از:مولانا شاہ عالم گورکھپوری

دارالعلوم دیوبند

            اسلام میں عقیدہ کو اوّلیت حاصل ہے، پہلے خدا اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا ہے پھر اس کے بعد ہی اعمال کی ابتدا ہوتی ہے ، تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی ضرورت بھی اسی شخص کو پڑے گی جس کا پہلے خدا ، اس کے رسول اور خدا کی کتابوں پر ایمان ہوگا ورنہ احادیث،تفسیر اور فقہ وغیرہ علومِ اسلامیہ کو ماننا ایسا ہی بے سودہوگا جیسے کہ بغیر بنیاد کے عمارت کھڑی کردی جائے ۔عقیدہ کی حیثیت اور اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں؛ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ عقائد کی حفاظت کے لیے جو محنت درکار ہے اس میں مجموعی طورپر حد درجہ ہے ۔ مدارسِ اسلامیہ میں داخل عقائد کے نصاب پر اور ان کی تعلیم اور انداز تعلیم و تعلّم پر اگر منصفانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے عقائد کے باب میں وہ محنت نہیں کی جاتی جودیگر ابواب میں دورِ حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے ۔

            ماضی میں اسلامی عقائد پر جب یونانی فلسفہ نے یلغارکیاتو اس کے فریب کو توڑنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے اس طرح محنتیں کیں کہ یونانی فلسفہ کی جادوگری آج خود فلسفیوں کے لیے مضحکہ خیز بن کر رہ گئی ہے ،متکلمینِ اسلام کے وضع کردہ اصولوں نے فلسفہ کے راستے سے آنے والے ارتدادی سیلاب کو نہ صرف یہ کہ قیامت تک کے لیے بند کردیا؛ بلکہ نازک خیال فلسفیوں کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا؛ لیکن آج صورتِ حال اس طرح بدل گئی ہے کہ جگہ جگہ فتنے پھیل رہے ہیں ، نئے نئے ارتدادی فتنے مسلمانوں کے درمیان جنم لے رہے ہیں ،قدیم فلسفیوں کے زہریلے اثرات کو نئی نئی تعبیرات و زبان میں پیش کرکے ایک بار پھر اسلامی عقائد کو مسخ کرنے کی فکر میں بے شمار تنظیمیں شب و روز مصروف ہیں، اعمال میں تو خود مسلمانوں نے ہی دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وکالت شروع کررکھی ہے؛ لیکن پانی سر سے اتنا اونچا ہوچکا ہے کہ عقائد میں بھی اب دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وبا عام مسلمانوں میں پھیلنے لگی ہے ،ہر دانشوراسلامی عقائد میں رائے زنی کرنااپنا موروثی حق سمجھنے لگا ہے ۔ پھر ملحددانشوروں کی تلچھٹ مرزا قادیانی اوراُس جیسے دیگر لوگ جیسے شکیل بن حنیف یا راشد شاز#وغیرہ ،اپنے آپ کو کیوں پیچھے رکھیں؛چناں چہ وہ بھی مسلمانوں کے درمیان عقائد کی مضبوط تعلیم نہ ہونے کا جی بھرکے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس خودسری کا بھیانک نتیجہ ؛ عقائدِ اسلامیہ کو بازیچہٴ اطفال بنانے کی صورت میں نکلے گا،جیسا کہ عام طور پر اب دیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ جگہ جگہ اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد و نظریات کو تختہٴ مشق بنایا جانے لگا ہے ۔ میدان میں بالکل خاموشی کی بات تو نہیں کی جاسکتی؛ لیکن سوائے چند افراد اور دو ایک تنظیموں کے کتنے لوگ ہیں جو اس سیلاب بلاخیزکو روکنے کے لیے فکر مند ہیں ؟

            فکر مندوں کا بھی حال یہ ہے کہ مرض کی بجائے علامات مرض کے علاج میں لگے ہیں؛ جب کہ فتنوں کی کثرت اِس مرض کی علامت ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کمزور ہوچکا ہے اُسے مضبوط کیاجائے؛ تاکہ فتنوں سے بچاوٴ میں مسلمان خود اپنی طاقت استعمال کرسکیں ۔ علاج کا کامیاب طریقہ یہ ہے کہ مرض کو دُور کیا جائے اور براہِ راست مرض کا علاج کیا جائے نہ کہ علامتوں کا؛لیکن آج کل فتنوں کے پیچھے طرح طرح کی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں، علامات مرض کے پیچھے دوڑ لگانے والے کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں؛ لیکن اصل مرض کے ازالے کی جانب توجہ کتنے لوگوں کی ہے ؟

            بلاشبہ اس میدان میں کام کرنے والی تنظیموں پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں جن کے نبھانے میں وہ کوتاہ عمل ہیں؛ لیکن مسئلے کا حل کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے میں نہیں؛بلکہ اس بات میں ہے کہ ایمان و عقائد کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے سد باب کے لیے عقائد اور علم کلام کی تعلیم کے لیے محنت میں کچھ اضافہ کیا جائے اور علم کلام کی تعلیم کو نہ صرف یہ کہ معقولیت و معنویت کے ساتھ اپنے اپنے مکاتب ومدارس کے نصاب کا جزو بنایا جائے؛ بلکہ عام فہم بیانات اورکتابوں کے ذریعہ مساجد کی صبح و شام کی تعلیم کا حصہ بنادیا جائے ۔متکلمینِ اسلام نے عقائد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو کامیاب و لاجواب علمی اور عقلی اصول دیے ہیں، اُن کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے علاقائی اور رائج زبان و بیان کے ذریعہ عام مسلمانوں میں بھی اتنی صلاحیت پیدا کردی جائے کہ گلی کوچوں میں جنم لینے والی ارتدادی لہروں کا مسکت جواب دینے کی صلاحیت اُن میں پیدا ہوجائے ۔

             علم کلام جوعقائد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے بیگانگی اور ناواقفیت کے سبب آج کا مسلمان اس قدر مرعوب ہوگیا ہے کہ اگر کوئی قادیانی یا شکیلی کسی گلی کوچے میں وسوسہ ڈالے تو ہمارا نوجوان اس کو بہت بڑا تیر سمجھ کر مولانا صاحبوں کے پیچھے پڑجائے گا کہ اس کا جواب کیا ہے؟ لیکن کوئی عالمِ دین مسجد کے ممبر و محراب سے معقول سے معقول ترجواب دے دے تو اس کو لے کر قادیانیوں یا شکیلیوں کے پیچھے کبھی نہیں پڑتا کہ تم نے بلاوجہ کا یہ وسوسہ اسلام میں کیوں پیداکیا ؟ مسلمانوں کے درمیان مرعوبیت کی اس حالت کو اگر ختم کرنا ہے تو اس کے لیے معقول توڑ دریافت کرنا پڑے گا ۔راقم سطور نے اپنے بڑوں کی تحریرات و بیانات کی روشنی میں اس کا جو حل سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کی زبان میں علمِ کلام کے دلائل سے مسلمانوں کو مزین کردیا جائے ۔ اگر اس باب میں بچپن کی تعلیم مضبوط ہوجائے تو عمر کے ہرمرحلے میں اُن دلائل سے وہ بھر پور فائدہ اٹھائیں گے اورقدیم علمِ کلام کو اپنی من پسند جدید زبان میں پا کر ہر دہریے اور ملحدکا توڑ ؛وہ خود دریافت کریں گے؛بلکہ اسلامی عقائد کے روشن ماضی سے خود کو مربوط رکھنے کی ذمہ داری کو بھی وہ محسوس کریں گے ۔

            قدیم متکلمینِ اسلام کے مضامین کو جدید اور سہل زبان میں بیان کرنے یا سمجھنے کے لیے ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا محمد مسلم دیوبندی، اسی طرح حضرت مولانا محمد میاں صاحب  وغیرہ اکابر دیوبندکے رسائل و مضامین جو بہ طور خاص عقائد اور کلام کے ہی موضوع پر تصنیف کیے گئے ہیں؛ شائقین اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے نفع بخش ہوسکتے ہیں یا ان بزرگوں کی تحریرات کی روشنی میں اپنے اپنے علاقوں میں پیش آمدہ مخالفینِ اسلام کے اعتراضات و وساوس کے جوابات؛ نئی نئی مثالوں کے ذریعہآسان زبان میں ترتیب بھی دیے جاسکتے ہیں۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:102‏،  جمادی الآخرہ-رجب ۱۴۳۹ھ مطابق مارچ ۲۰۱۸ء

#             #             #

Related Posts