از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

             عرشِ الٰہی کے نیچے ساتویں  آسمان پر ’’بیتِ معمور‘‘ (آباد گھر) ہے اور اس کے بالکل برابر زمین پر خانۂ کعبہ ہے، عرش پر فرشتے طواف کرتے ہیں  اور فرش پر حضرتِ انسان۔ اوپر آسمان والوں  کا کعبہ ہے اورنیچے زمین والوں  کا۔ صحیحین کی روایت ہے کہ ہردن ستر ہزار فرشتے بیتِ معمور کا طواف کرتے ہیں  جن کو دوبارہ موقع نصیب نہیں  ہوتا۔ (ابن کثیر۱۷۶۹ طور) خانۂ کعبہ روئے زمین پر سب سے پُرانا اللہ رب العزت کا محترم ومکرم گھر ہے اسے کہیں  بیتُ اللہ، کہیں  کعبۃُ اللہ، کہیں  بیت حرام اور کہیں  بیتِ عتیق (پُرانا/ آزاد گھر) سے تعبیر کیاگیاہے، یہاں  ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے،اسی کا حج اور اسی کا عمرہ کیا جاتا ہے، سارے عالم کے لیے یہ مرکز رشد وہدایت ہے، خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی نسبت عطا فرمائی ہے، یہ اسی مکہ میں  ہے جس سے اپنی والہانہ محبت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار فرمایا ہے۔ یہی چہار دانگِ عالم میں  بسنے والے مسلمانوں  کا قبلہ ہے، اس کی خصوصیات اوراس کے امتیازی اوصاف پر خامہ فرسائی کرنا بہت آسان ہے؛ اس لیے کہ یہ ایک ایسا ہیرا ہے جس کا ہر پہلو تابندہ، درخشندہ اور آنکھوں  کو خیرہ کرنے والا ہے۔

            ربّ کعبہ نے اس کی تراش وخراش میں  کوئی کمی نہیں چھوڑی، یہی وہ گھر ہے جس کی خصوصیات وامتیازات کو خود ربِ دوجہاں  اور سرورِ دوعالمؐ نے بیان فرمایا ہے تو دنیا کے کسی گھر کو وہ عظمت ورفعت اور وہ بزرگی وبڑائی کیوں کر حاصل ہوگی؛ جو اس گھر کو حاصل ہے۔

خانۂ کعبہ کی جگہ سے زمین کی ابتدا

            دنیا کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے روئے زمین کی ابتدا اسی جگہ سے فرمائی جس جگہ خانۂ کعبہ بنا ہوا ہے، یہ خصوصیت صرف خانۂ کعبہ کو حاصل ہے دنیا کی کسی دوسری جگہ کو نہیں ۔ علامہ بیہقی کی شعب الایمان میں ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            أوَّلُ بُقعۃٍ وُضِعَتْ في الأرضِ مَوْضِعُ البیتِ، ثُمَّ مُدَّتْ منہ الأرض (۳/۱۴۵۱ حدیث نمبر ۳۹۸۴)

            ترجمہ: روئے زمین کا اولین حصہ جو زمین (کی صورت) میں  رکھا گیا وہ بیت اللہ کی جگہ ہے، پھر اس سے زمین پھیلائی گئی۔

خانۂ کعبہ پہلی عبادت گاہ

            خانۂ کعبہ ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ روئے زمین میں  انسانوں  کی سب سے پہلی عبادت گاہ ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

            إنَّ أوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ للناسِ لَلَّذِي بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً و ہُدیً للناسِ۔

            ترجمہ: بلاشبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں  کے لیے بنایا گیا وہ مکہ میں  ہے، وہ بابرکت اور انسانوں  کے لیے ہدایت کاذریعہ ہے۔

            اس کی تفسیر میں  شیخ محمد علی صابونی رقم طراز ہیں :

            أوَّلُ مسجدٍ بُنِيَ في الأرضِ لعبادۃِ اللّٰہ المسجد الحرام الذي ہو بمکۃ۔ (صفوۃ التفاسیر ۱/۱۶۳)

            ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے روئے زمین پر جو اولین مسجد بنی وہ مسجد حرام ہے جو مکہ مکرمہ میں  ہے۔

خانۂ کعبہ بابرکت ہونے میں  بھی سب سے ممتاز

            اوپر کی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اس کے بابرکت ہونے کی صراحت فرمائی ہے، عجیب قدرت خداوندی کا وہاں  مظاہرہ ہوتا ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے سے اللہ کے نیک بندوں  کے آنے کا سلسلہ بندھا ہوا ہوتا ہے اور حج کے مہینے میں  تو مکہ مکرمہ انسانی سروں  کا سمندر نظر آتا ہے، وہ جگہ جو بالکل بے آب وگیاہ، بالکل بنجر ہے جہاں  کھیتی کا سوال ہی نہیں  (ابراہیم۳۷) اس جگہ لاکھوں  انسانوں  کی ضیافت کا انتظام اور پھر دنیا کے ہرگوشے کا عمدہ کھانا اور اعلیٰ قسم کی مصنوعات کا فراہم ہونا کیا حیرت انگیز نہیں ۔

            یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت تھی، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض ومناجات میں  فرمایا:

            فَاجْعَلْ أَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ (ابراہیم۳۷)

            ترجمہ: پس آپ کچھ لوگوں  کے دلوں  کو ان کی طرف مائل فرمادیجیے! اور انھیں  پھلوں  کی روزی عنایت فرمائیے، تاکہ وہ شکر گزاری کریں ۔

            ان کی دعا قبول ہوئی، اللہ تعالیٰ نے سورہ قصص کی آیت نمبر ستاون میں  اس کی صراحت فرمائی ہے۔

خانۂ کعبہ میں  مقام ابراہیم

            خانۂ کعبہ ہی کی خصوصیت ہے کہ وہاں  ’’مقامِ ابراہیم‘‘ ہے، دنیا کی کسی مسجد کو یہ خصوصیت حاصل نہیں  (صفوۃ التفاسیر۱/۱۶۴) یہ وہی پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی تھی، مقام ابراہیم کی صراحت قرآنِ پاک کی آیت میں  ہے:

            فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ (آلِ عمران۹۷)

            ترجمہ: اس میں  واضح نشانیاں  ہیں (جیسے) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔

            حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاکر دیتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے دیوار اٹھاتے تھے۔ جب دیوار اونچی ہوگئی تو (ایک روایت کے مطابق) حجر اسود کی طرح جنت سے اللہ تعالیٰ نے ایک پتھر بھیجا (ترمذی حدیث ۸۷۸) اور یہ بھی منقول ہے کہ

            خانۂ کعبہ کی دیوار جوں  جوں  اونچی ہوتی گئی یہ پتھر بھی اونچا ہوتا گیا اور جب حضرت کو نیچے اترنا ہوتا تو یہ خود بخود نیچے ہوجاتا تھا (فضل الحجر الاسود ص۹۶)، غالباً اسی غیرمعمولی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں  اس کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بڑی علامتی حیثیت سے نوازا ہے۔

            علامہ صابونی اپنی تفسیر میں حرمین کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں  فرماتے ہیں ، یہاں  بھی مقام ابراہیم، زمزم، حطیم، صفا، مروہ اور حجر اسود کو ذکر کرنے کے بعدلکھا ہے:

            أفلا یکفي بُرہانًا علی شرفِ ہٰذا البیتِ وَ أحَقِّیَّتِہ أنْ یکونَ قِبْلَۃً للمسلمین۔ (صفوۃ التفاسیر۱/۱۶۴)

            ترجمہ: کیا یہ ساری چیزیں  خانۂ کعبہ کی فضیلت پر واضح دلیل نہیں  ہیں ؟ اور (کیا یہ چیزیں  کھل کر نہیں  بتارہی ہیں  کہ) خانۂ کعبہ ہی کو سب سے زیادہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں  کا قبلہ مقرر ہو؟

خانۂ کعبہ میں  سب سے زیادہ امن وامان

            دنیا میں  انسانوں  کے لیے جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ امن وسکون اور اطمینان وعافیت ہے، یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں  رکھی ہے(رعد۲۸)

            مقام ذکر میں  بھی یہ نعمت بالواسطہ موجود ہوتی ہے، مسلمانوں  کو اپنے گھروں  سے زیادہ مسجدوں  میں  اطمینان وسکون نصیب ہوتا ہے، تو وہ مسجد جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے زیادہ باعظمت بنایا ہے اس میں  سکون واطمینان اور عافیت وآرام کا سب سے زیادہ ہونا ایک بدیہی بات ہے اور جب خود اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق فرمائیں  تو کیا کہنا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

            وَمَنْ دَخَلَہٗ کانَ اٰمِنًا۔ (آل عمران۹۷)

            ترجمہ: اور جو شخص مسجدِ حرام میں  داخل ہوگیا، وہ مامون ہوگیا۔

            اس تصدیق کے بعد خانۂ کعبہ کے ممتاز  جائے امن ہونے میں  کوئی شبہ نہیں  رہ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے آیاتِ بینات (واضح نشانیوں ) کے ضمن میں  اس کو بیان فرمایا ہے، اہلِ مکہ کو اس امن وامان کا بارہا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ ’’اصحابِ فیل‘‘ نے مکہ اور اہلِ مکہ کو تاخت وتاراج کردینے کا منصوبہ بنایا، اُنھوں  نے چاہا کہ بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کی پوری فوج کو کیفرِ کردار تک پہنچادیا، ان سب کے پرخچے اڑادیے، سب کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح بنادیا (سورئہ فیل) سورئہ قریش میں  بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کو جتایا ہے اور بندوں  کو اپنی عبادت کی طرف متوجہ فرمایاہے اور سورئہ قصص میں  اس طرح فرمایا:

            أَوَ لَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا اٰمنًا۔ (قصص۵۷)

            ترجمہ: کیا ہم نے ان کو امن والے گھر میں  نہیں  جمایا۔

            مکہ کے ارد گرد علاقوں  میں  لوگوں  پر شب وروز غارت گری ہوتی تھی، ان کی عزت وآبرو، اُن کا مال ومتاع اور ان کی جانِ عزیز پر ہر لمحہ خطرے منڈلاتے رہتے تھے، اہلِ مکہ کو متوجہ کیاگیا کہ اس نعمت کاتم شب وروز مشاہدہ کررہے ہو؛ اس لیے اس منعم حقیقی کے سامنے کیوں  نہیں  جھک جاتے، سورئہ عنکبوت کی آیت تلاوت فرمائیے:

            أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَماً آمِناً وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ (عنکبوت۶۷)

            ترجمہ: کیا وہ نہیں  دیکھتے کہ ہم نے (ان کے لیے) پرامن حرم بنایا ہے جب کہ ان کے ارد گرد سے اُچک لیے جاتے ہیں ۔

خانۂ کعبہ پوری دنیا کا قبلہ

            خانۂ کعبہ ہی کی خصوصیت ہے کہ پوری دنیاکے لوگ اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں ، اگر کوئی مسلمان نماز میں قبلہ کا رخ نہ کرے، جان بوجھ کر کسی دوسری سَمت میں  نماز پڑھے تو اس کی نماز نہیں  ہوگی، اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہرگوشے میں  رہنے والے مسلمان کو قبلہ کی طرف رخ کرنے کا لازمی اور واجبی حکم ارشاد فرمایا ہے:

            وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہ۔ (بقرہ۱۵۰)

            ترجمہ: اور تم جہاں  کہیں  بھی رہو، اسی کی طرف اپنا رخ کرو!

            صرف نماز میں  ہی نہیں  مختلف نیک اعمال میں  قبلہ کی طرف رخ کرنا مستحب اور بہتر ہے۔ مثلاً: وضو، دعا اور تلاوت وغیرہ۔ قبلہ کی بے حرمتی ناجائزاور مکروہ ہے، غسل کے وقت اور ننگے ہونے کی حالت میں  قبلہ رخ ہونا مکروہ ہے؛ بلکہ قبلہ کی طرف پیر کرنا بھی بے ادبی ہے، اگر کوئی لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہے تو چہرہ قبلہ کی طرف کرنے کے لیے تکیہ وغیرہ کا سہارا لگالے گا؛ تاکہ نماز میں  چہرہ کعبہ کی طرف رہے؛ لیکن پیرسمیٹ لے گا؛ تاکہ قبلہ کی بے ادبی سے بچ جائے، ہاں ! اگر پیر سمیٹنے پر قادر نہ ہوتو پھر مجبوری ہے۔ مرنے کے بعد بھی مردے کو قبلہ رخ رکھا جاتا ہے، دفن کرتے وقت بھی قبلہ رخ کیا جاتا ہے، قبلہ کا احترام واہتمام زندگی کے بہت سے گوشوں  میں  شامل ہے۔ غرض یہ کہ خانۂ کعبہ کا احترام ہرجگہ ضروری ہے، خواہ آدمی مکہ مکرمہ میں  رہ رہا ہو یا اس سے دور دراز دنیا کے کسی بھی گوشے میں  رہ رہاہو۔

خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے یا پشت کرکے قضائے حاجت

            خانۂ کعبہ کے احترام کے پیشِ نظر سرکار ِ دوعالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کرکے یا پشت کرکے قضائے حاجت کرنے کو منع فرمایا، خواہ انسان آبادی میں  ہو یا میدان اور بیابان میں ، ہرصورت میں  مکروہِ تحریمی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            إذا أتَیْتُمُ الغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ، ولا تَسْتَدْبِرُوْہَا۔ (صحیح بخاری حدیث:۳۹۴، کتاب الصلاۃ، باب۲۹)

            ترجمہ: جب تم لوگ قضائے حاجت کے لیے آئو تو قبلہ کی طرف نہ تو رخ کرو اورنہ اس کی طرف پشت کرو!

جانورکے ذبح میں  خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرنا

            ذبح کے بعد ہی حلال جانوروں  کا کھانا جائز ہے، ذبح کے وقت بھی جانور کو قبلہ رخ کرنا مستحب ہے، خواہ ذبح عقیقہ اور قربانی کے لیے ہو یا محض گوشت کھانے کے لیے ہر ایک کا حکم برابر ہے۔

            قربانی کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی فضیلت بھی ارشاد فرمائی ہے، آپ کا ارشاد ہے:

            ضَحُّوْا وَطِیْبُوا أنْفُسَکُمْ؛ فإنہٗ ما مِنْ مُسْلِمٍ یَسْتَقْبِلُ بِذَبِیْحَتِہٖ الْقِبْلَۃَ إلّا کَانَ دَمُہا وَفَرْثُہَا وَصُوفُہَا حَسَناتٍ في مِیزانِہٖ یوم القیامۃ۔ (الأضحیۃ والعقیقۃ وأحکام التذکیہ، ص۱۱۷، ۶۲)

            ترجمہ: قربانی کرو اور خوش دلی سے کرو؛ اس لیے کہ جو بھی مسلمان اپنے قربانی کے جانور کو قبلہ رخ کرتا ہے، اس کا خون، لید اور اون سب چیزیں  قیامت کے دن اس کے نامۂ اعمال میں  نیکیاں  شمارہوں گی۔

خانۂ کعبہ کو دیکھنا بھی عبادت

            خانۂ کعبہ پراللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہر وقت نازل ہوتی رہتی ہے، اس طرح عرش سے بیتِ معمور پھر بیت العزۃ (آسمانِ دنیا کا کعبہ) اور پھر بیت اللہ پر انوار وبرکات کا مسلسل نزول ہوتا رہتا ہے، بیہقی کی روایت ہے کہ بیت اللہ پر ہر دن ایک سو بیس رحمتیں  نازل ہوتی ہیں ، ساٹھ رحمتیں  طواف کرنے والوں  پر اور چالیس رحمتیں  نماز پڑھنے والوں  پر اور بیس رحمتیں  ان باتوفیق مردانِ خدا پر نازل ہوتی ہیں  جو حانۂ کعبہ کو صرف دیکھتے رہتے ہیں ۔ (المتجرالرابح في ثواب العمل الصالح، ص۲۰۸ بحوالہ حرمین شریفین، ص۱۱۰)

            جب آدمی کی نظر خانۂ کعبہ پر پڑتی ہے تو وہ روحانی، ایمانی اور رحمانی احساسات کے ساتھ پڑتی ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں  اور دیکھنے والا رحمت کی بارش میں  بالکل نہالیتا ہے، اس وقت اس کی دعا قبول ہوتی ہے (تحفۃ الذاکرین ۷۸ بحوالہ حرمین شریفین، فضائل وآداب ص۱۱۱)

            ایک موقع سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  النظر إلیٰ الکعبۃ عبادۃ  (کعبہ کودیکھنا عبادت ہے)  (محرک سواکن الغرام ص۱۴۹، بحوالہ مصنف وبیہقی)

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہوئے تو آپ نے نماز پڑھی اور دعا فرمائی تھی، اس وقت ہر مؤمن کے دل میں  عجیب وغریب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ہر ایک ایمانی اور روحانی جذبات سے لبریز ہوجاتاہے۔ اس وقت کی دعا بالکل عرش پر چلی جاتی ہے، رد نہیں  ہوتی، یہ خصوصیت صرف اور صرف خانۂ کعبہ کو حاصل ہے۔

طواف بھی صرف خانۂ کعبہ کی خصوصیت

            خانۂ کعبہ ہی ایسا گھر ہے جس کا طواف صرف مشروع ہی نہیں ؛ بلکہ اہم ترین عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے (حج۲۹)، خانۂ کعبہ کے علاوہ کسی گھر، کسی مقام، یا کسی عمارت کا طواف جائزنہیں ، حرام اور ممنوع ہے، قبروں  کاطواف کرنے والے بدعتی ہیں ، ان کی گمراہی میں  شبہ نہیں ۔

            طوافِ کعبہ سے گناہ معاف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور جہنم سے آزادی حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے بھی خانۂ کعبہ کو ’’بیت عتیق‘‘ (آزاد گھر) کہا جاتا ہے کہ اس کا طواف دوزخ سے آزادی کا سبب ہے۔

غلافِ کعبہ

            غلافِ کعبہ صرف کعبہ شریف پر ہی ڈالا جاتا ہے، دنیا کی کسی اور مسجد پر نہیں  ڈالا جاتا، اس کی ابتدا کس سے ہوئی اس سلسلے میں  ایک تاریخی روایت تو یہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسماعیلؑ نے خانۂ کعبہ پر غلاف ڈال کر اسے زینت بخشی اور دوسری روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے یمن کے بادشاہ تبع اسعد حِمْیَری نے خانۂ کعبہ پر غلاف ڈالا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کی نیت سے آرہا تھا کہ راستے میں  سخت آندھی نے آپکڑا، اس نے دو اہلِ کتاب عالم (احبار) سے وجہ پوچھی تو انھوں  نے یہ ارادہ ترک کرنے اور خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔ اس طرح یہ مبارک سلسلہ شروع ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس بادشاہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع فرمایا اور وجہ خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھانا بیان فرمائی۔ (قرطبی ۲/۱۳۵، بقرہ ۱۲۷)

            زمانۂ جاہلیت میں  قریش یوم عاشورہ (دسویں  محرم) کو غلاف تبدیل کرتے تھے (بخاری۱۵۹۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یمنی چادر چڑھائی تھی، یہ سلسلہ خلفائے اربعہ کے دور میں  بھی جاری وساری رہا، حضرت امیر معاویہؓ نے سال میں  دو مرتبہ اور خلیفہ مامون نے تین مرتبہ غلافِ کعبہ کی تبدیلی کا اہتمام کیا اور اب تواس کے لیے ایک مستقل فیکٹری ہے، جہاں  نہایت ہی اہتمام سے غلاف تیارہوتا ہے اور ہر سال یوم الترویہ (۸؍ذی الحجہ) کو تبدیل کیاجاتا ہے، اس میں  عالمِ اسلام کی ممتاز شخصیات مدعو کی جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی عظمت سے اسلام اور مسلمانوں  کی عظمت کومربوط کررکھا ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔

زمزم

            خانۂ کعبہ کی ظاہری خصوصیت میں  سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں  اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ جاری فرمادیا ہے، حضرت جبرئیلؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی ایڑی کے پاس اپنا پر مارا اور یہ چشمہ جاری ہوگیا، حضرت ہاجرہؓ نے زمزم سے موسوم کردیا، اس پانی میں  اللہ نے غذائیت بھی رکھی ہے اور سیرابی کی صلاحیت بھی، اس کا پینے والا جس نیت سے پیتا ہے  اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ ظاہری اور باطنی بیماری کے لیے شفا کا ذریعہ بھی ہے۔

            حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں  مروی ہے کہ وہ جب مدینہ لوٹتی تھیں  تو زمزم ساتھ لے جاتی تھیں  اور فرماتی تھیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے۔ (تحفۃ الالمعی ۳/۳۶۷) یہی وجہ ہے کہ حجاج کرام اپنے ساتھ زمزم لاتے ہیں  اوراس کی برکات سے غیرحاجیوں  کو بھی مشرف فرماتے ہیں ۔

حجرِ اسود

            خانۂ کعبہ کی ہی خصوصیت اوراس کا امتیاز ہے کہ اس میں  جنت سے آیا ہوا پتھر نصب کیا ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            نَزَلَ الحَجَرُ الأسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَہُوَ أشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْہُ خَطَایا بني آدم۔ (سنن ترمذی۸۶۵)

            ترجمہ: حجر اسود جنت سے اترا ہے اوراس وقت وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پس اس کو انسانوں  کی خطائوں  نے میلا کردیا۔

            تاریخی روایات میں  ہے کہ جب آدمؑ کو زمین پر اتارا گیا تو جنت کی نشانی کے طور پر اُن کو وہ پتھر دیاگیا تھا، پھر وہ کعبہ کے ایک کونہ میں  لگادیا گیا۔ (تحفۃ الالمعی ۳/۲۷۷)

            یہ عجیب وغریب شان کا پتھر ہے، اس کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حجر اسود کو اس شان سے نئی زندگی دیں گے کہ اس کی دو آنکھیں  ہوں گی، جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور اس شخص کے حق میں  گواہی دے گا جس نے برحق طور پر اس کو چھویا ہے، یعنی حجر اسود دیکھنے میں  اگرچہ پتھر ہے؛ مگر اس کی ایک خصوصیت ہے، وہ اس شخص کو پہچانتا ہے، جو بہ نیتِ تعظیم اس کا استلام کرتا ہے اور قیامت کے دن اس کے حق میں  گواہی دے گا۔ (سنن ترمذی ۹۴۹)

            حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں  کہ ہم نے آنکھوں  سے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بیت اللہ شریف گویا روحانیت سے بھرا ہوا ہے اور حجر اسود اس کا ایک جز ہے، پس ضروری ہے کہ اس کو آخرت میں  وہ چیز دی جائے جو زندوں  کی خاصیت ہے یعنی آنکھیں  اور زبان دی جائے کیوں کہ جو پتھر مدتِ دراز تک الطافِ الٰہی کا مورد رہا ہو، اگر وہ آخرت میں  ذی عقل مخلوق بن جائے تو اس میں  تعجب کی کیا بات ہے؟ (تحفۃ الالمعی ۳/۳۶۶)۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts