از: حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمیؔ

عازمِ ارضِ مقدس، اے کہ تو ہے کامیاب

اے ترا عزمِ سفر میری تمنا کا شباب

اے کہ تیرا کاروانِ شوق تجھ کو لے چلا

اے کہ تجھ کو مل گیا عرضِ تمنا کا جواب

تیری ان آنکھوں کو سامانِ نظارہ مل گیا

آخرِ شب جو برس جاتی تھیں مانندِ سحاب

اے مسافر خیمہ زن ہوگا دیارِ پاک میں

لیلیٔ منزل الٹ دے گی تری خاطر نقاب

اے کہ تیرا عشق اس کوچہ میں ہوگا آشکار

جس کے ہر ذرہ کی تابانی سے نادم آفتاب

اے کہ تیرا شوق تجھ کو راہ دکھلاتا چلے

جانبِ ابرِ کرم تو اشک برساتا چلے

آرزو کو اور بھڑکائے نظارہ حسن کا

کاش کوئی تیرے دل پر تیر برساتا چلے

عشق جب تک بے نیازِ مستیِ صہبا نہ ہو

عشق جب تک خوفِ استیلاء سے بے پروا نہ ہو

عشق جب تک کرنہ دے یک رنگ حال وقال کو

عشق جب تک کوچۂ وبازار میںرسوا نہ ہو

عشق سے جب تک نہ ٹوٹے جادوئے فرزانگی

عشق جب تک خود تماشا بن کے بے پروانہ ہو

عشق جب تک ہو نہ جائے رُست خیز، وحشر خیز

زندگی میں عشق سے جب تک اثر پیدا نہ ہو

عشق جب تک شرح ’’لاموجود‘‘ کرسکتا نہیں

عشق جب تک آشنائے معنیِ اِلَّا نہ ہو

عشق جب تک شیشۂ دل میں رہے صہبائے خام

آہ وہ یکساں ہے تیرے واسطے ہو یا نہ ہو

جانبِ رحمت بلائے جارہے ہیںتشنہ کام

مژدہ باد! اے تشنہ کامی آگیا گردش میں جام

اے کہ وہ محفل کہ جس میں عام ہے جودوعطا

اے خوشا ساعت کہ ملنے کو ہے پھر کیفِ دوام

مل گئی امروز وفردا کے تسلسل سے نجات

اے خوش ایّامے کہ دل نے پالیا اپنا مقام

انتہائے عقل حیرت، انتہائے عشق نور

عقل زنجیرِ تعلق، عشق سرگرمِ خرام

اے کہ تو ہے آشنائے رسم و راہِ زندگی

تیری سرمستی نہ رہ جائے اسیرِ صبح وشام

مرغِ جان را باز تابِ بال افشانی بدہ

مربہ چشمِ نم مجالِ شبنم افشانی بدہ

گنبدِ نیلوفری کی حشر سامانی کو دیکھ

مسند آرائے خلافت کی پریشانی کو دیکھ

انقیادِ حق سے جن کی زندگی تھی مُستنیر

ان کی باطل کے لیے طرزِ ثناخوانی کو دیکھ

مسلمِ آوارہ منزل کی رگِ جان پر نظر

ہاں خدارا وقت کی تلوار کے پانی کو دیکھ

وہ کہ جس نے بھردیا تھا اَنفس وآفاق کو

اس مریدِ ما سوا کی رنگ دامانی کو دیکھ

کفر کی اسلام کیشی دیکھ زیرِ آسمان

کفر کی زنجیر میں بازوئے ایمانی کو دیکھ

برق چشمک زن ہے باطل کو جلانے کے لیے

بے کسی جائے کدھر کو منہ چھپانے کے لیے

سینۂ اسلامیاں تاریک بے داغِ دروں

مہرِ عالم تاب پر ہے ساحرِ شب کا فسوں

انتشارِ ملتِ بیضا ہے محشر در بغل

موجۂ صر صر سے ہر گل کی کلی خوار وزبوں

اک سکوتِ مرگ طاری منبر ومحراب پر

اب نہیں دشت وجبل میں شورش ’’لایَحْزَنُون‘‘

اب نہیں اٹھتا کوئی اعلانِ حق کے واسطے

اب کسی سر میں نہیں باقی ہے سودائے جنوں

زندگی بارِ گراں اہلِ حرم کے واسطے

آہ ان میں زندگی باقی نہیں؛ کیوں کر کہوں

اے مسافر ہو نہ رنجیدہ مری گفتار سے

تو نے جو دیکھا ہے کہہ دینا شہِ ابرار سے

پھر دلِ خوابیدہ پر ٹوٹیں تمنا کے شرار

پھر بہارِ گل دکھائے دیدئہ خونابہ بار

پھر اٹھے ابرِ کرم ہر سو برسنے کے لیے

پھر چمن اندر چمن ہو، پھر بہار اندر بہار

پھر اساسِ زندگی ہو نکتۂ ’’حبل الورید‘‘

پھر ترے جلوئوں کو دیکھے دیدئہ امیدوار

پھر ہمارے کارواں کو دے حدی خوانِ حجاز

پھر بنادے بابِ حکمت کو جماعت کا شعار

پھر ثریَّا سے جدا کر نالۂ شب گیر کو

پھر دلِ خلوت سرائے نور کو دے اعتبار

مدعائے آرزو لفظوں میں ڈھل سکتا نہیں

ترجمانی سے تو یہ کانٹا نکل سکتا نہیں

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ: 1،  جلد:102‏، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء

٭        ٭        ٭

Related Posts