از: مولانامیرزاہد مکھیالوی

جامعہ فلاح دارین، بلاسپور

            شریعتِ اسلامیہ نے جن متبرک راتوں میں جاگنے اور عبادت کے ذریعے انھیں زندہ کرنے کی تعلیم دی ہے، ان میں شعبان کی پندرہویں رات بھی ہے، جسے شبِ برأت کہا جاتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ زمانے سے لے کر صحابہٴ کرام، تابعین، تبعِ تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین تک ہر زمانے میں اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور اللہ کے نیک بندے ہر زمانے میں اس رات کے اندر خصوصی عبادت کا اہتمام فرماتے رہے ہیں۔ اس موقع پر کرنے کے کام کیا ہیں اور مسلمانوں کو کن کن امور سے دور رہنا چاہیے؟ ہم یہاں مختصر طریقے سے عرض کرتے ہیں:

            (۱) طبعی نشاط وتحمل کے بہ قدر جاگ کر عبادت کرنا، مثلاً نوافل، تلاوت، استغفار دعا وغیرہ میں مشغولی اس دھیان کے ساتھ کہ صبح کی نماز متاثر نہ ہو؛ بلکہ عام دنوں کی طرح اس روز بھی فجر کی نماز کا اہتمام باجماعت ہو، شب کی نفلی عبادت سے جسمانی تکان کی وجہ سے اگر نماز قضا ہوگی یا جماعت فوت ہوجائیگی تو رات بھر کا بیدار رہنا اکارت ہوجائے گا۔

            (۲) پندرہویں تاریخ میں روزہ رکھنا اس کا ثبوت اگرچہ ایک ضعیف حدیث سے ہے؛ لیکن اس اعتبار سے کہ یہ تاریخ ایامِ بیض میں سے ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵) میں روزہ رکھا کرتے تھے؛ نیز یکم شعبان سے لے کر ستائیس شعبان تک احادیث میں روزہ رکھنے کی فضیلت وارد ہے؛ اس لیے ان دو وجہوں کی بنا پر اگر پندرہ شعبان میں روزہ رکھا جائے گا تو یقینا موجبِ ثواب ہوگا ؛ لیکن اس روزہ میں نفلی روزہ ہونے کے پہلو کو نظر انداز نہ کیا جائے، نفلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا رکھنا باعث ثواب ہے اور اس کے ترک پر کوئی گناہ نہیں۔

            (۳) اس شب میں قبرستان جاکر مرحومین کو ایصالِ ثواب کرنا، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاکسی کو بتائے ایک مرتبہ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے جانا ثابت ہے؛ لہٰذا اتباعِ رسول کے جذبے سے کسی اہتمام اور پابندی کے بغیر اگر قبرستان چلے جائیں تو اجر کا باعث ہے۔ قبرستان جانے کو لازم نہ سمجھیں؛ اس کوشبِ برأت کا جز نہ بنایاجائے کہ اگر قبرستان نہ گئے تو شبِ براء ت ادھوری رہ جائے گی۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں: میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ایک بڑے کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے کہ جو چیز رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہیے؛ لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے؛ اس لیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے؛ لیکن ہر شبِ براءت میں جانے کا اہتمام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا، اس کو شبِ براء ت کے احکام میں داخل کرنا اوراس کا لازمی حصہ سمجھنا کہ اس کے بغیر شب براء ت نہیں ہوتی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ (شبِ براء ت کی حقیقت، ص:۵)

            شبِ براء ت کے موقع پر یہ وہ امور ہیں جن کا ثبوت اسلامی تعلیمات سے ہے اور شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ ان کو بجالانا اجر وثواب کا ذریعہ ہے، اس رات میں ایسے ہی وقت گزاری کرنا، گلیوں بازاروں اور چوراہوں پر فضول گوئی میں قیمتی وقت خراب کرنا یا کاروں، موٹر سائیکلوں اور پیدل شہر میں گھومنا پھرنا، اور تیوہار جیسی شکل بنانا،جیساکہ اکثر مقامات پر مسلمانوں کی یہ صورتِ حال مشاہدہ میں آتی ہے۔ نہ یہ اسلامی طریقہ ہے اور نہ شرعی اعتبار سے ایسا جاگنا سود مند ہوسکتا ہے؛ بلکہ سونے والوں کی نیند میں خلل ڈالنے اور اپنے طرزِ عمل سے ایذا پہونچانے کی وجہ سے بجائے نفع کے ضرر اور نقصان کا باعث ہے۔

            ایسے ہی حلوے کو شبِ براء ت سے جوڑدیاگیا؛ حالاں کہ حلوے کا شبِ براء ت سے کوئی تعلق نہیں، پورا سال کبھی بھی حلوہ پکایا جائے، بُرا نہیں؛ لیکن خاص طور پر شبِ برأت میں حلوے کا اہتمام کرنا؛ اس کا ثبوت نہ قرآن سے ہے، نہ کسی حدیث میں اس کاذکر ہے، نہ کسی صحابی اور بزرگانِ دین کے عمل سے اس کا پتہ چلتا ہے؛ بلکہ یہ بھی ایک خود ساختہ رسم ہے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہے؛ بلکہ شب براء ت کے لیے علامت اور پہچان بن گئی ہے؛ حالاں کہ اس شب میں جس اہتمام سے عبادت کرنی چاہیے، اس سے غافل ہوکر مسلمان آتش بازی اور حلوے کا اہتمام کرنے لگے اور مسلمانوں میں وہ لوگ ایسے مواقع پر پیش پیش نظر آتے ہیں جنھیں نہ دین سے کوئی تعلق، نہ اہل دین سے کوئی علاقہ؛ بلکہ دینی ضرورت اور حکم شرعی کی تعمیل میں وہ نادار بن جاتے ہیں، فریضہٴ حج کی ادائیگی کا مرحلہ ہو یا زکوٰة اداکرنے کا، غریبوں، یتیموں اور اپاہج لوگوں کی اعانت کا موقع ہو یا دینی اُمور میں خرچ کرنے کا، دینی مدرسوں اور اداروں کی مالی امداد کا موقع آجائے تو وہ ہمیشہ اپنی مفلسی اور غریبی کا عذر کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خلافِ شرع مواقع پر خرچ کرنے میں کوئی ناداری آڑے آتی اور نہ اُن کی مفلوک الحالی نفسانیت کی تابع داری میں مانع ہوتی؛ بلکہ بے جھجک وہ اپنی گاڑھی کمائی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

            بہرحال اُصولی طور پر جو کام ازورئے شرع ثابت ہیں اُن کو ثواب کی نیت سے کیا جائے اور جو فضول چیزیں ہیں اُن سے بچا جائے۔ ہر دین دار مسلمان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منکرات سے خود کو الگ رکھے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اپنے اثر ورُسوخ کو استعمال کرکے اپنے اہلِ تعلق کو بھی ان فضولیات سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرے اور اس رات کی قدر کرے کہ جس میں باری تعالیٰ کی جانب سے خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور ندا جاری رہتی ہے، ألاَ ہَلْ مِن مِّسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرُ لہ (کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اس کی مغفرت کروں؟)

            مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ یہ رات شوروشغب اور فضول چیزوں میں لگنے کی رات نہیں؛ بلکہ گوشہٴ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے اپنا تعلق استوار کرنے کی رات ہے۔ دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ جس قدر لمحات آپ نے گزاردیے تو وہ عند اللہ بڑے قیمتی ہیں، اس کے یہاں گھنٹوں کا شمار نہیں کیا جاتا کہ میرا یہ بندہ میری یاد میں کتنا بیدار رہا؟ اور کتنے گھنٹے اس نے میری عبادت کی؟ بلکہ وہاں معیارِ کامیابی اور مقبولیت کی کسوٹی بندہ کا اخلاص ہے کہ وہ کس صالح جذبے سے اللہ رب العزت سے لو لگائے ہوئے ہے؛ اسی لیے بعض نیک بندوں کا چند گھنٹییاکچھ دیر بیدار رہنا بعض کی پوری رات جگ کرگزارنے سے بہتر ہوتا ہے، ہم اپنا اور اپنے گھر کا ماحول دین کے موافق بنائیں گے تو یقینا خیر وبھلائی کے ثمرات ظاہر ہوں گے۔ بس اصل نظر اس پر رہنا چاہیے کہ کوئی بھی اپنی عقل اور شوق کے مطابق کرنے کا نام دین نہیں؛ بلکہ دین اصل اتباعِ شرع کا نام ہے، شریعت اسلامیہ کی تعلیمات وہدایات کی پیروی کرنے کا نام دین ہے۔ ہم لوگ اپنی عملی زندگی میں قدم بہ قدم اسی پہلو کو مدنظر رکھیں کہ یہی کامیابی کی کنجی ہے اوراسی میں دونوں جہاں کی کامیابی مضمر ہے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts