از:مولوی محمد ذیشان صدیق
تخصص فی علوم الحدیث، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹان، کراچی، پاکستان
امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں جو کہ چودھویں صدی ہجری میں زہد وتقوی، علوم کی جامعیت، گہرائی وگیرائی، فنون قدیمہ وجدیدہ کی معرفت میں متقدمین اہل علم کی زندہ وتابندہ مثال تھے، یہاں تک کہ حضرت والا کے بعض معاصرین وخوشہ چینوں کو یہ کہنا پڑا کہ ”لم تر العیون مثلہ ولایری ہو مثل نفسہ“، غرض یہ ہے کہ نہ تو حضرت کشمیری کے محاسن کا احصاء راقم کی وسعت میں ہے اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش۔ یہاں تو ”آثار السنن“ پر آپ کے حواشی مسمّیٰ ”الاتحاف لمذہب الأحناف“سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔
حضرت علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے حواشی پرگفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تصنیف و تالیف سے موصوف کے رشتے کے متعلق شامی محدث شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کا جامع بیان التصریح بما تواتر في نزول المسیح کے مقدمہ سے پیش کر د یا جائے؛ تاکہ حواشی کے بارے میں آئندہ ذکر کی جانے والی تفصیلات کو بہ آسانی سمجھا جاسکے:
”حضرت شیخ (کشمیری) رحمہ اللہ نے کسی کتاب یا رسالہ کی تالیف از خود قصداً نہیں کی، آپ کی تمام موٴلفات یا تو امالی ہیں جو آپ سے منقول ہیں یا وہ عبارتیں و تنبیہات ہیں جنھیں خود حضرت شاہ صاحب نے کسی عنوان کے تحت جمع فرمایا ہے،اگر تالیفِ کتب کی جانب خصوصی توجہ فرماتے تو ارضِ عالم ان کے علوم وتحقیقات سے بہہ پڑتی،اور آپ کے انوارات دنیائے علم کو باوجود اپنی وسعت اور متقدمین اہلِ فضل کی کثرت کے منور بنادیتے؛ البتہ گنے چنے چند رسائل دینی واسلامی ضرورت کے پیشِ نظر تصنیف فرمائے ہیں جن کا ہم آئندہ ان کی تصنیفات کے ذیل میں تذکرہ کریں گے۔
زمانہ شباب ہی سے حضرت رحمہ اللہ کا یہ معمول تھا کہ (دورانِ مطالعہ )جو بھی نادر و قیمتی بات سامنے آتی اسے اپنی خصوصی ڈائری میں درج فرمالیتے اور اس بات کی پوری کوشش رہتی کہ ان علمی مشکلات کا حل نکالا جائے جو کہ حضرت والاسے قبل اکابر محققین سے بھی حل نہ ہوئیں اور ان مشکلات کے حل کے سلسلہ میں جو توجیہ بھی ذہن میں آتی اسے قیدِ تحریر میں لے آتے، اور اگر دوران مطالعہ کوئی اس قسم کی بات سامنے آجاتی تو اگر وہ کتاب مطبوعہ ہوتی توصفحہ نمبر کے ساتھ اسے نقل فرمادیتے۔ اس طرح حضرت رحمہ اللہ کی ڈائری میں بہت سی علمی مشکلات کو حل کرنے کے لیے نہایت قیمتی ذخیرہ جمع ہوگیا، ا ور حنفی مذہب کے دفاع اور حاسدین وجہلاء کے اعتراضات کے ازالے کے لیے بعض شاگردوں و مستفیدین کے شدید اصرار پر اپنی ذاتی ڈائری سے ان فوائد کو منتخب کر کے اہم اختلافی فروعی مسائل کے بارے میں چند رسائل تالیف کیے، یہ قیمتی رسائل حضرت کی ڈائری میں بکھرے ہوئے موتیوں کی مانند تھے، جسے آپ نے کچھ مرتب کرکے تالیف کی شکل دے دی، اسی وجہ سے آپ اس میں کتابوں کے حوالے بغیر پوری عبارت کے نقل کیے بہ کثرت پائیں گے اور اگر یہ رسائل عصرِ حاضر کے موٴلفین یا بسط و تفصیل کے دل دادوں کے مزاج کے موافق مرتب کیے جائیں تو ان میں سے ہر ایک موجودہ شکل سے کئی گنا بڑھ جائے“۔ (مقدمہ: التصریح بماتواتر في نزول المسیح، ص۲۷،۲۸، ناشر: جمعیت تحفظ ختم نبوت، پاکستان)
شیخ ابوغدہ کامذکورہ بالا بیان جہاں حضرت کشمیری رحمہ اللہ کے تصنیف وتالیف کے ساتھ وابستگی کی خوب عکاسی کرتا ہے، وہیں حضرت رحمہ اللہ کے رسائل وحواشی نادرہ کی قیمت و عظمت کو بھی واضح کرتا ہے، حقیقت یہی ہے کہ حضرت والا کے جملہ رسائل و تعلیقات گنجینہٴ علوم ومعارف ہیں جو اپنے اختصار وجامعیت کی بنا پر معلومات و تحقیقات کا ایک ایسا بحرِ بیکراں ہیں جس سے کما حقہ استفادہ وہی مردِ میداں کر سکے گا جوکہ ہر موضوعِ بحث میں موٴلف کے ساتھ علم کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زنی کی صلاحیت رکھتا ہو اور ہر اشارہ،کنایہ واجمال کو بآسانی سمجھ سکے جو مختصر وجامع کلام کاگویاایک خاصہ لازمہ ہے۔
موضوع سخن تو حضرت علامہ کے ”حواشی آثار السنن“ ہیں جو اپنے گوناگوں امتیازات کی بناء پر آپ کے تمام حواشی و تعلیقات میں خاص مقام کا حامل ہے۔
حواشی آثار السنن اربابِ علم و فن کی نگاہ میں
۱- محدث العصر حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ حواشی آثار السنن کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
”جب کتاب (آثار السنن) کی طباعت مکمل ہوئی تو حضرت کشمیری رحمہ اللہ نے اس کا مطا لعہ شروع کیا اور اس پر مزید دلائل، ابحاث، نکات، فوائد اور بہت سی قیمتی معلومات کا اضافہ کیا جن میں سے بعض کو اگر سفر کرکے حاصل کیا جاتا تو بھی یک جا نہ ہوتا اور (آپ کا اسلوب یہ رہا)کہ ہر باب کے مناسب جو بھی مفید باتیں ہوتیں انھیں کتاب کے حاشیہ، اوپر (یا نیچے )، بین السطور میں لکھ لیتے اور دورانِ مطالعہ موضوع سے متعلق جو بات بھی سامنے آتی چاہے وہ تائید کی صورت میں ہو یا تردید کی صورت میں تو اگر وہ کتا ب مطبوعہ ہوتی تو عبارت لکھ کر یا فقط حوالہ بقید صفحہ لکھ لیتے اوراگر وہ کتاب چھپی ہوئی نہ ہوتی تو الفاظ لکھنے کا اہتمام فرماتے کبھی صراحةً اور کبھی اشارةً؛ یہاں تک کہ اب صفحہ کتاب (خوبصورت)باریک نقش کی مانند معلوم ہوتا ہے، اس طرح ان حواشی میں ان کی نفیس و عمدہ آراء اور ہر باب کے مناسب عمدہ و نادر معلومات جمع ہو گئیں کچھ عرصہ حضرت رحمہ اللہ کے حکم سے ان عبارتوں وحوالوں کی تخریج میں مصروف رہا (حوالوں کی کثرت کی بنا پر) ایک ایک صفحہ کی تخریج کئی کئی اوراق پر محیط ہوتی آپ کی یہ خواہش تھی کہ اگر ان حوالوں کی تخریج کرکے اسے شائع کیا جائے تو اس سے اہلِ علم کو خاطر خواہ نفع ہوگا“۔
۲- شامی محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ حضرت امام العصر رحمہ اللہ کی تالیفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”الاتحاف لمذہب الاحناف: یہ نہایت مفید وجامع تعلیقات ہیں جو حضرت کشمیری رحمہ اللہ نے اپنے ہم عصر محدث،محقق نیموی رحمہ اللہ کی کتاب آثار السنن پر تحریر کیے ہیں مجلس علمی نے حضرت شیخ کے آثار السنن کی دو جلدوں میں مطبوعہ نسخہ کا فوٹو کراکے اچھا (اور مفید)کام کیا ہے جسے آپ نے بین السطور حواشی لکھ کر قابلِ قدرو محقق معلومات اور بہت سے حوالوں سے بھر دیا ہے اور حضرت کی وفات کے بعد ان حواشی و تعلیقات کا جب فوٹو لیا گیا تو ”الاتحاف لمذہب الاحناف“ نام رکھاگیا۔ میں کہتا ہوں اس کے حوالوں کی تخریج اور اس کی تبویب و تنسیق کا کام حضرت شیخ رحمہ اللہ کے تلامذہ کی گردنوں میں ایک بھاری قرض ہے جس کی ادائیگی کے سوا وہ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتے“۔ (مقدمہ: التصریح، ص۳۰،۳۱)
حواشی آثار السنن میں حضرت کشمیری کا اسلوب
سابقہ عنوان کے تحت حضرت بنوری رحمہ اللہ کے بیان سے ان حواشی کے طرز و اسلوب کی بھی کافی راہنمائی ملتی ہے، مزید وضاحت کے لیے عرض ہے۔
۱- حضرت امام کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی تعلیقات میں علامہ نیموی رحمہ اللہ کے مذاق کو ملحوظ رکھا ہے اور انھیں معلومات کا اضافہ کیا ہے جو موٴلف نیموی رحمہ اللہ کے طرز و اسلو ب کے موافق تھیں؛ چنانچہ استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب چشتی مدظلہ اپنے وقیع مقالے بعنوان ”امام العصرعلامہ محمد انور شاہ کشمیری“ میں رقم طراز ہیں: یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انور شاہ رحمة اللہ علیہ کی تحقیقات اور اضافہ معلومات کا دائرہ محدث نیموی کے مذاق تک محدود رہا ہے، موصوف نے متونِ حدیث، اسنادِ رجال اور جرح وتعدیل سے متعلق وہی تحقیقات پیش کی ہیں جو محدث نیموی کے مذاق کے مطابق تھیں، فقہ حدیث کی بحثیں، حقائق، معارف، اسرار، بلاغت اور توجیہاتِ حدیث سے بہت ہی کم اعتناء کیا ہے، پھر بھی یہ اضافہ اصل سے دوگنا تگنا ہو گیا ہے“۔ (ملاحظہ ہو: تقدس انور،ص۳۷۲، مقالہ: مولانا عبد الحلیم چشتی مدظلہ)
۲- شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کے بیان میں یہ بات گزرچکی ہے کہ حضرت کشمیری رحمہ اللہ نے تصنیف وتالیف کو مستقل مشغلہ نہیں بنایا؛ بلکہ دورانِ مطالعہ جو قیمتی بات سامنے آتی اسے اپنے پاس محفوظ کرلیا پھر شاگردوں کے اصرار پر ان میں سے کچھ محفوظات کو کسی خاص عنوان کے تحت جمع بھی فرمایا؛ مگر ان میں بھی حضرت رحمہ اللہ کا طرزو اسلوب یہ رہتا کہ زیر بحث موضوع سے متعلق بہ کثرت حوالہ جات پیش کرتے اور محولہ مقامات کی عبارات کو پیش کرنے کا اہتمام کچھ زیادہ نہ ہوتا، اس کی وجہ چاہے اختصار کا ملحوظ رکھنا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور بات پیشِ نظر ہو بہر حال اس طرزِ عمل سے نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت والا کی، تالیفات سے دو قسم کے افراد ہی صحیح مستفید ہو سکیں گے۔ (۱) وہ شخص جو حضرت امام العصر کی مانند جامعِ علوم و فنون ہوکہ اس کے ہاں بھی محولہ مقامات کی عبارات موصوف کی طرح مستحضر ہوں اور ہر اشارہ، کنایہ و اجمال کو بخوبی سمجھ سکتا ہو ایسا شخص توکما حقہ فائدہ اٹھائے گا۔ (۲) وہ شخص جو دورانِ مطالعہ محولہ مقامات کو خود ساتھ ساتھ دیکھتا رہے یہ اگر چہ کما حقہ مستفید تو نہ ہوگا؛ لیکن اکثر کلام کو سمجھنے میں آسانی پائے گایہی حال ”حواشی آثار السنن“ کا بھی ہے کہ ان سے بھی صحیح استفادہ کی یہی صورت ہے۔
۳- علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے حواشی میں ایک خصوصی عنصر آپ کے تعقبات ہیں جو کہ مختلف ابواب میں جا بجا ائمہٴ فن کی تحقیقات سے متعلق ہیں، جن میں فقط ابواب الوتر سے ابواب الجنائز تک تعقبات کی تعدادانیس ہے، جن میں اکثرحافظ الدنیا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر ہیں۔
۴- ایک طرف تو علم و تحقیق کا یہ عالم ہے دوسری جانب علمی دیانت اس قدر ملحوظ ہے کہ اگر کسی راوی یا روایت یاکسی صاحبِ فن کی بات کا سراغ نہ ملا تو اس کا اظہار کرنے میں بھی کچھ عا رمانع نہ ہوا، ان حواشی میں”ابواب الوتر“ سے ”ابواب الجنائز“ تک ایسی جگہیں جہاں حضرت امام العصر نے کسی بات کے نہ ملنے کا تذکرہ کیاتیئس ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق انھیں سابقہ تین باتوں سے ہے۔
۵- حضرت علامہ کے یہ حواشی اگرچہ حنفی مستدلات کی جا مع و مختصرکتاب ”آثار السنن“ سے متعلق ہیں؛ مگرحوالہ جات کے دیکھنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے حضرت رحمہ اللہ کے مراجع ومآخذ صرف علومِ حدیث تک محدود نہیں؛ بلکہ کتبِ صرف، نحو، لغت، فقہ ائمہ اربعہ، تفسیر، اصولِ تفسیرکے حوالہ بھی بہ کثرت اس میں موجود ہیں۔
۶- ہر فن کی کتب میں سے اگر امہاتِ کتب میسر ہوں تو ان کا حوا لہ دیتے ہیں اگر کسی وجہ سے امہات تک رسائی نہ ہوئی توثانوی کتب کا حوالہ بھی ذکر کر دیتے ہیں اور کہیں کسی ضرورت کے تحت امہاتِ کتب کے ہوتے ہوئے بھی ثانوی کتب کا حوالہ پیش کردیتے ہیں۔
۷- کتاب کا موضوع چونکہ علومِ حدیث سے متعلق ہے؛ اس لیے اس موضوع سے متعلقہ حوالہ جات کے بارے قدرے تفصیل عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۱) کتبِ حدیث میں صحاحِ ستہ کے علاوہ موٴطا ما لک و محمد، سننِ دارمی، معجم صغیر طبرانی، مسند بزار، کتاب الآثار، مسند احمد،سنن دارقطنی، الادب المفرد، شرح معانی الآثار، مصنف ابن ابی شیبہ، مراسیل ابی داود، مسند ابی داود طیالسی، سنن کبری للبیہقی،مستدرک حاکم، مجمع الزوائد، کنز العمال، منتخب کنز العمال اور دیگر بہت سی کتبِ حدیث کے حوالے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
فائدہ: مذکورہ بالاکتب کے نام ہی محدث کشمیری رحمہ اللہ کے متون حدیث سے گہری وابستگی کے شاہد عدل ہیں۔
(۲) کتب تخریج میں سے عموما ”نصب الرایہ“ اور ”التلخیص الحبیر“ کا حوالہ نقل کرتے ہیں اور کہیں ”الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ“ بھی پیش نظر رہتی ہے۔
(۳) شروحات حدیث میں سے اکثر فتح الباری، عمدة القاری، عارضة الاحوذی، المنتقی شرح الموٴطا للباجی، شرح الزرقانی علی الموطا، نیل الأوطار، اور کہیں اِرشاد الساری، مرقاة الصعود للسیوطی، اِکمال المعلم شرح مسلم، مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، لمعات التنقیح کا بھی ذکر ملتا ہے۔
(۴) غریبُ الحدیث میں زیادہ تر اعتماد ابن الاثیر رحمہ اللہ کی ”النہایہ“ پر ہی ر ہتا ہے، اس کے علاوہ اس باب میں کتبِ لغات جن میں بسا اوقات ”تاج العروس شرح القاموس“، اور کبھی ”المزہر“ وغیرہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔
(۵) کتبِ رجال میں حضرت رحمہ اللہ کے حوالہ جات پر گفتگو سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندوپاک کے رجال کا اس علم سے اعتناء کس قدر رہا ہے اس کے متعلق کچھ عرض کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔
ہندوپاک میں خصوصاً قرونِ متاخرہ میں علومِ حدیث کے بڑے رجال کار پیدا ہوئے، جنہوں نے امہات کتب حدیث کی اعلی پیمانے پر خدمات انجام دیں، جن میں خاص طورپر شروحات حدیث و حواشی تو ایسے لکھ ڈالے کہ حدیث کی توجیہ وتاویل میں متاخرین توکجا متقدمین میں بھی خال خال ہی اس کی مثال نظر آتی ہے۔
لیکن دوسری طرف علمِ رجال سے اس کُرہ کی بے اعتنائی بھی کچھ پوشیدہ نہیں معدودے چند افراد کے علاوہ اس موضوع سے بحث کر نے والا کوئی نظر نہیں آتاانھیں خاصان خدا میں حضرت علامہ صاحب کی ذاتِ گرامی بھی ہے، جنہیں علومِ حدیث کی دیگر شاخوں کی طرح اس علم میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔
”حواشی آثار السنن“ میں علمِ رجال سے متعلق حضرت علامہ صاحب رحمہ اللہ کے درج کردہ حوالوں کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں:
(۱) پہلی قسم میں وہ حوالہ جات شامل ہیں جن میں موصوف علمِ رجال کی کسی کتاب کا حوالہ ذکر فرمائیں، ان میں عام طورپرالتاریخ الصغیر للبخاری،الثقات لابن حبان،تذکرة الحفاظ، میزان الاعتدال، لسان المیزان، تعجیل المنفعہ، تہذیب التہذیب سے اعتناء رہتا ہے اور کہیں طبقات ابن سعد،طبقات الشافعیہ،تقریب التہذیب وغیرہ سے بھی حوالہ رقم فرمادیتے ہیں۔
(۲) دوسری قسم میں وہ حوالہ جات شامل ہیں جو رجال کی کسی کتاب کے ساتھ مخصوص نہیں؛بلکہ اگر ان کو استنباط واستخراج سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اس کی مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھیے کہ کسی معیّن راوی کی توثیق کے لیے کبھی تو یوں فرماتے ہیں کہ اس راوی سے صحیح البخاری یا صحیح مسلم میں فلاں فلاں روایت فلاں فلاں صفحہ پر درج ہے جس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ چونکہ صحیحین کی صحت بالاتفاق تسلیم کی جاتی ہے؛ اس لیے کسی راوی کا ان میں ہونا گویا اعلی درجہ کی توثیق و تعدیل ہے۔
اور کبھی یہ انداز ہوتاہے کہ مثلا امام ترمذی کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے اس راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین فرمائی ہے۔
اور گاہے شروحات حدیث میں مذکورکسی امامِ فن کی اس راوی سے منقول روایت کی تصحیح یا تحسین کا حوالہ درج فرماتے ہیں۔
۸- اصولِ حدیث میں فتح المغیث بشرح اَلفیة الحدیث اور تدریبُ الراوی کا اہتمام زیادہ رہتا ہے۔
۹- اجزاء حدیثیہ میں جزء رفع الیدین، جزء القراء ة خلف الامام للبخاری، القول البدیع للسخاوی، رسالة الاہدل فی الدعاء کے حوالے لحظہ بلحظہ نقل فر ماتے ہیں۔
۱۰- حواشی میں حاشیہ دارقطنی موٴلفہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی، التعلیق الممجد، حاشیہ حصن حصین موٴلفہ علامہ عبدالحئی لکھنوی،کے حوالے جا بجا ذکر فرماتے ہیں۔
۱۱-راویانِ حدیث کی کنیتوں سے متعلقہ کتب میں ”الکُنٰی والأسماء للدولابي“ کا اکثر تذکرہ ملتا ہے۔
۱۲- تراجم صحابہ میں اُسد الغابہ اور الاصابہ سے زیادہ اعتناء رہتا ہے۔
سطورِ بالا میں اپنے تئیں ان حواشی کی قدر و قیمت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، یہ سطور اگر چہ ان کی اہمیت واضح کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں، ان حواشی کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی نسبت جس امام ہُمام کی ذاتِ گرامی سے ہے وہ اپنے کلام و تحقیقات کی قدر ومنزلت کو جہاں علم و تحقیق میں منوا چکے ہیں اس کے لیے ہم ایسے طالب علموں کی مو شگافیوں کی چنداں ضرورت نہیں۔
بہر حال ان حواشی کی قیمت و عظمت اپنی جگہ؛ مگر اس کے باوجود آج تک یہ گنجینہ علوم وتحقیقات زاویہٴ خمول میں ہیں، مادرعلمی جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاون کی مجلس تعلیمی نے حضرت امام العصر کے اس علمی قرض سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس عظیم علمی و دینی تحقیقی خدمت کے ارادے میں جامعہ کی مدد فرمائے جس سے ایک طرف تو علمِ حدیث کی گراں قدر خدمت ہوگی اور دوسری طرف مسلک حنفی کے برگ وبار کی نئی تحقیقات کے ساتھ آبیاری ہوگی۔
———————————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10 ، جلد:101، محرم-صفر 1439 ہجری مطابق اکتوبر 2017ء