بات نہیں  پہنچی کہ میں  نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپایے کے چہرے کو داغے، یا اس کے چہرے پر مارے؟ پس آپ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابودائود حدیث:۲۵۶۴)

            اور ترمذی کی حدیث میں  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے چہرے کو داغنے اور مارنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی حدیث:۱۷۱۰)

            اور ایک حدیث میں  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جوجانور کو مُثلہ کرے یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دُم وغیرہ) کاٹے۔ (بخاری حدیث: ۵۵۱۵،  باب ما یکرہ من المثلۃ)

            اسلام نے جانور کو قید کرکے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اوراس کو تیریا گولی سے نشانہ بنایا جائے اور مارا جائے یہاں  تک کہ وہ مرجائے؛ اس لیے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لا تتّخذوا شیئا فیہ الروحُ غرضًا۔  (مسلم حدیث:۵۸، ترمذی حدیث:۱۴۷۵)

            یعنی تم ایسی چیز کو نشانہ مت بنائو جس میں  روح اور جان ہو۔

            اور ایک حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جاندار چیز کو نشانہ بنائے۔ (مسلم حدیث:۱۹۸۵)

جانوروں  کو آپس میں لڑانے کی ممانعت

            اسی طرح ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا دینا لازم آئے شریعت مطہرہ میں  ممنوع ہے جیسے دو بیلوں  یا سانڈوں  کو آپس میں  لڑانا، یا مرغا، یا مینڈھا کو آپس میں  لڑانا، یا پرندوں  کو بلافائدہ قید کرکے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعہ جانور کو ذبح کرنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں  اور چوپایوں  کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا:  نَہَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم عن التحریشِ بینَ البہائمِ۔ (ابودائود حدیث: ۲۵۶۲، ترمذی حدیث: ۱۷۰۸)

            حاصل یہ ہے کہ چوپایوں  کو آپس  میں  لڑانا، بھڑانا حرام اور ممنوع ہے، کسی کو اس کی اجازت نہیں  ہے؛ اس لیے کہ آپس میں  لڑنے والے دوجانوروں  میں  سے ہر ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتا ہے اور زخمی کرتا ہے (جس کا سبب لڑانے والا بنا ہے) اور اگر خود جانوروں  کو لڑانے والا اپنے ہاتھ سے ایسا کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں  ہے (لہٰذا جانورکو تکلیف پہنچانے اور زخمی کرنے کا سبب بننا بھی جائزنہیں  ہے)۔

ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں  ہی پھینک دینا درست نہیں

            ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں  ہی پھینک دینا، اس سے فائدہ حاصل نہ کرنا، اس کو کام میں  نہ لانا اور انتفاع نہ کرنا درست نہیں  ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذبح کو جائز قرار دیا ہے اسے کھانے اور اسے کام میں  لانے کے لیے، نہ کہ ذبح کرکے عبث وبیکار چھوڑ دینے کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَن قَتَلَ عُصفورًا فَمَا فَوقَہا بغیرِ حقِّہا سَأَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عنہا یومَ القیامۃِ، قیلَ: یا رسولَ اللّٰہِ! فما حَقُّہا؟ قال: حَقُّہا أن تذبحَ فتأکلَہا، ولا تقطعُ رأسُہا فَیُرْمَی بِہَا۔ (نسائی حدیث:۴۴۴۵)

            ترجمہ: جس شخص نے چڑیا، یا اس سے بڑے کسی جانور کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں  سوال کرے گا اور پوچھے گا، کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرکے کھائو، نہ یہ کہ اس کا سرکاٹ کر اس کو پھینک دو۔

            اور ایک حدیث میں  ہے کہ وہ جانور خود قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں  دعوی کرے گا:

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  مَن قتل عصفورا عبثًا عَجَّ إلی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یومَ القیامۃِ، یقولُ: یارَبِّ! إنّ فلانًا قَتَلَنِیْ عبثًا، ولم یقتُلْنی منفعۃً۔ (نسائی حدیث: ۴۴۴۶، مسند احمد حدیث:۱۹۴۷۰)

            ترجمہ: جس نے کسی چڑیا کو عبث بلافائدہ قتل کیا وہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ سے فریاد کرے گی کہ اے اللہ! اس نے مجھے بیکار قتل کیا اور مجھے منفعت اور فائدے کے لیے قتل نہیں  کیا۔

بلافائدہ پرندے کو قید کرکے رکھناگناہ

            بلافائدہ کسی پرندے کو پریشان کرنا اور اس کے بچوں  کو قید کرنا اور پکڑ کر رکھنا بھی درست نہیں  ہے۔ حدیث میں  ہے، صحابہ کہتے ہیں  کہ ہم ایک سفر میں  تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے،اسی اثنا میں  ہم نے ایک حُمَّرہ پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو چوزے (بچے) تھے، تو ہم نے اس کے بچوں  کو پکڑ لیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں  پر اپنے پروں  کو پھیلانے لگا، اتنے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:  ’’مَن فَجَّعَ ہذہ بولدِہا؟ رُدُّوْا إلیہا وَلَدَہَا‘‘۔  کس نے اس کو اس کے بچوں  کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹادو۔ (ابودائود حدیث:۲۶۷۵)

جانوروں  کو ذبح کرنے میں  بھی احتیاط

            یقینا اللہ تعالیٰ نے بعض جانوروں  کو ذبح کرکے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے جانوروں  کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے؛ لیکن اس میں  بے راہ روی اور ظلم وزیادتی ناروا اور غیردرست ہے۔ ذبح کے سلسلے میں  چند فرمانِ رسول اور آداب ملاحظہ فرمائیں :

            (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  إنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الإحسانَ علی کلِّ شيئٍ۔۔۔ وإذا ذَبَحْتُمْ فأَحْسِنُوْا الذبحَ، وَلْیَحِدَّ أحدُکُم شُفْرَتَہُ، وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہ۔ (مسلم حدیث: ۵۷-۱۹۵۵، ابودائود حدیث:۲۸۱۴، ترمذی حدیث:۱۴۰۹)

            اس حدیث میں  آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ذبح کے تین آداب بیان فرمائے ہیں : (۱) اچھی طرح ذبح کرے (۲) ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے (۳) ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔

            (۲)جانور کو مقام ذبح تک نرمی کے ساتھ لے جائے، اس کو بے دردی اور سختی کے ساتھ نہ گھسیٹے، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کی ٹانگ پکڑکر گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا تو انھوں  نے اس سے فرمایا:  وَیْلَکَ! قُدْہَا إلی الموتِ قَوْدًا جَمِیْلًا۔  یعنی اس کو موت کے لیے لے جائو اچھے طریقے سے۔ (رواہ عبدالرزاق، باب سنۃ الذبح، حدیث:۸۶۰۵)

            (۳) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔

            (۴) ذبح کرنے والاجانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔

            (۵) ذبح کے لیے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔

            (۶) ذبح کرنے میں  بھی رحمت وشفقت کا پہلو ملحوظ رہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  إِنِّی لأرحمُ الشاۃَ أنْ أَذْبَحَہَا؟  مجھے بکری کو ذبح کرنے پر رحم آتا ہے؟  فقالَ رسولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلَّم: ’’إنْ رَحِمْتَہَا رَحِمَکَ اللّٰہُ‘‘  یعنی اگر تم اس پر رحم کروگے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔ (رواہ الحاکم، وقال صحیح الاسناد، حدیث نمبر:۷۵۶۲)

جانور کو چارہ کھلانا اور پانی پلانا اس کا حق ہے

            جانور پر سواری اور باربرداری انسان کا حق ہے؛ لیکن اس بارے میں  بھی شریعت میں  واضح ہدایات موجود ہیں  اور جانور کے حق کی رعایت ضروری ہے جیسے جانور کو چارہ کھلاکر سواری کرنا، جانور کی قدرت وطاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلا ضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا، یہ وہ چیزیں  ہیں  جن کی رعایت ضروری ہے۔

            (۱) ایک حدیث میں  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں  قضائے حاجت کے لیے داخل ہوئے، وہاں  ایک اونٹ تھا، جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں  سے آنسو بہنے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: میرا ہے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا:  أَلاَ تَتَّقِی اللّٰہَ فی ہذہ البہائمِ التی مَلَّکَکَ اللّٰہُ إیَّاہَا؛ فإنّہ شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِیْعُہُ، وَتُدْئِبُہُ۔ یعنی کیا تم ان چوپایوں  اور جانوروں  کے بارے میں  اللہ سے نہیں  ڈرتے جن کا اللہ نے تم کومالک بنایا ہے، اس لیے کہ اس (اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہواور اس سے مسلسل کام لیتے ہواوراس کو تھکاتے ہو۔ (ابودائود حدیث:۲۵۴۹)

            (۲) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی (بھوک کی وجہ سے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اِتَّقُوا اللّٰہَ فی ہذہ البہائمِ المُعْجَمَۃِ، فارکبوہا صالحۃً، وکُلُوہا صالحۃً، وفی روایۃٍ: -کُلُوہَا سِمَانًا، وَارْکَبُوہَا صِحَاحًا-:  یعنی ان بے زبان چوپایوں  کے بارے میں  اللہ سے ڈرو! پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی طرح کھلائو اور چارہ دو – اور ایک روایت میں  ہے- ان کو کھلاکر موٹا کرو اور ان پر صحیح طریقے سے سواری کرو۔ (ابودائود حدیث:۲۵۴۸، مسند احمد حدیث:۱۷۶۲۵، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث:۵۶۲۰)

            (۳) اور حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے پاس سے گزرے، دراں حالے کہ وہ اپنی سواریوں  پر کجائوں  میں  بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں  کھڑی تھیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:  اِرْکَبُوْہَا سَالِمَۃً، ودَعُوْہَا سالمۃً، ولا تتّخذوہا کراسيَ لأحادیثکم فی الطُرُقِ والأسواقِ، فربّ مرکوبۃٍ خیرٌ من راکبِہا، وأکثرُ ذکرًا للّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالی منہ۔ یعنی چوپایوں  پر سواری کرو، دراں  حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں  اور سواری کرکے ان کو چھوڑو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں  اور ان کو اپنی باتوں  کے لیے راستوں  اور بازاروں  میں  کرسیاں  مت بنائو (ان کو کھڑی کرکے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی لمبی باتیں  نہ کرو، جس طرح تم کرسیوں  پر بیٹھ کر گپ شپ مارتے ہو؛ اس لیے کہ اس سے جانور کوبلا ضرورت تکلیف دینا ہے؛ بلکہ اگر باتیں  کرنا ہو تو ان کی پشت سے اتر کر باتیں  کرو)؛ اس لیے کہ بہت سا مرکوب (سواری کا جانور) اس کے راکب یعنی سواری کرنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور راکب سے زیادہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہوتا ہے۔ (مسند احمد حدیث:۱۵۶۲۹)

قدرت وطاقت سے زیادہ جانور پر بوجھ لادنا جائز نہیں 

            جانور پر اتنا بوجھ لادنا جس کی وہ قدرت وطاقت نہ رکھتا ہو جائز نہیں  ہے، اسی لیے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ جانتے تھے کہ جو آدمی جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادے گا روزِ قیامت اس سے حساب لیا جائے گا۔ حضرت ابودرداءؓ کے بارے میں  مروی ہے کہ ان کا ایک اونٹ تھا جس کا نام  ’’دَمُّوْنْ‘‘  تھا، وہ اس اونٹ کو مخاطب کرکے کہتے تھے: اے دمون! قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے مجھ سے مخاصمت مت کرنا؛ اس لیے کہ میں  نے تجھ پر تیری قدرت وطاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں  لادا۔ (تفسیر قرطبی، سورئہ نحل: آیت:۸-۱۰/۷۳)

            علامہ قرطبی آیتِ کریمہ:  ’’وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَۃً‘‘  (اور گھوڑے، خچریں اور گدھے پیدا کیے؛ تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے) کی تفسیر میں  رقم طراز ہیں :  فی ہذہ الآیۃِ دلیلٌ علی جوازِ السفرِ بالدوابِّ، وحملِ الأثقالِ علیہا، ولکن علی قدرِ ما تحتملہ من غیر إسرافٍ فی الحملِ مع الرِفْقِ فی السیرِ، فالدوابُّ عجمٌ لا تقدرُ أن تحتالَ لنفسہا، ولا تقدرُ أن تُفْصِحَ بحوائجِہا، فَمَنْ ارتفقَ بمرافقہا، ثمّ ضَیَّعَہا من حوائجہا فقد ضیّع الشکرَ وتعرّض للخصومۃِ بینَ یَدَيِ اللّٰہِ تعالیٰ۔ (تفسیر قرطبی، سورئہ نحل،آیت:۸-۱۰/۷۳)

            یعنی اس ٓایت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جانوروں  اور چوپایوں  پر سواری کرنا اور ان پر بوجھ لادنا جائز ہے؛ لیکن اسی کے بقدر جس کی وہ قدرت رکھے، اس میں  اسراف اور حدود سے تجاوز نہ ہو اور اس کو ہانکنے اور سیر میں  بھی نرمی وشفقت ملحوظ رہے؛ کیوں  کہ چوپایے بے زبان اور گونگے ہیں  وہ اپنے نفس کے لیے ان چیزوں  کا حیلہ بہانہ نہیں  ڈھونڈ سکتے جن کی ان کوضرورت ہے اور اپنی حاجتوں  کو ظاہر کرنے کی قدرت نہیں  رکھتے، پس جس نے ان جانوروں  سے نفع اٹھایا پھر ان کی حاجت وضرورت کو ضائع کردیا تو اس نے شکرِ خداوندی کو ضائع کردیا اور اللہ کے سامنے مخاصمت کے درپے ہوا۔

            مسیب بن آدمؒ نے فرمایا کہ میں  نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ انھوں  نے ایک اونٹ بان کو مارا اور فرمایا:  تحملُ علی بعیرِکَ ما لا یُطِیْقُ۔ یعنی تو اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتا ہے جس کی وہ قدرت نہیں  رکھتا۔ (حوالہ سابق)

جوجانورسواری کے لیے نہیں  ہے ان پر سوار ہونا جائز نہیں

            جن جانوروں  کو اللہ تعالیٰ نے سواری کے لیے پیدا نہیں  کیا ہے جیسے گائے، بیل، بکری وغیرہ ان پر سواری کرنا جائز نہیں  ہے۔ قاضی ابوبکرابن العربیؒ تحریر فرماتے ہیں  : لا خلافَ فی أن البقرۃَ لایجوز أن یحملَ علیہا، و ذہب کثیرٌ من أہلِ العلمِ إلی أنّ المنعَ مِن رکوبہا نظرًا إلی أنَّہا لا تقوی علی الرکوبِ، وإنّما ینتفعُ بہا فیما تُطیقہ من نحو إثارۃِ الأرضِ وسَقْيِ الحرثِ۔ یعنی اس بارے میں  کسی کا اختلاف نہیں  ہے کہ گائے پر بیٹھنا اور سواری کرنا جائز نہیں  ہے اور اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ گائے پر سواری کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ سوار کرنے کی طاقت نہیں  رکھتی، اس سے وہی کام لیا جائے گا جس کی وہ قدرت رکھتی ہو جیسے کھیت کی جوتائی وغیرہ۔ (حقوق الحیوان والرفق بہا فی الشریعۃ الاسلامیۃ:۳۱)

            ایک حدیث میں  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی درمیان کہ ایک آدمی اپنی ایک گائے پر بیٹھ کر اسے لے جارہا تھا، گائے اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی:  إنّی لم أُخْلَقْ لہذا، ولکنّی إنّما خُلِقْتُ للحرثِ۔  یعنی میں اس (سواری) کے لیے پیدا نہیں  کی گئی ہوں ، بلاشبہ میں  تو کھیتی کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔ (بخاری حدیث:۳۶۶۳، مسلم حدیث:۱۳-۳۲۸۸)

موذی جانور کو قتل کرنے کاضابطہ

            اسلام نے موذی جانور کو مارنے اور قتل کرنے کی اجازت دی ہے؛ لیکن اس میں  بھی احسان اور نرمی کا درس دیا ہے، حدیث نبوی ہے:  إنّ اللّٰہَ کَتَبَ الإِحْسَانَ علی کلِّ شيئٍ؛ فَإذا قتلتم فَأَحْسِنُوا القِتلۃَ۔  اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پرخوش اسلوبی کو واجب قرار دیا ہے، پس جب تم کسی چیز کو قتل کرو تو اس کے لیے اچھا طریقہ اپنائو۔ (مسلم حدیث:۵۷-۱۹۵۵،ابودائود حدیث:۲۸۱۴، ترمذی حدیث:۱۴۰۹)

            تنبیہ: لغت عرب میں  مشہوریہ ہے کہ لفظ قتل غیرماکول اللحم جانور کے لیے اور لفظ ذبح ماکول اللحم جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں  کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں  تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں  کے ایک بل کو دیکھا جسے ہم نے جلادیا تھا، تو آپ نے فرمایا:  مَنْ حَرَّقَ ہَذِہ؟  کس نے اس کو جلایا؟ ہم نے کہا: ہم لوگوں  نے، آپ نے فرمایا:  لا ینبغِی أن یُعَذِّبَ بالنارِ إلّا ربُّ العالمینَ۔  آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کے لیے سزاوار ہے۔ (ابودائود حدیث:۲۶۷۵)

            چیونٹی اور جُوں  کو مارنے کے بارے میں  فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے:  المختارُ أنّ النملۃَ إذا ابتدأتْ بالأذَی لا بأسَ بقتلِہا، وإلّا یکرہُ، وإلقائُہا فی المائِ یکرہُ مطلقًا، قتلُ القملۃِ لایکرہُ، وإحراقُہا وإحراقُ العقربِ بالنارِ یکرہُ۔  (البزازیہ بہامش الہندیہ:۶/۳۷۰)

            ترجمہ:  مختار مذہب یہ ہے کہ چیونٹی اگر ابتداء اً کاٹے اورتکلیف پہنچائے تو اس کو مارنا جائز ہے ورنہ مکروہ ہے۔ جوں  کو مارنا مکروہ نہیں  ہے، جوں  اور بچھو کو آگ میں جلانامکرو ہ ہے۔

            جانوروں  اور چوپایوں  کے حقوق سے متعلق سطور بالا سے یہ بات بالکل واضح  ہوگئی کہ اسلام نے ان کے حقوق بھی کتنی اہمیت کے ساتھ بیان کیے ہیں  اور یہ کہ اسلام کی لازوال تعلیمات کا کوئی بھی مذہب ہم سری اور مقابلہ نہیں  کرسکتا ہے اور ایسا کیوں  نہ ہو کہ اسلام تاقیامت رہنے والا ہمہ گیر و بے نظیر مذہب ہے جس نے پیامِ انسانیت کا درس صرف انسان ہی نہیں ؛ بلکہ جن  اور تمام مخلوقات کے حق میں  پیش کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts