از: مولاناارشاد احمدقاسمی

مدرس دارالعلوم سوپور، کشمیر

            ”نام“ کسی بھی چیز کے لیے ایک تعارفی علامت ہے جس کی اہمیت فطری بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ ناموں کی اہمیت و افادیت سے کسی مذہب و ملت کوانکار نہیں۔اسلام نے اس موضوع کو اور نمایاں کیا؛ چنانچہ اسلام نے جس خصوصیت اور اہمیت سے اس پہلو کی جانب توجہ دلائی، کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ناموں کے حوالے سے کتب ِ احادیث و فقہ میں معتد بہ مواد دستیاب ہے۔ محدثین و فقہاء نے موضوع کے اہم ہونے کے پیش نظر اس کے لیے الگ ابواب و عنوانات قائم کیے ہیں ؛ کیونکہ نام تعارفی علامت کے ساتھ ساتھ، انسان کے دین و عقیدہ کا مظہر اور اس کے مسلک و مشرب کا ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔اور اس اعتبارسے اسے شعار کا درجہ حاصل ہے ؛ جس کی وجہ سے آدمی باطل مذاہب و مسالک سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اسلامی نام کو ایک بیش قیمت نعمت کا درجہ حاصل ہے۔ حضرت ِ آدم علیہ السلام کو جب اس دنیا میں اتارا گیا، تو فرشتوں نے انسان کی فطری کمزوریوں کو دیکھ کر اپنے پروردگار سے کہا:﴿اَٴتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَاءَ﴾ ” کیا آپ ایسی ہستی کو خلیفہ بنارہے ہیں جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خوں ریزی کرے گی ؟“ (البقرة:۳۰)۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿اَٴنْبِئُوْنِیْ بِاَٴسْمَاءِ ھٰوُٴلَاءِ اِنْ کُنْتُم صادقین﴾ ان حقیقتوں کے نام بتلاوٴ اگر تم درستی پر ہو (البقرة:۳۱)۔ابن عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ناموں کے ذریعے ہی فرشتوں پر حضرت آدم علیہ السلام کا شرف ظاہر فرمایا اور یہ بات واضح ہے (قرطبی:۱/۱۴۶)۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ایک فضیلت نام سے ثابت فرمائی : ﴿لَمْ نَجْعَلْ لَہ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا﴾ ” یعنی یحییٰ سے پہلے کوئی بھی اس کے نام کا شریک نہ تھا (بلکہ یہ ان کا خصوصی اور امتیازی نام ہے) “۔ اس سے معلوم ہوا کہ نام شریعت میں عظیم نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی، اسلام کی جانب سے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ بچے کے اچھے نام کی جانب توجہ کریں اور یہ ایسا حق ہے جس کی اہمیت کاصحیح اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوگا کہ خلیفہٴ دوم حضرت عمر  کے پاس ایک آدمی اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا کہ نافرمان ہوچکا ہے تو حضرت عمر نے اسے حاضر کیا اور کہا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ؟ اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہو ؟ والد کے حقوق پہچانے نہیں ؟ تو اس لڑکے نے حضرت عمر سے کہا :اے امیر الموٴمنین! کیا بیٹے کا اپنے باپ پر کوئی حق ہے ؟ حضرت عمر  نے جواب دیا: ”نَعَمْ، حَقُّہ عَلَیْہِ أنْ یَسْتَنْجِبَ أمَہُ، وَیُحْسِنَ اسْمَہٗ وَیُعَلِّمَہ الْکِتَابَ“ (جی بالکل، باپ پر بیٹے کے کئی حقوق ہیں،وہ یہ ہیں باپ بچے کے لیے اچھی ماں تلاش کرے، اچھا نام رکھے اور کتاب اللہ کی تعلیم دے)۔ تو بیٹے نے کہا : ”فَوَاللہ مَا اسْتَنْجَبَ أُمِّیْ وَمَا ھِیَ الَّا سَنَدَیْہِ اشْتَرَاھَا بِأَرْبَعِ مِائَةِ دِرْھَمٍ، وَلَاحَسَّنَ اسْمِیْ، سَمَّانِیْ جُعَلاً، وَلاَ عَلَّمَنِیْ مِنْ کِتَابِ اللہ آیةً وَاحِدَةً“ (بخدا نہ میرے لیے اچھی ماں کا انتخاب کیا۔ میری ماں ایک سندیہ باندی ہے،جسے اس نے چار سو درہم میں خریدا۔ میرا نام ” جُعَل (یعنی کالا بدصورت)“ رکھا جو اچھا نام نہیں اور نہ مجھے قرآن کی کوئی آیت سکھائی)۔ تو حضرت عمر اس کے باپ کی جانب متوجہ ہوا اور کہا : تیرا دعوی ہے کہ تیرا بیٹا تیرا نافرمان ہے اور تیری حق تلفی کرتا ہے ؟!!، تو نے تو پہلے ہی اس کے حقوق دبا لیے ہیں۔ پھر سخت لہجے میں اس سے کہا : قُمْ عَنِّیْ ” یہاں سے بھاگ“ (تنبیہ الغافلین:۴۶عن موسوعہ الأسرہ: ۴/۱۳۱)۔ اس سے نام کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہوگا کہ کتنا نازک معاملہ ہے، خلیفۃ المومنین نے اس حق تلفی کی بنا پر اس کے باپ کی تمام شکایتوں کو کالعدم قرار دیا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ وُلِدَ لَہ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنِ اسْمَہ وَ أَدَّبَہ ” جس کا کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا خوب صورت نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے“ (بیہقی:۸۱۴۵)۔علامہ ابن حزم لکھتے ہیں: اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ نام رکھنا واجب اور ضروری ہے(مراتب الاجماع:۲۴۹)۔ علامہ ماوردی لکھتے ہیں: فَاذَا وُلِدَ الْمَوْلُوْدُ، فَانَّ مِنْ أوَّلِ کَرَامَاتِہ لَہ وَ بِرِّہ بِہ أنْ یُحَلِّیْہِ بِاسْمِ حُسَنٍ الخ یعنی جب بچہ پیدا ہو تو اس کے ساتھ پہلا حسن سلوک یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھا جائے(تحفۃ الملوک:۱۶۶)۔

عرب کا مزاج

            تاریخ نے عرب معاشرے کے جن عیوب کا ذکر کیا ہے، ان میں شرک و بت پرستی، نخوت و تکبربھی بڑے عیب سمجھے جاتے ہیں۔ ان عیوب کا اثر ان کے ناموں پر بھی تھا ؛چنانچہ وہ ایسے نام پسند کرتے تھے جن میں شرک و بت پرستی، فخر و ریا کا معنی موجود ہوتا اور فخر و ریا میں حدِ مبالغہ سے بھی بعض لوگ حد سے آگے بڑھ گئے تھے۔ تاریخ میں موجود ہے کہ بعض عربوں کا مزاج تھا کہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کراتے تھے کہ باپ ہی اپنی بیٹی سے پیدا ہونے والے اولاد کا نام رکھے گاجیسا کہ عوف بن شیبانی کے سلسلے میں منقول ہے کہ اس نے اپنی بیٹی ام ایاس کا نکاح عمرو بن حجر سے کیا اور شرط یہ رکھی کی ام ایاس سے پیدا ہونے والی اولاد کا نام وہی رکھے گا۔ علامہ ابن القیم لکھتے ہیں : ناموں کے سلسلے میں عربوں کے مزاج مختلف تھے۔ فطرتاً جنگ و جدال کی جانب مائل تھے، اسی لیے اپنی اولاد کا ایسا نام رکھتے جن کے معنی سے دشمن پر فتحیابی کا شگون لیا جاس کے، اس طرح وہ غالب، غَلَّاب (بہت غلبہ پانے والا)، مالک، ظالم، عارم (شدید)، مُنازل (لڑاکو)، مقاتل، مُسْہِر(بے خواب و بے چین کرنے والا)، مُوٴرِق(بے خواب و بے چین کرنے والا)، مصبح (قندیل یا فانوس) اور طارق(رات میں آنے والا) جیسے ناموں کو ترجیح دیتے تھے۔ بعض لوگ سلامتی سے شگون لیتے اور ایسے نام پسند کرتے جس میں حفاظت و سلامت اور سعادت مندی کا معنی پایا جاتا، اسی لیے سالم، ثابت، سعید، سعد، اسعد، مسعود جیسے ناموں کو اچھا سمجھتے تھے۔ بعضوں کی طبیعت تھی کہ نام کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے جن سے قوت و طاقت یا سختی کا کنایہ کیا جاتا۔ اس طرح وہ اسد (شیر)، لیث (شیر)، ذئب (لومڑی)، ضرغام(شیر)، حجر (پتھر)، صخر(چٹان)، فِہر(پتھر)، جندل (ضخیم چٹان)جیسا نام رکھتے۔مزاج میں اتنی آزادی اور لاپرواہی تھی، جس چیز کی جانب مائل ہوتے اسی کو ترجیح دیتے حتیٰ کہ بعض لوگوں کی طبیعت تھی کہ اس چیز کا نام بچے کے لیے منتخب کرتے جس کو وہ گھر سے نکلتے وقت دیکھتے (موسوعة الأسرة عن مفتاح دارالسعادہ ملخصًا:۴/۱۲۷)۔ اسلام توحید کا دین ہے جو اللہ کے فضل و کمال ہی کا داعی ہے۔ ساتھ ساتھ امن و سلامتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر و نخوت وغیرہ سے بیزار ہے؛ اس لیے اس باب میں شریعت کی جانب سے ضروری و غیر ضروری ایسی اصلاحات عمل میں لائی گئیں جو اسلام کے شستہ و شائستہ معاشرہ کے ہم آہنگ ہیں ؛ تاکہ ایک تاریک معاشرہ کے خاتمہ پر ایک روشن معاشرہ کا آفتاب طلوع ہو، جو توہم و شرک سے پاک ہو، صرف اور صرف صبغۃ اللہ (اللہ کے رنگ) میں ڈھلا ہو۔

اچھا نام رکھنے کی ترغیب

            نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسیاتی اثر رہتا ہے۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کااچھا اثر محسوس کرتا ہے؛ چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا تووہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کو جھنجوڑتا رہتا ہے۔ علامہ ابن القیم  نے عجیب بات لکھی کہ ناموں کا یہ اثرانسان کی شخصیت پر اتنا نمایاں ہے کہ مشاہدہ ہے کہ جتنی بڑی شخصیات دنیا میں تشریف فرما ہوئیں، ان کے نام بھی ان شخصیات کے مناسب تھے اور تاریخ میں جو لوگ منفی تشخص رکھتے ہیں، ان کا نام بھی ان کے موافق ملے گا، ان کا اچھا نام نہیں ملے گا (تحفۃ المودود:۲۱۳)۔ حضرت عمر  کے پاس ایک آدمی آیا، آپ نے نام دریافت کیا تو اس نے کہا : میرا نام جمرہ (دھکتی آگ) ہے، پھر دریافت کیا کہ تیرا باپ کون ؟ اس نے جواب دیا : شِھاب (آگ کا شعلہ)۔ پھر پوچھا کہ کس قبیلہ کا ہے؟ تو اس نے جواب دیا :حُرقہ(گرمی اور جلن) قبیلے سے ہوں۔ حضرت عمر  نے سوال کیا کہ تیرا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا: حَرَّة ُ النار (آگ کا علاقہ) میں میرا گھر ہے۔ پھر پوچھا کہ یہ جگہ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ذاتُ لظی (آگ والی) میں۔ حضرت عمر  نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اور بد دعا کے طور پر کہا کہ جاو ٴ تیرا خانہ ہی جل گیا، پھر جب وہ گیا اس نے اپنے گھر کو جلا ہوا پایا(زادالمعاد:۲/۳۰۸، أوجز المسالک:۱۷/۳۳۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کبھی اپنے لیے خود کنواں کھودکر مصیبت کھڑی کرتا ہے؛ کیونکہ آدمی کو اپنے قول و فعل ہر چیز کا حساب اپنے رب کے پاس دینا ہے،اور اللہ کسی بھی چیز پر پکڑ کر سکتے ہیں۔ مومن ایساہونا چاہیے کہ اس کے قول و فعل سے خیر و صلاح ہی ٹپکے۔ گویا اس مذکورہ آدمی کا ایسے نام رکھنا شرعی قوانین پر نہیں تھا ؛ یہی وجہ تھی کہ اللہ نے اس کا نتیجہ اس پر ظاہر فرمادیا۔ حدیث میں ہے : کُلُّ کَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَیْہِ لَا لَہ الَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ نَھْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ یعنی ابن آدم کے (برے) کلام کا نقصان اس کو پہنچتا ہے؛ مگر یہ کہ وہ (خیر کا کلام ہو یعنی)امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قبیل سے ہو(مشکوة:۲۲۷۵)۔ دین اسلام خوب صورت ہے۔ پروردگار خوب صورت ہے۔ اس دین کے مبلغِ اول خوب صور ت ہیں۔ تو شریعت برے ناموں کو پسند کیسے کرتی ؟ حدیث میں ہے کہ بدشگونی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، آدمی کو چاہیے کہ نیک فال اختیار کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے ؟ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الکلمةُ الصالحةُ یَسْمَعُھَا أَحَدُکُمْ یعنی آدمی کوئی صالح اور اچھا لفظ سنے(بخاری)۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف خوب صورت ناموں کو جائز ہی نہیں کہا؛ بلکہ خوب صورت نام رکھنے کی ترغیب بھی دی اور ساتھ ساتھ اس کا رشتہ آخرت کے ساتھ بھی جوڑ دیا۔ حدیث میں ہے: انَّکُمْ تَدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَائَکُمْ۔” تم کو روز ِ قیامت تمہارے اور تمہارے آباء کے ناموں سے پکارا جائے گا؛ اس لیے نام اچھے رکھو“(أبوداوٴد: ۴۹۴۸)۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کئی ایک موقعے پر ان لوگوں کو آگے رکھا جن کے نام اچھے تھے ؛ تاکہ امت میں اچھا نام رکھنے کا رجحان پیدا ہو۔ ایک موقع پر دودھ دوہنے کی باری آئی تو اللہ کے رسول نے فرمایا : اس اونٹنی کو کون دوہے گا ؟ ایک آدمی کھڑا ہو اور کہا : میں! حضور نے پوچھا: نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : ” مُرہ (کڑوا)“۔ فرمایا : بیٹھ جا۔ پھر دوسرا کھڑا ہو ا جس کا نام جمرہ (آگ کا شعلہ)تھا۔ تو اللہ کے نبی نے کہا : توبھی بیٹھ جا۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا جس کا نام ” یعیش “ تھا (زندگی گذارنے والا) “۔ تو اللہ کے نبی نے یہ کام اسی کے سپرد فرمایا (موسوعۃ الأسرة)۔ صرف انسانوں کے لیے نہیں؛بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ شریعت نے مقامات کے صحیح ناموں کی جانب راہنمائی فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے۔ جب کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام دریافت کرتے، اگر اس کا نام پسند آتا، تو خوش ہوتے اور اس کی خوشی آپ کے چہرے پر ظاہر ہوتی اور اگر نام پسند نہ آتا تو چہرے پر ناپسندیدگی ظاہر ہوتی۔ اگر کسی بستی میں جاتے تو اگربستی کا نام پسند آتا تو خوشی کے آثار چہرہ ٴانورپر ظاہر ہوتے اور اگر نام پسند نہ آتا تو اس کی ناپسندیدگی ظاہر ہوتی(ابو داوٴد:۳۹۲۲)۔ یہ ایسی جامع اصلاحات ہیں جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جاہلیت میں رائج تمام رسومات کو صحیح شفاف اسلامی رنگت حاصل ہو۔

محبوب ترین نام

            اللہ معبود ہے اور انسان عابد، اللہ کو بندے کی صفت عبدیت بہت محبوب ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ صفت ِ عبدیت بندے کے ہر چیز سے ظاہر ہو۔ ناموں کے سلسلے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے اپنے خاص تعلق کا اظہار فرمایا۔ حدیث میں ہے : أحبُ الأسماءِ الی اللہ عبدُ اللہ و عبدُ الرحمٰن ” اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین نام عبد اللہ واور عبد الرحمن ہے (مسلم عن ابن عمر)․اس جیسی احادیث کی بنا پر صحابہ میں عبد اللہ نام رکھنے کا رواج بہت بڑھ گیا تھا۔ مشہور ناقد ابن الصلاح کا بیان ہے کہ صحابہٴ کرام میں عبد اللہ نام کے ۲۲۰، افراد موجود تھے۔ حافظ عراقی نے۳۰۰ کی تعداد بتلائی ہے (المنھل اللطیف فی اصول الحدیث:۲۳۰)۔ حدیث میں گو کہ صراحتاً صرف دو ناموں کی افضلیت وارد ہے؛ لیکن محدثین نے قرائن اور شواہد کی بنا پر اس فضلیت میں عموم پیدا کیا ہے اور اور یہ فضلیت ہر اس نام میں ثابت فرمائی،جس میں اللہ تعالیٰ کے کسی نام کے شروع میں لفظ ِ عبد کا اضافہ کیا جائے ۔ مشہور و معروف محدث علامہ قرطبی  رقمطراز ہیں : ”ان دو ناموں (عبد اللہ اور عبد الرحمن) کے ساتھ ان کے ہم مثل نام بھی ملحق ہیں جیسے عبد الرحیم، عبدالملک، عبد الصمد۔ اور ایسے نام اللہ کو اس لیے محبوب ہیں کہ ان ناموں میں اللہ تعالیٰ کے لیے بھی اس کے شایاں شاں وصف (معبود ہونا) موجود ہے اور انسان کے شایانِ شان وصف (یعنی عابد ہونا) بھی موجود ہے۔طبرانی میں ایک حدیث بھی ہے : ”اذا سَمَّیْتُمْ فَعَبِّدُوْا“ یعنی جب نام رکھو تو اس میں اللہ تعالی کے ساتھ اپنی بندگی کا اظہار کرو “(یعنی اللہ تعالی کے ذاتی یا صفاتی نام کے شروع میں لفظ ” عبد“ کا اضافہ کرکے نام رکھو)(تکملۃ فتح الملھم ملخصًا:۴/۱۷۹)۔ بعض محدثین نے افضلیت انھیں دو ناموں کے ساتھ محدود کی۔ ان کے پیش نظر ان احادیث کے الفاظ ہیں جن میں ” عبد اللہ اور عبد الرحمن “ کو افضل نام قرار دیا گیا۔ اس کی علت یہ بھی لکھی ہے کہ ان ناموں میں کمالِ بندگی کا اظہار ہے جو دیگر ناموں جیسے عبد الصمد، عبد القاہر وغیرہ میں موجود نہیں اور ” اللہ اور رحمن“ اللہ کے مشہور نام بھی ہیں (ملخص من فیض القدیر للمناوی:۳/۲۴۶، زاد المعاد: ۲/۳۱۰)۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  فرماتے ہیں : مقاصدِ شریعت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر لوگوں کے ذکر و اشغال میں بھی شامل ہو؛ تاکہ تمام چیزیں حق کا تکلم کرنے والی ہوں اور جب نومولود کا نام اس کے مطابق رکھا جائے تو یہ توحید کی جانب واضح اشارہ ہوگا۔ نیز عرب اور دیگر اقوام کا رواج تھا کہ وہ اپنے معبودوں کے نام پر نام رکھتے تھے۔ پھر جب اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم آداب توحید کی تبلیغ کے لیے آئے تو اس کا اثر ناموں پر پڑنا ضروری تھا۔ اور دو نام (عبد اللہ، و عبد الرحمن) دیگر ناموں کی بہ نسبت زیادہ پسند کیے گئے؛ کیوں کہ ان میں اللہ کے دو مشہورو مخصوص ناموں (اللہ و رحمن) کی جانب نسبت ہے اور ان کا اطلاق غیر اللہ پر نہیں ہوتا (حجۃ اللہ البالغۃ:۲/۴۴۷)۔ محدثین نے اگر چہ ان مذکورہ ناموں کو افضل قرار دیا؛لیکن مشہور و معروف فقیہ و محقق ابن عابدین لکھتے ہیں : سب سے افضل نام محمد ہی ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے سب سے اچھے نا م کا انتخاب فرمایا۔ حدیث میں جو عبد الرحمن اور عبد اللہ کی فضیلت وارد ہے،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے محقق موصوف لکھتے ہیں کہ فضیلت صرف اس لیے ہے کہ اس زمانے میں شرکیہ نام رکھنے کا رواج ہوگیا تھا، تو اس کو مٹانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان ناموں کو محبوب قرار دیااور یہ چیز ” محمد “ کے افضلیت کے منافی نہیں (شامی۹/۵۹۸)۔ عتبی کا بیان ہے کہ اہل مکہ کہا کرتے تھے : ”مَا مِنْ بَیْتٍ فیہ اسمُ مُحَمَّدٍ الَّا رَأَوْا خَیْراً وَ رُزِقُوا“ یعنی جس گھر میں محمد نام کا کوئی آدمی ہو تو گھر والے خیر دیکھتے ہیں اور انھیں رزق کی کمی نہیں ہوتی (الموسوعۃ الفقھیۃ عن مواھب الجلیل:۱۱/۳۳۲)۔ابوامامہ باہلی  سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کا کوئی بچہ پیدا ہوا اور اس کا نام (برکت اور احترام میں) محمد رکھا تو باپ اور بچہ دونوں جنت میں ہوں گے۔ حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن درجہ کی ہے (رد المحتار:۹/۵۹۸)۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ عبدیت والے ناموں کو، انبیاء کے ناموں کے بعد فضیلت حاصل ہے (مرقاۃ :۹/۱۰)؛لیکن اس بات میں دو رائے نہیں کہ عبدیت والے ناموں میں فضیلت اور برکت ہے۔ عبدیت والے ناموں میں ایک بات ملحوظ رکھی جائے کہ صرف انھیں ناموں کے شروع میں لفظِ عبد کا اضافہ کیا جائے جن کو شریعت نے اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں شمار کیا ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں یعنی جو شریعت میں منصوص ہیں۔ جو نام وارد نہیں ان کی جانب لفظ ِ عبد کی نسبت کرکے نام رکھنا درست نہیں ہیں؛ چنانچہ لوگ عبد السبحان، عبد الطالب وغیرہ نام رکھتے ہیں جوکہ غلط ہے؛ کیونکہ یہ نام اللہ کے لیے ثابت نہیں (تسمیۃ المولود ملخصاً:۴۶)

پیغمبروں اور صالحین کے نام رکھنا

            پیغمبروں اور صالحین کے نام رکھنا بھی بہتر اورمستحب ہے۔ مشہور تابعی سعید ابن المسیب  لکھتے ہیں : أحبُ الأسماءِ الی اللہ أسماءُ الأنبیاء یعنی اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام انبیاء کے نام ہیں (الموسوعۃ:۱۱/۳۳۳) اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تُسَمُّوا بأسْماءِ الأنبیاءِ، وَأحَبُّ الأسماءِ الی اللہ عبدُ اللہ و عبدُ الرحمٰن و، و أصْدَقُھا حَارثٌ و ھَمَّامٌ، و أَقْبَحُھَا مُرَّة وَ حَرْبٌ ” انبیاء کے نام رکھو۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب تریں نام عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ اور سچا نام حارث اور ہَمّام ہے۔ برا نام مُرہ اور حَرْب ہے“ (أبو داوٴد)۔اس حدیث سے انبیاء اور عبد اللہ و عبد الرحمن جیسے نام رکھنے کا استحباب معلوم ہوا، ساتھ ساتھ حارث اور ھمام کو صحیح اور سچا نام قرار دیا گیا اور حرب اور مرہ کو برا نام قرار دیا گیا۔ حارث اور ہمام کو سچا اور صحیح نام قرار دینے کی وجہ حافظ منذری  نے یہ لکھی ہے کہ یہ انسان کی حقیقت کے بالکل ہم آہنگ ہے؛ کیونکہ حارث کے معنی کمانے والے اور ہمام کے معنی اردہ کرنے والے، کے ہیں۔ انسان کمانے اور ارادہ کرنے میں ہی رہتا ہے ؛ اسی لیے ان دو ناموں کو سچا نام قرار دیا گیا (الترغیب:۳/۱۹)․ حرب اور مرہ بُرے نام اس وجہ سے قرار دیے گئے کہ ان میں منفی معنی موجود ہے؛ کیوں کہ حرب کے معنی جنگ اور مُرّہ کے معنی کڑوے کے ہیں۔ نیز اس میں امکان یہ بھی ہے کہ لوگ بد شگونی لیں، اسی وجہ سے حدیث میں ان کو قبیح اور برے نام قرار دیا گیا (مرقاة:۹/۳۱)۔ حدیث میں ہے کہ : ”تُسَمُّوا بِاِسْمِیْ وَلاَ تُکِنُّوْا بِکُنْیَتِیْ“ یعنی میرا نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو (مسلم)۔ معلوم ہوا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام رکھنا بھی مستحب ہے۔کنیت سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی؛ تاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تعارف اور پہچاننے میں التباس نہ ہو (تکملۃ فتح الملھم)۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ جب میں نجران گیا، تو انھوں نے سوال کیا کہ تم قرآن کریم میں حضرت مریم کے بارے میں پڑھتے ہو ”یا أختَ ھارونَ“( یعنی ھارون کی بہن) حالانکہ مریم ہاروں کی بہن نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ دونوں کہ درمیان بڑے بڑے زمانے کا فاصلہ ہے۔ تو مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے نبی کے پاس آیا اور یہی سوال دریافت کیا۔ تو اللہ کے رسول نے فرمایا: انھم کانویُسَمُّوْنَ بِأنْبِیَائِھِمْ وَالصَّالِحِیْنَ قَبْلَھُمْ ”وہ لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کا نام رکھتے تھے(مسلم)۔ اسی بنیاد پر محدثین نے لکھا ہے کہ انبیاء اور امت کے صالح شخصیات کا نام رکھنا بھی امر مسنون ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  رقمطراز ہیں : ”کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام اپنے اسلاف کے نام پر رکھنے کو پسند کرتے ہیں۔ اس میں دین کی تعظیم کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اقرار ہے کہ بچے دین دارہیں“ (حجۃ اللہ البالغۃ:۲/۴۴۷)۔ حضرت زبیر ابن العوام نے اپنے دس بیٹوں کے لیے شہدائے صحابہ کے اسماءِ گرامی تجویز کیے، اس امید پر کہ ان کے نقش قدم پر چل کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے۔ حضرت طلحہ نے اپنے بچوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھے تھے(الموسوعۃ الفقہیۃ)۔ اسی طرح حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت ابو موسی اشعری کا نام ابراہیم رکھا (مسلم:۵۷۳۹)۔ ایک صحابی کا نام یوسف رکھا (الأدب المفرد:۳۷۹)۔ انبیاء اور اور گذشتہ صالحین کے ناموں میں بہرحال ایک مثبت تاثیر ہے جو انسان کے نفس و دماغ پر پڑتی ہے اگر انسان واقعی باشعور ہو اور نام کے پس منظر اور تاریخ سے واقفیت رکھتا ہو۔ حضرت عمر کے سلسلے میں جو منقول ہے کہ وہ انبیاء کے نام رکھنے پر سخت نکیر کرتے تھے ؛ حتیٰ کہ انھوں نے کوفہ اپنا حکم نامہ روانہ کیا، جس میں لکھا تھاکہ ” کوئی بھی نبی کا نام نہ رکھے “ (شرح المسلم للنووی:۱۴/۱۱۳)، وہ صرف اس وجہ سے تھا کہ لوگ انبیاء کے ناموں کا احترام نہیں کرتے تھے اور ان کی عظمت سے ناواقف تھے، جیسا کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ محمد بن یزید بن الخطاب نامی شخص کو برا بھلاکہہ رہا تھا اور اسے کہا کہ میں جائز نہیں سمجھتا کہ تم اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام کو برا بھلا کہو۔ چنانچہ انھوں نے اس آدمی کا نام بدل کر عبد الرحمن نام رکھا (شرح المسلم للنووی:۱۴/۱۱۳، مرقاة المفاتیح:۹/۱۰)۔ گویا ان کا مقصد ان ناموں سے روکنا نہیں تھا؛ بلکہ اس بات کی جانب متوجہ کرنا مقصود تھا کہ جس کسی نے نبی کا نام رکھا ہے اس پر ضروری ہے کہ وہ اس کی تعظیم کرے۔حدیث میں بھی اس کی جانب اشارہ کیا گیا، فرمایا: ”تُسَمُّوْنَ أولادَکُمْ محمداً ثم تُلْعِنُوْنَھُمْ “ کہ تم اپنے اولاد کا نام محمد رکھتے ہو پھر ان پر لعنت بھی کرتے ہو (جو کہ ایک غیر شرعی فعل ہے) (مرقاة المفاتیح:۹/۱۰)۔ اسی بنیاد پر فقہائے احناف نے اپنا نقطئہ نظر قائم کیا کہ اللہ کے اسماء مثلاً رشید، علی وغیرہ، اسی طرح انبیاء و صالحین کے ناموں کی اگر معاشرے میں تحقیر ہوتی ہو، تو ایسے مبارک نام رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے؛ کیونکہ اللہ کی جانب منسوب اسماء، اسی طرح انبیاء کے اسماء کی تعظیم لازم اور ضروری ہے۔ فقیہ ابو اللیث لکھتے ہیں : ” میں عجمیوں کے لیے عبد الرحمن، عبد الرحیم جیسے ناموں کو پسند نہیں کرتا ہوں ؛ کیونکہ لوگ ان کے معانی سے ناواقف ہیں اور حقارت سے پکارتے ہیں “ (درمختار مع رد المحتار:۹/۵۹۸)۔ لیکن یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ اللہ اور انبیاء و صالحین کے ناموں میں بہر حال برکت ہے، وہ حکمتوں سے پُر ہیں ؛ فقہاء نے جن اسباب کی بنیاد پر منع کیا ہے، انھیں ہمارے ہی معاشرے اور سوسائٹی نے جنم دیا ہے؛ اس لیے ہم پر اس چیز کی ذمہ داری عائد ہے کہ ان ناموں اور نسبتوں کا صحیح پس ِ منظر جان کران کا احترام کریں اور ساتھ ساتھ ان بے حرمتیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے ہی معاشرے میں پیدا ہوئیں۔

ناموں میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی اصلاحات

             اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر اس نام کو تبدیل کرنے کی کوشش فرماتے تھے جس میں منفی معنی ہوتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ”کان النبی ﷺ یُغَیِّرُ الاسْمَ القَبِیْحَ“یعنی اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  برے نام کو بدلتے تھے (الترمذی:۲۸۳۹)۔ ایک آدمی کا نام اَصرم تھا۔ حضور کی خدمت میں آیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ اَصرم۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ تیرا نام زُرعہ ہے (ابو داوٴد)۔ اصرم کٹنے والے یا کاٹنے والے کو کہتے ہیں جو کہ منفی معنی ہے اور زُرعہ کے معنی کھیتی یا بیج کے ہیں جو ایک مثبت معنی ہے۔ حضرت عمر کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیۃ(گناہگار) تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا نام بدلا۔ اور جمیلہ (خوب صورت) نام رکھا۔ (مسلم)۔ (ایک نام ” آسیہ “ لفظِ سین کے ساتھ ہے جو ایک صالح اور نیک خاتون گذری ہیں، ان کی نسبت پر یہ نام رکھنا مستحب ہے)۔ حضرت علی  سے روایت ہے کہ مجھے پسند تھا کہ میں ابو حرب نام کی کنیت رکھوں (حرب،جنگ اور قتال کو کہتے ہیں اور وہ جہاد و قتال کی جانب بہت مائل تھے)؛ چنانچہ جب حسن پیدا ہوئے تو میں نے اس کا نام حرب رکھا (تاکہ میں ابو حرب کی کنیت رکھ سکوں)۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے کہا : میرے بیٹے کا کیا نام رکھا ؟ تو میں نے جواب دیا کہ” حرب “۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ حسن ہے۔ پھر جب حسین پیدا ہوئے میں نے اس کا نام حرب رکھا۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور فرمایا کی کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے کہا حرب۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کہ یہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرے لڑکے کی پیدائش ہوئی تو میں نے اس کا نام حرب رکھا۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور نام کے بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا: حرب۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ مُحسِن ہے (المسندلأحمد:۷۶۹، المعجم الکبیر:۴۷۰۸) بعض روایات سے ثابت ہے کہ حسن کا نام حمزہ اور حسین کانام جعفر رکھا گیا تھا (المعجم الکبیر ۲۷۱۳)۔ ایک آدمی کا نام شہاب (آگ کا شعلہ)تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا نام ہشام (سخاوت) رکھا (مستدرک لحاکم:۷۸۴۳)۔ ایک صحابی کا نام غُراب تھا۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا نام مسلم رکھا (طبرانی:۱۶۳۹۵)۔ غراب کے معنی دوری یا کوے کے ہیں۔ جاہلیت میں کوے سے بدفالی لیتے تھے، اسی وجہ سے یہ نام بدل دیا۔امام ابو داوٴد  لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاص، عزیز، عَتَلہ، شیطان، حَکَم، غُراب، حُباب اور شہاب ناموں کو بدل ڈالا۔ (مشکوة: ۴۷۷۶)۔ عاص بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے معنی سختی کے ہیں، عزیز اللہ کا نام ہے، تو عبد العزیز کہنا درست تھا۔ عَتَلَہ کو بدل دیا ؛ کیونکہ اس کے معنی شدت اور سختی کے ہے۔ شیطان ابلیس کا نام ہے اور اس کے معنی خبیث کے ہے۔ حَکَم کے معنی حاکم ہے جو خود اللہ کی ذات ہے۔ غراب کے معنی بعد اور دوری کے ہے۔ نیز یہ ایک گندہ پرندہ (کوا) بھی ہے۔ حُباب شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی بولتے ہیں (مرقاة ۹/۲۶، المعجم الوسیط)۔ایک آدمی کانام زَحم(بمعنی ہجوم اور تنگی) تھا۔ اللہ کے نبی نے نام بدل کر اس کا نام بشیر رکھا(المعجم الکبیر: ۱۲۱۵)۔ ایک آدمی کا نام اسود (کالے رنگ والا) تھا، اللہ کے نبی نے اس کا نام بدل کر ابیض (سفید رنگ والا) رکھا(المعجم الکبیر للطبرانی:۵۸۸۴) لیکن اگر تواضع کے لیے کوئی اپنا نام ” اسود “رکھے تو کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ بہت سے صحابہ کانام اسود تھا۔ جگہوں کے نام بھی اگر برے ہوتے تو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو بھی بدل دیا کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی کا ایک بستی کا گذر ہوا، جس کانام عُفرہ (بنجر زمین) تھا۔ اللہ کے نبی نے اس کا نام خُضرہ (سرسبز زمین) رکھا (المعجم الکبیر:۳۴۹)۔ اسی طرح ایک جگہ کا نام ” بقیة الضلالہ “(گمراہی کے باقی ماندہ) تھا۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بقیة الھدی (ہدایت کا باقی ماندہ) نام رکھا۔ ایک قوم سے گذرے اور ان سے کہا کہ تم کون ہو ؟ بولے : بنو غِیّہ (یعنی سرکشی کی اولاد)۔ اللہ کے نبی نے اس کا نام بنو رِشدہ (ہدایت کی اولاد) رکھا (مصنف عبد الرزاق:۱۹۸۶۲)۔ یہ کچھ واقعات ہیں جنہیں یہاں ذکر کیا گیا، اس طرح کے بہت سے واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ تفصیل کے کے لیے حدیث کی کتابوں کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے۔ محدثین نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ان اصلاحات کی وجہ لکھی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو برے معنی کے نام ناپسند تھے اور ایسے نام جن سے بدشگونی کا اندیشہ ہو سکتا ہو (تکملۃ فتح الملھم، المجموع شرح المھذب للنووی ۸/۴۳۶)۔

(باقی اگلے ماہ)

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:102‏،  جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts