از: مولانا قاری ابوالحسن اعظمی
ضلع اعظم گڑھ پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا سایہ ہمیشہ دراز رہا ہے۔
اس خطہٴ اعظم گڑھ پر مگر فیضانِ تجلی ہے یکسر
جو ذرّہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے!
اسی مردم خیز خطہ میں موضع جگدیش پور کو دیگر مواضعات پر بفضلِ خدا بڑی علمی فوقیت حاصل ہے۔
صوبہٴ یوپی کا ، اعظم گڑھ ضلع مشہور ہے
جلوئہ انوارِ ربانی سے جو معمور ہے!
اور واقع ہے اسی میں موضعِ جگدیش پور
قابلِ صد فخر ہے ، یہ موضع جگدیش پور
اس موضع کے سلسلہٴ علم وفضل کاآغاز دو شخصیتوں سے ہوتا ہے:
اول : شیخ المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد مسلم صاحب (م۱۳۸۱ھ) (جو اصلاً تو جونپوری تھے مگر گوناگوں رشتہ اسی موضع سے رکھتے تھے)
دوسری: اسم بامسمّیٰ بزرگ شخصیت حافظ ولی محمد صاحب کی تھی۔
اس موضع میں اول الذکر سے علم و تعلیم کا سلسلہ چلا تو ثانی الذکر سے سلسلہٴ حفظ و قراء ت آگے بڑھا۔
حافظ ولی محمد صاحب کے تلامذہ میں راقم الحروف کے والد جناب حافظ محمد حنیف صاحب (م ۱۴۲۲ھ) کے بڑے قریبی ساتھی، موضع کے بڑے ہردلعزیز شخص جناب حافظ انوارالحق صاحب تھے۔ (جنھیں آج ”رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعة و مغفرة کاملةً“ لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد خصوصی صفات اورامتیازات سے نوازا تھا۔ آپ قرآن کریم کے حافظ تھے، جب قرآن کریم تلاوت کرتے تو اس وقت ایک ایک حرف اس طرح الگ الگ نکلتے تھے جیسے خاص طور پر برسہا برس مشق و تمرین کے بعداس مقام پر پہنچے ہوں، حالانکہ یہ صفائی اور صحتِ حروف اور اندازِ تلاوت فطری تھا۔
اللہ تعالیٰ نے جسم وجسامت کے ساتھ ظاہری خوبصورتی اور طاقت و قوت سے بھی نوازا تھا۔ سینہ بڑا طاقتور تھا، متعدد آیات اور تقریباً سات،آٹھ بڑی سطریں دورانِ تلاوت ایک سانس میں واضح اور عمدہ انداز میں بہ سہولت پڑھ لیتے تھے۔ میں اپنے بچپن میں آپ کو بوقت تلاوت بہت دیر تک دیکھتا رہتا تھا۔تلاوت سن کر بڑا رشک آتا کہ کاش میں بھی اسی روانی وضاحت اور خوبصورتی کے ساتھ پڑھتا۔
دراصل استاذِ محترم جناب حافظ ولی محمدصاحب کی آپ پر خصوصی نظر تھی، جو قرآن کریم کی تلاوت میں ظاہر ہوتی تھی۔
آپ بیحد خوش مزاج انسان تھے، موضع میں اپنے بڑے، برابر والوں اور چھوٹوں سے نہایت مخلصانہ تعلق رکھتے تھے۔ برابر والوں سے بے تکلف اور چھوٹوں پر شفقت کے ساتھ گھلے ملے رہتے پورے گاؤں میں سب کی خیرت معلوم کرنا، جاجاکر سب سے ملنا یہ آپ کاروزانہ کا بلاناغہ ایک ایسا معمول تھا کہ کبھی کبھی تو ہم چھوٹوں کو حیرت ہوتی تھی۔
راقم الحروف کے والد، گاؤں کی ایک ایسی شخصیت تھے کہ آپ سے جلدی لوگ بے تکلف ہونے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے مگر آپ ایک تو ساتھی تھے اور دوسرے اپنی فطری خوش مزاجی سے والد صاحب کو ہنسنے اور کسی قدر بے تکلف ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاصی طویل عمر عطا فرمائی اور اس عمر کو آپ نے مومنانہ انداز پر گذاردی، اور بڑے خوش انجام رہے۔
اپنی طویل عمرکا بڑا غالب حصہ نہایت محنت اور گھر گرہستی کے کاموں میں گذارا، اللہ تعالیٰ نے جسیم بنایاتھا، طاقت و قوت بھی عطا کی تھی، کسی کام میں سستی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ بہت سویرے اٹھنا، معمولاتِ اُخروی و دنیوی سے جلد سویرے ہی فارغ ہوجانا اور پھر کام کاج میں اس طرح لگ جانا کہ جیسے خاص اسی کیلئے پیدا ہوئے ہوں۔
لیکن آپ اس مبارک سلسلے سے مربوط تھے جن کی دنیا بھی آخرت کہلاتی ہے، اس لئے نہایت خوش اوقات زندگی گذاری۔
صحت بہت اچھی تھی، لیکن بہرحال عمر کے ساتھ ضعف و اضمحلال لازمی ہے۔ راقم نے اپنے والد کے انتقال کے بعد دیکھا کہ آپ پر اضمحلال کچھ زیادہ ہی طاری تھا۔ ملنے کے بعد فرمایا تھا کہ ”حافظ جی“ تو چلے گئے اور ”اب جلد ہی میری باری ہے“ میں نے کہا تھا، ”نہیں ایسا نہیں کہئے، ابھی تو آپ کو ہم لوگوں کی بہت دن تک سرپرستی کرنی ہے۔“ کہنے لگے، ”اس طرح مجھے بہلانے کی کوشش نہ کرو۔“
بہرحال اتنا تو واضح تھا کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد سے آپ خود کو بہت تنہا، تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔
آپ کے اوصافِ حمیدہ میں ایک عمدہ وصف یہ بھی تھا کہ آپ مریضوں کی عیادت بہت کرتے تھے۔ اچھا خاصہ وقت مریض کے پاس اس کی تسلی اور دلدہی میں گذارتے تھے۔
راقم نے بارہا دیکھا، استاذِ محترم حضرت مولانا افتخار احمد صاحب (م رمضان ۱۴۲۵ھ) کی طویل علالت میں آپ صبح و شام دونوں وقت تشریف لے جاتے اور دیر تک باتیں کرتے رہتے۔
والد صاحب مرحوم کے پاس تو زیادہ وقت گذرتاتھا، والد صاحب سے آپ کو بڑی مناسبت تھی، صرف ایک سال چھوٹے تھے، مجھے یاد ہے جب میں والد صاحب مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد واپس ہوا اور آپ سے ملاقات ہوئی تو والد صاحب سے خاص تعلق اور مجھ پر غایت درجہ شفقت کے باعث دیکھتے ہی آنکھیں بھر آئیں، اور پھوٹ کر روئے۔ جبکہ آپ ایک مضبوط اعصاب اور قلب کے مالک تھے۔ یہ دراصل تعلق اور شفقت کا نتیجہ تھا۔
کمزوری اور ضعف تو بڑھتی ہوئی عمر کا نتیجہ تھا ہی، مگر وہ ایسے کمزور بھی نہ تھے، جس سے کسی طرح کا فوری اندیشہ ہوتا۔
آخر عمر میں دوران راس کا عارضہ ہوگیا تھا، کچھ دور چلتے تو چکر آجاتا، لیکن اور کوئی مرض یا تکلیف نہیں تھی۔ بہرحال دنیا کی زندگی تو محدود اور معدود ہے، کسے یہاں صدا رہنا ہے انتقال سے دو روز پہلے ضعف زیادہ بڑھ گیا تھا، جس کے نتیجے میں آواز بند ہوگئی تھی، مگر ہوش و حواس اور شناخت و پہچان یہ سب مکمل طور پر محفوظ تھے۔
بڑے اطمینان کی بات یہ تھی کہ آپ کے سارے ہی متعلقین، اور صاحبزادے آپ کے پاس تھے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے جناب مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند و ایڈیٹر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند) علالت کی خبر پاکر پہنچ چکے تھے۔ اور آپ نے دمِ آخر یں مولانا کے سامنے لیا، اور ۲۲/ربیع الثانی جمعہ کا دن گذار کر شب میں ۱۱/بج کر بیس منٹ پر واصل بحق ہوگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ ․
مرحوم بلاشبہ بڑے خوش انجام رہے، اور خاص بات یہ ہے کہ آپ ایک بڑے ہونہار، قابل اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے حامل، عالم و فاضل اور محدث و مصنف بیٹے کے خوش قسمت باپ ہیں۔ آپ کے صاحبزادے، قابل فخر عالم جناب مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی سے آج کون پڑھا لکھا شخص ناواقف ہے مرحوم کی مغفوریت کی ایک بڑی علامت اور دلیل مولانا قاسمی کا وجود ہے۔ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ اپنی شانِ مغفوریت کا مظاہرہ کیا ہوگا، اور اس خوش انجام حافظِ قرآن کو جوار رحمت میں جگہ دی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، اور پسماندگان کو خاص طور پر مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی کو صبر جمیل سے نوازے، آمین!
بجاہِ سید المرسلین !
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد: 89 ، جمادی الاول، جماد ی الثانی 1426ہجری مطابق جولائی 2005ء