منعقدہ ۲۳/جمادی الثانیہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۲/مارچ ۲۰۱۸/
بہ مقام: دار العلوم دیوبند
==================
تجویز (۱)
مدارس اسلامیہ کو اُن کے مقاصد قیام کی تکمیل کے لیے فعال بنانے کی ضرورت
رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ عظیم الشان اجلاس اس بات کو شدت سے محسوس کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو اپنے مقاصدِ قیام کی تکمیل کے لیے پہلے سے زیادہ فعال بنانا، وقت کا تقاضا ہے۔ ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے جن مقاصد عالیہ کو پیش نظر رکھ کر، ان مدارس کا سلسلہ شروع کیا تھا اُن میں علوم اسلامیہ کی تعلیم، طلبہ کی اسلامی واخلاقی تربیت، اسلام کی تبلیغ واشاعت، معاشرے کی اصلاح اور دین کے تحفظ ودفاع کی کوشش جیسے امور شامل ہیں اور بلاشبہ مدارس اسلامیہ نے اِن مقاصد کی تکمیل میں اپنے روشن کردار سے ایک تاریخ مرتب کی ہے اور ہرمیدان میں اپنی جدوجہد کے نقوش ثبت کیے ہیں؛ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے اِن مدارس کی کارکردگی میں کمزوری آئی ہے؛ بالخصوص افراد سازی کی وہ گرم بازاری جو مدارس کا طرّئہ امتیاز تھی، نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ اپنے تمام ہی مقاصد قیام بالخصوص تعلیم وتربیت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔ اس کے لیے رابطہٴ مدارس اسلامیہ کا منظور کردہ نظامِ تعلیم وتربیت رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ یہاں اس حقیقت کی جانب متوجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ نظام تعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے تجاویز ہراجلاس میں منظور ہوتی رہی ہیں کہ یہی رابطہ کا اہم ترین مقصد ہے؛ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام تعلیم وتربیت کو مکمل تفصیل کے ساتھ پوری سنجیدگی سے نافذ کیا جائے۔
اسی کے ساتھ دیگر مقاصد قیام خصوصاً اسلام کی تبلیغ واشاعت اور تحفظ ودفاع نیز معاشرے کی اصلاح میں بھی اپنا کردار ادا کرنے پر اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان مقاصد کے لیے تحریر وتقریر دونوں ہی ذرائع سے کام ہونا چاہیے اور تحریر وتصنیف کے لیے طلبہ کی تربیت پر توجہ دی جانی چاہیے۔
تجویز (۲) رابطہٴ مدارس سے متعلق تجویز
رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس اپنے تمام رکن مدارس کو نہایت اہمیت کے ساتھ اس بات پر متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا یہ وفاقی نظام جو رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے نام سے موسوم ہے، بلاشبہ ہم سب کے لیے خیروفلاح کا ذریعہ ہے او ریہ مدارس کا سب سے اہم پلیٹ فارم ہے، اس لیے اس کو مضبوط کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ
(۱) رابطہ کی صوبائی اور علاقائی شاخوں کو زیادہ متحرک اور فعال بنایا جائے۔
(۲) تمام مدارس اپنے صوبائی نظام کے ساتھ تعاون کا طرز عمل اختیار کریں۔
(۳) صوبائی ذمہ داران، تمام معیار پورا کرنے والے مدارس کو ممبربنانے کی کوشش کریں اور تصدیق وغیرہ میں ان کے ساتھ بلاامتیاز تعاون کا طریقہ اپنائیں۔
(۴) صوبائی اور علاقائی شاخیں نیز رکن مدارس، مرکز سے رابطہ استوار رکھیں اور مرکز کی جانب سے آنے والی تجاویز اور ہدایات کو اہمیت کے ساتھ نافذ کریں۔
(۵) رابطہ مدارس اسلامیہ کے منظور کردہ نظام تعلیم وتربیت اور ضابطہٴ اخلاق کو باقاعدہ نافذ کریں۔
تجویز (۳) فرق ضالہ اور افکار باطلہ کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کی ضرورت
رابطہ مدارس اسلامیہ کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، مدارس اسلامیہ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ آزاد فکری اور دین بیزاری کے موجودہ دور میں باطل افکار پھیلانے والے فرق ضالہ کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ ایسے طبقات کی نشان دہی کرنا اور مسلمانوں کو ان کے فکری زیغ سے محفوظ رکھنا بھی مدارس ہی کی ذمہ داری ہے۔ پھر ان میں کچھ تو وہ ہیں جو دائرئہ اسلام میں بلاشبہ داخل ہیں؛ لیکن اہل السنة والجماعة کے صحیح رنگ سے محروم ہیں اور خودرائی، تفسیر بالرائے اور سلف سے بے اعتمادی کی وجہ سے اتباع سنت اور سلف صالحین کی فکری سلامت روی سے عاری ہیں۔ ان کی فکری گمراہی کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔
لیکن ان سے زیادہ خطرناک وہ فرقے ہیں جن کے عقائد باطلہ خرمنِ ایمان ہی کو خاکستر کردیتے ہیں جیسے قادیانیت، بہائیت اور تازہ فتنہ شکیلیت وغیرہ جس کا شکار سادہ لوح مسلمان اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہورہے ہیں۔ ان سب کے خلاف منظم طور سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان میں قادیانیت کا فتنہ سب سے پرانا ہے، جس کے تعاقب کے لیے ۱۹۸۶/ سے دارالعلوم دیوبند میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت سرگرم عمل ہے۔ اب شکیلیت کا فتنہ سامنے آنے کے بعداس کے تعاقب کو بھی مجلس نے اپنی جدوجہد کا حصہ بنالیا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل کام ہورہا ہے؛ چوں کہ اِن دونوں فتنوں کی سنگینی بہت زیادہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مدارس اسلامیہ ان کے تعاقب کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر محنت کریں۔ اس کے لیے یہ اجلاس، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے تجربات کی روشنی میں طے کرتا ہے کہ:
(۱) مرزائیوں اور شکیلیوں کے کفر کو واضح کیا جائے اور بتایا جائے کہ ان کے کفر پر پوری ملت اسلامیہ متفق ہے اس لیے ان کی تقریبات میں شرکت ناجائز ہے، ان کو مسجدوں میں آنے نہ دیا جائے نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے دیا جائے۔
(۲) مدارس کے اساتذہ کم از کم مہینے میں ایک دن طلبہ کو ردقادیانیت وشکیلیت کے مضامین سمجھائیں۔
(۳) برے مدارس میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی ایک شاخ بطور شعبہ قائم کی جائے اور حسب ضرورت بجٹ کا کچھ حصہ اس کام کے لیے خاص کیا جائے۔
(۴) ارباب مدارس اپنی لائبریریوں میں ان دونوں موضوعات پر کتابیں مہیا کریں اور ان فرقوں کا اصل لٹریچر بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(۵) ارباب مدارس، اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کو دو تین ماہ کے لیے اپنے مصارف پر، تربیت حاصل کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند بھیجیں، اس مقصد کے لیے کسی صلاحیت والے غیرعالم شخص کو بھی بھیج سکتے ہیں۔
(۶) متاثرہ علاقوں میں ائمہ وخطباء کے لیے تربیتی کیمپ کا اہتمام کیا جائے۔
(۷) جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور اسکول وکالجز میں پڑھنے والے طلبہ میں بھی ردقادیانیت وشکیلیت کے پروگرام رکھے جائیں اوراس سلسلے کے بنیادی مسائل: عقدئہ ختم نبوت، ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام سے آگاہ کیاجائے۔
(۸) پسماندہ اور دور دراز کے علاقوں میں چوں کہ ان کی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ان علاقوں کا دورہ کیا جائے اور فتنوں کی روک تھام کے لیے مکاتب قائم کیے جائیں۔
تجویز (۴) عالم اسلام، خصوصاً شام کی صورت حال پر اظہار تشویش
یہ اجلاس، عالم اسلام کے مختلف حصوں میں، اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے برپا کردہ جنگی حالات بالخصوص ملک شام کی موجودہ صورت حال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں جس طرح عراق، افغانستان، لیبیا جیسے مسلم ممالک کے نظام کو تہ وبالا کیاگیا وہی کچھ کم نہیں تھا کہ اب ملک شام کی خانہ جنگی نے صورت حال کو آتش فشاں بنادیا ہے۔ شام میں عالمی طاقتوں اور ایران کے تعاون سے وہاں کے صدر بشارالاسد نے بے قصور شہریوں کا جو قتل عام کیا ہے اس نے ہلاکو اور چنگیز کی روحوں کو بھی شرمادیا ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں اس پر خاموش تماشائی کی حیثیت سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔
اسی طرح برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ہونے والے ظلم وستم کا مسئلہ ہے، جس کا اعتراف کرنے کے باوجود اقوام متحدہ یا بڑی طاقتوں کی جانب سے کوئی سنجیدہ عملی قدم اٹھانے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
اُدھر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے وہاں کی صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اُن کے اس فیصلہ کی اگرچہ بین الاقوامی سطح پر مخالفت ہوئی؛ لیکن وہ اس پر اب بھی قائم ہیں اور اگر وہ عملاً یہ اقدام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مسئلہ فلسطین اور زیادہ پیچیدگیوں کا شکار ہوجائے گا۔
ان تمام حالات پر یہ اجلاس اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ انصاف کے دوہرے پیمانوں کو چھوڑ کر، ان مسائل کے حل کے لیے دیانت کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی یہ اجلاس مسلم حکمرانوں سے امید کرتا ہے کہ وہ صورت حال کی سنگینی کا صحیح ادراک کرکے ایسے فیصلے کرنے کی کوشش کریں گے جو ملت اسلامیہ کی عزت وآبرو سے ہم آہنگ اور اُن کی جرأت وعزیمت کے آئینہ دار ہوں گے۔
تجویز (۵) تجویز تعزیت
رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، ان تمام علماء ومشاہیر کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کرتا ہے جو گذشتہ اجلاس کے بعد جوار رحمت حق میں پہنچ گئے، ان میں دارالعلوم دیوبند کے بعض ممتاز اکابر ومحدثین اساتذہ بھی ہیں اور دیگراداروں کے محدثین وعلماء بھی، ان میں سے ہرایک اپنی جگہ آفتاب وماہتاب کی حیثیت کے حامل تھے، اور ان کی رحلت ملت اسلامیہ کا بڑا نقصان ہے۔
(۱) حضرت مولانا عبدالرحیم بستوی استاذ تفسیر دارالعلوم دیوبند
(۲) حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ورکن مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ
(۳) حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری استاذ حدیث وسابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند ورکن مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ
(۴) حضرت مولانا محمد ازہر صاحب رانچی خلیفہ مجاز حضرت شیخ الاسلام ورکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند
(۵) شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صدر وفاق المدارس وبانی ومہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی
(۶) حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی خلیفہ حضرت شیخ الحدیث امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ
(۷) محدث جلیل حضرت مولانا شیخ محمدیونس جونپوری شیخ الحدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور
(۸) حضرت مولانا محمداسلم صاحب قاسمی صاحبزادہ حکیم الاسلام وصدر المدرسین دارالعلوم وقف دیوبند
(۹) مولانا انوار احمد جامعی (۱۰) مفتی عبدالقیوم صاحب رائے پوری
(۱۱) مفتی احمدحسن صاحب ٹونکی، جے پور (۱۲) حکیم محمد الیاس
(۱۳) حضرت مولانا محمداسمٰعیل صاحب بدات (۱۴) مولانا نسیم احمد غازی
(۱۵) مفتی عبداللہ پھولپوری (۱۶) جناب مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی
(۱۷) ڈاکٹر مصطفی اعظمی قاسمی
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:102، رجب-شعبان ۱۴۳۹ھ مطابق اپریل ۲۰۱۸ء
# # #