سرسید احمد خاں کا نظریہٴ حجیتِ حدیث بحث وتحقیق کے آئینہ میں (۱)

بہ قلم: حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی

استاذحدیث دارالعلوم دیوبند

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین والعاقبة للمتقین.

اما بعد!

انکار حدیث کے فتنہ کی ابتداء

            اسلامی تاریخ میں حدیث وسنت کے ایک قابل قدرحصہ کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کا فتنہ سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں صراط مستقیم سے منحرف فرقہٴ خوراج ومعتزلہ وغیرہ نے اٹھایا، یہ گم کردہ راہ فرقے قرآن اوراسلام کے حوالہ سے اپنی خود تراشیدہ جن باتوں کوبحیثیت دین رواج دینے کے درپے تھے چونکہ حدیث رسول کو دین کا ماخذ مانتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا، اس لیے انھوں نے سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے ایک بڑے حصے کی حجیت کا انکار کردیا،مگر یہ فتنہ تادیر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں رہ سکا۔ تیسری صدی کے گذرنے کے ساتھ یہ فتنہ بھی گم نامی کی قبر میں دفن ہوگیا، پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں حجیت حدیث کے انکار کی مدہم سی مدہم آواز بھی سنی نہیں گئی، یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا اور غلام ہندوستان سے سرسید احمد خاں اور ان کے فکری رفقاء مولوی چراغ علی، مولوی امیرعلی شیعی وغیرہ نے موت کی نیند سوئے فتنہ کو پھر سے جگادیا۔

            سرسیدخاں نے اگرچہ اپنے فکری فرزندوں کی طرح سرے سے حجیت حدیث کے انکار کی جسارت تو نہیں کی؛ لیکن حدیث وسنت کے ساتھ انھوں نے اصول محدثین کو نظر انداز کرکے خودرائی کا جو رویہ اختیار کیا اس کا لازمی نتیجہ انکار حدیث کی شکل میں ظاہر ہوا جس کو ان کے فکری جانشین گلے کا طوق بنائے ہوئے ہیں۔

            (۱) سرسید خاں نے حدیث کے خلاف انھیں اعتراضات واشکالات کو ازسر نو اپنے انداز سے دہرایا جنھیں ان کے پیش رو مستشرقین احادیث کو ناقابل اعتبار باور کرانے کے لیے اٹھا چکے تھے اور علمائے اسلام کی جانب سے جن کے مسکت جوابات دیے جاچکے ہیں۔

            (۲) ہر وہ حدیث جو ان کے مزعومہ عقیدئہ قانون فطرت (نیچر) سے ہم آہنگ نہیں ہوتی وہ حدیث خواہ صحیحین (بخاری ومسلم) کی ہی کیوں نہ ہو، ائمہ حدیث اسے صراحتاً صحیح یا حسن کیوں نہ کہتے ہوں اس کو بے توقف بے اصل، موضوع اور ازقبیل خرافات قرار دے دیتے ہیں۔

            (۳) جو حدیث ان کے تیشہٴ تحقیق سے (جو خود ان کا اپنایا ان کے مقتدایان مغرب کا خود ساختہ ہے) محفوظ رہ گئی ہیں اور ان کے اپنے معیار کے مطابق ثابت وصحیح ہیں، انھیں بھی دو خانوں میں تقسیم کردیا ہے: (۱) وہ احادیث جو امور دین سے متعلق ہیں، (۲) وہ احادیث جو امور دنیا سے متعلق ہیں۔ دوسری قسم یعنی امور دنیا سے متعلق احادیث کی تصدیق واطاعت ان کے نزدیک ضروری نہیں، چنانچہ انھوں نے اپنا جو مکتوب حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کو بحوالہ پیرجی محمد عارف بھیجا تھا جس میں انھوں نے دین ومذہب کے متعلق اپنی تحقیقات کے بارے میں (جس کی تفصیلات اپنی تصنیفات ومقالات میں بیان کی ہیں) پندرہ اصول تحریر کیے ہیں، اس کی ساتویں اصل میں لکھتے ہیں:

            ہفتم: ”دینیات میں سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی اطاعت میں ہم مجبور ہیں اور دنیاوی امور میں مجاز، اس مقام پر سنت سے مراد احکام ہیں فقط“ (تصفیة العقاید، ص۹، مطبوعہ شیخ الہند اکیڈمی ۱۴۳۰ھ)

            یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ ان کے خیال میں ادیان ومذاہب کا دائرئہ عمل امور دینیات میں محدود ہے۔ دنیوی معاملات وامور سے دین ومذہب کو کوئی سروکار نہیں ہے، چنانچہ وہ خود واضح اور صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ

            ”دنیا میں دو قسم کے امور ہیں ایک روحانی اور دوسرے جسمانی، یا یوں کہو ایک دینی اور دوسرے دنیاوی، سچا مذہب امور دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا“ (تہذیب الاخلاق(۲) ص۱۴۸ بحوالہ خود نوشت افکار سرسید تدوین وتالیف ضیاء الدین لاہوری)

            سرسید احمد خاں جب دنیا میں پائے جانے والے امور کو دو قسموں میں تقسیم کررہے ہیں تو ان کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ دونوں قسم کے امور کی جامع تعریف اور تحدید بھی کردیتے تاکہ یہ امور آپس میں خلط ملط نہ ہوں، مگر نہ جانے کیوں انھوں نے ان امور کو مبہم رکھا، ہوسکتا ہے کہ یہ ابہام ہی ان کے مفید مقصد ہو، واللہ اعلم

            منجانب اللہ مطاع مطلق کے درجہ پر فائز پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بارے میں سرسید کے اسی نظریہ کا جائزہ اس تحریر میں پیش کیاگیا ہے۔

سنت رسول کا آئینی مرتبہ کتاب اللہ کی نظر میں

            سنت نبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام کا دینِ اسلام میں بڑا عظیم مقام ومرتبہ ہے، تمام اہل اسلام، بالخصوص فقہائے مجتہدین، سلف صالحین اس بات پر متفق ہیں کہ دین اسلام میں کتاب الٰہی قرآن حکیم کے ساتھ سنت رسول (علی صاحبہا الصلاة والسلام) کو بھی منجانب اللہ تشریعی وآئینی مقام حاصل ہے، کتاب وسنت اور قرآن وحدیث ہی دین کی اولین اساس وبنیاد ہیں۔ ان دونوں مصادر کی حفاظت اور ان سے اعتنا درحقیقت دین اسلام کی حفاظت وصیانت کی ضامن ہے۔

            رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں علمائے امت کا یہ اجماعی اعتقاد دراصل اس بات پر مبنی ہے کہ سنت مطہرہ کو خطاء وزلت سے خدائی عصمت اور تحفظ حاصل ہے، نیز جس طرح قرآن مجید وحی الٰہی ہے، اسی طرح خدائے علیم و قدیر نے سنت کو بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی فرمایا ہے، بس فرق یہ کہ قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیرمتلو۔

            (۱) اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ اِنْ ہُوَ اِلّا وَحْیٌ یُّوْحَیٰ“ (النجم) ”اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے، اس کی بات تو وحی ہے جو اس پر (منجانب اللہ) کی جاتی ہے“ اس آیتِ پاک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جزم ویقین سے کہی باتیں درحقیقت خدائے پاک ہی کی بتائی ہوئی ہیں، وہ یہ باتیں از خود نہیں بلکہ بحکم خداوندی بیان کرتے ہیں۔

            (۲) ایک دوسرے مقام میں قرآن ناطق ہے:

”وَاِذا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ آیاتُنَا بَیِّنٰتٍ، قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُونَ لِقَائَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ہٰذَا، اَوْ بَدِّلْہُ، قُلْ مَا یَکُوْن لِیْ اَنْ اُبَدِلّہُ مِنْ تِلْقَائِی نَفْسِی ج اِنْ اَتَّبِعُ مَا یُوحَیٰ اِلَیَّ، الآیة (یونس)

            ”اور جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری واضح آیتیں تو وہ لوگ جن کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں ہے کہتے ہیں لے آ کوئی قرآن اس کے سوا، یا اسے بدل دے، تو کہہ دے میرا کام نہیں کہ اس کو بدل دوں اپنی طرف سے، میں پیروی کرتا ہوں اسی کی جو وحی کی جائے میری طرف“۔

            اس مقدس آیت میں اللہ عزّوجل نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ میرے رسول کا قول وعمل وحی الٰہی کے تابع ہوا کرتا ہے۔ وہ عام طور پر وہی کرتے اور کہتے ہیں جس کا منجانب اللہ انھیں حکم ہوتا ہے۔

            (۳) ایک اورمقام پر فرمانِ خداوندی ہے:

”وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیم ٍ o صِراطِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰت وَمَا فِی الْاَرْضِ اَلاَ اِلی اللّٰہِ تُصِیْرُ الْاُمُوْر“ (الشوری)

            ”بیشک تو رہنمائی کرتاہے سیدھی راہ کی، اللہ کے راستہ کی، جس کی آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں ہیں، خبردار رہو کہ اللہ ہی کی طرف سب امور لوٹتے ہیں“۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وفعل کے ذریعہ بندگانِ خدا کو دین ودنیا کی جو سیدھی راہ دکھائی اور ان کی رہنمائی کی ہے اس کی یہ ثنائے بلیغ اور توصیف عظیم، حتی کہ اسے صراط اللہ اور ہدایتِ ربانی قرار دینا بجائے خو داس بات کی واضح دلیل ہے کہ سنت رسول (یعنی آپ کا قول وفعل) وحی الٰہی ہی ہے جس کے حق وصواب ہونے میں ادنیٰ تردد کی گنجائش نہیں ہے۔

            (۴) سورئہ الاحزاب میں حکم ربّانی ہے:

        ”وَمَا کَانَ لِمُوٴْمِنٍ وَلاَ مُوٴْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَمْرًا اَنْ یّکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِہِمْ“ الآیة․

            ”اور کسی موٴمن مرد اور موٴمن عورت کو لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو انھیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے“۔

            عربی زبان کے قواعد سے واقف جانتے ہیں کہ شرط کے ساتھ نکرہ کا استعمال عموم معنی کے لیے ہوا کرتا ہے، لہٰذا آیت پاک میں لفظ ”اَمْرًا“ عام ہے جو دینی ودنیوی سب امور کو شامل ہوگا، پھر شأنِ نزول سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے، کیونکہ آیت شریفہ حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے رشتہٴ نکاح سے متعلق نازل ہوئی ہے(۱)، حضرت زینب اور ان کے بھائی کو یہ رشتہ پسند نہیں تھا؛ لیکن اس آیت کے نازل ہونے پر انھوں نے اپنی رضا کے بالمقابل اللہ اور رسول کی مرضی ہی کو ترجیح دی، کون نہیں جانتا کہ مرد و عورت کا باہم رشتہٴ ازدواج میں منسلک ہونا ایک انسان کی اپنی شخصی زندگی سے تعلق رکھتا ہے جب اس جیسے معاملہ میں بھی اللہ کے رسول کے فیصلہ کے بجائے اپنی رائے اور پسند کو اختیار کرنا بحکم خداوندی موٴمن کی شایان شان نہیں تو پھر دیگر دنیاوی امور ومعاملات میں رسولِ خدا کی حدیث کو نظرانداز کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے۔

            کتاب اللہ کی ان مذکورہ آیتوں کے علاوہ وہ آیتیں جن میں علی الاطلاق آپ کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے وہ بھی اپنے اطلاق وعموم کی بناء پر یہی بتارہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل خواہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے واجب الاتباع ہے، بطور مثال کے اس نوع کی چند آیات نقل کی جارہی ہیں:

(۵) ”یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ واَطِیعُو الرَّسُولَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ، فَاِنْ تَنَازَعْتُم فِی شیءٍ فَرُدُّوْہ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ اِنْ کُنْتُم تُوٴمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِر“ الآیة (النساء)

            ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، اور ان کی بھی جو تم میں اہلِ حکومت ہیں، پھر اگر کسی امر میں تمہارا باہم اختلاف ہوجائے تو تم (اس کے تصفیہ کے لیے) اللہ اور سول کی جانب رجوع کرو، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو“۔

            یہ آیت پاک درج ذیل احکام پر مشتمل ہے:

            (الف) ”اطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُو الرسولَ“ اللہ رب العزت نے اس فرمان کے ذریعہ اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو واجب ٹھہرایا ہے اور ”الرَّسول“ کے ساتھ ”اَطیعوا“ کا اعادہ فرماکر یہ واضح کیا ہے کہ رسول کی پیروی بھی مستقل طور پر واجب ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات کا حکم دیں خواہ وہ قرآن مجید میں پائی جائے یا نہ پائی جائے، پھر وہ حکم دنیا سے متعلق ہی کیوں نہ ہو، اس کا قبول کرنا امت پر لازم ہوگا، کیوں کہ آپ کو ”الکتاب“ اور اسی کی طرح واجب الاتباع حکمت و سنت بھی عطا کی گئی ہے۔

            (ب) ”اُولِی الْاَمْر“ سے فعل اطیعوا کو حذف کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اہل حکومت کی اطاعت وپیروی ”الرسول“ کے تابع ہے، لہٰذا ان کا وہی حکم لائق اتباع ہوگا جو حکم رسول کے موافق ہو، بصورت اختلاف حکام کا حکم لائق اتباع نہیں ہوگا۔

            (ج) ”فَاِنْ تَنَازَعْتُم فِی شَیْءٍ“ سے معلوم ہوا کہ بعض احکام میں اہل ایمان میں باہم نزاع واختلاف ہوسکتا ہے، یہ نزاع واضح، غیرواضح، بڑے چھوٹے ہر طرح کے حکم میں ہوسکتی ہے، نیز اس نزاع واختلاف کے باوجود وہ صفت ایمان سے متصف رہیں گے اس سے الگ نہیں ہوں گے۔

            (د) ”فَرُدُّوْہ اِلی اللّٰہِ والرَّسولِ“ آیت پاک کا یہ جملہ بتارہا ہے کہ ملت اسلامیہ کے تمام متنازع مسائل کا حل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ میں موجود ہے، کیونکہ نزاعی مسئلہ میں کتاب الٰہی اور سنت نبوی کی حیثیت قولِ فیصل کی نہ ہوتی تو اس کے تصفیہ کے لیے ان کی جانب ردّ ورجوع کا حکم کیوں دیا جاتا۔

            علمائے حق کا اس پر اتفاق ہے کہ ”ردّ الی اللّٰہ“ سے مراد قرآن حکیم کی جانب رجوع کرنا ہے اور ”ردّ الی الرسول“ کا معنی یہ ہے کہ آپ کی حیات میں خود آپ کی ذات والا صفات کی جانب اور بعد از وفات آپ کی احادیث وسنن کی طرف مراجعت کی جائے گی۔

            (ھ) ”ان کتنم توٴمنون باللّٰہ الخ“ سے معلوم ہوتا ہے کہ نزاعی معاملات میں قرآن وحدیث کی جانب رجوع شرائط ایمان میں سے ہے، آیت مبارکہ کے اس آخری حصہ سے صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ جماعتِ مسلمین کے معاملات ومسائل میں اصل دلیل وحجت قرآن وحدیث ہی ہیں، ان کی حجیت کا اعتقاد ایمان کی شرائط میں سے ہے۔

            (۶) اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُولَ فَاِن تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُولِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْن“ (التغابن)

            ”اللہ تعالیٰ کی پیروی کرو اور رسول اللہ کی پیروی کرو، پھر اگر تم نہ مانو تو ہمارے رسول پر تو صرف واضح طور پر پہنچادینا ہے“۔

            اس آیت کریمہ سے بھی دین ودنیا کی کسی قید کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکام کی اتباع و پیروی کا وجوب ثابت ہورہا ہے۔ آپ کا صادر کردہ حکم وحی الٰہی کے تحت ہو، یا ایسے اجتہادسے ہو جسے منجانب اللہ برقرار رکھاگیا ہے، بہرصورت آپ کے حکم کو صحیح ودرست ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب اور ضروری ہے۔

            (۷) ”مَنْ یُطعِ الرَّسولَ فَقَدع اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا“ (النساء)

            ”جس نے رسولِ خدا کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے (اطاعت سے) منھ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا ہے (کہ انھیں سرتابی نہ کرنے دو)

            اس ارشاد خداوندی میں بھی علی الاطلاق رسول اللہ کی پیروی کو اللہ تعالیٰ کی پیروی بتایا گیا ہے، کیونکہ آپ کا ہر قول وفعل ابتدائی طور پر یامآل وانجام کے لحاظ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عین منشاء ومرضی کے مطابق ہوتا ہے، جو بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہورہا ہے، لیکن فی الحقیقت وہ خدائے علیم وخبیر ہی کا حکم ہے۔

گفتہٴ او گفتہٴ اللہ بود              گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

            (۸) ”وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُم عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُو اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ“ (الحشر)

            ”اور جو دے تم کو الرسول سولے لو، اورجس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ سخت عقاب والے ہیں۔“

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست تلامذہ صحابہٴ کرام اس آیت پاک کا کیا معنی ومطلب سمجھتے تھے اس کی وضاحت فقیہ الامت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج بخاری ومسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔

عن عبد اللّٰہ بن مسعود قال: لعن اللّٰہ الواشمات، والمستوشمات، والنامصات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغیرات خلق اللّٰہ، فبلغ ذلک امرأة من بنی الاسد یقال لہا: ام یعقوب، وکانت تقرأ القرآن، فأتتہ فقالت: ما حدیث بلغنی عنک؟ انک لعنت الواشمات والمستوشمات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغیرات لخلق اللّٰہ؟ فقال عبداللّٰہ: وما لی لا العن مَن لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو فی کتاب اللّٰہ؟ فقالت المرأة: لقد قرأت ما بین لوحتی المصحف فما وجدتہ؟! فقال: لئن کنتِ قرأتیہ لقد وجدتیہ قال اللّٰہ تعالیٰ: ”وَمَا اَتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُم عَنْہُ فانتہوا“

            عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی لعنت ہے بغرض خوبصورتی گودنا گودوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اور بالوں کو نوچنے والیوں اور دانتوں کو باریک کرنے والیوں پر یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والی ہیں، عبداللہ بن مسعود کی یہ بات ام یعقوب نامی قبیلہ بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی تو وہ ان کے پاس آئی اور کہا کہ یہ کیسی بات ہے جو آپ کے حوالہ سے مجھ تک پہنچی ہے کہ آرائش کی غرض سے گودنا گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر اور بالوں کو اکھاڑنے والیوں اور دانتوں کو پتلا کرنے والیوں پر آپ لعنت بھیجتے ہیں؟ تو حضرت عبداللہ نے کہا میں ان پر کیوں نہ لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اور یہ لعنت کتاب اللہ میں بھی ہے، ام یعقوب نے کہا میں نے پورا قرآن پڑھا ہے مجھے تو اس میں یہ لعنت نہیں ملی، عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تو غور سے پڑھتی تو اس کو پالیتی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”مَا اتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہو“ یعنی جب قرآن میں یہ حکم خداوندی ہے کہ اللہ کے نبی جو حکم دیں وہ کرو جس سے روک دین اس سے رک جاؤ، تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مذکورہ عورتوں پر لعنت بھیجی ہے تو اس آیت کے عموم میں یہ لعنت داخل ہوگی، گویا اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ رسول کی اس لعنت کی اتباع میں تم بھی ان پر لعنت بھیجو۔

            پھر یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اللہ عزّوجل نے دین ودنیا کی کسی قیدکے بغیر عمومی طور پر نبی کریم علیہ الصلاة والتسلیم کی اطاعت واتباع کرنے والوں کی مدح وتحسین فرمائی ہے، نیز آپ کی سیرت طیبہ کو اسوئہ حسنہ اور بہترین نمونہ قرار دے کر آپ کی اتباع وپیروی کی دعوت وترغیب دی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:

            (۹) ”قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہ فَاتبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِر لَکُم ذُنُوْبَکُم وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ“ (آل عمران)

            ”کہہ دو اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تم اللہ کے محبوب ہوجاؤگے اور وہ تمہارے گناہوں کی بخشش کردے گا اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“

            یہ پاک آیت اس کی روشن دلیل ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ وسنت مطہرہ کو بارگاہ الٰہی میں محبوبیت کا ایسا اعلیٰ وارفع مقام حاصل ہے کہ اس کی اتباع وپیروی کرنے والے بھی خدائے غفور ورحیم کے محبوب ہوجاتے ہیں۔

            اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آپ کی پیروی مطلق کی اس بلیغ دعوت وترغیب کے بعد کیا ہم بندوں کے لیے اس کی گنجائش ہے کہ ہم کہیں کہ دینی امور سے متعلق سنت نبوی ہمارے لیے نمونہٴ عمل ہے، مگر دنیاوی امور ومعاملات کے بارے میں وارد سنتِ محبوب الٰہی ہمارے واسطے مینارئہ ہدایت نہیں ہے، ہم مختار ہیں چاہے سنت نبوی پر عمل کریں اور چاہے اسے چھوڑ کر کوئی اور ڈگراختیار کرلیں۔کتنے واضح الفاظ میں قرآن مقدس کا بیان ہے:

            (۱۰) ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُول اللّٰہ اُسْوَةٌ حَسَنةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَومَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہِ کَثِیْرًا“ (الاحزاب)

            ” یقینا تمہارے لیے (سنت) رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے، ان لوگوں کے لیے جو اللہ (سے ملنے) اور آخرت (کا ثواب حاصل کرنے) کی امید رکھتے ہیں، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

            یعنی اللہ کی لقا اور آخرت کے ثواب کے امیدواروں کو چاہیے کہ ہر معاملہ میں خواہ وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو اپنے لیے نمونہ بنائیں، نیز ہمت واستقلال میں آپ کے طریقہ کی پیروی کریں۔

            علاوہ ازیں کلام اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وسنن کو لفظ ”حکمت“ سے تعبیر کیاگیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سنت رسول اللہ کی صرف اتباع و پیروی ہی نہیں؛ بلکہ اس کی تعظیم و تکریم بھی مقصود ہے۔

            باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وَاذْکُرْن مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن آیاتِ اللّٰہ وَالْحِکْمَة“ الآیة (الاحزاب)

            ”ان آیات وحکمت (سنن) کو یاد کرو جو تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں“۔ ہرشخصجانتاہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں قرآن وحدیث ہی کی تلاوت ہوا کرتی تھی۔

            ایک دوسرے موقع پر ہے: ”وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَم“ الآیة (النساء)

            ”اور نازل کیا اللہ نے تم پر کتاب وحکمت (سنت) اور تم کو سکھائیں وہ باتیں جو تو جانتا نہیں تھا۔“

            نیز فرمانِ الٰہی ہے:

”وَاذْکُروا نِعمَةَ اللّٰہ عَلَیکم وَمَا اَنْزَلَ عَلَیْکُم من الکتاب وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُم بِہ“ الآیة (البقرة)

            ”اور یاد کرو اللہ کے احسان کو جو تم پر ہے اور کتاب وحکمت (سنت) کو جو تم پر اتاری، اللہ تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہے۔

            ان سب آیتوں میں حکمت سے مراد ائمہ مفسرین کے راجح قول کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ اور احادیث مبارکہ ہی ہیں۔ آخر کی دونوں آیتوں میں ”الکتاب“ کی طرح ”الحکمة“ یعنی سنت کے منزل من اللہ ہونے کی تصریح ہے، جس سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ اللہ کی نبی کی سنتیں بھی وحی الٰہی ہیں (اگرچہ غیرمتلو) تو جب بحکم خداوندی یہ احادیث وسنن وحی الٰہی ٹھہریں تو یہ چاہے دینی امور سے متعلق ہوں یا دنیاوی کاموں سے ان کا تعلق ہو بغیرکسی تفریق کے ان پر عمل آوری لازم ہوگی، کیونکہ کسی بندہ کو از روے شرع و عقل اس کی گنجائش کہاں ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کے احکام وفرامین میں اپنی طرف سے یہ تقسیم وتفصیل کرے کہ فلاں حکم کی بجاآوری ہم پر لازم ہے اور فلاں فرمان کے بارے میں ہم مختار ہیں چاہے عمل کریں یا نہ کریں۔

            پھر قرآن واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو مکلف کیاہے کہ اسی طریقہ پر چلیں جو بذریعہ وحی ربانی آپ کے لیے مقرر کیاگیا ہے۔

            (الف) ”ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعةٍ مِنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَاءَ الذین لاَ یَعْلَمُون“ (الجاثیة)

            ”پھر ٹھہرایا ہم نے تجھ کو دین کے ایک راستہ پر سو تو اسی پر چل اور مت چل نادانوں کی خواہشوں پر“۔

            (ب)”وَاتَّبِعْ مَا یُوحَی اِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ اِنّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا“ (الاحزاب)

            ”پیروی کیجیے اس کی جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے تمہارے رب کی جانب سے بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خبر رکھتا ہے۔

            نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وحی ربانی کے ذریعہ جو شرائع واحکام آپ کو دئیے گئے ہیں انھیں امت تک پہنچادیں۔

        ”یَا اَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِن رَبِّکَ“ (المائدة)

            ”اے رسول پہنچادے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے“۔

            اللہ کے رسول نے اپنے اقوال وافعال بالفاظ دگر احادیث وسنن کے ذریعہ اسی شریعت الٰہیہ اور دینی طریقہ کو امت سے بیان فرمایا ہے، قرآن وحدیث سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ احادیث وسنن میں دین ودنیا دونوں کے بارے میں احکامات وہدایات موجود ہیں، لہٰذا ان سب احکامات وہدایات پر عمل درآمد کے بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی مقرر کردہ شریعت پر عمل کا تصور ممکن نہیں ہے۔

            علمائے اسلام کے یہاں یہ امر معلوم ومتحقق ہے کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے وظائف میں ایک اہم ترین وظیفہ کلام اللہ کی تفسیر وبیان بھی ہے، ارشاد ربانی ہے:

”وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیَّن لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ“ (النحل)

            ”اور ہم نے اتاری تجھ پر یاد داشت (قرآن) تاکہ تو (اس کے مضامین کو) لوگوں کے لیے خوب کھول کر بیان کردے جو ان کی طرف اتارا گیا ہے۔“

            اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث وسنن کے ذریعہ درحقیقت اپنی اسی پیغمبرانہ ذمہ داری کی تکمیل فرمائی ہے، لہٰذا جس طرح اس بیان و تفسیر کے متن یعنی قرآن مجید کے ایک ایک حرف کی تصدیق وامتثال ایک بندئہ موٴمن پر لازم ہے اسی طرح اس متن کی تفسیر وبیان کی تصدیق وامتثال اور پیروی بھی بغیر کسی تفریق کے اہل ایمان کا ایمانی وظیفہ ہے، کیونکہ کتاب وسنت کے مابین یہ (متن وشرح کا) رابطہ عقلی وشرعی طور پر اسی کا متقاضی ہے۔ اس لیے قرآنی احکام میں جب یہ تفصیل وتقسیم کہ یہ حکم دین سے متعلق ہے لہٰذا ہم اس کے پابند ہیں اوریہ از قبیل دنیا ہے ہم اس کے مطابق عمل کرنے اور نہ کرنے میں مختار ہیں جہالت وضلالت ہے، بعینہ قرآن کی اس تفسیر نبوی میں بھی یہ تقسیم جہالت وضلالت ہی شمار ہوگی۔

            سنت رسول کی تشریعی وآئینی حیثیت کے ثبوت پر انھیں مذکورہ قرآنی دلائل پر اکتفاء کیا جارہا ہے، کیونکہ یہ مختصر تحریر اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہے، ویسے ایک موٴمن صادق اور پیروِ حق کے لیے تو صرف ایک حکم خداوندی ہی کافی وشافی ہے۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ: 2،  جلد:102‏،  جمادی الاولیٰ- جمادی الآخرہ ۱۴۳۹ھ مطابق فروری 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts