حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ کے اوصافِ حمیدہ

بہ قلم: مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری

مدرس دارالعلوم /دیوبند

راقم درج ذیل سطور میں ایک منفرد، مثالی، مردم شناس، رجال ساز، صلاح وتقویٰ سے آراستہ، صلح وآشتی سے مزین، اکابر واسلاف کی محب وعاشق، خُردوں اور چھوٹوں کی محسن ومربی، علم وفکر کی آفتاب وماہتاب اور باتوفیق وباعمل شخصیت کے چند نقوش کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش اور سعی کررہا ہے؛ جبکہ راقم اپنی بے علمی، کوتاہ فہمی، بے بصیرتی اور زبان وادب سے نادانی کا کھلے لفظوں میں معترف ہے۔

حضرت الاستاذ حضرت اقدس مولانا ریاست علی صاحب بجنوری قدس سرہ استاذِ حدیث وسابق ناظمِ تعلیمات دارالعلوم دیوبند ونائب صدر جمعیة علماء ہند کی ذاتِ ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور ایسی ذات کاتعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے؛ البتہ اُذْکُروا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ پر عمل کرتے ہوئے حضرت والا کی وہ خوبیاں، صفات وکمالات سپردِ قرطاس کیے جارہے ہیں، جن سے راقم سطور جیسے ان گنت افراد متاثر ہوتے رہے ہیں اور اوصاف وخصائل کے تذکرے سے مقصود حضرت والا قدس سرہ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کے لیے اپنی اپنی پرسنل اور نجی زندگیوں میں حضرت والا قدس سرہ کی ذات کو آئیڈیل اور نمونہ بناکر مذکورہ صفات کو اپنا کر حضرت والا قدس سرہ کو حقیقی سکون اور راحت بہم پہنچانا ہے؛ کیوں کہ یہ بھی مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہ اَجُرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا میں آئے گا۔

حضرت الاستاذ حضرت اقدس مولانا ریاست علی بجنوری قدسرہ کو ذات باری تعالیٰ نے بے شمار اور ان گنت خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا؛ لیکن راقم سطور درج ذیل سطور میں ان تمام کمالات واوصاف میں سے چیدہ چیدہ خوبیوں کو ہی رقم کررہا ہے، یہ نہ سمجھا جائے کہ راقم نے جن اوصاف کو بیان کیا ہے، حضرت قدس سرہ صرف انھیں خوبیوں سے آراستہ تھے یا راقم صرف انھیں اوصاف سے متاثر ہوا ہے؛ بلکہ مضمون کی طوالت اور وقت کی قلت کے پیش نظر چند پر اکتفا کیاگیاہے۔

(۱) ذکاوت وذہانت: جو حضرات حضرت قدس قرہ سے واقف ہیں وہ راقم کی تصدیق وتصویب فرمائیں گے کہ حضرت والا کا سب سے مشہور ومعروف وصف اُن کی ذکاوت وذہانت ہے، مبدأ فیاض سے حضرت والا کو ایسا غضب کا ذہن ملا تھا اور آپ اس قدر ذہین وفطین تھے کہ ہم خُردوں کو تعجب ہوتا تھا ، ایک مرتبہ خود راقم سطور کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بیٹے توحید اب ظاہری اعضا کی طرح ذہن ودماغ بھی کمزور ہوگیا، راقم نے عرض کیا کہ کیوں حضرت؟ ایسا تو نہیں ہے، آپ کو اب بھی اتنی پرانی باتیں اور علمی استحضار ہے کہ ہم جوانوں کو نہیں ہے۔ فرمایا: نہیں بیٹے، پہلے جب کسی کو دور سے آتا دیکھتا تھا تو میں سمجھ جایا کرتا تھا کہ یہ کیا کہے گا میں اس کے بولنے سے پہلے جواب تیار رکھتا تھا پھر اپنے جواب پر اس کی طرف سے ہونے والے سوال کو سمجھ جایا کرتاتھا کہ پھر میرے جواب پر یہ سوال کرے گا تو اس کا بھی جواب سوچ لیا کرتا تھا؛ لیکن اب صرف اتنا تو سمجھ جاتا ہوں کہ آنے والا کیا کہے گا اس کا جواب بھی ذہن میں آجاتا ہے؛ لیکن میرے جواب پر اس کا رد عمل اور پھر اس کا جواب ذہن میں نہیں آتا۔ یہ اور اس انداز کے بے شمار دلائل ہیں حضرت والا کی ذکاوت وذہانت کے۔

(۲) اصابتِ رائے: حضرت والا قدس سرہ کے دنیائے فانی سے تشریف لیجانے کے بعد مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماء ہند دونوں اداروں کے وہ ذمہ داران جن کو حضرت والا کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع نصیب ہوئے ہیں تقریباً سبھی کو اس بات کا اعتراف کرتے سناگیا کہ حضرت والا کا سب سے اہم وصف رائے کی پختگی تھی، ہر دونوں اداروں میں نہایت اہم اور نازک مواقع آئے ان موقعوں پر حضرت والا کی رائے اتنی مضبوط اور پختہ ہوتی تھی کہ شاید دوسرا کوئی آپ کی نظیر نہ ہو۔ عصر کے بعد کی مجالس میں راقم اور دیگر شرکاء بھی بارہا دیکھتے تھے کہ کسی انتظامی مسئلے میں یا سیاسی اعتبار سے جو رائے اور نظریہ حضرت والا قدس سرہ اپناتے تھے وہ نہایت پختگی کے ساتھ اپناتے تھے، مجلس میں بعض لوگ اختلاف رائے کرتے تھے؛ لیکن بعد میں حضرت والا کی رائے کی تصویب کرنا پڑتی تھی؛ کیوں کہ بعد میں وہی بات اور رائے درست ہوتی نظر ا ٓتی تھی جو حضرت والا فرماتے تھے۔

(۳) تصلب فی المذہب: حضرت والا قدس سرہ چوں کہ ائمہ اربعہ میں سے حضرت امام ابوحنیفہ قدس سرہ کے مقلد تھے اور دورِ حاضر میں مختلف نظریات کے درمیان قاسمی دیوبندی تھے، وہ صرف نسلی نہیں؛ بلکہ بڑی بصیرت کے ساتھ تھے؛ اسی لیے جب یہ کہا جاتا کہ فلاں مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف کمزور ہے اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا موقف مضبوط ہے تو حضرت بے چین ہوجاتے اورنصوص کی ایسی توجیہ اور تشریح فرماتے کہ امام صاحب کے موقف کے سامنے دوسرا موقف نہایت ہلکا محسوس ہونے لگتا، حضرت والا کا سبق غور سے سننے والے طلبہ اس کی تائید وتصویب فرمائیں گے اور ایضاح البخاری میں تقریباً ہر باب میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ کسی نے نقل کیاکہ فلاں مشہور محدث حنفیت کو مرجوح اور شافعیت کو راجح قرار دیتے ہیں تو برجستہ فرمایا کہ ایسا لگتا ہے اُن کااصولِ فقہ کمزور ہے۔ خود فرمایاکرتے تھے کہ میں فخرالحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس اصول الشاشی یا نورالانور لے کر حاضر ہوا تو حضرت فخرالمحدثین نوراللہ مرقدہ نے دلالت النص، عبارة النص اور اشارة النص والی بحث اس انداز سے سمجھادی کہ پورا اصول فقہ آسان ہوگیا۔ اسی طرح دیوبندی نظریے میں بھی آپ جیسا پختہ رائے اور مضبوط راقم نے چند ہی کودیکھا ہے۔ راقم سطور نے جب چند سال قبل ”مسلک اہل سنت والجماعت یعنی علمائے دیوبند کے عقائد ونظریات“ نامی کتاب ترتیب دی تو اس وقت دارالعلوم دیوبند کے اکابر اساتذہ کرام سے مراجعت کی بہت زیادہ ضرورت پیش آئی، اس وقت حضرت والا قدس سرہ کو دیوبندیت میں جتنا پختہ اور مضبوط پایا ۔ اکابر اساتذہٴ کرام میں بعض ہی کو ایسا پایا ۔

(۴) عدمِ مرعوبیت: حضرت والاکوراقم نے کبھی کسی سے مرعوب ہوتے نہیں دیکھا؛ بلکہ بڑی مضبوطی کے ساتھ پہاڑ کی طرح جم کرگفتگو فرماتے تھے، اس کی ایک مثال راقم کے سامنے یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک عرب عالم (غالباً شامی تھے) مجلس میں حاضر ہوے وہ دیگر اکابر اساتذہٴ کرام سے مل کر آئے تھے، ان سے گفتگو چل رہی تھی وہ دورانِ گفتگو کہتے انا قاسمی، انا دیوبندی، اس پر سبھی حاضرین محظوظ ہوئے اس کے بعد وہ شکایت کے انداز میں بولے آپ حضرات نے اکابر کی تصنیفات کو عربی میں منتقل نہیں کیا یہ آپ سے شکایت ہے۔ سبھی حاضرین،بڑے چھوٹے منھ لٹکاکر بیٹھ گئے؛ لیکن حضرت والا نے برجستہ فرمایا یہ کام آپ کیجیے ، اردو سیکھئے اور ہماری کتابوں کو عربی میں منتقل کیجیے، اس پر وہ خاموش ہوگئے۔

(۵) احساسِ ذمہ داری: حضرت والا قدس سرہ میں ایک بہت بڑی خوبی احساس ذمہ داری والی تھی کہ اس میں آپ دوسروں سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔ اربابِ انتظام نے جو ذمہ داری حضرت والا کے سپرد فرمادی اس کو پوری امانت ودیانت کے ساتھ انجام دیتے تھے، حتی کہ آخری سانس تک اپنے تینوں فرزندوں کو گھریلو ذمے داری سے بالکل آزاد کررکھا تھا، تمام تر گھریلو ذمے داری خود اپنے ذمے لے رکھی تھی؛ یہاں تک کہ تمام صاحب زادگان، پوتے وغیرہ اپنے مصارف کے لیے حضرت والا ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ منجھلے بیٹے جو امریکہ میں ہیں، وہ بھی دیوبند آنے کے بعد اپنی ضروریات کے لیے حضرت والا سے خرچ لیتے تھے؛ جبکہ عام طور پر جب بچے شادی شدہ ہوجاتے ہیں تو سبھی اپنے آپ کو ذمے داری سے الگ تھلگ کرلیتے ہیں؛ لیکن حضرت والا کا انداز ہی نرالاتھا۔

(۶) ضیافت ومیزبانی: ضیافت اور مہمان نوازی بھی آپ کا ایسا وصف ہے جو آپ کے اندر امتیازی شان کے ساتھ موجود تھا، عام طور پر لوگ اپنی جیب دیکھ کر مہمان نوازی کا فریضہ انجام دیا کرتے ہیں؛ لیکن ہمارے حضرت والا قدس سرہ قرض لے کر ضیافت فرمایا کرتے تھے، بعض مہمانوں کو اس کا احساس کسی طرح ہوگیاتو انھوں نے اپنے متعلقین کو بھی بتایا۔ آپ قدس سرہ اپنی اکثر زندگی میں مقروض رہتے تھے، اب چند سالوں سے کچھ فراوانی ہوئی تھی؛ لیکن ضیافت میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور عصربعد کی مجالس میں ہی چائے کا صرفہ کوئی چھوٹاموٹا صرفہ نہیں تھا جو پھوپاجان حضرت مولانا سلطان الحق صاحب قدس سرہ ناظمِ کتب خانہ دارالعلوم دیوبند سے وراثت میں ملا تھا، اس کو پوری زندگی اپناکر چلے گئے۔

(۷) حیا وپاک دامنی: حضرت الاستاذ قدس سرہ کی ذات والا صفاف نہایت باحیا ثابت ہوئی ہے، حضرت والا کی مجلس لالہ زار اور قہقہوں سے پر ضرور ہوا کرتی تھی؛ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کہ کوئی جملہ اور فقرہ بے حیائی کا زبان پر آجائے، اسی طرح حضرت والا کی موٴقر تحریر وترتیب دادہ اور بخاری شریف کی اردو شروحات میں نہایت وقیع اور بلند پایہ شرح ایضاح البخاری میں کسی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کے ضمن میں کوئی بات ایسی آجائے جو مہذب لوگوں کی زبان پر نہیں آتی یا وہ شائستگی کے خلاف سمجھی جاتی ہو وہ حضرت والا کی تحریر میں آجائے یہ بالکل ناممکن تھا، ایضاح البخاری کی ترتیب میں شریک کار رفیق محترم جناب مولانا مفتی فہیم الدین صاحب زیدمجدہ استاذ دارالعلوم دیوبند خودبیان فرماتے ہیں کہ بعض مرتبہ میری عبارت میں کوئی لفظ کھلا ہوا آجاتا ہے تو حضرت والا فوراً قلم زد فرمادیتے اور فرماتے کہ ان باتوں کو پردے کے پیچھے ہی رہنے دو۔

(۸) زہدوقناعت: جیساکہ اوپر کی سطور میں بھی آچکا ہے کہ حضرت والا قدس سرہ کی زندگی کا اکثر وبیشتر حصہ غربت وناداری اور عسرت و تنگ دستی کی حالت میں گذرا ہے؛ لیکن اس کے باوصف حضرت والا قدس سرہ نے نہایت زہد اور قناعت کے ساتھ زندگی بسر فرمائی ہے۔ آپ قدس سرہ کی طبیعت میں حرصِ مال اور طمع ولالچ کا تو مطلب ہی نہیں تھا، ایک مرتبہ خود فرمایاکہ میں کسی جگہ سفر پر تھا ایک صاحب نے گھر پر دعوت کھلائی اور رخصتی کے وقت کچھ رقم ہدیةً عطا فرمائی، میں نے پوچھا کہ بھائی یہ کیا ہے؟ میزبان کہنے لگے کہ یہ ہمارے یہاں کا رواج ہے کہ مہمان کو کچھ ہدیہ دیاجاتا ہے، حضرت والا گھر واپس آگئے چند سالوں کے بعد وہ صاحب دیوبند تشریف لائے تو آپ قدس سرہ نے ان کی دعوت فرمائی اور جب وہ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آپ نے لفافے میں کچھ رقم ہدیے کے طورپر عنایت فرمائی، وہ صاحب کہنے لگے حضرت یہ کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: یہ وہی رواج ہے جو آپ نے میرے ساتھ فرمایا تھا۔

(۹) انسانی غم خواری وہمدردی: حضرت والا کی نہایت قدیم عادت اور پرانی صفت غم خواری وہمدردی تھی، آپ عُسرت بھری زندگی گذارتے ضرور تھے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، اسی لیے بہت پہلے سے متعددلوگوں کو سالانہ وظیفہ عطاکرتے تھے اور اس سے بڑھ کر کچھ لوگوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا کرتے تھے، ہم اہلِ مجلس خود دیکھا کرتے تھے کہ ہرماہ ابتدائی ایام میں لوگ آکر بیٹھ جایاکرتے تھے اور ان کو کہنے کی نوبت بھی نہ آتی تھی کہ حضرت قدس سرہ مقررہ رقم خود عطا فرماتے یا کسی عزیز بیٹے، پوتے کے ہاتھوں بھیج دیتے تھے۔ اسی طرح وہ اساتذہٴ دارالعلوم جو آپ سے گھریلو حالات میں مشورہ وغیرہ کرتے تھے، ان کی ضرورت کے وقت قرض وغیرہ سے مدد فرمایاکرتے تھے۔

(۱۰) زندہ دلی وملنساری: حضرت الاستاذ قدس سرہ کی وہ عادت اور خوبی جو سبھی کو سب سے زیادہ رُلارہی ہے وہ آپ کی زندہ دلی ہے، آپ قدس سرہ نہایت ہی مشکل حالات میں بھی مُسکرانے کا ہُنر جانتے تھے، یہی وجہ تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں کبھی بھی ماحول گرم ہوجاتا ہے اور ہرحساس شخص کے چہرے پر اس کا تاثر نمایاں نظر آتا ہے؛ لیکن حضرت والا سب سے زیادہ واقف اور مادرعلمی کے وقار پر جان نثار؛ لیکن عام حضرات کے سامنے ایسے پیش آتے جیسے حضرت والا حالات سے بے خبر ہیں، جب بات چھڑتی تو اولاً ایسالگتا جیسے کچھ معلوم نہیں، بعد میں پتہ چلتا کہ حضرت والا تو معاملہ کی گہرائی وگیرائی تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اسی زندہ دلی کا اثر تھا کہ آپ سب سے زیادہ ملنسار باور کیے جاتے تھے۔ اساتذہٴ مدارس اور باشندگانِ دیوبند کی نظروں میں شاید ہی آپ قدس سرہ سے زیادہ کوئی ملنسار ہو۔

—————————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء

Related Posts