از:مولانا عمرفاروق لوہاروی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، کہ دشمنانِ اسلام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میڈیا کے ذریعہ مذہب اسلام کے خلاف منفی تحریک چلارہے ہیں، اور اس کو مجروح و داغدار کرنے میں تمام تر وسائل بروئے کار لارہے ہیں، یہ بدطینت لوگ اسلام کی حسین تصویر کو بگاڑنے میں کوئی امکانی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ہیں، گھسے پٹے اعتراضات واشکالات اور بیہودہ الزامات و اتہامات کو بار بار دوہراتے رہتے ہیں، چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چباتے ہیں، اور تشکیک و تذبذب کے بیج بوکر خرافات کا ایسا جنگل اگادیتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
روشن خیال طبقہ اور دین و شریعت کے علوم سے بے بہرہ یا معمولی واقفیت رکھنے والے افراد دانستہ یا نادانستہ طور پر ان اعداءِ اسلام کے آلہٴ کار بنتے ہیں، اور اپنے شرعی اصول اور مذہبی روایات پر قدغن لگانے، ان کا حلیہ بگاڑنے اور دامنِ شریعت نوچنے میں دشمنانِ دین کے دوش بدوش ہوجاتے ہیں، اسلامیات کے باب میں ان کی تقریر و تحریر ان کے نام نہاد ریسرچ اور مطالعہ کی آئینہ دار اور ان کے مبلغ علم کی غماز ہوتی ہیں، ایسے افراد اسلام کی آستین کے سانپ ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح کی سادہ لوحی اور نادانی یا مکاری اور عیاری کی ایک تازہ مثال حالیہ دنوں میں امریکا میں پیش آئی۔
”ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی“ میں شعبہٴ فلسفہ اور مذاہب میں اسلامیات کی پروفیسر، افریقہ نژاد، محترمہ ڈاکٹر امینہ ودود نے کچھ دنوں پہلے اعلان کیا تھا، کہ وہ نمازِ جمعہ میں مردوں اور عورتوں کی امامت کریں گی۔ کئی مسلم تنظیموں نے محترمہ کے اس اعلان پر صدائے احتجاج بلند کی، اور کئی مسلم اسکالروں نے ان کو اس حرکت سے باز رکھنا چاہا، مگر اس احتجاج و اضطراب سے محترمہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوئیں، بالآخر ۱۸/ مارچ ۲۰۰۵/ کو نیویارک کے ایک گرجا گھر میں نمازِ جمعہ کی امامت کی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق چالیس مرد، ساٹھ خواتین اور کچھ بچوں نے ان کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کی۔
انھوں نے یہ اقدام بقولِ خود اسلئے اٹھایا ہے، تاکہ خواتین اور مردوں میں مساوات قائم ہو۔ دیکھئے ایڈورڈ ولیم لی نے قرآن کے منتخب حصوں کاانگریزی ترجمہ تیار کیا تھا، جو پہلی بار ۱۸۴۳/ میں لندن سے چھپا تھا، اس کے دیباچہ میں انگریز مستشرق نے لکھا تھا، کہ اسلام کا سب سے کمزور پہلو اس کا عورت کو کم تر درجہ دینا (Degradration of women) ہے، اس کے بعد سے اب تک یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے، اور اس قدر عام ہوئی، کہ نہ صرف اسلام کے کھلے دشمن اس کو دہراتے ہیں، بلکہ اسلام کا اعتراف کرنے والے نسبتاً منصف مزاج موٴرخین اور خود کو روشن خیال کہلوانے والے مسلمان بھی اس کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی ثابت شدہ واقعہ ہو؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس الزام کے بالکل برعکس اسلام نے عورت کے مقام ومرتبہ کو بڑھایا اور بلند کیا ہے۔ اسلام سے قبل پوری دنیا میں عورتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے تھے، اسلام نے صنفِ نازک کے ساتھ روارکھی جانے والی ظالمانہ رسموں کا یکسر خاتمہ کردیا، اوراس کو وہ تمام انسانی حقوق دئیے، جو مردوں کوحاصل ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف․ (البقرہ: ۲۲۸) ”عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں، جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الا ان لکم علی نسائکم حقا ونسائکم علیکم حقا (جامع الترمذی، ص:۲۲۰، ج:۱) ”سنو! بلاشبہ تمہارے اپنی بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں۔“ ہاں ! یہ ضروری نہیں، کہ دونوں کے حقوق صورتاً بھی متماثل و متساوی ہوں؛ کیونکہ دونوں میں سے ہر ایک کی فطرت مختلف اور جداگانہ ہے، اور یہ فطرت کا تفاوت مصلحت اور حکمت پر مبنی ہے۔ نظامِ عالم، انسانی فطرت اور خود عورتوں کی مصلحت کے تقاضا کی وجہ سے مردوں کو ایک گونہ تفوق و فضیلت دی گئی ہے، اس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بے عملی کا کوئی دخل نہیں، لہٰذا اس میں نہ عورت کی کسرِ شان ہے، نہ اس کا کوئی نقصان ہے، چنانچہ اسی خداداد تفوق و فضیلت کے پیشِ نظر اور تقسیم کار کے اصول پر نبوت، امامت، قضا، حدود و قصاص وغیرہ میں شہادت، عام حالات میں قتال کا وجوب، جمعہ اور عیدین کاوجوب، اذان اور خطبہ وغیرہ امور مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اور ایک صنف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو امر مخصوص کیا ہو، دوسرے کو اس کے حصول کی تمنا کرنے سے روکا ہے، ارشادِ باری ہے: ولا تتمنوا ما فضل اللّٰہ بہ بعضکم علی بعض (النساء:۳۲) ”اور تم کسی ایسے امرکی تمنا مت کیا کرو، جس میں اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے۔“ البتہ امورِ آخرت اور رضاءِ الٰہی کا تمام تر مدار ایمان اور اعمالِ صالحہ پر ہے، وہاں درجات کی ترقی و تنزل، ایمان اور عمل کے درجات کے مطابق ہوتا ہے، اس لیے امورِ آخرت میں یہ ضروری نہیں، کہ مردوں ہی کا درجہ عورتوں سے بلند رہے، یہ بھی ہوسکتا ہے، اور آیاتِ کریمہ و روایاتِ صحیحہ کی تصریح کے مطابق ایسا ہوگا بھی، کہ بعض عورتیں اپنی طاعت و عبادت کے ذریعہ بہت سے مردوں پر فائق ہوجائیں گی، ان کا درجہ بہت سے مردوں سے بڑھ جائے گا۔
الغرض مذہبِ اسلام نے عورت کے مرتبہ کو بڑھایا ہے؛ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کا پیدا کیا ہوا ہے، آج ”حقوقِ نسواں“ کاجو لفظ ہم اور آپ سن رہے ہیں، یہ سب اسی انقلاب انگیز صدا کی باز گشت ہے، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بلند ہوئی تھی۔ واقعہ یہ ہے، کہ انسانی تاریخ میں صرف دو تہذیبیں ہیں، جنھوں نے عورت کے مرتبہ کو گھٹایا، ایک قدیم مشرکانہ تہذیب، اور دوسری جدید ملحدانہ تہذیب، اوّل الذکر نے نظری اور عملی دونوں حیثیت سے، اور ثانی الذکر نے عملی حیثیت سے۔ چنانچہ جدید مغربی تہذیب نے نظری طور پر بظاہر عورت کا درجہ بلند کرنے کا اعلان کیا، اس نے کہا کہ عورت اور مرد دونوں ہر حیثیت سے برابر ہیں، مگر یہ بات بدیہی ہے، کہ ہر ہر معاملہ میں مساوات نہ ہوسکی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، برابری کے خوبصورت دعووں کے باوجود زندگی کے تمام جدید شعبوں میں عورت کا درجہ مرد سے کم ہے۔ مساوات اور برابری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک کی کتنی عورتیں آج تک صدر یا وزیرِ اعظم بنیں؟ کتنی خواتین کوجج بنایاگیا؟ کتنی عورتوں کو دوسرے بلند مناصب کا اعزاز نصیب ہوا؟ اعداد و شمار جمع کیے جائیں، توایسی عورتوں کا تناسب بمشکل چند فی لاکھ ہوگا۔ مغربی مساوات (جس قدر بھی ہے، وہ) باہر ہی سے دیکھی جارہی ہے، کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ لہٰذا صرف لفظ ”مساوات“ پر اڑے رہنا دانش مندی نہیں ہے؛ بلکہ ”مساوات“ کے صحیح مفہوم پر غور ہونا چاہئے۔
یہ تو گفتگو ہوئی محترمہ کے زعم مساوات کے متعلق۔ شرعی نقطئہ نگاہ سے عورت کا خواتین کے لئے امام بننا حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، مگر عورت کا مردوں کے لئے امام بننا باتفاقِ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، مگر عورت کا مردوں کے لئے امام بننا باتفاقِ ائمہ اربعہ ناجائز ہے؛ البتہ ابن رسلان اور صاحبِ منہل کی تصریح کے مطابق داودظاہری، ابوثور، مزنی اور طبری کے نزدیک جائز ہے۔ محترمہ ڈاکٹر امینہ ودود کے بعض حامیوں نے بی بی سی نیوز (اردو) کے ایک انٹرویو میں حسبِ ذیل روایت سے عورت کے مردوں کا امام بننے کے جواز پر استدلال کیا ہے:
عن ام ورقة بنت عبداللہ بن الحارث بن نوفل الانصاریة وکان رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم یزورہا فی بیتہا، وجعل لہا موذنا یوٴذن لہا، وامرہا ان توٴم اہل دارہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۷، ج:۱)
”حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن نوفل الانصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، اور ان کے لیے موٴذن مقرر کیا، جو ان کے لیے اذان دیتا تھا، اور آپ نے ان کو حکم دیا (اجازت دی) کہ وہ اپنے اہلِ دار کی امامت کریں۔“
اس روایت سے اس طرح استدلال کیا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کا ایک موٴذن تھا، جو اذان دیتا تھا، اور امِ ورقہ کا ایک غلام اور ایک باندی تھی، جیسا کہ سنن ابی داؤد کی اس سے ماقبل کی روایت میں مذکور ہے، تو ظاہریہ ہے کہ موٴذن ان کے پیچھے ہی پڑھتے ہوں گے، اس اعتبار سے ام ورقہ اپنے موٴذن، غلام اور باندی کی امامت کرتی تھیں، گویا روایت میں ”اہل دار“ سے مراد ”گھروالے“ اور ”گھروالوں“ سے مراد غلام و باندی ہیں، نیز موٴذن کو بھی گھروالوں میں داخل مانا ہے۔
اس روایت کے چند جوابات ہیں:
(۱) ․․․․․ بعض اربابِ علم فرماتے ہیں، کہ اس روایت سے استدلال اس لیے صحیح نہیں ہے، کہ اس کی سند میں ولید بن جُمیع اور عبدالرحمن بن خلاد راوی ہیں، ان میں ولید بن جمیع ضعیف راوی ہے، اور عبدالرحمن بن خلاد مجہول الحال راوی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ولید بن جمیع ضعیف راوی نہیں ہے؛ بلکہ متکلم فیہ راوی ہے؛ کیونکہ کئی ائمہٴ جرح و تعدیل نے ان کی توثیق بھی کی ہے جیسا کہ ”تہذیب التہذیب“، ص:۱۵۴،۱۵۵، ج:۹، ”میزان الاعتدال“، ص: ۱۲۹، ج:۷ اور ”تہذیب الکمال“ ص: ۴۲۵، ج:۱۹ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے۔ اور عبدالرحمن بن خلاد کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے؛ البتہ ابوالحسن بن القطان نے مجہول الحال قرار دیا ہے، جیسا کہ ”تہذیب التہذیب“ ص: ۸۱،ج:۵ میں مذکور ہے۔
(۲) ․․․․ یہ روایت اس بات پر کسی طرح بھی دلالت نہیں کرتی ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا ان دونوں مردوں کی بھی امامت کرتی تھیں، کیونکہ یہ کچھ ضروری نہیں، کہ موٴذن اذان کے بعد ان ہی کے پیچھے نماز پڑھتے ہوں، ممکن ہے، مسجد میں جاکر پڑھ لیتے ہوں، اسی طرح غلام بھی مسجد میں جاکر پڑھتے ہوں، اور روایت میں وارد لفظ ”اہل“ سے ”خواتین“ مراد ہیں اور ”دار“ سے ”محلہ“ مراد ہے۔ (صحیح بخاری، ص: ۶۰، ج:۱، و ص: ۳۰۰، ج:۱ کی مختلف روایات میں بھی لفظِ ”دار“ محلہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے) چنانچہ بذل المجہود، ص: ۲۰۹، ج:۴ میں ”اہل دارہا“ کے تحت لکھا ہے: ای نساء المحلة، یعنی محلہ کی خواتین۔ اب روایت کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک موٴذن مقرر کیا، کہ وہ ام ورقہ کے لیے اذان دیں، تاکہ محلہ کی عورتیں اکٹھی ہوں، اور ام ورقہ کے ساتھ نماز پڑھیں، اس لحاظ سے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے محلہ کی خواتین کی امامت کرتی تھیں۔
(۳) ․․․․ داودظاہری وغیرہ کے اختلاف سے قبل اجماع امت کے ذریعہ عورت کا مردوں کی امامت کرنا محجوج ہے۔
اگر عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز ہوتا، تو کم از کم ایک آدھ مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیانِ جواز کے طور پر ثابت ہونا چاہیے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے (مذکورہ بالا روایت سے جواز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ واضح ہوچکا) نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی بات ثابت ہوتی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کوئی تواس پر عامل پایا جاتا۔ اس کے بالمقابل حسبِ ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ عورت، مردوں کی امامت نہیں کرسکتی یا عورت کو مردوں کی امامت نہیں کرنا چاہئے:
(۱) ․․․․․ عن عبد اللّٰہ (بن مسعود) عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلوتہا فی حجرتہا، وصلوتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا․ (سنن ابی داود، ص: ۸۴، ج:۱)
”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ نے ارشاد فرمایا: عورت کا صحنِ کمرہ میں نماز پڑھنے سے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا بہتر ہے، اور بڑے کمرہ میں نماز پڑھنے سے کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔“
اس روایت سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورتوں کو امامت نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ کوٹھری بہت تنگ و مختصر جگہ ہوتی ہے، جس میں عادةًجماعت قائم کرنا متعذر اور دشوار ہوتا ہے۔
(۲) ․․․․ ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:
لو ادرک النبی صلی اللّہ علیہ وسلم ما حدث النساء، لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل․ (صحیح البخاری، ص: ۱۲، ج:۱)
”اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ صورت حال ہوتی، جو اب عورتوں نے نئی پیدا کی ہے، تو آپ ان کو ضرور مسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیاگیا۔“
روایتِ بالا کی دلالت مدعا پر نہایت واضح ہے۔
(۳) ․․․․․ ابنِ ماجہ وغیرہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کی ہے: ”اخروہن من حیث اخرہن اللّٰہ“ ”عورتوں کو پیچھے رکھو، جیسے اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے۔“ شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ نے اس روایت کے رفع کو غیر ثابت قرار دیا ہے، تاہم یہ موقوف روایت ایسی ہے، جس میں قیاس کو دخل نہیں ہے، اور حضراتِ فقہاء رحمہ اللہ کے ہاں اس کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے۔ نیز ایک دوسری روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، اور آپ نے حضرت انس، یتیم (ضمیرہ) اور ام سلیم رضی اللہ عنہم کی امامت کی، تو اس وقت ام سلیم رضی اللہ عنہا، حضرت انس و یتیم کے پیچھے تنہا کھڑی ہوئیں۔ (صحیح بخاری، ص: ۱۰۰، ۱۰۱،ج:۱) حالانکہ ایک موقع پر صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے ایک صاحب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اعادہ کا حکم فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، اور مردوں کی امامت کی صورت میں عورت کا مردوں کے آگے ہونا لازم آئے گا۔
(۴) ․․․․ عن ابی ہریرة عن النبی صلی اللّہ علیہ وسلم قال : التصفیق للنساء والتسبیح للرجال․ (صحیح بخاری، ص: ۱۶۰، ج:۱) ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔“
حضرات محدثین رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لیے منع کیاگیا تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔ جب امام کو غلطی پر متنبہ کرنے میں صرف سبحان اللہ کہنے میں اس قدر لحاظ کیاگیا، تو مردوں کی امامت میں تکبیراتِ انتقالات کہنے اور جہری نمازوں میں قرأت کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ ماٰل اس کا یہ ہے کہ وہ مردوں کی امامت نہ کریں۔
محترمہ کی امامت میں نماز ادا کرنے والے افراد کی صفوں کی ترتیب معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ اگرمردوں کی صفیں آگے تھیں،اور بزعم خود مردوں اور خواتین میں مساوات قائم کرنا تھا، تو اب بھی ان کی امامت میں نماز ادا کرنے والی خواتین کو تو مساوات حاصل نہیں ہوسکی۔ اور اگر خواتین کی صفیں آگے تھیں، تو حدیثِ نبوی ”لیلینی منکم اولوا الاحلام والنہی“ اور ”خیر صفوف النساء آخرہا وشرہا اولہا، وخیر صفوف الرجال اولہا و شرہا آخرہا“ کی مخالفت پائی گئی، اوراگر مرد و خواتین مخلوط تھے، تو ایسے اختلاط کا ممنوع اور منہی عنہ ہونا ظاہر ہے۔
خلاصہ یہ ہے، کہ نماز میں عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 89 ، ربیع الثانی ، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء