خطبہٴ صدارت اجلاس مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

بتاریخ: ۲۳جمادی الثانیہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۲/ مارچ ۲۰۱۸ء بروز دوشنبہ

از: حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم

مہتمم دارالعلوم دیوبند

==================================

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العٰلمین، والصلاة والسلام علٰی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلٰی آلہ وأصحابہ أجمعین․ اما بعد !

            اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے ہم سب کو امت مسلمہ کی متاع دین ودانش کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے والے مدارس اسلامیہ کی خدمت سے وابستہ فرمایااور ان کے مسائل پر غور وفکر کے لیے، سرمایہٴ ملت کے نگہبان ادارہ دارالعلوم دیوبند میں جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ کرے ہمارا یہ اجتماع، مدارس اسلامیہ میں نئی روح پھونکنے اور ان کو اپنے مقاصدِ قیام میں ماضی کی طرح؛ بلکہ اس سے بڑھ کر سرگرم عمل ہونے پر آمادہ کرنے والا ثابت ہو، آمین! بندہ دارالعلوم دیوبند کے خادم کی حیثیت سے آپ سبھی کا خیرمقدم کرتا ہے اور پوری عظمت واحترام کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے اور آپ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہے کہ اگر آپ کے حقوق ضیافت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی ہوجائے، تو از راہ کرم معاف فرماکر شکر گذار فرمائیں۔

            علماء عالی وقار! رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس اپنے معمول اور طے شدہ نظام کے مطابق منعقد ہورہا ہے۔ اس سے پہلے ۳/جمادی الثانیہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/مارچ ۲۰۱۵ء بروز منگل، مجلس عمومی کا اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس وقت بھی حسب معمول مدارس کے نظام کی بہتری کے لیے بہت سی گذارشات پیش کی گئی تھیں؛ لیکن اُس اجلاس کے بعد سے ملک کے حالات بہت بدل گئے ہیں، ۲۰۱۴ء میں جس مخصوص فکر کاحامل طبقہ ملک میں برسراقتدار آیا تھا اس کے منفی عزائم تو پہلے بھی راز نہیں تھے؛لیکن اب اپنے ان عزائم کی تکمیل یا منصوبوں میں رنگ بھرنے کی اُس طبقہ کی خواہش قدم قدم پر جھلک رہی ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ طبقہ اپنے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ، اسلامی مدارس کو سمجھتا ہے، جو درحقیقت اس ملک کے سیکولر کردار کی طاقت وعلامت ہیں اور ملک کے ساتھ مسلمانوں کی بے داغ وفاداری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں؛ لیکن چوں کہ اس کردار کے ساتھ ساتھ مدارس اسلامیہ، مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ اور اسلام سے اُن کی وابستگی کے بھی ضامن ہیں، اس لیے فرقہ پرست طاقتوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے اور وہ بھی عالمی طاقتوں کی لَے میں اپنی لَے ملاکر مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور مہم چلانے میں پوری شدت کے ساتھ سرگرم ہیں اور موجودہ وقت میں چوں کہ اس ذہن کو اقتدار کی طاقت حاصل ہے اس لیے مدارس پر عرصہٴ حیات تنگ کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔

            ان حالات میں ضروری ہے کہ مدارس اسلامیہ، گہرائی سے حالات کا جائزہ لے کر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں اور اپنے تحفظ واصلاح کے لیے کچھ انقلابی قدم اٹھائیں۔ انقلابی قدم سے مراد مدارس کے اندر کچھ نئی چیزیں پیداکرنا نہیں ہے؛ بلکہ شاید اس وقت کا سب سے بڑا انقلابی قدم یہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ، ماضی سے زیادہ، اپنے اکابر کے نہج اور طریقہٴ کار پر کاربند ہوجائیں۔

            حضرات گرامی! مدارس اسلامیہ کو صحیح نہج پر کاربند رکھنے اور جادئہ مستقیم پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خدام مدارس کے ذہن میں قیام مدارس کے مقاصد واضح طور پر مستحضر ہوں، اس کے لیے اگر ہم دارالعلوم دیوبند کے قدیم دستور اساسی میں بیان کردہ مقاصد کو ایک بار پھر دہرالیں، تو مناسب ہوگا۔ دستور میں دارالعلوم دیوبند (اور بالفاظ دیگرتمام ہی مدارس اسلامیہ) کے مقاصد کو ترتیب وار اس طرح بیان کیاگیاہے:

            (۱) قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائد وکلام اور ان علوم سے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا اور مسلمانوں کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا، رشد وہدایت اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی خدمت انجام دینا۔

            (۲) اعمال واخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کی زندگی میں اسلامی روح پیداکرنا۔

            (۳) اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دین کا تحفظ ودفاع اور اشاعت اسلام کی خدمت بذریعہ تقریر وتحریر بجالانا اورمسلمانوں میں تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ خیرالقرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیداکرنا۔

            (۴) حکومت کے اثرات سے اجتناب واحتراز اور علم وفکر کی آزادی کو برقرار رکھنا۔

            (۵) علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارس عربیہ قائم کرنا اور اُن کا دارالعلوم سے الحاق کرنا۔

            ان مقاصد عالیہ کو سامنے رکھ کر مدارس کے مخلص ودور اندیش بانیان وذمہ داران نے جس طرح اور جس پیمانہ کی خدمات انجام دیں، وہ اس امت کی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ غور فرمائیں کہ ایک ایسے خطے میں جہاں سے آٹھ سو سالہ مسلم حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا، دارالعلوم دیوبند اور اس کے ساتھ دیگر مدارس نے اس انداز سے کام کیا کہ اس خطے میں نہ صرف امت مسلمہ اپنا وجود باقی رکھنے میں کامیاب رہی؛ بلکہ اکابر دیوبند کی خدمات نے دینی ومذہبی اعتبار سے اس کو مرکزی حیثیت دے دی اور گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں، عالم اسلام کے دگرگوں حالات کے باوصف، برصغیر کے مسلمان دینی اعتبار سے قابل رشک حالت میں رہے اور پھر یورپ، امریکہ وافریقہ کے دور دراز علاقوں میں جہاں جہاں اسلام اور علوم اسلامیہ کی روشنی پہنچی، اس میں مرکزی اور بنیادی کردار انہی اکابر کے خوشہ چینوں اور انہی مدارس کے براہ راست یا بالواسطہ فرزندوں کا رہا۔

            مذکورہ دینی وعلمی خدمات کے پہلو بہ پہلو ان مدارس اور ان کے بوریا نشین علماء نے وطن عزیز کے لیے بھی بے مثال قربانیاں پیش کیں اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی جو فکر، حضرت سیداحمد شہید کی قیادت میں عملی شکل میں ظاہر ہوئی تھی وہی حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے واسطے سے، فرزندان دیوبند کو میراث میں ملی، جس کے سب سے بڑے امین، امام حریت حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی قرار پائے اور پھر اُن کے تلامذہ مولانا عبیداللہ سندھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی وغیرہ کی قربانیوں کی شکل میں وہی روح پوری جماعت دیوبند میں کارفرما رہی، جس کی وجہ سے تمام مدارس اور اُن کے علماء وطلباء نے آزادیٴ وطن کی تحریک میں اپنے خون سے رنگ بھرا اور وطن کے چپے چپے میں اپنے نقوش ثبت کیے۔

            حضراتِ گرامی! اگراکابر دیوبند کی خدمات اور فکر کو لفظوں میں تعبیر کرنا ہو،تو کہا جاسکتا ہے کہ علوم کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت، ما أنا علیہ وأصحابي کے منہجِ مستقیم پر استقامت اور اسی کی روشنی میں دین کی معتدل تعبیر، باطل افکار وعقائد کی تردید، معاشرے کی اصلاح، اور مظلوم کی حمایت اور آزادیٴ وطن کی حفاظت، یہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے منہاج پر قائم مدارس اسلامیہ کے مقاصد ہیں اور اُن کی خدمات اور سرگرمیاں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں۔

            ان بلند پایہ مقاصد کی تکمیل کے لیے حضرات اکابر رحمہم اللہ نے جو نصاب تعلیم تجویز فرمایا اور جس نہج پر مدارس کو چلایا اس نے اپنی بھرپور افادیت ثابت کرکے ایک تاریخ مرتب کردی ہے، اگرچہ وقت اور حالات کے تحت یہ نصاب تعلیم جزوی ترمیمات سے گذرتا رہا ہے؛ لیکن مرکزی ڈھانچہ اور بنیادی روح وہی برقرار ہے اور اسی پر قائم رہنا ان مدارس کی کارکردگی باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

            لیکن نصاب تعلیم کے ساتھ زیادہ اہم مسئلہ نظام تعلیم اور نظام تربیت کا ہے، جس پر بہت زیادہ فکرمندی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس حقیقت سے انکار ہرگز ممکن نہیں ہے کہ مدارس کی کارگذاری، ماضی کے مقابلے کمزور ہوئی ہے اور ان میں افراد سازی کی وہ گرم بازاری نہیں رہی ہے، جو کبھی ان مدارس کا طُرئہ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ اس وقت مدارس میں طلبہ کی تعداد تو بہت زیادہ ہے؛ لیکن ان سے فارغ ہوکر نکلنے والے فضلاء میں عام طور پر علم وفن کی وہ پختگی اور فکر کی وہ گہرائی نہیں ہے، جو وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناگزیر ہے، اسی طرح اُن میں اخلاق وکردار کی وہ پختہ کاری بھی نہیں ہے، جس کے بغیر دینی خدمت کے میدان میں کسی شخص کی اہلیت یااُس کے کاموں میں تاثیر وجود ہی میں نہیں آتی۔

            اس کمزوری کے بہت سے اسباب بھی ہیں،جن میں سے بعض کا تعلق زمانے کی تبدیلی اور ماحول کے بدل جانے سے ہے، کہ اس وقت موبائل اور انٹرنیٹ نے بچوں میں بگاڑ کے امکانات کو بہت بڑھا دیا ہے اور گھروں کے ماحول میں بھی ایسی آزادی اور دینی پہلو سے کمزوری عام ہوئی ہے کہ وہاں سے آنے والے بچوں کی اصلاح و تربیت بہت زیادہ بیداری اور فکرمندی کی متقاضی ہے۔ دوسری طرف ہم منتظمین مدارس سے تعلق رکھنے والے اسباب بھی ہیں، کہ ہم میں سے ایک طبقہ مدارس کے مقاصد اور اکابر واسلاف کے منہج ومزاج سے بڑی حد تک غافل یا اس کے بارے میں ضروری فکرمندی سے محروم ہے، مدارس کی تاسیس کے محرکات کا بھی اس میں دخل ہے اور مدارس چلانے میں اپنے بڑوں سے بے نیازی اور دوری بھی اس کے عوامل میں سے ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ طلباء کی تربیت کا باب عام طور پر مطلوبہ توجہ سے محروم ہے۔

            رہنمایان ملت! ان داخلی مسائل کے ساتھ موجودہ حالات میں مدارس کے تحفظ کا مسئلہ بھی حددرجہ اہمیت کا حامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مدارس ہی ملت اسلامیہ کی دینی ضرورت پوری کرتے ہیں اور اس کے دین وایمان پر بقاء کے ضامن ہیں اور اُن کا یہی کردار، دشمنوں کو کھٹکتا ہے، اسی لیے ہمیں ان مدارس کے تحفظ پر بھی غور کرنا ہے اور انتظامی، قانونی، سیاسی اور سماجی تمام پہلوؤں سے اس سلسلے میں متحدہ اور بھرپور کوششیں کرنا ہے۔

            تحفظ ہی سے متعلق یہ مسئلہ بھی ہے کہ مدارس کی انتظامی وفکری آزادی کی بقاء کے لیے بیدار وفکرمند رہا جائے، آپ حضرات کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، کہ ان مدارس کا حقیقی وجود اسی وقت تک ہے جب تک ان کی فکری اور انتظامی آزادی برقرار ہے، اس میں فکری آزادی اصل مقصود ہے؛ لیکن وہ انتظامی آزادی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی، اس لیے انتظامی آزادی کا تحفظ پہلی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے حضرات اکابر رحمہم اللہ نے حکومتی امداد سے مکمل احتراز فرمایا اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں شروع ہی سے ہمارے اکابر فکرمند رہے ہیں، آپ حضرات دارالعلوم دیوبند کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی قدس سرہ کے تحریر فرمودہ اصول ہشت گانہ سے واقف ہیں، ان میں سے تین اصول اسی سے متعلق ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر، مدارس کی فکری وانتظامی آزادی کے لیے کس درجہ فکرمند تھے، ملاحظہ فرمائیں:

            (۱) اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں،جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ چلے گا اور اگرکوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی، جیسے جاگیر یا کارخانہٴ تجارت یا کسی امیرمحکم القول کا وعدہ، تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجاء جو سرمایہٴ رجوع الی اللہ ہے، ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ، آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی رہے۔

            (۲) سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔

            (۳) تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسن نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے۔

            حضرات اکابر کی اس فکرکے پیش نظر دارالعلوم دیوبند نے مرکزی مدرسہ بورڈ کی مخالفت کی تھی اور حال ہی میں حکومت کے امداد یافتہ مدارس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے تو ان تمام اندیشوں کی تصدیق کردی ہے جو اس سلسلے میں ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔

            مدارس اسلامیہ کے پاسباں! مدارس اسلامیہ چوں کہ ملت اسلامیہ کی تمام دینی ضرورتوں کے ذمہ دار ہیں؛ اس الیے اُن کی فکرمندی کا موضوع بعض دیگر امور بھی ہیں، مثلاً تحفظ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کوشش کرنا۔ تحفظ شریعت سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تمام معاملات میں شریعت اسلامیہ کا پابند رکھنا اور ہرحال میں شریعت ہی کو اپنے مسائل کے حل کے لیے واحد ذریعہ سمجھنے پر آمادہ کرنا، گویا  رَضِیْتُ باللّٰہ ربًّا وبالاسلام دینًا وَ بِمُحَمَّدٍ (صلى الله عليه وسلم) رَسُولًا کی کیفیت پیدا کرنا؛ اس لیے کہ اِس وقت، مسلمانوں کو بالخصوص عائلی مسائل میں شریعت کے احکام سے دور کرنے کی ناروا کوششیں خود حکومت کی جانب سے جاری ہیں، تو ہمیں مسلمانوں میں دینی روح بیدار کرنے کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ ہرحال میں شریعت کے جادئہ مستقیم پر استوار رہنے کو ہی سعادت سمجھیں۔

            اسی طرح مختلف عنوانات سے ختم نبوت کے قلعہ میں نقب زنی کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، قادیانیت کے ساتھ ساتھ شکیلیت کا نیا فتنہ زور پکڑرہا ہے، نیز الحاد وتشکیک کی دیگر تحریکات بھی ہیں، ان سب کے مقابلہ کی فکر کرنا بھی مدارس ہی کی ذمہ داری ہے۔

            ذمہ داران مدارس! ایک اہم پہلو جوآپ حضرات کی اولین توجہ کا مستحق ہے وہ مدارس کے داخلی نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اس وقت جو عمومی صورت حال ہے اس میں مدارس کا انتظامی ڈھانچہ مختلف کمزوریوں کا شکار ہے۔ اکثر مدارس میں شورائی نظام مفقود ہے، جس کی وجہ سے وہ شخصی رائے پر چل رہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ اوراساتذہ وملازمین مختلف بے اعتدالیوں کا شکار ہوتے ہیں، کبھی اس کے برعکس منتظمین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی طرح مالی معاملات میں شکایات کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ مجموعی صورت حال یہ ہے کہ مدارس میں عمومی طور پر کوئی ضابطہٴ اخلاق نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ شورائی نظام کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ، طلبہ،اساتذہ اور منتظمین سب کے لیے ضوابط اخلاق طے کیے جائیں اور سب کو ان کا پابند بنایا جائے۔

            رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی مجلس عاملہ نے مربوط مدارس کے لیے ایک ضابطہٴ اخلاق طے کیا ہے، جس میں داخلی نظام، نظامِ تعلیم و تربیت اوراساتذہ، ملازمین اور طلبہ کے سلسلہ میں مفید ہدایات اور مشورے شامل ہیں، ان امور پر خصوصی توجہ مبذول فرمائیں اور اپنے اپنے مدارس میں ضابطہٴ اخلاق کے نفاذ کی جدوجہد جاری رکھیں۔

            نیز مدارس اسلامیہ کے حساب کتاب میں شفافیت پیش نظر رہے اور اسے آڈٹ کرانے کا بھی اہتمام رکھا جائے۔

            رابطہ مدارس اسلامیہ کی مجلس عاملہ نے اپنے اجلاس میں یہ تجویز منظور کی ہے کہ ”مربوط مدارس میں طلبہ کے جدید داخلہ کی کارروائی پورے احتیاط سے عمل میں لائی جائے۔ داخل ہونے والے طلبہ کے نام، ولدیت، پتہ اور تاریخ پیدائش وغیرہ کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے“۔ امیدکہ اس تجویز کے مطابق داخلے کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

            ارکان گرامی رابطہ مدارس اسلامیہ! یہ اجلاس چوں کہ رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا اجلاس ہے، اس لیے اس کا ایک اہم موضوع رابطہ مدارس کے استحکام پر غور وفکر بھی ہے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس موقع پر رابطہ کے اغراض ومقاصد کو مستحضر کرلیاجائے، رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے اغراض ومقاصد، اس کے دستور میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں:

            (الف) مدارس اسلامیہ عربیہ کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانا۔

            (ب) مدارس اسلامیہ عربیہ کے درمیان ہم آہنگی کوفروغ دینا اور روابط کو مستحکم کرنا۔

            (ج)       مدارس اسلامیہ عربیہ کی بقاء وترقی کے لیے صحیح اورموٴثر ذرائع اختیار کرنا۔

            (د)       ان علاقوں میں مدارس اور مکاتب کے قیام کی جدوجہد کرنا جہاں مرکز ضرورت محسوس کرے۔

            (ھ)       بوقت ضرورت نصاب تعلیم میں کسی جزوی ترمیم وتسہیل پر غور کرنا۔

            (و)       نصاب تعلیم میں شامل نایاب وکم یاب کتابوں کا نظم کرنا۔

            (ز)       اسلامی تعلیم اوراس کے مراکز کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور سازشوں پر نظر رکھنا۔

            (ح)      مسلم معاشرہ کی اصلاح اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا۔

            اس وقت ایک گذارش تو یہی ہے کہ ان اغراض ومقاصد کی تکمیل آپ حضرات کی فعالیت پر موقوف ہے، اس لیے پہلے سے زیادہ ان مقاصد کے لیے سرگرم ہوجانا چاہیے، خاص طور پر صوبائی شاخوں کو فعال بنانا حددرجہ ضروری ہے، اس میں شک نہیں کہ چند صوبائی شاخیں شروع سے ہی پوری مستعدی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، بعض دیگر صوبے بھی پچھلے سالوں میں فعال وسرگرم ہوئے ہیں اوراس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ صوبائی شاخوں کی کارکردگی ابھی تک امید افزا نہیں ہے۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہیں جو رابطہ مدارس اسلامیہ کے ناظم عمومی جناب مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی، استاذ دارالعلوم دیوبند کی سیکریٹری رپورٹ میں آپ کے سامنے آجائیں گے۔ آپ سے گذارش ہے کہ ان تمام معاملات پر ذمہ دارانہ توجہ فرمائیں۔

            اکابر واسلاف کے جانشین! ان حالات میں جب کہ باطل طاقتیں اپنے تمام وسائل وذرائع کے ساتھ اللہ والوں کی ہر متاعِ دین و دانش پر حملہ آور ہیں اور ملت انتشار کا شکار ہے، ہم سب کو ایک اور چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے مکمل انابت کے ساتھ رجوع الی اللہ اور دعاؤں کا اہتمام، کہ اس کے بغیر ہماری تمام مساعی بے روح ہیں۔ اس چیز کا اہتمام خود بھی کیا جائے اور عام مسلمانوں کو بھی توبہ واستغفار، صحبت صالحین اور رجوع الی اللہ کے اہتمام پر متوجہ کیا جائے۔ ذاتی طور پر ہم میں سے ہر شخص اپنی باطنی اصلاح کو ہرکام سے مقدم سمجھے اور اس کے لیے محنت کرے، اپنی زندگی کو سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ یقینا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوگی اورہماری تمام محنتیں مفید وبارآور ہوں گی۔

            آخر میں نہایت عاجزی کے ساتھ آپ سے ایک بار پھر، ضیافت کی کوتاہی پر معذرت خواہ ہوں اور تشریف آور ی پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

            اللہ رب العزت اس اجلاس کو دارالعلوم دیوبند، تمام مدارس اسلامیہ؛ تمام تحریکات دینیہ اور پوری امت مسلمہ کے لیے مثمرِخیرات وبرکات بنائے، آمین!

والسلام

ابوالقاسم نعمانی غفر لہٗ

مہتمم دارالعلوم دیوبند

وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء

*  *  *

Related Posts